ماهنامه دارالعلوم ، شماره 1 ، جلد: 94 محرم - صفر 1431 ھ مطابق جنورى2010 ء

 

عیسائی مشینریز کی تباہ کاریاں

(۲)

 

از: مفتی ابرار متین بیگ قاسمی ، بنگلور

 

 

خلاصہٴ تمہید

 

اس تمہید کے بعد ایک مسلمان مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور ایک منصف مزاج عادل و منصف ہونے کی بناء پر اسلام اور فطرت انسانی کے پیش نظر بخوبی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ دنیا میں جتنے خودساختہ مذاہب وادیان ہیں خصوصیت کے ساتھ موجودہ مذہب یہود ونصاریٰ کے اصول وقواعد اور ان کی تہذیب وثقافت، عدل وانصاف سے دور عقل وخرد کے مخالف اور فطرت انسانی کے دشمن ہیں اورجو بھی شخص ذاتی اعتبار سے یا جو بھی قوم ملکی وقومی سطح پر ان کی تہذیب وثقافت کو اپنائے گی اوراسے اپنا شیوہ بناکر فخر محسوس کرے گی وہ بھی فطرت انسانی سے بغاوت کرے گی اور دنیا کے نظامِ چین وسکون کو ختم کردے گی۔ اس کا مطلب یہ نہ سمجھاجائے کہ فطرت انسانی کی باغی قوم (یہود ونصاریٰ) سے قومی وملکی سطرح پر یا بین الاقوامی سطح پر تعلق ختم کردیاجائے اور ان کے سائنسی تحقیقات کے متعلق علوم کو اور ان کے بعض معاشی اعتبار سے صاف وشفاف نظریات کو اور ان کے اسکولس وکالجز میں پڑھائے جانے والے غیرمعیاری وغیراخلاقی نصاب کے علاوہ اخلاقی معیاری نصاب کا اور انگریزی زبان سیکھنے وسکھائے جانے کو غیرحکیمانہ وعجلت پسند فیصلوں سے ٹھکرادیا جائے بلکہ ان کے سیکھنے وسکھائے جانے میں اہل دانش وبینش کی جانب سے نہ کوئی اعتراض ہوگا اور نہ کسی قسم کاتردد۔ اصل مسئلہ تو ان کی غیرفطری تہذیب وثقافت اور تعصب سے لبریز نصاب اور مزاج ومذاق کا ہے جب کسی قوم کی تہذیب وثقافت کی بات آتی ہے تو وہاں تہذیب وثقافت کے نام سے کئی ایک شعبے سامنے آجاتے ہیں۔ منجملہ ان شعبوں میں ایک شعبہ تعلیم وتعلّم کا ہے حالانکہ یہ بات صاف ہوجانی چاہئے کہ کسی بھی قوم کی تہذیب وثقافت کا شعبہ الگ چیز ہے اور تعلیم وتعلم کا شعبہ الگ چیز ہے جیساکہ عیسائی مشنری اسکولس میں تعلیم وتعلم کے ساتھ خود اپنی غیرفطری تہذیب، ثقافت اور غیراخلاقی مزاج ومذاق تعصب سے بھرے نصاب تعلیم کو ”جزء لا ینفک“ یعنی اہم جز بنادیا جاتا ہے جس کے بغیر تعلیم تعلیم ہی نہیں بلکہ ایک بے کار فضول شئے ہے۔

 

عصری تعلیم وتعلّم ایک الگ چیز ہے، عیسائی تہذیب ایک الگ چیز ہے

 

دنیاوی علوم یعنی مادیات سے متعلق دنیا میں جتنے فنون وکمالات ہیں اور انہیں حاصل کرنے کیلئے اور دن بدن ترقی کرنے کے لئے تحقیقاتی ادارے اور کمپنیاں قائم کرنے کے لئے سائنسی وجغرافیائی کھوج کیلئے معاشیات وسیاسیات میں بہتری پیدا کرنے کے لئے از اوّل تا آخر جتنے علوم اسکول وکالجز میں سیکھے وسکھائے جاتے ہیں اوراس کی سندیں اور ڈگریاں دی جاتی ہیں ان سب کے لئے عیسائی ویہودی تہذیب کی یا پھر مغربی تہذیب وثقافت اور ان کے طرز معاشرت کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن آج کل کچھ مغربی تہذیب کے نشے میں دھت لوگ یا مغربی تہذیب کی بلاسوچے سمجھے اتباع کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ہمارے بچوں کو مغربی تہذیب یعنی عیسائی تہذیب وماحول اسکولس وکالجز میں Admission داخلہ نہیں دلوائیں گے اس وقت تک ہمارا بچہ لائق وفائق نہیں بن سکتااور طرز معاشرت میں یعنی کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، شادی بیاہ اور بہت سارے معاشرتی معاملوں میں مغربی تہذیب کا پاس ولحاظ نہیں رکھے گا، وہ سماج کی نگاہ میں قدامت پسند اور دقیانوسی کہلائے گا، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسا تاریخی اعتراض بالفاظ دیگر ایک تاریخی حقیقت بیان کردی جائے جس میں مختلف تاریخ ساز شخصیتیں مثلاً ماہر طب، ماہر سائنس، ماہر فلکیات، ماہر جغرافیہ، ماہر معاشیات، ماہر ریاضی، ماہر فن مہندسی، ماہر تاریخ و ادب۔ وغیرہ وغیرہ کی صدیوں تک بیش بہا خدمات رہی ہیں۔ جن کے خدمات واحسانات تلے آج دنیا کے سارے سائنس داں، اطباء، انجینئرس وغیرہ کا وجود قائم ہے۔ گویا کہ وہ سارے لوگ بانی ومبانی استاذ بلکہ ابوالاستاذ کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھوں نے دنیوی تحقیقات کے اعتبار سے یہ سب کچھ کیا لیکن اپنے دین ومذہب کو اور اپنے ملک وقوم کے معاشرے کو اور اپنی تہذیب وثقافت کو نہیں چھوڑا تاکہ وہ قوم یا ملک یا خاص تہذیب وتمدن دنیا سے ختم نہ ہوجائے اوراس قوم کا طرئہ امتیاز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باقی رہے۔

 

کچھ تاریخ ساز شخصیتیں اپنی تہذیب خاص میں

 

تقریباً ۱۹۴۷/ سے یا اس سے کچھ پہلے جب یہاں (ہندوستان) انگریز آئے تو انھوں نے جس طرح یہاں کے کاروباروں پر، منڈیوں پر اور یہاں کی ریاستوں پر آہستہ آہستہ قبضہ کیا ٹھیک اسی طرح یہاں کی تہذیب وثقافت پر بھی اپنی مغربی تہذیب کا جال بچھایا اور رفتہ رفتہ ملک وبیرون ممالک کے بہت سے علاقوں میں اپنے طرز خاص کر کانوینٹس Convents اسکولس کھولے جو خالص مغربیت اور مغربیت کے ذریعہ عیسائیت کی ترجمانی کرنے والے تھے۔ اور یہاں کے لوگوں کو یہ باور کرایاگیا کہ اگر دنیامیں ترقی کرنی ہے اور دنیا کو اپنی مٹھی میں لینا ہے اور سائنسی اور جغرافیائی دنیا میں، انجینئرنگ اور الیکٹرانک کی دنیا میں قدم جمانا ہے تو ہماری تہذیب کو اپناؤ اور ہماری ثقافت کو اپنی زندگی میں جاری وساری کرو۔ چنانچہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے علاوہ سارے ایشیائی ممالک اور غیرایشیائی ممالک نے مل کر ان کی اتباع واقتداء شروع کردی جس کا نتیجہ آج ہم اور آپ کو دیکھنا پڑرہا ہے۔ یہاں یہ بتادیناضروری ہے کہ پچھلے صدیوں کے جتنے بڑے بڑے سیاستداں جغرافیا داں، ریاضی داں، طب داں، کیمیا داں، فلسفہ داں اور بہت سارے داں اپنے اپنے میدان علم وتحقیق میں تحقیق کی چوٹیوں تک پہنچے لیکن اپنی تہذیب خاص کو اور اپنے مذہب کے احکامات کو اوراس کے خاص مزاج ومذاق کو نہیں چھوڑا اور اپنی تہذیب وثقافت کو گلے لگائے ہوئے ایسی عمدہ علمی وتحقیقی خدمات انجام دئیے جس سے صدیوں تک لوگ استفادہ کرتے رہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں چند ایسے سائنسدان، جغرافیہ داں وغیرہ وغیرہ کا ذکر کیا جائے جنھوں نے تحقیق کے میدان میں ہر لائن سے کام کیا لیکن اپنے مذہب کو نہیں چھوڑا۔

 

(۱)    جابر بن حیان: Father of Chemistry

 

یہ بات بہت صحیح ہے کہ دنیا کے اندر بہت سارے کیمیاداں گزرے ہیں لیکن فن کیمیا یعنی Chemistry میں جابر بن حیان جیسی شخصیت شاید ہی گزری ہو جن کا سن پیدائش ۷۲۱/ اور وفات ۸۰۳/ جن کو دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان حضرات کیمیاء کا باوا آدم یعنی Father of Chemistry کہتی ہے، اتنا بڑامحقق اوراتنا بڑا کیمیا داں اپنے میدان میں لوہا منوالیا، لیکن اس میدان میں کامیابی کیلئے کسی تہذیب کا سہارا نہیں لیا اورنہ اپنے مذہب اور اس کے احکامات کو چھوڑا۔

 

(۲)    ابن فرناس

 

یورپ کے محقق بلکہ ساری دنیا کے محقق عباس ابن فرناس کو اچھی طرح جانتے ہیں جس نے اپنی تحقیق سے وہ کمالات دکھلائے ہیں دنیا والے خصوصاً اہل مغرب کے بڑے بڑے سائنسداں حیران وپریشان ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہے جس نے کیمیاء، طبیعات، فلکیات میں تحقیق کرتے ہوئے ”بلور“ یعنی Rockcrystal دریافت کیا اوراسے کس طرح کاٹنا چاہئے وہ بھی بتلایا، اتنی ہی نہیں بلکہ ان کے عظیم کارناموں میں ایک عظیم کارنامہ وہ ہے جس کے صدقہ میںآ ج پوری دنیا کے ہوائی جہاز آسمان میں گھوم پھررہے ہیں یعنی ہوا میں اڑنے والی فلائنگ مشین Flying Machine ایجاد کی اور دنیا والوں کو آسمان اور خلاء میں کیسے اڑنا سکھلایا، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نہ تو اپنی تہذیب چھوڑی اور نہ اپنا مذہب اوراس کی تعلیم چھوڑی۔ اس Flying Machine کی ایجاد کے ہزار برس بعد Wright Brothers نے Glider ایجاد کیا۔

 

(۳) ابوبکر محمد بن زکریا الرازی

 

امام رازی بھی سائنسدانوں کے فہرست میں محتاج تعارف نہیں جن کی بیش بہا خدمات پوری دنیا کو مذہب کے اعتبار سے اورمعاشرے کے اعتبار سے مسلسل آج تک فائدہ پہنچارہی ہیں، عہد وسطیٰ میں سترہویں ۱۷/ عیسوی صدی تک فن طب کے اندر ان کا کوئی مدمقابل نہیں آیا بلکہ تحقیقات کے باوجود ان کی عالمی تحقیق میں نہ تو مذہب آڑے آیا اور نہ کوئی تہذیب خاص حائل بنی۔

 

(۴) البیرونی

 

دنیا کے بڑے ریاضی دان لوگوں میں رہتی دنیا تک البیرونی کانام فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ انھوں نے بھی ریاضی کے شعبہ میں وہ خدمات انجام دی ہیں کہ دنیا کے تمام ریاضی داں ان کی خدمات سے انکار نہیں کرسکتے۔ لیکن ان کے فن ریاضی کے سیکھنے سکھانے میں اور اس میں کمال پیدا کرنے میں مذہب کو خیرباد نہیں کیا اور نہ اپنی مسلم تہذیب کو خود سے جدا کیا۔

 

(۵) عمر الخیام

 

فن ریاضی داں، فن سائنس، فن فلکیات میں،جس طرح عمر الخیام کا نام ومقام بڑی عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح فن شاعری میں بھی ان کی شاعری عالمگیر شاعری کی حیثیت رکھتی ہے اگر کسی شاعر کو عمرالخیام کا نام معلوم نہ ہوتو وہ شاعر تو ہوسکتا ہے لیکن ناقص غیرعارف شاعر کہلائے گا۔

 

(۶) ادریسی

 

ابوعبداللہ محمد ابن محمد عبداللہ ادریسی اشرف کی سن پیدائش ۱۰۹۹/ ہے اور وفات ۱۱۶۶/ ہے۔اور ادریسی دنیا کے ان عظیم جغرافیہ داں لوگوں میں ہیں جن کی جغرافیہ دانی سے جغرافیہ اپنے عروج پر پہنچا، اتنے تمام تر کمالات کے حاصل کرنے کے بعد نہ تواپنے مذہب میں کسی قسم کی رواداری کو قبول کیا اورنہ کسی بھی اعتبار سے مذہب میں نقص وکمی کو محسوس کیا۔

 

(۷) ابن رشد

 

ابن رشد علامہ ابن رشد سے جانے پہچانے جاتے ہیں جنھوں نے فلسفہ کے میدان میں کمال کو پہنچ کر بھی نہ تو اپنے مذہب کو چھوٹا سمجھا نہ اس کی تہذیب وثقافت کو اپنی زندگی سے علیحدہ کیا۔

 

(۸) علامہ طوسی

 

علامہ طوسی دنیا کے ان ماہرین سائنسداں وعلماء میں شامل ہیں جو دنیاوی اعتبارسے اور دینی اعتبار سے ہر فن کے مولیٰ جانے جاتے تھے۔ فن طب،فن ریاضی، فن فلکیات، فن فلسفہ، فن شاعری کے ساتھ دینی مضامین تفسیر، حدیث، فقہ میں بھی اعلیٰ درجہ کی مہارت تھی، ان سب کمالات کے باوجود علامہ طوسی نے نہ تو اپنے اسلامی وضع قطع میں کمی بیشی کی اور نہ اس میں کسی اعتبار سے فکری وعملی اعتبار سے راواداری قبول کی۔

 

ابن نفیس اور الغ بیگ

 

ابن نفیس کو نحو ومنطق اور فقہ میں الغ بیگ کو رصدگاہوں کے تیار کرانے میں جو مہارت حاصل تھی اسے اہل علم ودانش اچھی طرح سے جانتے ہیں سمرقند کو دنیا کے بہت سارے ممالک اور ان کے شہروں میں فن تعمیر کے اعتبار سے ممتاز بنادیا تھا لیکن ان سب کمالات کے باوجود ان دونوں حضرات نے کبھی نہ تو اپنے دین کو اور دینی مزاج و مذاق کو بدلا اور نہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کی۔

 

مذکورہ عظیم تاریخ ساز شخصیتوں کو دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ عصری یعنی مادی علوم کے سیکھنے وسکھانے میں اوراس میں روز افزوں ترقی کرنے میں مغربی تہذیب وثقافت کی کوئی ضرورت نہیں اور جو لوگ اسے لازمی سمجھتے ہیں وہ اندھی تقلید میں مبتلاہوکر دوطرح کے عظیم نقصان میں مبتلا ہورہے ہیں۔

 

(۱) دین اسلام کی مذہب کے اعتبار سے شناخت وشبیہ کو بگاڑ رہے ہیں۔

 

(۲) ملکی وقومی اعتبار سے ایسا فساد وبگاڑ پیدا کررہے ہیں کہ شاید تاریخ نے آج تک اس قسم کے بگاڑ کو دیکھا یا سنا نہ ہو اور ساتھ ساتھ اپنے ہی ملک کی شناخت کومسخ کررہے ہیں۔

 

مغربی تہذیب سے مذہب کا نقصان

 

دنیا کے اندر جتنے مذاہب وملل ہیں خاص طور سے مذہب اسلام اپنے اپنے مذاہب کے اعتبار سے صدیوں سے ایک خاص رنگ وروپ، الگ وضع قطع کو باقی رکھتے ہوئے آرہے تھے اب ایک عرصہ دراز سے وہ خاص رنگ و روپ باقی نہیں رہا اور نہ مذہبی سالمیت باقی رہی۔ یوں تو دنیا میں بسنے والوں کے بے شمار مذاہب ہیں لیکن انگریزوں نے ”برٹش ایمپائر (Britesh Empire) کے نام سے ظلم واستبداد، چالبازی ومکاری کے ساتھ ساتھ جہاں کہیں بھی حکومت کی اور ایک عرصہ کے بعد وہاں سے نکلے ہیں تو جتنی مدت وہاں رہے پورے زور وشور یا پوری ترغیب و ترہیب سے اُن اُن علاقوں کی مذہبی تہذیب کو تقریباً عملاً ختم کردیا تاکہ گلوبلائزیشن Globlaisation یعنی عالمگیریت باقی رکھے اوراس عالمگیریت کو باقی رکھ کر ایک عالمگیر تہذیب یعنی مغربی تہذیب سے پوری دنیا میں اپنا تجارتی اثرباقی رکھیں اور ساری دنیا والے ان کے محتاج اور ان کے اشاروں پر ناچیں اورمغربی تہذیب کی غلامی کا طوق اپنے گلوں میں ہمیشہ ڈالے رکھیں۔

 

اسی لئے مغربی دنیا نے کچھ ایسے کام انجام دئیے جس کے تحت وہ دنیا پرراج کرسکیں جیسے ڈرامے، فلمیں،اسٹیج شو، ماڈلنگ اور بیوٹی کانٹسٹ اوراس کے علاوہ کچھ ایسے پروگرام اور فنکشن جو خالص مغرب ہی کی عکاسی کریں جیسے برتھ ڈے، اینورسری، Anniversery پروگرام Happy New Yerar، ویالنٹین ڈے پروگرام وغیرہ وغیرہ۔ منجملہ دیگر اسباب کے مذکورہ اسباب بھی مغربی تہذیب کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے اسباب ہوئے لیکن ان سب اسباب کے علاوہ ایک ایسا بنیادی سبب ہے کہ جو سارے مذکورہ اسباب کے لئے فکری قوت وطاقت پیدا کرتا ہے اور کچھ سال کے عرصہ میں یہ اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ وہ ایک شخص کے لئے طبیعت ثانیہ، فطرت اور عادت بن جاتا ہے، جسے نہ گھر اور سرپرستوں کی طاقت ختم یا کمزور کرسکتی ہے اور نہ باہر کی طاقت، دوست احباب رشتہ دار وغیرہ ختم کرسکتے ہیں اور وہ اسکولس وکالجز کے اسٹوڈنٹس کی مغربی فکرکی طاقت ہے، خاص طورپر ایسی فکری آزادی جو مذہب اسلام اورملک کی تہذیب کو بالائے طاق رکھ دے اوریہ مغربی فکر کی قوت، عیسائی مشنری اسکولس وکالجز میں پیدا کی جاتی ہے۔

 

دنیا میں عیسائی مشنری اسکولس کو کب اورکیسے فروغ ملا

 

دنیا کی چار مغربی قومیں ایسی ہیں جنھوں نے کاروباری یعنی ملکی تجارت، ملکی لین دین کے ادارے سے دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کیااور وہاں کے فرمانرواؤں کو اپنے دام فریب میں پھانس کر کاروبار شروع کیا اور کاروبار سے اور آگے بڑھ کر ملک کے داخلی وخارجی معاملے میں دخل اندازی شروع کی اورآہستہ آہستہ دنیا کے اکثر وبیشتر ممالک پر اپنا شکنجہ مضبوط کردیا، پھر آہستہ آہستہ وہاں کی تہذیب کومغربی تہذیب بنانے کی مختلف فکریں اور کوششیں کیں اور وہ چار قومیں European Imperial Power سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ اور وہ چار قومیں یہ ہیں: (۱) مغربی (۲) فرانسیسی (۳) ڈچ (۴) پورچوگول۔ یہ وہ چار قومیں یا چار ممالک ایسے ہیں جنھوں نے دنیا کے کم وبیش ۸۰ یا ۹۰ ممالک پر ظالمانہ وجابرانہ حکومت کی اورجن ممالک پر انھوں نے حکومت کی آج ان ممالک کو Common Wealth Countries کہا جاتا ہے۔ مذکورہ چار قوموں میں British Impire یعنی برطانیہ والوں نے ہندوستان کو کاروبار کا پھر کاروبار کے ذریعہ تقریباً پورے ملک و قوم کو غلام بنایا پھر ہندوستانیوں کی قید ومشقت والی زندگی اور غلامی اور ان کی حکومت ۱۵۶۰/ سے لے کر ۱۹۴۷/ تک چلتی رہی اور اس عرصہ میں ملک وقوم کے نوجوان اور بڑے بہادر وزیرک حضرات نے اپنے خون پسینہ سے ملک کو آزاد کرلیا تب جاکر یہ ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کے ظلم وستم والے چنگل سے آزاد ہوا، آزادی کے موقع پر اورآزادی کے ملنے تک دو بڑی خطرناک چیزیں ہندوستان میں جنم لے چکی تھیں۔ ایک وہ نظریہ جو مسلم لیگ والوں کا تھا کہ مسلمانوں کے لئے ایک ایسا خطہ چاہئے جس میں مسلمان اپنی مسلمانیت یعنی اسلام اوراس کا تشخص برقرار رکھ سکیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا تو ہونہ سکا اوراس کے نہ کچھ آثار نظر آرہے ہیں، صاف صاف الفاظ میں پاکستان کے نام پر جو تقسیم ہوئی اس کی وجہ سے نہ تو ہندوستان کے مسلمانوں کے حق میں آزادی کا صحیح مطلب ومطلوب مل سکا اورنہ پاکستان کے مسلمانوں کو مسلمانیت یعنی اسلام کے شان دار اقدار ملک پاکستان میں مل سکے۔ بہرحال دوسری بڑی غلطی خود ہم ہندوستانیوں کو آج تک سیکولر حکومت کے ہونے کے باوجود سکولریت اورجمہوریت کے تمام حقوق اچھی طرح سے مل سکے لیکن ہم اس کے باوجود ہندوستانیوں کی زندگی خود اپنے ملک ہندوستان میں بہت اچھی گزررہی ہے،اللہ اور بھی اچھی طرح زندگی گزارنے کے مواقع عطا فرمائیں۔ بہرحال یہ بات جملہ معترضہ کے طورپر یہاں آگئی ہے۔

 

الغرض مذکورہ چار قومیں ایسی ہیں جنھوں نے جہاں بھی حکومت کی صرف حکومت نہیں کی بلکہ حکومت کرنے کے علاوہ وہاں کے معدنیات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ساتھ ساتھ تجارت کے نام سے بھی کئی ایک علاقوں کے سیم وزر کو اپنے اپنے ملکوں کو روانہ بھی کیا۔ خاص طور پر انگریزوں نے ہندوستان جسے اس وقت سونے کی چڑیا کہا جاتاتھا اور آج بھی کہا جائے تو کوئی بے جا بات نہیں ہوگی، خوب سے خوب لوٹا اور لوٹ کر اپنے علاقہ برطانیہ کو مال و دولت سے بھردیا اور اس کے علاوہ ان قوموں نے حکومت کردہ علاقوں میں اپنی تہذیب خاص کر اور اپنی زبان خاص کر پورے زور سے فروغ دیا جس کا نتیجہ ہی یہ ہے کہ آج تقریباً پوری دنیا فکر مغرب کی غلامی میں مبتلا ہے۔

 

فکر مغرب کی غلامی کے اسباب

 

دنیا کے اندر حقیقی غلامی تو انسان کو اس کی کرنی چاہئے جو ہم سب کا خالق ومالک ہے، اب رہی وہی مجازی غلامی یعنی کسی کی اتباع واقتداء تو صرف ایسی ذات یا ایسی قوم کی کرنی چاہئے جو ہمارے حق میں محسن، شریف، دیانت دار اور امانت دار ہو اور جو شخص یا قوم محسن کے بجائے ظالم، شریف کے بجائے غیرشریف، دیانت دار وامانت دار کے بجائے خائن ہوتو اس کی اتباع ہرگز ہرگز نہیں کرنی چاہئے چنانچہ اسی طرح کے صفات مذکورہ چار قوموں میں پائے جاتے ہیں۔

 

یوں تو مغربی فکر کی غلامی اوراس کے اسباب کو غور سے دیکھا جائے اوراس کا تجزیہ کیا جائے تو تمام کے تمام اسباب ایسے پہلوؤں کی ترجمانی کرتے ہیں جن کے مثبت پہلو بڑے رنگین و خوشنما انداز کے معلوم ہوتے ہیں اور ہر سادہ لوح آدمی ان اسباب کو دیکھ کر بڑا ہی متاثر اور دل پھینک بن جاتا ہے اوریہ دل پھینک کیوں کرنہیں بنے گا جبکہ وہ اسباب (خواہ کچھ لے کر یعنی انسانی وتہذیبی اقدار کو فروخت کرکے یا اسے پامال کرکے) روٹی، کپڑا اور مکان کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ روٹی، کپڑا اورمکان کو حاصل کرنے کے لئے ایسی ملازمتوں کا لالچ دیاجاتاتھا کہ اس نوکری کے حاصل کرنے کے لئے یاتو ضمیرفروش بننا پڑتا تھا یا نہیں تو ان کے قائم کردہ کانونٹس اسکولس اور کالجز کا سہارا لینا پڑتا تھا،اوراسی طرح روٹی کپڑا اورمکان کے حصول میں جب صحت خراب ہوجاتی تو لامحالہ ان کے قائم کردہ مشنری اسپتال جانا پڑتا تھااوراس کے علاوہ کچھ اوراسباب بھی ہیں جو متوسط طبقہ والوں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ امیر ترین یا اہل جاہ واہل ثروت سے متعلق ہیں تاکہ ہر طبقہ کا آدمی ان سے متاثرہوکر ان کی بھول بھلیوں میں ”کولہو“ کے بیل کی طرح گھومتے اور پھرتے رہتے ہیں، یعنی قحبہ خانے، بال رومس اور مختلف نام کے ایسے کلبس جن کا سائن بورڈ تو سماجی ترجمانی ضرور کرتا ہے لیکن جب اندر جھانک کر دیکھا جائے تو سماجی خدمات کے علاوہ اہل اثر لوگوں کی مختلف انداز سے ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ یہ ملک وقوم کے بجائے ان کے مت والے اور پٹھوبن کر زندگی گزاریں۔

 

غرض یہ کہ مغربی غلامی کے اور بھی بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں مگر ان اسباب میں ایک بڑا سبب عیسائی مشنری اسکولس ہیں لہٰذا اس زیرنظر مقالہ میں اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ عیسائی مشنری اسکولس کا قیام اور اس کے مقاصد اور منصوبہ بند شازشیں، وہاں کا مزاج ومذاق اوراسکولس میں داخل ہونے سے لے کر باہر نکلنے تک کی تمام کارروائیاں نصاب تعلیم، وضع قطع، مخلوط تعلیم، سال بھر کے مختلف ناموں سے منعقدہ حیاء سوز پروگرام اور خود وہاں کے معلّمین ومعلّمات کا خاص مذہبی ڈھنگ کالباس، بچوں کی تعلیم کے ساتھ بچوں کی آزاد مزاجی کی ذہن سازی اور عیسائیت کی فکر سازی،عیسائی مشنری اسکولس سے وصول شدہ بلڈنگ فنڈ اور ڈونیشن وغیرہ کی موٹی موٹی رقم کا استعمال اورایسے بچوں کا انتخاب جن کے والدین پڑھے لکھے ہوں وغیرہ وغیرہ اہم موضوعات پر روشنی ڈالی جائے تاکہ ہرکس وناکس پر سالوں سے چلی آرہی اندھا دھند تقلید آشکارا ہوجائے اوراس کے بعد ارباب فکر، اہل علم، دردمند سیاست داں، علماء و فضلاء اس کی روک تھام کے لئے عملی اقدام کریں اور ایسے اسکولس وکالجز قائم کریں جہاں ہرسمت سے ماحول سازگار ہو اورمزاج ومذاق صاف و شفاف ہو جس سے ہمارا مذہب ومسلک بھی مضبوط ہو اورملک وقوم کا ملکی وملی شعار بھی باقی رہے۔

 

***