ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء

 

نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے....!

 

از: عزیز بلگامی

 

 

پچیسویں سورة کی سینتالیسوں آیت ہمارے سامنے ہے: ”( اے کرّہ ارض کے باشندو....!) اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے لباسِ لیل(کی نعمت بخشی) اورنیند کو(جسمانی و روحانی قوتوں کو مجتمع کرنے کے لیے )آرام و سکون کا ذریعہ بنایا اور دن کو(معاشی و دینی، فلاحی وسماجی ) سرگرمیوں میں مصروف رہنے کا ذریعہ....“

اِنسانی نسل کے اوّلین جوڑے کو رب تعالےٰ کی جانب سے جب کُر ّہِ ارض کی سمت اِذنِ سفر ملا تو اِن کے زادِ راہ میں اللہ کی رحمتیں شامل ہو گئی تھیں۔

          پُر خلوص دُعاؤں کے جواب میں اللہ تعالےٰ نے جنّت سے رخصتی کے وقت اِس فردوسی جوڑے کو ہدایت کی نعمت بھی عطا کردی تھی۔ جنّت کی دلفریب فضاؤں سے مانوس اِس اوّلین اِنسانی جوڑے کے خیر مقدم کے لیے زمین کی دلنشین و پر کیف فضائیں آنکھیں بچھائے کھڑی تھیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی اہلیہ محترمہ حضرت حو ّا علیھا السلام کے ہمراہ نہ صرف ایک بخشش یافتہ اوّلین انسانی جوڑا بن کر زمین پرتشریف لائے بلکہ حضرت آدم  عليه السلام کو نبوّت کا اولین اور ایک برگزیدہ منصب دار بھی بنا یا گیا تھا۔ چنانچہ اللہ کی خوشنودیوں سے مالامال اِس انسانی جوڑے نے جب زمین پر قدم رکھا تو دیکھا کہ یہاں انسانی زندگی کی نشوونما اور اس کی بقا کا ہر سامان موجود ہے۔ انسانی ضروریات کے تمام تر خزانوں سے دامانِ ارضی کومالا مال کر دیا گیا ہے۔ پہاڑوں کے بطن میں معدنیات اور Mineralsکے خزانے محفوظ کر دیے گیے ہیں۔ زمین کے بطن میں پٹرول اورگیسس کے سمندر کے سمندر اسٹور کرکے رکھے گیے ہیں۔ پہاڑوں کے نشیب و فراز پر عمارتی لکڑیوں کے جنگلات کے وسیع تر سلسلے پھیلا دیے گیے ہیں۔فلک بوس پہاڑوں کی دشوار گزار گھاٹیوں میں حضرتِ انسان کی نقل و حرکت کو سہل ترین بنا دیا گیا ہے۔ کہساروں کے دامن میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والی ہری بھری سپاٹ وادیاں بچھی ہیں،جہاں وہ اپنے سنگ ہائے میل نصب کر سکتا ہے، کہستانی نعمتوں سے متمتع ہو سکتا ہے۔اِس دشوار گزار راستوں پر سفر کے لیے تیز رفتار گھوڑے اور بار برداری کے لیے کھچر اور گدھے، ہاتھی اور اونٹ موجود ہیں۔ پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہ صرف زمین پر دریا ؤں کا ایک جال بچھا ہے بلکہ زیر زمیں پانی کی نہریں بھی بہا دی گئی ہیں۔ پھر اسی زمین پر بے پناہ وسعت رکھنے والے سمندروں کے کھارے پانی میں نمک جیسی ایک سہل الحصول لا زوال دولت بھی موجود ہے، جس کے بغیر غذاؤں میں حقیقی لذّت پیدا نہیں ہوتی۔

اُنہوں نے یہ بھی دیکھا کہ زمین پر سے انہیں ایک آسمان نظر آرہا ہے، جہاں ستاروں کی ایک خوبصورت انجمن سجی ہوئی ہے۔شب ہوتی ہے تو یہ ستارے اپنی محفل سجاتے ہیں، پھر خوبصورت سا چاند نمودار ہوتا ہے، صبح ہوتی ہے تو چمکدار سورج اپنی بنفشئی شعاعوں سے سارے عالم کو منور کردیتا ہے۔پھریہاں بادل اُٹھتے ہیں، ہوائیں چلتی ہیں،بادلوں میں بجلی لپکتی ہے،دفعتاً، بوندا باندی شروع ہوجاتی ہے، پھر زمین پر جل تھل کر دینے والی ایک زورکی بارش برستی ہے۔ صاف و شفاف پانی کے کل کل کرتے ہوئے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ ندیاں، جھیل،آبشار اور تالاب بھرجاتے ہیں۔ آکسیجن سے بھرپور صاف و شفاف فضائیں ، دل پذیر سبز لباس میں ملبوس نباتات کے سلسلے ، نت نیے رنگوں کے پھولوں سے معمورلہلہاتے ہوئے باغات، لذیذپھلوں کے بوجھ سے جھکی جھکی ٹہنیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ پھر زمین کی ہر شئے کو یہ حکم کہ جنت کے اِن نوواردین اور ان کی نسل کے لئے اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ مسخر ہوجاؤ، خدمت گزاربنو اورانہیں مسلسل فائدہ پہنچاتے رہو۔ ہاتھی سے کہا کہ انسان بظاہر کمزور ہے،اِس کی جسمانی ساخت اُس کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے،مگراُسے کمزور نہ سمجھنا، ہم نے اسے عقل اور علم سے مالامال کر دیا ہے۔اُس کے حوصلے بلند کر دیے ہیں، یہ کارہائے عظمت کی انجام دہی میں مصروف ہوگا، تم اپنی قوتوں کے ساتھ اس کے معاون بنے رہنا۔گھوڑوں سے کہا کہ اسکی سواری کے کام آنا،گدھوں اور خچروں سے کہا کہ اس کے سامان کو اٹھاکر چلنااور مویشیوں سے کہا کہ اسے دودھ،اون اور چمڑہ فراہم کرنا۔زمین کی تہہ میں موجود مختلف دھاتوں سے کہا گیا کہ حضرت انسان زمین پر تشریف لاتے ہیں، اِن کی خدمت کے لیے بانہیں پسارے رہناکہ وہ تمہارے استعمال کی جس شکل کے بھی خواہشمند ہوں گے، اُسے بہم پہنچانا۔ پٹرول اور انرجی کے منبعوں سے کہا گیا کہ جب بھی انسان تمہارے تعاون کے سوال کے ساتھ تم تک پہنچے، تم اپنے خزانوں کے دروازے کھول دینا اور ان کی سواریوں کو تیز رفتار بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑنا۔ کس کس مخلوق کا شمار کیا جائے کہ کس طرح اُسے انسان کی خدمت پر معمور کیا گیا ہے ۔زمین کی ہر مخلوق انسانوں کو ہر طرح سے سپورٹ کئے جارہی ہے، دنیا میں اس کی بقامیں معاون و مددگار ہے اور قیامت تک اسے یہ خدمت انجام دئے جانا ہے اور مسلسل دیے جانا ہے۔

          ہم اس مضمون میں انسانوں کی خدمت پر معمور ساری ہی نعمتوں کی تفصیل پیش کرنے سے قاصر ہی نہیں بلکہ یہ ہمارے بس کی بات ہی نہیں کہ ہم انسانوں کی خدمت میں مصروف کسی ایک شے ہی کی مکمل تفصیل پیش کر سکیں۔لیکن شکرانِ نعمت کے طور پر ہم” نیند“ کے کچھ پہلو پیش کر رہے ہیں، کچھ پہلو ہی پیش کر سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ ”نیند “ جیسی نعمت کا الفاظ میں احاطہ کسی کے بس میں نہیں۔”نیند“ کی ماہیت اور کیفیت پر زمانہٴ دراز سے غور و فکر کا سلسلہ جاری ہے۔ عصری علوم کی روشنی میں اِس پر مزید تحقیقات جاری ہیں ، جن کے نتیجے میں نہ جانے اور کتنے پہلو روشنی میں آئیں گے۔

یہ جو ہمارے سر پر چمکتا ہوا تابناک سورج ہے، جس کی فیض رسانی بذاتِ خود ایک الگ موضوع ہے، کاذکر پہلے ہو جائے، کیونکہ سورج کے طلوع و غروب کے نتیجے میں عالمِ وجود میں آنے والے دن اور رات سے نیند کا بڑا گہرا رشتہ ہے ۔ یہ بغیر کسی سستی اور کاہلی کے دنیائے انسانیت میں اجالا بکھیرنے میں مصروف ہے۔ اِس کی فیض رسانی کے ذکر کے لیے کسی دلیل یا لفاظی کی ضرورت بھی نہیں ۔ یہ فرمانبردار خادم دن بھر روشنی اور توانائی کا منبع بنا رہتا ہے،

 اپنے وقتِ مقررہ پر طلوع ہوتا ہے، اپنے وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ یہ اگر صرف روشنی کا منبع ہوتااور تپش سے خالی ہوتا تو سوچیے کہ کیا ہواہوتا۔ روئے زمین پربیکٹیریاکا ایک طوفان برپا ہو جاتاجو ہماری ساری غذاؤں اور پھل، پھول اورپودوں کو نیست و نابود کردیتا۔انسانی زندگی اپنے آثار کھو دیتی۔ اُس کا پھیلایا ہوا اُجالا اوراُس کی اُبلتی ہوئی توانائی انسانوں کے لیے کتنی عظیم نعمت ہے کہ انسان اپنی معیشت اور اپنے لیے رزق کی فراہمی کے لیے اِسی اُجالے میں بھاگ دوڑ کرنے کے قابل بنتا ہے ۔ دن کے اختتام پر جب یہ غروب ہونے لگتا ہے توتاریکی کرئہ ارض کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔ یہ تاریکی خود بھی ایک نعمت بن کر انسانوں کی خدمت کے لیے حاضر ہو جاتی ہے۔ رات دھیرے دھیرے جب اپنے پر پھیلاتی جاتی ہے تو گویا کسی چادر کی طرح ہمارے لیے لباس بن جاتی ہے۔سورج غروب نہ ہوتا تو شاید ہماری دن بھر کی تھکن ہمیں زندہ رہنے کے قابل نہ رکھتی۔لیکن انسانوں کے اِن قدرتی خادموں میں اتنی جرٴات کہاں کہ وہ ” فردوسی مخلوق“ کے لیے کسی قسم کے مسائل کھڑے کریں۔ ما بعد غروب آفتاب دن بھر کی ہماری تھکن،سورج کی توانائی کو اپنے بدن پر جھیل لینے کے بعد راحت و سکون کا ایک ایسا ماحول بنا دیتی ہے کہ ایک عجیب کیفیت سے ہمارا سامنا ہوتا ہے اور یہ کیفیت ہے” نیند“کی، جو ایک عظیم نعمت بن کر ہمارے سراپا پر چھا جاتی ہے۔ دلفریب لذّت کی حامل نیند کی یہی کیفیت ہے جو ہمیں اپنے بازووٴں میں سمیٹ لیتی ہے اور دنیا و ما فیہا سے بے خبر کر دیتی ہے۔ رات کی تاریکی میں دل و دماغ سے نکلنے والے سگنلس جسمانی وحیاتیاتی اعضاء کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ نیند کے ذریعے تم اپنی کھوئی ہوئی انرجی دوبارہ حاصل کرلو اور جوں ہی تمہاری بیٹری ریچارج ہو جائے تو تم دیکھو گے کہ صبح نمودار ہوتے ہوتے تم اپنی توانائی کو دوبارہ مجتمع کر چکے ہو۔اٹہترویں سورة کی نویں،دسویں اور گیارہویں آیتوں میں فرمایا:”(انسانو....!) تمہاری نیند کو ہم نے تمہارے لئے سکون کا ذریعہ بنایا،(تاکہ تم اپنی کھوئی ہوئی انرجی کو ریسٹورکرسکو) اور(اِسی طرح) ہم نے رات کو بھی(مانندِ) لباس بنایا (تاکہ یہ تمہیں ڈھانپ لے)، نیز ہم نے دن کو( حصولِ )معاش کے لیے(دوڑ دھوپ کرنے کا ذریعہ) بنایا۔“

پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے جسم کی ساخت کو کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہمارے بدن کو ”نیند“ کی اور اِس ”نیند“ کے ذریعہ توانائی کے ایک متناسب ڈوز کی مسلسل ضرورت رہتی ہے اور یہ سورج اور چاند،دن اور رات،سردی اور گرمی کے قدرتی سائیکل سے ہمارے جسم کے لیے آرام اور توانائی سے جوڑ دیا گیا ہے جس کی شکل” نیند“ ہے۔ ہمارا جسم لازماً ایک مستقل جسمانی تپش لیے ہوئے ہوتا ہے۔ایک صحت مند جسم کی تپش میں صفر اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا تغیرآتا رہتاہے ۔اِس تغیر کاکم از کم پانچ گھنٹوں اورزیادہ سے زیادہ اٹھارہ گھنٹوں میں رونما ہونا لازمی ہے۔ نیند کے احساس سے جسمانی تپش کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ جسم کی حرارت جب کم ہو جاتی ہے تو نیند کا احساس جاگتا ہے اور جب یہی تپش بڑھ جاتی ہے تو ہم نیند سے جاگ جاتے ہیں۔

          اپنی آخری کتاب میں رب تعالیٰ نے رات اور دن،سونے اور جاگنے کے اس عمل کی وجہ بھی بیان فرمائی اور انسان کی عقلِ سلیم کو بھی اپیل کی کہ اس پروسس پر غور کرو کہ کس طرح تمہارا رب تم پر اپنی نعمتیں نچھاور کر رہا ہے۔اِن ہی نعمتوں کے درمیان، اِن ہی کے تعاون سے تم ایک خاص مخلوق بن کر محوِ سفر ہواور تمہیں احساس ہو کہ نہ ہو ،تم ایک مخصوص رفتار سے اپنی عمر اس دنیا میں پوری کر رہے ہو۔بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہوئے تم بوڑھے ہوتے جارہے ہو۔ عمر کے اِس سفر میں رات اور دن،سورج اور چاند، نیند اور بیداری کے مراحل آرہے ہیں اور رفتہ رفتہ تم اپنی عمرکی آخری منزل پر پہنچ کر رہو گے،جہاں ٹھہر کر تم سوچنے لگو گے کہ یہ سب کچھ کیا تھا، یہ سفر کیسا تھا۔تب شاید تمہیں یہ احساس ہو جائے کہ یہ سارا سرکل دراصل تمہارے امتحان کے چلااور اب تمہیں موت کے دروازے سے گزر کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔اتنی ساری نعمتیں جو تم پر لٹائی گئیں،ان سے متمتع ہوکردنیا میں گذارے گئے تمہارے شب وروز کا تمہیں اپنے مالک کو حساب دینا ہے۔

ہماری وارننگ کی خاطر اس پیکیجPackage کا تذکرہ ہمارے رب تعالےٰ نے اپنی آخری کتاب کی چھٹی سورة کی ساٹھویں آیت میں پہلے ہی کر دیا تھا:”اور وہی تو ہے جو بہ ساعتِ لیل ، تم پر(بہ شکلِ نیند گویا) وفات (کی کیفیت) طاری کردیتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ بہ ساعتِ دن ، تم کن (مشقت طلب)مصروفیات میں سرگرمِ عمل رہے۔ (اِسی طرح اس عارضی موت کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے )پھروہ(دوبارہ) تمہیں جلا اٹھاتا ہے ، تاکہ (نیند اور بیداری کے اِس Cycleکے ذریعہ تمہاری عمر کا)مقررہ وقت پورا کرے، پھر تم(اپنی عمر کے اختتام پر) اٰسی کی(بارگاہ کی) طرف لوٹ جاؤ گے(جہاں) پھر وہ تمہیں مطلع کرے گا کہ (دنیاوی زندگی میں) تمہاری مصروفیات کیا رہیں۔“

ہم جانتے ہیں ایک انسان اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ حالت نیند میں گذارتا ہے۔ اس کا بقیہ دوتہائی وقت حالت بیداری میں گذرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سوال ضرور کھڑا ہو گا کہ عمل کے لیے اس محدود اور طے شدہ وقت میں اس نے اپنی ذات کو کن مقاصد کے حصول کے لیے مختص کر رکھا تھا! دنیا میں امن و شانتی پیش نظر تھی یا اسے جائے فتنہ بنا نا مقصد رہا!لوگوں کی زندگیوں میں اندھیرے پھیلائے یا روشنی! اپنے وجود کواُجالوں کا مرکز بنایا تھا یا اپنے غرور و تکبر، غصہ ا ور جذبہٴ انتقام کا محور! کہیں اِس نے زمین کی صورت تو نہیں بگاڑ دی تھی!پھر اُسے سچ کے سوا کچھ کہنے کی ہمت نہ ہو سکے گی کیوں کہ اُس کا ریکارڈ تیار رہے گااور اسی ریکارڈ کی بنیاد پر حساب کے دن اُسے اپنے مالک کے سامنے ایک ایک لمحے میں سرزد شدہ دنیا وی کارناموں یا کرتوتوں کا حساب دینا ہوگا۔چنانچہ نیند بھی جو ہمارے رب کی ایک بیش بہا نعمت ہے، اس کا حساب بھی دینا ہوگا۔

واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں” نیند “ بڑا اہم رول اداکرتی ہے۔جیسے،انسان کی زندگی میں دھوپ اورچھاؤں،رنج اور غم،خوشی اور راحت کے لمحات آتے جاتے رہتے ہیں۔ دنیا میں انسان کی کوئی ایک حالت ہمیشہ نہیں رہتی۔ چاہے غم ہوں کہ لمحاتِ راحت۔بعض اوقات کچھ ایسے حادثات ہوجاتے ہیں،جو انسان کے لئے ناقابل برداشت دکھ اور غم کا باعث بنتے ہیں۔ان حالات میں انسان اپنے آپ کو بالکل بے سہارا محسوس کرتا ہے۔ مایوسی کے سمند ر میں غرق رہتا ہے۔ اس کا غم اس درجے بڑھ جاتا ہے کہ اسے اپنے وجود سے،اپنی ہی زندگی سے شدید بیزاری ہونے لگتی ہے۔ غم اور غصے،افسوس اور دکھ میں وہ اتنا غرق ہوتا ہے کہ خود اُس کا جی چاہتا ہے کہ اپنا ہی نقصان کر ڈالے۔ اپنی ہی زندگی اسے بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اسکی قوّتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے۔لیکن اسی حالت میں اُسے اگر نیند آجائے،تو اس کا قلب و ذہن ایک ایسا آرام پاتا ہے کہ،جاگنے کے بعد اپنے رنج والم کااُس کا احساس کسی درجہ کم ہونے لگتا ہے۔پھر اسی نیند اور بیداری کے سائیکل کی وجہ سے چند دنوں میں وہ دکھ اسکے لئے قابل برداشت ہوتا چلاجاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی زندگی سے محو ہو جاتا ہے۔ سائنس بھی نیند کو ایک نعمت کا درجہ دیتی ہے،جو نہ صرف انسان کے جسم اور بدن کی راحت کا سامان ہے،بلکہ اسکے پژمردہ جذبات اور احساسات کے لئے بھی قوت بن جاتی ہے۔ انسان کا ذہن اور اسکے حواس خمسہ،دورانِ بیداری پوری قوت اورEfficiency کے ساتھ کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان حواس خمسہ کو بھی ایک خاص مقدار میں آرام کی ضرورت ہوتی ہے،جو نیند کے ذریعے ہی پوری ہوتی ہے۔

 کم خوابی یا شب بیداری کا انسانی جسم اور دماغ پر بڑا شدید اثر ہوتا ہے۔ ناکافی نیند کی وجہ سے بیداری کی حالت میں اعضاء کو دوگنی محنت کرنی ہوتی ہے۔ نیزانسان کی کارکردگی میں فرق آجاتا ہے۔ اسکے دل اور دماغ کا باہمی تعلق ایک طرح سے ڈسٹرب ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے اہم ترین معاملات میں وہ صحیح فیصلہ پر نہیں پہنچ پاتا اور اس طرح اپنا ہی نقصان کر لیتا ہے۔جو لوگ کم خوابی کے شکار ہیں اُن ہی سے نیند کی قدر و قیمت معلوم کی جاسکتی ہے۔ جن لوگوں کو آسانی سے نیند آجاتی ہے،وہ اس عظیم نعمت کی قدرکیا جانیں! یہ ایک المیہ ہے کہ جب تک انسان کے پاس کوئی نعمت موجود رہتی ہے تب تک وہ اُس کی قدر و قیمت سے غافل رہتا ہے۔ مگر جوں ہی یہ نعمت اُس سے چھن جاتی ہے تب اسے اسکی قدر وقیمت معلوم ہونے لگتی ہے۔ اسی لئے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں پانچ نہایت ہی اہم باتوں کی قدر کرنے کی ان الفاظ میں تعلیم دی ہے:”حضرت عمروبن میمون اودی رضى الله عنهس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو نصیحت فرمائی : پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو(یاقدر کرو)۔ (۱)جوانی کوبڑھاپے سے پہلے،(۲) صحت وتندرستی کو بیماری سے پہلے،(۳)مالداری کو محتاجی سے پہلے، (۴)فراغت و فرصت کومشغولیت سے پہلے اور (۵) زندگی کو موت سے پہلے۔“

(مشکوٰة شریف. کِتَابُ الرِّفَاقِ.س فصل دوم)۔

نیند اور بیداری کی یہ عارضی گردش ختم ہوتے ہی ،پھر موت کی ایک طویل نیند کے بعد جو بیداری ہونے والی ہے،وہاں سے ایک ایسی زندگی کی ابتداء ہوگی جس میں ہرفرد کو، دنیا میں گذری اپنی پہلی زندگی کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا،جس کے بارے میں نعمتِ نیند کی تخلیق کرنے والے نے اپنی آخری کتاب کی دوسری سورة کی دو سو اکاسّی ویں آیت میں فرمایا:”اور خوف کھاؤ( جوابدہی کے)اُس دن سے جس دن بارگاہِ الٰہی میں تمہاری واپسی ہوگی،پھر ہرفردِ متنفس کو اُس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اورکسی کو بھی ظلم کاہدف نہیں بنایا جائے گا۔“

آنے والی اِسی طویل زندگی کی فکر کرتے ہوئے ایک باشعور انسان کو چاہیے کہ، آج دنیا میں اپنے وجود سے انسانیت کو راحت پہنچائے ۔ لوگوں کی زندگی سے مایوسی ،ناامیدی اور جہالت کی تاریکیوں کو ہٹاکر ،کتاب ہدایت کے نور کی ان تک ترسیل کرے۔ یہ زمین ،جیسا کہ اوپر کہا گیاانسانوں کے لئے ایک گلستان کی مانند ہے۔ اس میں خرابی پیدا کرنا اور اس کی ویرانی کے درپے ہونا، اسے ڈسٹرب کرناکیوں کر مناسب ہو سکتا ہے۔ بلکہ مناسب تو یہی کہ اسے سنوارنے اورنکھارنے کی فکر کی جائے۔اپنی اُخروی زندگی کوکامیاب بنانے کے ضابطوں کو کتاب اللہ سے معلوم کیا جائے اور اپنے رب کی رضا کی جستجو کی جائے،تاکہ سدابہار آسودگیوں کا اپنے آپ کو حقدار بنایا جاسکے ۔ ہمارے مالک نے اپنی الکتاب کی اٹھائیسویں سورةالقصص کی تراسّیویں آیت میں ان ضابطوں کا تذکرہ فرمایاہے:”بیشک آخرت کا وہ سدابہار گھر،ہم نے اُن لوگوں کے لئے مختص کررکھا ہے،جو زمین میں فساد پھیلانا نہیں چاہتے ۔ بیشک بہترانجام تو اللہ سے ڈرڈر کر زندگی گذارنے والوں ہی کا ہونا ہے۔“

کیااب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اِن وارننگوں سے درسِ عبرت حاصل کریں ،تاکہ حالتِ بیداری میں عمل ممکن ہو! ایک خواب کی شکل میں اس مدت کو گذارنے سے یاصرف تمنائیں کرتے رہنے سے ہماری ابدی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ کہیں ہمیں پچھتانانہ پڑے کہ

نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے

کھل گئی آنکھ تو پھر ننید کے لمحے نہ ملے

 جنت کے اِن دو مسافروں نے زمین پراپنے استقبال کے ساتھ جن جن نعمتوں کو موجود پایا اُن کا تذکرہ نہ کسی قلم کے بس میں ہے نہ کسی ذہن کے احاطہٴ سوچ میں سما سکتا ہے۔ پوری زندگی ختم ہو جائے گی اور ہم اِن نعمتوں کے ذکر کا اختتام کرنے سے قاصر ہی رہیں گے۔اِس مقام پر ہمیں سورہٴ اِبراہیم کی ترتالیسویں آیت پڑھے بغیر چارہ نہیں رہے گا،جس میں رب تعالےٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:”اور( آدم کے بیٹو!تمہارے رب نے ) تمہارے لئے ہر وہ شئے فراہم کر رکھی ہے جس کی تمہاری فطرت سوالی ہو سکتی تھی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کاشمار کرنا چاہوتو(تھک جاؤ گے لیکن اُس کی نا قابلِ تصور نعمتوں کا) شمار نہیں کر سکو گے۔ بلاشبہ(بڑا عجیب واقع ہواہے) اِنسان کہ ناشکری کی روش سے نقصان بھی اُٹھاتا ہے اور خود ہی ظالم بن جاتا ہے۔“

بہر کیف، جو فردوسی جوڑا جنت سے یہاں آیا تھا اُسے دوبارہ کامیاب ہو کر اپنے اصلی مقام کا حقدار اور اہل بننا ہے۔ آدم کے بیٹوں میں ہے کوئی اپنی کھوئی ہوئی متاع کی جستجو کا آرزو مند؟

***