ماهنامه دارالعلوم ، شماره 2 ، جلد: 94 صفر – ربیع الاول 1431 ھ مطابق فروری 2010 ء

میرے قابل احترام اساتذئہ کرام

(۳)

شیخ المنطق والفلسفہ حضرت علاّمہ محمدابراہیم بلیاوی نوراللہ مرقدہ

از:  مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

 

جَبَلُ الْعِلْم (علم کا پہاڑ) کی تعبیر اگر کسی عالم کے لئے موزوں اور مناسب ہوسکتی ہے تو نہ صرف دارالعلوم دیوبند بلکہ عالم اسلام کے علمی حلقوں میں ایک ہی نام ہوسکتا ہے اور وہ تھے حضرت الاستاذ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی نوراللہ مرقدہ۔

حضرت مرحوم کا خاص میدان جس میں وہ امامت کا درجہ رکھتے تھے منطق اور فلسفہ تھا۔ بلاشبہ حضرت علامہ فن منطق اور فلسفہ پرحاوی تھے، فلسفے کے مشکل سے مشکل اور دقیق سے دقیق مسئلے کو اس خود اعتمادی کے ساتھ چندجملوں میں حل کردیتے تھے کہ معلوم ہوتاتھا کہ یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔

یہ تو ان لوگوں کا بیان ہے جنھوں نے حضرت علامہ سے منطق وفلسفے کی بڑی بڑی کتابیں حمد اللہ، صدرہ، شمس بازغہ، میرزاہد، مُلاّ جلال اور قاضی کا درس لیاہے۔

اس ناچیز کو دورئہ حدیث کے سال ۱۳۷۶ھ مطابق ۱۹۵۶/ میں حدیث کی کتاب ترمذی شریف حضرت علامہ سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ خلافِ معمول اُس سال حضرت نے بغیرکسی ناغے کے نہایت پابندی کے ساتھ پورے سال سبق پڑھایااور وقت پر کتاب مکمل کی ... سالانہ امتحان کا پرچہ آیاتو سارے سوالات کتاب کے آخری حصے سے تھے، مجھے یاد ہے کہ چند طلباء کے علاوہ اکثر طلباء کاغذ قلم لیے بیٹھے سوچ رہے تھے۔

میں سمجھتاتھا کہ حضرت علامہ کی شہرت منطق وفلسفہ میں زیادہ ہے شاید حدیث میں وہ مقام نہ ہو، لیکن جب سبق میں شرکت ہوئی اور حضرت کی تقریریں سنیں تواندازہ ہوا کہ آپ کو حدیث کے پڑھانے پر بھی منطق وفلسفہ سے کم قدرت نہیں ہے بلکہ ان فنون کی چاشنی سے حدیث کا رنگ کچھ اور نکھر آتاتھا۔

حضرت علامہ لمبی تقریر کرنے کے عادی نہ تھے، بات جامع اور مختصر ہوتی تھی، آپ کے درس کا صحیح لطف وہی اٹھاسکتا تھا جو اچھی طرح مطالعہ کرکے آپ کے سبق میں شریک ہو۔ حضرت علامہ کے درس کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ طالب علم کو فن سے مناسبت پیدا کردیتے تھے۔ حضرت نانوتوی رحمة الله عليه کی علمی تحقیقات اور مسلک دیوبند پر بڑی گہری نظر تھی۔ ایک مرتبہ مولانا معراج الحق صاحب تشریف فرماتھے، بات مسلک کی چل رہی تھی، مولانا معراج الحق صاحب نے سوال کیا حضرت سے کہ کیا لغت میں بھی ہمارا مسلک ہے...؟ فرمایا....! ہے۔

حضرت کے درسِ حدیث میں شرکت کرنے کے بعد ایسامحسوس ہوتا تھا کہ عمر کے اس حصے میں حضرت علامہ کی دلچسپی علوم عقلیہ کے بجائے علوم دینیہ سے زیادہ ہوگئی ہے، اس لئے جس لگن کے ساتھ وہ حدیث کا درس دیتے تھے وہ ان کی خاص توجہ کو ظاہر کرتاتھا۔

فقہ کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو حضرت علامہ کسی طرح چٹکیوں میں حل کردیتے تھے، اس کی ایک مثال مولاناسعید احمد اکبر آبادی نے تحریر فرمائی ہے:

مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا، شوریٰ کے اکثر ممبران حضرت علامہ کے شاگرد تھے، جو نہایت احترام کے ساتھ ملاقات کے لئے حاضر ہوتے تھے اورملاقات سے فائدہ اٹھاکراپنے مسائل بھی حل کرلیتے تھے۔ چند ممبرانِ شوریٰ جن میں حضرت مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی بھی شامل تھے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے... مولانا اکبرآبادی نے سوال کیا کہ جن مقامات پر سورج کئی کئی مہینے کے بعد طلوع ہوتا ہے وہاں پانچ وقت کی نماز کیسے ادا کی جائے گی، کیوں کہ نماز کی ادئیگی کے لئے سبب وجوب وقت ہے اور وہاں وقت ہی نہیں ہے...؟۔

حضرت علامہ نے جواب دیا کہ: ”وقت سبب وجوب کہاں ہے، وقت تو صرف علامت ہے“ ... یہ تھا حضرت علامہ کا انداز کہ چٹکی بجاتے ایک جملے میں سارا مسئلہ حل فرمادیا۔

* حضرت علامہ کے وقار اور رُعب کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے میں بہت زیادہ قریب آنے کا موقع نہیں مل سکا، مگر دارالعلوم سے فارغ ہونے کے تقریباً دو سال کے بعد ۱۹۵۸/ میں جب میں درجہٴ فارسی میں مدرس ہوا تو اس وقت حضرت علامہ ناظم تعلیمات ہوچکے تھے۔ پہلے تو مجھے یہی گھبراہٹ تھی کہ ان کی نظامت میں کیسے کام کروں گا،مگر دھیرے دھیرے قربت ہوتی گئی حضرت کی شفقتیں بڑھتی گئیں اور ان کے جوہر کچھ اور کھلتے گئے۔

اسی زمانے میں میں نے مسلم شریف پر کچھ کام کرنا شروع کیا اورمصفٰی اور مسوّیٰ پر بھی کچھ کام کا آغاز کیا تو اکثر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اپنی علمی مشکل ان سے حل کرلیتا۔

جب انھوں نے میری علمی دلچسپی دیکھی تو پہلے تو ذرا امتحان لیا اورجب میں ڈٹا رہا تو محسوس ہوا کہ کافی خوش ہیں اور متوجہ ہیں۔ اُن کے زمانے میں میاں اخترحسین صاحب رحمة الله عليه نائب ناظم تھے، انھوں نے مجھے بتایا کہ حضرت علامہ تم سے بہت خوش معلوم ہوتے ہیں، فرمارہے تھے کہ اس کو آگے بڑھانا چاہئے۔

مجھے پڑھانے کے زمانے میں یہ شوق رہتا تھا کہ ابتدائی کتابوں کے ساتھ ایک آدھ کوئی بڑی کتاب بھی میرے پاس رہے۔ اُدھر شعبہٴ فارسی کے صدر مدرس صاحب اس میں رکاوٹ ڈالتے تھے، حضرت علامہ کو معلوم ہوا تو انھوں نے صدر مدرس صاحب کو بلاکر کہا کہ اگر وہ پڑھانا چاہتا ہے تو پڑھانے دو،نہ پڑھاسکا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس طرح وہ حکمت اور تدبیر سے کام لیتے تھے۔ مجھے معلوم بھی نہیں ہوتا تھا اور وہ برابر میرے حالات سے باخبر رہتے تھے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ایک اعلیٰ درجے کے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامی امور پر بھی ان کی پوری نظر رہتی ہے... علامہ نازک مزاج تھے، ایک مرتبہ طبیعت ناساز تھی ... مزاج پرسی کے لئے گیا، طبیعت پوچھی تو خاموش رہے، میں نے سمجھا شاید سنا نہیں ہے، دوبارہ مزاج پوچھا،فرمایا مولوی صاحب بار بار نہیں پوچھتے مرض یاد آجاتا ہے۔

اصل میں حضرت علامہ بلا کے ذہین انسان تھے، جہاں ان میں اعلیٰ درجے کی علمی لیاقت تھی اور وہ واقعی علامہ کہلانے کے صحیح حق دار تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ روشن دل بھی تھے، اگرچہ ان کی شہرت علم کے میدان میں ہی زیادہ ہوئی، لیکن زہدوتقویٰ میں بھی ان کا مقام کچھ کم نہ تھا۔

* مشرقی یوپی کے شہر بلیا میں ۱۳۰۴ھ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ ان کا خاندان پنجاب کے ضلع جھنگ سے جون پور آیااور پھر کچھ عرصے کے بعد بلیا میں آباد ہوگیا۔ فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم جون پور میں مشہور طبیب مولانا حکیم جمیل الدین نگینوی سے حاصل کی۔

مولانا فضل حق خیرآبادی کے خاص شاگرد مولانا ہدایت اللہ خاں اور مولانا فاروق احمد صاحب سے معقولات کی کتابیں پڑھیں۔

حضرت مولانا رشیداحمد صاحب گنگوہی رحمة الله عليه کے خاص شاگرد مولانا عبدالغفار صاحب سے دینیات کی تعلیم حاصل کی۔

۱۳۲۵ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، پہلے ہدایہ، جلالین وغیرہ پڑھنے کے بعد ۱۳۲۷ھ میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔

۱۳۲۷ھ سے لے کر ۱۳۸۷ھ تک تقریباً ساٹھ سال آپ درس وتدریس سے وابستہ رہے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد اسی سال میں مدرسہ عالیہ فتح پوری کے مدرس دوم بنائے گئے، پھر عمری ضلع مرآباد کے مدرسہ میں کچھ عرصہ تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔

۱۳۳۱ھ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند میں بلالیاگیا۔ ۱۳۴۰ھ سے ۱۳۴۴ھ تک مدرسہ دارالعلوم مئو ضلع اعظم گڈھ اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ (بہار) میں صدارتِ تدریس کی خدمات انجام دیں۔ ۱۳۴۴ھ میں آپ کو پھر دارالعلوم دیوبند میں بلایاگیا، ۱۳۳۳ھ کی روداد میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیاگیا ہے:

”مولوی ابراہیم صاحب تمام علوم میں کامل الاستعداد ہیں، معقول وفلسفہ کی تمام کتابیں نہایت خوبی سے پڑھاتے ہیں، فلسفہ ومنطق اور کلام کے انتہائی اسباق صدرا، شمس بازغہ، قاضی مبارک ، حمد اللہ، امور عامہ کے علاوہ شرح مطالع، شرح اشارات وغیرہ پڑھاتے ہیں، طلباء کا بہت زیادہ میلان ان کی طرف رہتا ہے، نہایت خوش تقریر ہیں۔ غرض یہ ایک نہایت قابل قدر اور شہرت ووقعت حاصل کرنے والے مدرس ہیں۔“

۱۳۶۲ھ میں پھر دارالعلوم سے علیحدگی اختیار کی،اولاً جامعة الاسلامیہ ڈابھیل میں مسند صدارت کو رونق بخشی، وہاں کے بعدکچھ عرصے تک مدرسہ عالیہ فتح پوری میں صدارت تدریس کی خدمات انجام دیں اور بعد ازاں بنگال میں ہاٹ ہزاری ضلع چاٹگام کے مدرسہ میں صدرالمدرسین رہے اور بالآخر ۱۳۶۶ھ میں پھر دارالعلوم دیوبند آگئے۔

۱۳۷۷ھ میں آپ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه کے بعد دارالعلوم کی مسند صدارت پر فائز ہوئے اور ناظم تعلیمات بھی مقرر ہوئے اور تاوفات آپ اسی منصب پر رہے۔

آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے جوہندوپاک، بنگلہ دیش،ایشیاء اور افریقہ میں اپنے استاذ کا فیضان پھیلارہے ہیں۔

* حضرت علامہ شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمة الله عليه سے بیعت بھی کی تھی اور آپ کے خاص شاگرد بھی تھے۔

حضرت مولانا محمدیوسف بنّوری جیسے معتبر عالم جو کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه کے خاص شاگردوں میں ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ:

”حضرت مولانا بلیاوی دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز محقق عالم اور شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمة اللہ علیہ کے مخصوص تلامذہ میں سے تھے۔ درسیات کی مشکل ترین کتابوں کے اعلیٰ ترین مدرس اور استاذ تھے۔ اپنی حیات طیبہ کا بہت حصہ علوم نقلیہ وعقلیہ کی تدریس وتعلیم میں ہی صرف کیا اور پورے ساٹھ برس تک تدریس علوم دینیہ کی خدمت انجام دی۔ ذکاوت، قوت حافظہ اور حسن تعبیر میں خصوصاًمعقول ومنقول کی مشکلات کے حل کرنے میں یکتائے روزگار تھے اور ہندوپاک کے تقریباً تمام علماء کے بلاواسطہ یا بالواسطہ استاذ تھے اور اپنے علمی کمالات اور جامعیت کے اعتبار سے قدمائے سلف کی یادگار تھے۔“

مولانا سعید احمد اکبر آبادی مجلہ ”برہان“ کے اداریہ میں رقم طراز ہیں:

”ادھر عرصہٴ دراز سے حدیث و تفسیر کے ساتھ اشتغال زیادہ ہوگیا تھا، انہیں کا درس دیتے تھے اور انہیں کا مطالعہ کرتے تھے۔ انابت الیٰ اللہ اور روحانی کمالات ومزایا کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگئی تھی۔“

آخر میں لکھتے ہیں:

”عمر اگرچہ نوے کے لپیٹے میں تھی لیکن قوی اب بھی اچھے تھے۔ درس بھی دیتے تھے اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے انتظامی امور بھی سرانجام دیتے تھے۔ شوریٰ کے جلسوں میں گھنٹوں بیٹھے رہتے اوراس کی کارروائی میں شروع سے آخرتک پوری حاضرحواسی کے ساتھ شریک رہتے اور دوسرے معمولات بھی جاری تھے۔ ۲۶/نومبر ۱۹۶۷/ سے شوریٰ کا جلسہ شروع ہورہا تھا اس میں شرکت کی غرض سے ہم ۲۵کو ہی دیوبند پہنچ گئے تھے اور وہاں ظہر کی نماز کے بعد ایک کمیٹی کی میٹنگ میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت شاہ وصی اللہ صاحب کی وفات کا ٹیلی گرام بمبئی سے موصول ہوا۔ حضرت الاستاذ کو مکان پر جب یہ اطلاع پہنچی تو حضرت شاہ صاحب کے ساتھ غایت درجہ کے روحانی اور باطنی تعلق کے باعث آپ پر اس کا بہت غیرمعمولی اثرہوا اور صاحب فراش ہوگئے۔

چنانچہ شوریٰ کا جلسہ تین دن تک رہا مگر آپ کسی ایک نشست میں بھی شریک نہ ہوسکے۔ بہ ظاہر اسباب شاہ صاحب کا حادثہٴ وفات ہی حضرت الاستاذ کی صحت کے اچانک سقوط، حملہ فالج اور پھر موت کا سبب ہوا۔“

* ان کی چند تصانیف میں سے ایک رسالہ ”مصافحہ“ اور رسالہ ”تراویح“ اردو میں ہے۔ فارسی میں ”انوارالحکمة“ جو منطق وفلسفہ کے مضامین پر مشتمل ہے۔ سلم العلوم پر عربی حاشیہ ”ضیاء النجوم“ ہے۔ اورمیبذی خیالی پر آپ کے لکھے ہوئے حواشی ضائع ہوگئے۔

آخر عمر میں جامع ترمذی پر حاشیہ لکھ رہے تھے جس کے پورے ہونے کی نوبت نہ آسکی اور صحت خراب ہوتی چلی گئی۔ آخرکار ۲۴/رمضان المبارک ۱۳۸۷ھ مطابق ۲۷/دسمبر ۱۹۶۷/ بروز چہارشنبہ، دوپہر کے وقت عالم آخرت کا سفر اختیار کیا۔

اور علم کا یہ خزانہ قبرستان قاسمی دیوبند میں دفن کردیاگیا۔

فرصت ملے تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

حضرت علامہ کا سراپا بڑا باوقار تھا، لمبا قد، بھرا ہوا موزوں جسم، چہرے پر خوبصورت داڑھی، آواز بھاری پُرجلال، ہر لفظ نپاتلا، لہجہ دھیما مگر دل کو چھولینے والا۔

***