پہلا صلیبی سامراج : چند فراموش شدہ تاریخی حقیقتیں

از: عبدالمتین منیری، بھٹکل

 

نشأة ثانیہ کے اپنے ابتدائی دنوں میں یورپی ملکوں میں دوائی کی شیشیوں میں لکھی یہ عبارت کہ ہندوستان سے درآمد کی ہوئی یا دیار عرب سے درآمد کی ہوئی بہت سے مہم جویوں او ر دولت کے متلاشیوں کے جذبہ کو ابھارتی تھی اور انہیں مشرق سے آنے والی قدرتی اشیاء مصالحہ جات اور عطریات جیسی دولت کے سرچشموں کی تلاش اور وہاں کے سفر پر اکساتی تھی۔

اس دور کے جغرافیائی انکشافات پر تحقیق کرنے والے ایک محقق پانیکار نے مصالحہ جات میں سے ایک اہم عنصر کالی مرچ کی اس زمانے میں قدر وقیمت کے بارے میں درست لکھا ہے کہ اب شاید کالی مرچ کی کاروباری لین دین میں زیادہ اہمیت نہیں رہی ، لیکن (یورپ میں جغرافیائی انکشافات کے اس ) دور میں یہ اپنی قدر و قیمت میں قیمتی پتھروں کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی ، اس کے لئے لوگ سمندروں کے خطرات مول لیتے تھے ، کالی مرچ کیلئے مرتے اور مارتے تھے۔(۱)

ایک دوسرے محقق نے کالی مرچ کی اس اہمیت کو بڑھاتے ہوئے یہ لکھاہے کہ دیار روم میں بھڑکنے والی جملہ جنگوں کے پس پردہ کارفرما سبب ملبار کی کالی مرچ اور اس کی منڈیوں پر قبضہ کی چاہت تھی، اس چھوٹے سے کالے دانے نے ابتدائی عیسوی صدیوں میں دنیا کی نظریں اپنی طرف کھینچ لی تھیں(۲)

ایک دوسری حقیقت جو دور وسطی کے یورپ میں جسے ہم دور ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں مصالحہ جات کے بارے میں یہاں کے باشندوں کا یہ عمومی اعتقاد تھا کہ مصالحہ جات اور قیمتی پتھر جنت عدن سے آتے ہیں انہیں چار نہریں دنیا میں لاتی ہیں ،جغرافیہ دان اپنے نقشوں میں اسے ایک گول دائرہ اور نصف دائرہ کی شکل دے کر وثوق سے بتاتے تھے کہ کہ یہ جنت یہاں واقع ہے،ان کا اعتقاد تھا کہ یہ جنت مشرق میں ایک بہت اونچی ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے چاند کو چھوا جاسکتاہے،اسے چاروں طرف سے اونچی چہاردیواری گھیرے ہوئے ہے جنہیں ہرے درختوں کے پتوں نے گھیر لیا ہے،پھر اس کے اطراف قلعے ہیں(۳)

ہمیں معلوم نہیں کہ اس کہانی کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما تھے، ہوسکتا ہے اس کا سبب اہمیت جتلاکر اس کی تجارت کوبڑھاوا دینا ہو، کیونکہ اس دیومالائی ادبی خیال نے مصالحہ جات اور قیمتی پتھروں کی قیمتیں بہت بڑھا دیں تھیں ،یہاں تک کہ دور وسطی میں مرچ کی طرح مہنگی ضرب المثل عام ہوگئی تھی ،اس زمانے میں فرانس وغیرہ کے کلیساوٴں میں زمین اور زکاة کا ٹیکس مصالحہ جات کی صورت میں طلب کرنا عام سی بات تھی،اس دور میں غلاموں اور باجگذار وں کو اپنی آزادی خریدنے کے لیئے کلیسا ئی آقاوٴں کو ایک رطل کالی مرچ دینی پڑتی تھی ،دوسری جانب یورپ کے زمین دارانہ دور میں مقررہ مقدار میں کالی مرچ کاشت کاری کی زمین کے کرایہ کے طور پر ادا کرنی پڑتی تھی(۴)

الف لیلہ میں عرب سندباد جہاراں کے قصوں نے مشرق میں مصالحہ جات کی جگہوں ان کی تجارت اور یہاں تک پہنچنے کے لئے درپیش مہم جوئی کی تکلیفوں کے بارے میں خواب وخیال اور خرافات کو بڑھاوا دیا، یہیں سے مصالحہ جات کی تجارت نے بین الاقوامی روابط اور تعلقات کو جنم دیا اور تاریخ کے مختلف ادوار میں دور وسطی میں انہوں نے حلقہ وصل کا کام کیا،یہیں سے مسلسل مشرق و مغرب کے مابین تعلقات کی کڑیاں ملتی ہیں،وہ اس طرح کہ جن راستوں سے قافلے مشرق سے مصالحہ جات لے کر جاتے تھے وہ ایشیا ء کو افریقہ سے ملانے والی اہم رگیں بن گئے اور وہ اشیاء جو اپنے اندر خوشبواور اور خوش ذائقہ رکھتی تھیں اور اسی مناسبت سے انہیں عطارہ کی اصطلاح میں سمودیا گیا تھاکئی صدیوں تک مشرق و مغرب کے مابین تبادلہ کی اہم چیز بن گئی۔

یہ اشیاء جہاں مشرقی ممالک اور جن شہروں اور بندرگاہوں سے گزرتیں انہیں مالا مال کردیتیں وہیں پر جہاں ان کی پیداوار ہوتی اور ان کی تجارت ہوتی وہاں کے باشندوں کیلئے مصیبتیں لے آتیں،یہ مصیبتیں آنی اس وقت شروع ہوئیں جب پوپ اربن دومPope Urban II (1042 July 29, 1099) نے ۱۰۹۵ء میں فرانس کے شہر کلیرمونت میں ایک بڑے مجمعے کے سامنے اعلان کیا کہ یہی خدا کا ارادہ ہے اور مغربی یورپ کے باشندوں کو دعوت دی وہ اٹھ کھڑے ہوں کیونکہ صلیب اٹھا کر مقدس مقامات پر قبضہ کرنے اور انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھیننے کا وقت آگیا ہے اور پھر عربی اسلامی سلطنتوں کے خلاف یورپ کی صلیبی جنگیں شروع ہوگئیں، پھر جب اس جنگ کے بلاوے کو مغرب کے عیسائیوں کی تائید حاصل ہوگئی تو پھر صلیب کی لکڑی کو اٹھانے اور پوپ اربن دوم کی پکار کو بلند کرنے کی ایک دوڑ شروع ہوگئی،ان جنگوں کے انہی نعروں نے گیارہویں صدی عیسوی میں عالم عرب و اسلام میں صلیبی یورپی توسیع پسندی کی داغ بیل ڈالی ۔ جہاں ان جنگوں سے یورپ کو فتوحات ملیں وہیں ان پر تجارتی فروغ اور وسعت کے افق کھل گئے۔

 ۴۸۹ ھ/ ۱۰۹۶ ء سے ۶۹۰ ھ/ ۱۲۹۱ ء تک جملہ دو صدیاں پہلی صلیبی جنگوں کا دور شمار ہوتا ہے، اس دوران ۴۹۳ ھ /۱۱۰۰ ء سے ۵۸۲ ھ/ ۱۱۸۶ء میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست تک جملہ (۸۶) سال بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا، ان صلیبی جنگوں سے یورپ کے عیسائیوں کا کیا فائدہ ہوا ، اس بارے میں فاضل مورخ ویل ڈورنٹ Will Durant یوں رقم طراز ہے ۔

صلیبی جنگوں نے یورپ والوں کے مسلمانوں کے تجارتی و صنعتی طریقہ کار کو جاننے کے بعد ان میں پھرتیلے پن اور چستی کی روح بھر دی ، کیونکہ ان جنگوں سے انہیں سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف شہروں کے جائے وقوع سے انہیں آگاہی حاصل ہوئی، اطالوی تاجروں نے صلیبی جنگوں کے طفیل بحر متوسط کی گذرگاہوں کے نقشے بنانا سیکھ لیا، جو راہب ، مورخ اور خبرنویس صلیبی گھوڑسواروں کے ساتھ چلے تھے انہوں نے ایشیا کے ملکوں کی وسعت اور ان کے مختلف علاقہ جات کے بارے میں نت نئی معلومات حاصل کرکے یہ معلومات اپنے لوگوں تک پہنچائیں، جس نے ان کے دلوں میں ان علاقوں کی کھوج اور یہاں تک پہنچنے کی کشش پیدا کی، اس طرح (عیسائیوں کے) بلاد مقدسہ (فلسطین) کا سفر کرنے والوں ، یہاں کے مقدس مقامات کے زائرین کی رہنمائی اور یہاں کی ریاستوں اور شہروں کی تفصیلات بیان کرنے والی کتابیں منظر عام پر آئیں ، عیسائی طبیبوں نے یہودی اور مسلمان طبیبوں سے علم طب حاصل کیا ، صلیبی جنگوں کے طفیل یورپ میں علم جراحت ترقی پذیر ہوا،اس طرح تجارت اور کاروبار صلیب کے زیر سایہ اور پیچھے پیچھے چلتے رہے ،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صلیب کی قیادت تجارت نے کی ہو، گھوڑ سوار صلیبی فلسطین میں مسلمانوں سے ہار گئے ، لیکن اطالوی بحری بیڑے نے بحر متوسط کو نہ صرف مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا بلکہ بیزنطینیوں سے بھی اس کا قبضہ لے لیا، یہ درست ہے کہ شہر وینس ، جنوہ ، پیزا ، املفی ، مرسلیا ، برسلونہ صلیبی جنگوں کے قبل سے مشرق کے مسلم ملکوں سے تجارت کرتے اور تنگنائے باسفور اور بحر اسود کو چیرتے آئے تھے ، لیکن صلیبی جنگوں نے اس تجارت کے دائرہ کار کی وسعت کو دور دور تک پھیلادیا ، قسطنطنیہ پر وینس والوں کا قبضہ ، عیسائی زائرین اور جنگجووں کو فلسطین پہنچانا ، ،مشرقی ممالک میں عیسائیوں اور غیر عیسائیوں کو کمک فراہم کرنا ، مشرق سے یورپ کو غلہ کی درآمد وغیرہ اسباب سے تجارت اور بحری نقل و حرکت میں ایسی پھرتی آئی کہ جس کی نظیر رومی امپائر کی سربلندی کے ایام کے بعد نہیں ملتی، یہ تجارت اپنے ساتھ یورپ کے لئے بڑی مقدار میں ریشمی کپڑے ، شکر اور کالی مرچ ، ادرک ، لونگ ، الائچی جیسے مصالحہ جات لے آئی، گیارھویں صدی کے یورپ میں یہ سب چیزیں نایاب اور آسائشی ساز و سامان تصور ہوتی تھیں ، اس تجارت سے مشرق سے مغرب کو بڑی مقدار میں مختلف نباتات جڑی بوٹیاں ، اناج اور درخت منتقل ہوئے جن سے یورپ اس سے قبل اندلس کی اسلامی ریاست کے توسط سے متعارف ہوا تھا ، ان نئی متعار ف ہونے والی اشیاء میں مکئی ، چاول ،تل،لیموں، خربوزہ ،آڑو، شفتالو ،کھجور ، چھوٹی پیاز جوکہ شالوت اور عسقلانی کہلاتی تھی ، عسقلان ثغر سے کشتیوں پر مشرق سے مغرب کومنتقل ہوتے تھے، شفتالو کو عرصہ تک برقوق دمشق کہا جاتا تھا ، اس طرح اسلامی ملکوں سے سفید ریشمی کپڑا ، دمقس ، موسلین ، ساٹین ، مخمل ، کشیدہ کاری کئے ہوئے دوسرے کپڑے ، غالیچے ، رنگ و روغن ، آٹا ، عطریات ، زمین داروں اور متوسط طبقہ کے گھروں کو مزین کرنے اور ان کے مردوں اور عورتوں کو آراستہ کرنے کے لئے جواہرات پہنچتے تھے ، برونز اور صیقل کی ہوئی دھاتوں سے بنے آئینوں کی جگہ کانچ سے بنے اور دھاتوں سے ڈھکے آئینوں نے لے لی،یورپ نے مشرق سے شکر اور وینس کے آئینہ صاف کرنے کی صنعت سیکھی۔(۵)

یورپ میں ہندوستانی مصالحہ جات کی اہمیت اتنی کیوں بڑھی اس سلسلے میں عبد العزیز محمدالشناوی رقم طراز ہیں کہ :

اس کا سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں جب کہ ریفریجریٹر اور چیزوں کو ٹھنڈا کرکے جمادینے والے بڑے آلات معروف نہیں ہوئے تھے گوشت کو محفوظ رکھنے کے لئے ان مصالحہ جات کی سخت ضرورت محسوس ہوتی تھی ، اس زمانے کے یورپ کی آسائش زدہ اور خوشحال زندگی میں کھانا مشرقی مصالحہ جات کو ملائے بغیر نہیں کھایا جاسکتا تھا ، اس پر مزید یہ کہ لونگ اور ادرک کا حکیمی نسخوں میں استعمال ہونے لگا تھا ، یورپ کی عورتوں میں مشک و عنبر اور آب گلاب کی ضرورت بڑھ گئی تھی ، یہ ضرورت اب کلیسا والوں کو بھی ہونے لگی تھی ، انہیں بھی دھونی دینے کے لئے بخورات ، عطر یات، ہندوستانی جڑی بوٹیوں ،افیم ، کافور وغیرہ کی ضرورت پڑنے لگی تھی ، جبکہ دوسری اشیاء ، قہوہ ، قیمتی پتھر ، ہاتھی دانت ، غالیچے ،ریشمی کپڑے ، یورپی معاشرے میں اظہار مفاخرت اور دولت کے اظہار کے ذریعے بن گئے تھے ۔ (۶)

ان ہندوستانی مصنوعات کی تجارت سے تاجروں کو جو منافع حاصل ہوتا تھا اس کی تفصیل شہر وینس کے مورخ چارل ڈیل نے یوں بیا ن کی ہے : ایک کوئنٹل ادرک کی جو قیمت اسکندریہ میں گیارہ کروزاڈو (Crusados ستر برطانوی سنٹ کے برابر قدیم پرتگالی سونے کا سکہ) لگائی جاتی تھی ۔کالیکٹ میں اس کی قیمت چار کروزاڈو تھی ، ایک کوئنٹل کالی مرچ کی جو قیمت ڈھائی تا تین وینسی سکہ (ڈوکیٹ Ducat ۴۹۴،۳ گرام سونے کا وینس اور خلافت عثمانیہ میں رائج سکہ ) یہ مرچ اسکندریہ میں (۸۰) سے کم پر ملنا مشکل تھا باوجود اس کے تاجروں کے لئے یہ تجارت بہت منافع بخش تھی ۔ ۱۵۰۳ء میں واسکوڈی گاما ہندوستان سے اپنے جہاز پر ساڑھے تین ہزار کوئنٹل کالی مرچ ، دارچینی ، ادرک ، اور جوز الطیب لاد کرلایا ،جواہرات اور قیمتی پتھر ان کے علاوہ تھے ، ان کی قیمت ایک ملین ڈوکیٹ لگائی گئی ۔ جب کہ اس مہم کے اخراجات دولاکھ ڈوکیٹ سے زیادہ نہ تھے ، ا س مہم میں مال لگانے والوں کو ملنے والا منافع بھی اسی نسبت سے زیادہ تھا ، لسبن کے دوہزار ڈوکیٹ لگانے والے ایک گھر کو پانچ ہزار کا فائدہ ہوا (۷)

انہی صلیبی جنگوں کے جگر سے اطالوی بحری جمہوریتوں خصوصا جنوہ اور وینس کی بنیاد پڑی جنہوں نے روایتی راستوں سے مشرق کی پیداوار کو شام کے راستے یورپ لانا شروع کیا، اور وینس کے بحری بیڑوں نے مشرق کی محصولات کی یورپ درآمد شروع کی،دوسری جانب انہوں نے جنگجووٴں اور ان کے لئے راشن اور یورپین زائرین کو مملکت شام بھیجنا شروع کیا،جس کی وجہ سے تجارت اور جہازرانی کو ایسا بڑھاوا ملا جس کی نظیر رومن ایمپایر کے بعد نہیں ملتی،اور یورپ کے بازاروں کی دکانیں ریشمی کپڑوں شکر مصالحہ جات جیسے کالی مرچ ادرک لونگ اور الائچی وغیرہ کے ڈھیر سے بھر گئے،اور یہ اشیاء گیارہویں صدی عیسوی کے یورپ میں سامان تعیش شمار ہونے لگیں(۸)

لیکن مشہور واقعہ حطین ۵۸۳ھ/۱۱۸۷ء اور بیت المقدس کی مسلمانوں کے ہاتھوں میں سقوط(اسی سال بحر اوسط کے مغرب میں مملکت پرتگال وجود میں آئی) اور پھر عکا ۱۲۹۰ء کا سقوط اور تدریجی طور پر ایوبیوں کے بعد آنے والے ممالیک (خاندان غلامان) کے دور میں دیار شام سے صلیبیوں کو نکال بھگانے کی وجہ سے اطالوی جمہوریتوں کے معاشی حالات کو سخت زک پہنچی اور یہاں کے بہت سارے مشہور کاروباری خاندان افلاس اور قلاشی کا شکار ہوگئے(۹)

یہاں سے تیرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں جنوہ والوں نے فارس (ایران ) کے منگولوں کے ساتھ باہمی تعاون اور افہام تفہیم سے ہندوستان کے بری راستے سے خلیج عرب (فارس) تک پھر یہاں سے بحر اوسط کی مشرقی بندرگاہوں تک مصالحہ جات کی درآمد کا خاکہ بنایا،حالانکہ یہ سوچ نافذ العمل نہ ہوسکی، لیکن اس کے نتیجے میں مصالحہ جات کے علاقوں تک نئے راستے کی تلاش کی ان کی خواہش تیز تر ہوگئی،اس دوڑ کے نتیجے میں جنوہ اور وینس میں متعدد جنگیں چھڑ گئیں اور جنوہ کو بھاری تجارتی نقصان اٹھانا پڑا اور بحر اوسط کی کئی ایک بندرگاہیں اس کی بالادستی سے نکل گئیں (۱۰)

لیکن وینس نے صلیبی جنگوں کے بعد شام میں ہونے والے نقصانات کی بھرپائی مشرق کی درآمدات کے دوسرے تجارتی شہروں قاہرہ اور اسکندریہ سے کی، جب کہ یہ دونوں شہر ہندوستان چین ملقا اور انڈونیشی جزیروں سے یورپ کے لئے آنے والے سامان تجارت کے اہم ٹرانزٹ پورٹ بن گئے،ان کی اہمیت مصر میں سلطنت فاطمی کی دور ہی سے ہونے لگی تھی،وینس نے اپنے تعلقات مصر شام اور حجاز کے ممالیک سلاطین سے مضبوط کئے اور بحر احمر اور خلیج عرب (فارس) کے راستے آنے والے مشرقی سامان تجارت پر اپنی مونوپولی مضبوط کی ،اس غرض سے وینس نے اپنے چھ بحری بیڑے تیار کئے جن کی مدد سے پندرھویں صدی میں اس نے بے تحاشہ منافع کمایا جس سے ان جمہوریتوں کو بحر اوسط کے اطراف اپنی چودھراہت قائم کرنے میں مدد ملی(۱۱)۔

یہاں سے وینس اور جنوہ کے تاجر قاہرہ اسکندریہ اور شام کے تاجروں کی دلالی میں دب سے گئے،اور ان کی حیثیت ممالیک سلاطین کے ماتحت شام و مصر کی سرزمین سے گذرنے والے سامان تجارت پر ٹیکس دے کر مال چھڑانے والے تقسیم کنندگان کی سی ہوگئی(۱۲)

یہ ٹیکس کبھی کبھار چیزوں کی اصل قیمت سے تین گنا زیادہ بڑھ جاتا تھا، لہذا پندرھویں صدی میں یورپ کا اصل ہد ف عرب اور مسلمانوں کی سرزمیں سے گذرے اور ان کی وساطت کے بغیر براہ راست مصالحہ جات کے اصل علاقوں تک رسائی ہو گیا تھا۔

یورپ کے جغرافیائی انکشافات کی تحریک کا آغاز اس سے ایک صدی پیشتر مارکوپولو جیسے سیاحوں کے انفرادی طورپر کئے گئے سفروں اور مہم جوئیوں سے ہوگیا تھا (۱۳)

ایک دوسرا سفریوگولینو دی فالڈو Ugolino de Vivaldo نے ۱۲۹۱ء میں ہندوستان پہنچنے کی غرض سے جنوہ سے جبل الطارق اور مشرقی ساحل افریقہ کا کیا تھا ، لیکن بعد میں اس کے نتائج معلوم نہ ہوسکے (۱۴)

پھرحکومتوں کی جانب سے مصالحہ جات اور سونے کی سرزمینوں تک رسائی کے لئے کوششیں شروع ہوگئی، اس کے ساتھ ہی ۱۳۰۰ء ۔ ۱۵۰۰ء کے دوران یورپ کی نشأة ثانیہ نے جسے اس وقت یورپ کی پیدائش نو کا نام دیا گیا تھا ان انکشافات میں کمک کا اہم فیکٹر ثابت ہوئی ، خاص طور پر جب سے یورپ کے اہم شہروں میں سرمایہ دار طبقہ نے جنم لیا جس سے یورپ کی اقتصادیات کی ترقی میں مدد ملی،اس منفعت کے تبادلہ میں اس سرمایہ دار طبقہ نے جغرافیائی انکشافات کی مہموں کو آگے بڑھا یا جس سے ظاہر ہوگیا کہ جو چیز آنکھوں سے اوجھل ہو وہ اپنے ساتھ دولت لے آتی ہے،اس پر آپ دور وسطی میں یورپ کی نشأة ثانیہ میں اثراندازہونے والے ان تہذیبی مراکز پر نگاہ دوڑائیں:

* جزئرہ نمائے ایبریا (اندلس)

* جزیرہ سسلی اور جنوب اٹلی

* دیار مشرق عربی (شام و مصر) صلیبی جنگوں کے دوران (۱۵)

حالانکہ اٹلی کے سمندری شہروں جیسے وینس اور جنوہ نے مشرق سے تجارت اور اس کی یورپ میں مونوپولی کے طفیل اقتصادی خوشحالی کا مزہ اٹھایاتھا، لیکن یورپ کی نشأة ثانیہ کے نشانات اٹلی کے دوسرے شہروں فلورنس وغیرہ میں بھی نظر آنے لگے تھے،ان شہروں نے مشرق کی عربی اسلامی تہذیب سے خوب خوشہ چینی کی جس سے یہاں علم اور دانشوروں کی تحریک پھلی پھولی، لہذا یہ تہذیب میں یورپ کے دوسرے شہروں پر بازی لے گئے۔

اٹلی کے ان شہروں خصوصا جنوہ کے لوگوں نے چودھویں صدی میں اقتصادی حالات خراب ہونے پر یہاں سے اسپین اور پرتگال اور جزیرہ نمائے ایبیریا کو ہجرت کی ، اس وقت یہ مملکتیں اسپین سے مسلمانوں کے وجود کو نیست و نابود کرنے اور اس جزیرہ نما سے اسلام کے نام لیواوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی تھیں اور اس غرض سے یہاں کی مسلم مملکتوں کے ساتھ ان کی جنگیں اپنے عروج پر تھیں اوریہ ان کی اقتصادی شریانوں کو شمال افریقہ اور مشرق عربی سے کاٹنے کے لئے کوشاں تھیں(۱۶)

تو ان سائنس دانوں کے جنہیں اسلامی تہذیب وثقافت کے سرچشموں سے جغرافیائی اور فلکی معلومات دستیاب ہوئی تھیں ان کے ساتھ ملنے سے اس جغرافیائی انکشافات کی تحریک کو آگے بڑھانے میں زبردست مدد ملی، جس کے نتیجے میں بروبحر اور کرہ ارضی اور اس کے اطراف سفر و سیاحت کے بارے میں روشن افکاروخیالات اکٹھا ہونے لگے ( یورپ میں جدید دو ر یورپ والوں کے نقطہ نظر سے ۸۵۷ھ/۱۴۵۳ء سے شروع ہوتا ہے جب قسطنطنیہ پر عثمانیوں کا قبضہ ہوا تھا اور مشرقی یورپ میں اسلامی عثمانیوں کی یلغار شروع ہوئی تھی )،یہاں تک کہ نئے یورپ کے دور کے آغاز میں یہ بات عام ہوگئی کہ مشرقی ایشیاء کا آخری سرا چین جاپان اور مصالحہ جات کے جزیروں پر ختم ہوتا ہے(۱۷)

جس چیز نے عملی طور پر مصالحہ جات کے سرچشموں کی تلاش میں مہم جوئی اور جغرافیائی انکشافات کی تحریک کے آغاز کے بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور کیا وہ یورپ کی نشأة ثانیہ کے اہم تہذیبی پہلو جیسے علمی اداروں کا قیام (اکیڈمیاں کتب خانے اور اسکول وغیرہ) تھے جو کہ افریقی یونانی لاطینی تحقیقات کی سرپرستی کرتے تھے اور علم آثار اور تاریخ کا اہتمام کرتے تھے،اور نئی ایجادات جیسے طباعت کے آلات اور بارود کی ایجاد تھی جس نے جنگی سسٹم میں زبردست انقلاب برپا کی تھی،اور متعدد فلکی آلات تک ان کی رسائی تھی جس نے علم البحار اور سمندری معلومات میں بڑا کردا ر ادا کیا،جیسے اسطرلاب قطب نما ، متحرک گیر وغیرہ ، ان سب نے جہازرانی کے مفہوم کو وسعت دی اور قدیم بوسیدہ دیومالائی خرافاتی افکار وخیالات کو نکال باہر پھینکا،ایک نامعلوم کی تلاش میں یورپ کی جغرافیائی انکشافات کی تحریک کے راستے سے روڑے ہٹائے اور مشرق کے پانیوں تک پرتگالیوں کو پہنچنے کی راہ ہموار کی۔(۱۸)

***

حوالہ جات

(۱)            Panikkar ,k.M, : Asia and Western Dominace (London1959) p.2

(۲ )           محی الدین الالوائی : مجلة ثقافة الھند ، (۱۹۵۹) ۱۔۱۲ ص ۳۲

(۳)           Boies , penrose, Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K 1960 p. 2

(۴)           سونیا ۔ی۔ ھاو :فی طلب التوابل ، ترجمہ محمد عزیز رفعت ، (القاہرہ ،۱۹۵۷) ص ۱۳

(۵)           ول دیورنٹ ، قصة الحضارة ، عصر الایمان (بیروت ۱۹۸۸) ج ۴ باب ۲۳Story Of Civilisation

(۶)            عبدا لعزیز محمد الشناوی ، اوربا فی مطلع العصور الحدیثة (القاہرة ۹۵۹) ص ۲۰۱

(۷)           البندقیہ : جمہوریة ارستقراطیہ ص ۱۴۶

(۸)           ول دیورنٹ ، قصة الحضارة ، عصر الایمان (بیروت ۱۹۸۸) ج ۴ ص ۶۸Story Of Civilisation

(۹)            رینیہ کلوزییہ ، تطور الفکر الجغرافی ، ترجمة عبد الرحمن حمیدہ (دمشق ۱۹۸۲) ص ۵۱

(۱۰)           Panikkar ,k.M, : Asia and Western Dominace (London1959) p.23

(۱۱)           اثر تحول التجارة العالمیة الی راس الرجاء الصالح علی مصر و عالم البحر المتوسط ص ۲۷

(۱۲)           رینیہ کلوزییہ ، تطور الفکر الجغرافی ، ترجمة عبد الرحمن حمیدہ (دمشق ۱۹۸۲) ص ۵۱

(۱۳) Boies , penrose, Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K 10.11

(۱۴)          Panikkar ,k.M, : Asia and Western Dominace (London1959) p.32

Boies , penrose, Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K p17

(۱۵)          عبدا لعزیز محمد الشناوی ، اوربا فی مطلع العصور الحدیثة (القاہرة ۹۵۹) ص ۲۰۱

فاروق اباظہ ، اثر تحول التجارة العالمیہ الی راس الرجاء الصالح علی مصر و عالم البحر المتوسط اثناء القرن السادس عشر (القاہرة ۱۹۸۶)

(۱۶)           فیجی جی دی ، تاریخ غرب افریقیا ، ترجمہ و تعلیق السید یوسف نصر (القاہرة ۱۹۸۲) ص ۱۰۷

(۱۷)          ھ ۔ا۔ل۔فیشر ، تاریخ اوربا العصور الوسطی ، ترجمہ مصطفی زیادہ و آخرون (مصر ۱۹۵۷) ۴۶۳

(۱۸)          محمد حمید السلمان ، الغزو البرتغالی للجنوب العربی و الخلیج (ابوظبی ۲۰۰۴) ص ۵۔۱۲

***