ماهنامه دارالعلوم ، شماره 2 ، جلد: 94 صفر – ربیع الاول 1431 ھ مطابق فروری 2010 ء

 

تعارف وتبصرہ

 

 

 

 

نام کتاب              :         نورالقمر فی توضیح نزہة النظر شرح نخبة الفکر

موٴلف                :         حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی زیدمجدہ

                                استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

صفحات               :         ۳۶۰     قیمت:    (درج نہیں)

ناشر                  :         مرکز دعوت وتحقیق دیوبند، سہارنپور (یوپی)

ملنے کے پتے  :         دیوبند کے مشہور کتب خانے

تبصرہ نگار    :         اشتیاق احمد، مدرس دارالعلوم دیوبند

 

میرے سامنے حافظ ابن حجررحمة الله عليه (۷۷۳ھ تا ۸۵۲ھ) کی بے نظیر تصنیف ”نزہة النظر شرح نخبة الفکر کی شرح نور القمر“ ہے، حضرت حافظ رحمة الله عليه کو اپنی اس تصنیف پر یک گونہ ناز تھا، اور وہ بجا بھی تھا؛ اس لیے کہ اصولِ حدیث کے ذخیرہ میں ان کی کتاب کی نظیر نہیں تھی اورآج تک نہیں ہے۔ انھوں نے حقیقی معنوں میں دریائے علم کو ایک مختصر سے کوزے میں سمودیا ہے، اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ”حافظ ابن الصلاح رحمة الله عليه کے مقدمہ“ کی قبولیت کا رنگ بھی پھیکا پڑگیا، ساتھ ہی اس کی انفرادیت ومرکزیت بھی متاثر ہوئی تقریباً سات صدی سے ”نخبہ“ اور ”نزہہ“ کی تدریس کی طرح اس کی تشریح و تحقیق؛ اختصار و تعلیق اورنظم کرنے کا سلسلہ آج تک قائم ہے۔

 

یہ کتاب ہمیشہ سے دارالعلوم دیوبند کے نصاب کا جزء رہی ہے اور دارالعلوم نے اپنی روایت کے مطابق ہمیشہ اس کتاب کی تدریس کو بھی ماہرِ فن اساتذہ ہی کے سپرد کیا ہے، عرصہٴ دراز تک یہ کتاب دارالعلوم کے مایہ ناز استاذ، محقق وقت،احادیث و رجال کے ماہر حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن اعظمی زیدہ مجدہ وعمت فیوضہ سے متعلق رہی ، موصوف مادر علمی کے ان سپوت میں سے ہیں جنھوں نے محض علم و تحقیق کے لیے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے، وقت کا ایک ایک لمحہ مطالعہ وتحقیق ہی میں گذرتا ہے، ہمہ وقت وہ ہوتے ہیں اور ان کا کتب خانہ؛ جہاں ہمہ علمی کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے، بہت سی کتابیں ایسی بھی ہیں جو تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملتیں۔ چوں کہ دارالعلوم میں اکثر ذہین وفطین طلبہ داخل ہوتے ہیں؛ بلکہ بعض پڑھ پڑھاکر یہاں آتے ہیں؛ اس لیے لازماً اساتذئہ دارالعلوم وسیع تر مطالعہ کے عادی ہوتے ہیں - ہرزمانے میں ایسے اساتذہ بھی رہے ہیں جنھوں نے مطالعہ وتحقیق اور تصنیف وتالیف کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنائے رکھا ہے - ان میں حضرت الاستاذ کا امتیاز یہ ہے کہ آپ ہمیشہ سے ہر کتاب کا فنی مطالعہ کرتے ہیں، گذشتہ چند سالوں سے آپ کے مطالعہ وتحقیق کا محور صرف احادیث اور ان کے اصول ہیں، آپ کی تدریس پُرعلم محققانہ اور مجتہدانہ ہوتی ہے، آپ کا موقف تحقیقی و تدقیقی ہوتا ہے، بہت سی جگہوں میں مصنف سے اختلاف بھی ہوتا ہے، مصنف کی بات سمجھاکر اپنے موقف کے دلائل کو بڑی سنجیدگی اور علمی اسلوب میں پیش کرتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ذہین طلبہ آپ سے بہت متاثر رہتے ہیں، قارئین کرام ”نورالقمر“ میں ان باتوں کا مشاہدہ کریں گے اس لیے کہ پوری کتاب درسی انداز میں لکھی گئی ہے، آپ کے بیان میں کہیں پیچیدگی نہیں ہوتی جو باتیں بڑی تلاش وجستجو کے بعد دریافت ہوتی ہیں، ان کو بھی چند آسان اور عام فہم جملوں میں ادا کردیتے ہیں، پیرایہٴ بیان کبھی مرعوب کن نہیں ہوتا، القائے درس کا انداز مسحور کن ہوتا ہے، آپ کے فیضانِ علمی کو طلبہ پابندی سے اپنی یاد داشت میں لکھتے ہیں۔ (یہ ہر طالب علم کا مشاہدہ ہے، ”عیاں را چہ بیاں“ قارئین اسے قصیدہ خوانی پر محمول نہ کریں، یقین نہ ہوتو سرکی آنکھوں سے دیکھ لیں!)

 

حافظ ابن حجر نے اپنا رسالہ ”نخبہ“ طلبہ کو پڑھایا تو طلبہ نے ان سے اصرار کے ساتھ شرح لکھنے کا مطالبہ کیا، اس طرح ”نزہہ“ وجود میں آئی (ص۲۵)، اسی طرح حضرت الاستاذ نے طلبہ کے بے حداصرار پر ہی اپنا گہربار قلم اٹھایا اور اپنی یادداشت سے علم و تحقیق کے جواہر پاروں کو کتابی شکل میں علوم کے شناوروں کے سامنے پیش کردیا، خود رقم طراز ہیں:

 

”مشکوٰة المصابیح کے درس کے ساتھ ”نزہة النظر“ کا درس بھی ایک عرصہ تک بندہ سے متعلق رہا، اس زمانہ میں طلبہ کا یہ اصرار رہا کہ درس ہی کے انداز پر اردو میں اس کی شرح مرتب کردی جائے تو عام طلبہ کو فہم کتاب میں بڑی سہولت ہوجائے گی، بندہ ان کے اس اصرار کو یہ کہہ کر ٹالتا رہا کہ درس کی تقریر اچھی طرح ضبط کرلی جائے تو یہ مشکل آسان ہوجائے گی؛ اس لیے مستقل کسی شرح کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن ان کا اصرار بدستور اپنی جگہ قائم رہا، پھر بعض وہ احباب جو اس وقت بحمداللہ درس و تدریس کی خدمت پر فائز ہیں، انھوں نے بھی اس کی خواہش ظاہر کی اور اس شدومد کے ساتھ کہ میں اسے ٹال نہ سکا اور اللہ کا نام لے کر اپنے علم وفہم کے مطابق یہ کام شروع کردیاجو درمیان میں بعض عوائق کے پیش آجانے کے باوجود بفضلہ تعالیٰ پورا ہوگیا، اب یہ اردو شرح مسمّیٰ بہ ”نورالقمر“ طلبہٴ علوم کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے، خدا کرے کہ یہ شرح طلبہ کی مشکل کے حل میں مفید ثابت ہو تو بندہ اپنے حق میں اسے خوش بختی وسعادت سمجھے گا۔“(ص:۱۶)

 

طباعت کے بعد راقم الحروف نے شرح دیکھی اور کچھ تعارف لکھنے کا ارادہ کیا تو حضرت الاستاذ نے فرمایا: ”اچھی طرح پڑھ کر لکھو اور کوئی قابلِ اصلاح بات ہوتو نشاندہی کرو؛ تاکہ اس کو درست کیا جاسکے“، ناچیز نے چوں کہ دارالعلوم حیدرآباد میں ”مشکوٰة اور کبھی سراجی“ کے ساتھ متعدد بار ”شرح نخبہ“ پڑھائی ہے اور دورانِ تدریس وہاں کے کتب خانہ میں اس کی جملہ متعلقات عربی اردو شروح وحواشی اور اصولِ حدیث پر لکھی گئی نئی اورپرانی کتابیں اپنی وسعت بھر دیکھی ہیں؛ اس لیے اس کتاب سے اپنے اندر ادنیٰ مناسبت محسوس کرتا ہے؛چنانچہ بڑی دلچسپی سے اس کا مطالعہ کیا اور بحمداللہ سوائے کتابت کی اتفاقی ایک آدھ غلطیوں کے کوئی ایسی چیز نہیں پائی جس کی اصلاح کی ضرورت ہو، مطالعہ کے دوران درج ذیل خصوصیات سامنے آئیں:

 

۱- ضروری کلمات پراعراب لگایا گیا ہے، مشکل جملوں کو ترکیب نحوی کی وضاحت کے ذریعہ آسان کیاگیا ہے۔

 

۲- ترقیم کے ذریعہ مفصل بحثوں کو منضبط کیاگیاہے۔

 

۳- رموز املا نویسی کی پابندی کی گئی ہے۔

 

۴- انداز بیان تحقیقی؛ لیکن مرعوب کن نہیں ہے، پڑھنے کے ساتھ قاری کی دلچسپی بڑھتی رہتی ہے۔ درسی انداز میں بڑی اہم اہم بحثوں کو مختصر پیرائے میں آسان اسلوب میں پیش کیاگیا ہے۔

 

۵- جس طرح درس میں اعلام کے تراجم اور کتابوں کا تعارف آپ مختصر طورپر ذکر کرتے ہیں، وہی انداز اس میں بھی ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ اس میں حوالے کے ساتھ ہے؛ تاکہ پڑھنے کے ساتھ قارئین کو اعتماد ہوتا رہے نسبتوں کی تحقیق اورمقامات کے محل وقوع کی تعیین بھی بڑے عمدہ انداز میں کی گئی ہے، بار بار پڑھانے کے باوجود راقم الحروف بعض نسبتوں کو صحیح اعراب نہ دے پایا تھا،اس کا احساس محض اس شرح کے دیکھنے کے بعد ہوا۔

 

۶- بعض لغوی الفاظ جو بظاہر مرادف معلوم ہوتے ہیں؛ لیکن اصلیت ومادہ کے لحاظ سے ان میں فرق ہے، زیر تبصرہ تصنیف میں بعض اہم فروق بھی بیان کئے گئے ہیں، مثال کے لیے دیکھئے اختصار و اقتصار کے درمیان فرق (ص۲۵)

 

۷- ہر نئی بات نئے عنوان سے شروع کی گئی ہے۔

 

۸- جہاں بحث طویل ہوگئی ہے وہاں ”خلاصہ“ کا عنوان بناکر مختصر انداز میں لُب لباب کو لکھا گیا ہے۔ اور طوالت کی وجہ سے جہاں ربط ٹوٹتا نظر آتا ہے وہاں چند جملوں کو قوسین میں لکھ کر ربط بتاکر بات آگے بڑھاتے ہیں، یہی چیز شرح لکھنے کی بڑی محرک ہے۔

 

۹- ”نخبہ کو نزہہ“ کے درمیان قوسین میں لکھاگیا ہے پھر اردو شرح کو ممتاز کرنے کے لیے خط کھینچا گیا ہے۔

 

۱۰- حافظ ابن حجررحمة الله عليه کی ہر بات پر آمنا وصدقنا نہیں کہاگیا ہے؛ بلکہ وہ باتیں جو محققین اور احناف کے لیے محل نظر ہیں ان سب پر مدلل گرفت کی ہے۔ (دیکھئے ص۸۰، ۸۹، ۱۰۶، ۱۷۲ وغیرہ)

 

۱۱- لغت، حدیث اور اصول حدیث کی کتابیں بہت زیادہ دیکھی گئی ہیں، حوالہ جات سے ہر قاری اس کا اندازہ کرسکتا ہے،اگراخیر میں سارے مراجع کی فہرست دی جاتی (جیسا کہ آج کل کا انداز ہے) تو شاید قارئین مرعوبیت کی حد تک متاثر ہوتے۔

 

غرض یہ کہ قارئین تبصرہ نگار کہیں یا قصیدہ خواں؛ یا ”عینُ الرضا عن کلِ عیبٍ کلیلةٌ“ کا مصداق بتائیں؛ حقیقت یہی ہے کہ میری نگاہ نے کوئی عیب نہیں دیکھا، یہ شرح طلبہ اور اساتذہ سب کے لیے مفید ہے، شرحِ نخبہ کے لیے کافی شافی ہے، اوراس کوتاہ بیں کی نظر میں اردو بلکہ عربی زبان میں بھی کوئی ایسی شرح نہیں ہے، جس میں یکجا اتنی تحقیقات آسان اسلوب میں جمع ہوں، جس سے حدیث شریف پڑھنے والے حنفی طالب علم کو اطمینان حاصل ہوجائے، اگر ”چھوٹا منہ بڑی بات“ کے طعنے کا خوف نہ ہوتا تو علامہ کشمیری رحمة الله عليه کا وہ تاثر (جو بیان القرآن کو دیکھ کر انھوں نے پیش کیا تھا) میں اپنے الفاظ میں پیش کرتا کہ اس شرح کے دیکھنے کے بعد اب یقین ہوا کہ بعض اردو شرح میں بھی علم وتحقیق عربی کی طرح موجود ہے شارح زید مجدہ سے اخیر میں یہ درخواست ہے کہ : بہت اچھا ہوتا اگر یہ شرح عربی زبان میں منتقل ہوجاتی تاکہ عرب دنیا کے لیے بھی استفادہ کی راہ ہموار ہوجاتی۔

 

خلاصہ یہ کہ ”نورالقمر“ ان طلبہ اوراساتذہ کے لیے بہترین تحفہ ہے، جو تحقیق کے ساتھ ”شرحِ نخبہ“ پڑھنا چاہتے ہیں، کتابت، طباعت، کاغذ اور ٹائٹل سب معیاری ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں! (آمین)