ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء

انسانیت کا نجات دہندہ - رحمة للعالمین یارینڈ

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی

۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

پرانا محاورہ ہے مگر اس کی سچائی ابدی ہے کہ سوپ بولے تو بولے چھلنی بھی بولے جس میں سو چھید۔ دنیا کی فسادی طاقتوں کے سرداروں کی اگوائی میں اسلام کی اصلاح کاکام جو 9/11سے پہلے پردے کے پیچھے سے چلایا جارہا تھا۔ اب مفسد اعظم بُش کے اعلانِ کروسیڈ کے بعد کھلم کھلا چلایا جارہا ہے۔ بڑے بڑے ظالم سردار اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی (اسلام) کے خلاف جنگ جتنی نظر آرہی ہے وہ اس سے بہت کم ہے جتنی کہ پردے کے پیچھے سے چلائی جارہی ہے؛ جس جنگ میں کوئی کسرچھوڑی نہیں جارہی ہے اور ہر لالچ اور ہر قسم کا خوف استعمال کیا جارہا ہے جس کا نعرئہ جنگ ہی رعب اور خوف ہے۔ دنیا بھر کی فسادی طاقتوں نے اسلحے کی جنگ کے ساتھ نظریات کی جنگ بھی نہایت منظم اور مربوط طریقے پر چھیڑدی ہے اور اس جنگ کا نقشہ امریکہ کے شاطر دماغ، پالیسی سازوں کی انجمن رینڈکار پوریشن (Rand Corporation)میں اپنی بہترین فوجی، سماجی، تحقیقاتی ماہرین کی مدد سے ترتیب دیا ہے۔ اس پلان کو بڑے مطالعہ اور تحقیق کے بعد عمل میں لایا جارہا ہے۔ پلان میں بنیادی بات یہ بتائی گئی ہے کہ ”مسلم دنیا میں انتہاپسند؛ اسلام پسند کم ہیں“ مگر عالمی طور پر یہ لوگ منظم اور مربوط ہیں۔اس کے الٹا اسلام بیزار، بے عمل، بدعمل یہاں تک کہ بدعقیدہ مسلمانوں کی تعداد اکثریت میں ہیں مگر ان کو منظم کرنے والا کوئی مرکز نہیں ہے جو ان کو عالمی پیمانے پر منظم کرے۔ یہ کام اب مغرب یعنی یوروپ اور امریکہ کی قیادت میں کھلے طور پر کیا جائے گا اور اس کا نام ہوگا ”اسلام اور مسلمانوں کی اصلاح“ اس پروگرام کے تحت مسلمانوں میں عقیدہ فکروعمل کا فساد پھیلانے کا کام نہایت ہوشیاری سے اور شریعت کی اصطلاحات اور سیرت رسول صلى الله عليه وسلم کو توڑ مروڑ کر کیا جائے گا، اس مہم میں تعلیم، اطلاعات، تفریح، تحقیق کو بنیادی اسلحہ کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں، دانشوروں، علماء (دنیا پرست وایمان فروش) سیاست دانوں، میڈیا (مقامی وبین الاقوامی) کو بڑے پیمانے پر منظم اور مربوط کیاگیاہے۔ مختلف حیلوں حوالوں ، ڈئیلاگ، مکالمہ، رواداری، تکثیریت کے نام پر) سے اس زمرہ کے مسلمانوں کو اکٹھاکیا جارہاہے ان کا اعتبار سماج میں انعامات، القابات اور اعزازات کے ذریعے بنایا جارہاہے اور سب کچھ اسلام اور مسلمانوں کا ہمدرد بن کر اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی خوشحالی وترقی کے نام پر کیاجارہا ہے۔ رینڈ کارپوریشن کی سفارشات میں اہم نکتہ مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلاف کو ہوا دینا بھی شامل ہے اور مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کی تقسیم کو بڑھاوا دینا بھی شامل ہے۔ یہ جنگ فسادیوں کی مشینری کا ہر جز الگ الگ مربوط ہوکر لڑرہا ہے۔ گوریلا جنگ؛ بلیک واٹر Black Water اور Zee Security جیسی نیم پرائیویٹ تنظیموں کے ساتھ خاص طور پر خفیہ ایجنسیوں؛ سابق فوجیوں؛ رفاہی اداروں؛ تعلیمی اور تحقیقی اداروں؛ غریبوں کی ترقیاتی اسکیموں ہر ممکن طریقہ سے جو چوطرفہ ہلہ خالص اسلامی فکر پر بول دیاگیا ہے۔ آئندہ سطروں میں اس ذہنی، فکری تطہیر (برین واشنگ) کا مختصر جائزہ پیش ہے:

”اسلامی جزبہ چاہئے اسلامی ریاست نہیں“ کا سا بلینکا مراکش سے مغرب کے پیادے فرماتے ہیں؛ اسلامی ریاست کی اصطلاح مبہم ہے۔ مغربی ممالک ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا میں بھی نزاعی اوراختلافی بنی ہوئی ہے۔ بہت سے ماہرین الٰہیات کے خیال میں اسلامی ریاست کا تصور اسلامی اخلاقیات اوراسلامی اقدار کی راہ میں رُکاوٹ ہے۔ ایران کے معروف اسکالر عبدالکریم سروش کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں شہری؛ سیاسی؛ مذہبی حقوق کو برقرار رکھنا کتنا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ مصر میں اخوان المسلمین کی نئی شاخ کا بھی یہی موقف ہے کہ آج کی دنیا میں اسلامی ریاست کا تصور قابل عمل نہیں ہے۔ تیونس کے ایک مصنف اور دانشور محمد طالبی مسلم معاشروں پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛ اسلامی ریاست کے تصور کو خیرباد کہہ کر عالمی امت کی تشکیل کے لئے کام کریں جو ایک ایسی عالمی برادری ہو جو آزادی اور انصاف کی بنیادی اقدار کا احترام کرتی ہو۔ فرید اسحاق جوجنوبی افریقہ سے ہیں کہتے ہیں کہ اسلامی اِمامت قائم نہیں ہونی چاہئے۔ وہ ایک مختلف قسم کے اسلامی اثر کی تجویز پیش کرتے ہیں جسے عالمی امت کی شکل میں عملی صورت دی جاسکے۔ یہ امت اختلافات کو رواداری سے برداشت کرنے والی ہی نہیں ہوگی بلکہ بنی نوع انسانی کو نسل اور مذہب سے بالاتر ایک مخصوص مقصد کے لئے بھی متحد کرے گی وہ مقصد ہے انصاف (ائزابیل دانا۔ روزنامہ صحافت ۹/۱/۲۰۱۰ء)

”مرشدات کا انتہاپسندی کے خلاف اعلان جنگ“ کے عنوان سے کومن گراؤنڈ نیوز نے تجزیہ جاری کیا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ ۲۰۰۳ء کے کاسبلانکا دھماکوں کے بعد مراکش؛ مصر اور ترکی نے مذہبی پیشواؤں کی صف میں عورتوں کو بھی شامل کردیا ہے۔ یہ خاتون مذہبی رہنما مرشدات کہلاتی ہیں۔ ان ملکوں کے یہ اقدامات عورتوں کے ساتھ رابطے کے ذریعے جمہوری اقدار کو فروغ دینے اور انتہاپسندی کا سدباب کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اپنے خاندان؛ نوجوانوں اور بچوں میں ایک اعتدال پسند آواز ثابت ہوسکنے والی ان خواتین کو جوانی ہی میں روادار اور حقیقی اسلام سے روشناس کیاجاتا ہے۔ ان میں سے ہر ملک میں موجودہ مساجد کے مذہبی امور اور قائدانہ ڈھانچے کی اصلاح کے طور پر مذہبی خواتین رہنماؤں کی تعیناتی کی جارہی ہے۔ عورتوں کو مذہبی امور میں شامل کرنے کا یہ اقدام پالیسی میں قابل قدر تبدیلی اور مذہبی طبقے کو روشن خیال بنانے؛ ملکوں میں وسیع تر پیمانہ پر جدیدیت اور جمہوریت کو فروغ دینے کے رجحان اور انہیں جدید خطوط پر استوار کرنے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ تربیت مکمل کرنے والی پچاس خواتین کو حال ہی میں قاہرہ؛ غزہ؛ اسکندریہ کے غریب نواحی علاقوں کی نوّے مساجد میں تعینات کیاگیاہے۔ مسلسل جدوجہد اور کامیابیوں کے غریعے مرشدات خواتین کے حقوق کے فروغ؛ ایک صحتمند اور روادار معاشرے کے فروغ اور ایک جمہوری مستقبل کے حصول میں برابر حصہ ڈال سکتی ہیں۔ موہاعناجی مراکش بحوالہ (ہمارا سماج دہلی ۲۰/۱/۲۰۱۰ء)

”جہاد کو مل رہی ہے مات“ کے عنوان سے امریکی، یہودی ملکیت کے رسالہ نیوز ویک کے ایڈیٹر فریدزکریا کا مضمون تمام اردو ہندی اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے دہشت گردی کو جہاد کے متبادل لفظ کے طور استعمال کرکے جامعة الازہر کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ؛ دارالعلوم دیوبند کے دہشت گردی کے خلاف فتووں کو جہاد کے خلاف فتوی بتاکر عوام کو دھوکہ دینے کی مذموم کوشش کی ہے۔اردن؛ پاکستان؛ انڈونیشیا؛ لبنان اور بنگلہ دیش کے انتخابی نتائج پر خوشی کا اظہار کیاگیا ہے (ہندوستان دہلی ۱۶/۲/۲۰۱۰ء)

ملیشیائی وزیراعظم نجیب رزاق صاحب کافرمانا ہے کہ اسلام کو صحیح طو رپر سامنے لانے کیلئے اولین اقدام کے طورپرمساجد اور مدارس جیسے اہم ”ذرائع کو تزکیہ کے عمل“ سے گزارنا ہے۔ کیوں کہ انتہاپسندانہ اور غیرلچکدار رویہ یا رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے اسلام کی مسخ شدہ تصویر سامنے لاسکتے ہیں۔ (روزنامہ ہمارا سماج، نئی دہلی ۲۴/۱/۲۰۱۰ء)

حال ہی میں دہلی میں منعقدہ مشرقی مذاہب کے درمیان مذاکرات میں بعض مقررین نے اکبر کے دین الٰہی کے ماڈل کو تکثیری معاشرے میں امن ومفاہمت کی بنیاد بتایا ہے۔ یہ بتانے والے کافی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔

مندرجہ بالا آرا جسے مسلم دنیا کی آواز بتانے کا تاثر باقاعدگی سے کیا جارہا ہے صرف نمونہ ہے اس میڈیائی حملہ کو جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دن رات جاری ہے۔ موٹے طور پر اگر اس فسادی ایجنڈے کا جائزہ لیں تو (۱) جمہوریت؛ (۲) آزادی؛ (۳)رواداری؛ (۴) عورتوں کی آزادی؛ (۵) خوشحالی اور (۶) تکثیریت اس کے اہم نکات ہیں۔ ان تمام امور پر ان فسادی طاقتوں کا خود کا ہی ریکارڈ دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ دراصل ان کی نیت کیا ہے؟ جمہوریت کے ٹھیکیدار دنیا میں سب سے زیادہ ظالم اور جابر حکمرانوں؛ شہنشاہوں؛ صدور اور ملٹری جنرلوں کے سرپرست رہے ہیں۔ آج بھی برما؛ چین؛ پاکستان؛ سعودی عرب؛ مصر؛ الجزائر؛ اردن وغیرہ کے تمام غیرجمہوری حکمران مغرب کے ڈارلنگ بنے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیا؛ لبنان اور بنگلہ دیش میں اپنی مرضی کے حکمراں آگئے تو جمہوریت کی جیت بتائی جاتی ہے اگر ایران؛ فلسطین، ترکی؛ یوکرین میں نہیں آئے تو انہیں غیرجمہوری بتادیا۔ ہیتی اور ہیوگوشاویز کے ملک میں نہیں آئے تو غیرجمہوری ہوگئے۔ مسلم ممالک میں اسلام پسند گروہوں سے کہا جاتا ہے کہ آپ پرامن طریقے سے منتخب ہوکر اقتدار میں آئیں، بیلٹ سے آئیں بلٹ سے نہیں مگر جب وہ بیچارے اس طریقے سے بھی جیت کر آج سے ۲۰ سال پہلے الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے تحت پورے ملک میں الیکشن جیت رہے تھے تو وہاں مغرب کے چمچوں نے ملٹری کے ذریعے بغاوت کرادی اور ملٹری کی حکمرانی مغرب کی سرپرستی میں ۲۰ سال سے جاری ہے۔ اس کے بعد فلسطین میں حماس کی جیت جوکہ مغرب کی تمام سازشوں اورپروپیگنڈوں کے باوجود ہوئی تھی کو بھی مغرب نے نامنظور کردیا کیوں؟ جبکہ حماس جمہوریت؛ رواداری؛ تکثیریت پر عمل کرتے ہوئے ہر طرح سے جھک کر مغرب نواز الفتح کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانے کے لئے بھی تیار تھی مگر مغرب کی منافقت دیکھیں کہ اکثریتی پارٹی کو چھوڑ کر الفتح گروپ کو دنیا بھر میں فلسطین کا نمائندہ بنادیاگیا ہے۔ جمہوریت کا اس سے بھیانک قتل اور کیا ہوسکتا ہے کہ عوام ووٹ کسی کو دیں اور مغرب اورامریکہ اور اسرائیل طے کریں کہ حکومت کون کرے گا؟ جمہوریت کا ایک پہلو یہ بھی سامنے رہے کہ ووٹروں پر اثر انداز ہونے کے لئے سرمایہ دار کس طرح دنیا بھر میں عوامی نمائندوں کو خرید کر اپنی من مانی؛ پالیسیاں بنوارہے ہیں۔ حالیہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ۴۵ ارب ڈالر خرچ ہوئے یہ کس کی جیب سے آئے؟ کیا ان ڈالروں کے گفٹ کرنے والے اس کے بدلہ صرف اللہ کی رضا چاہتے ہیں۔ ہتھیار لابی؛ پٹرول لابی؛ تمباکو لابی؛ کارلابی؛ ہوائی جہاز صنعت کی لابی؛ یہودی لابی سب اربوں ڈالر سے مدد کرکے آنے والے نمائندوں کو خریدلیتے ہیں۔ ان کے لئے جھوٹے، گمراہ کن پروپیگنڈے کراتے ہیں۔ ہمارے ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر ہے۔ یہاں لوگ سبھا میں دن بہ دن ارب پتی اور کروڑپتی ایم پی کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ غریبی؛ مہنگائی؛ فرقہ پرستی؛ سرمایہ داری کے خلاف جیت کر آنے والے نمائندے سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں کی حمایت کرکے منتری بن جاتے ہیں اور ووٹر جو جمہوریت کا بادشاہ کہلاتا ہے بیوقوف بنادیکھتا رہتا ہے۔ اوّل تو جمہوریت جیسی ناقص اور ادھوری ہے، دوسرے اس ناقص اور ادھوری جمہوریت کو بھی ڈائیلاگ اور مذاکرات کا راگ الاپنے والے دنیا کی فسادی طاقتیں مسلم ممالک میں اس کو نہیں رائج ہونے دینا چاہتی۔ انہیں جمہوریت وہی قابل قبول ہے جو ان سرداروں کی مرضی کے مطابق ہو اور اگر نہیں ہے تو ان نتائج کو ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ یہی حال آزادی کے دعوے کا ہے۔ آزادی صرف جنسی بے راہ روی؛ ننگاپن؛ زنا کی ہے۔ جوا؛ سٹہ؛ اغلام بازی؛ شراب نوشی؛ اور ہم جنسی کی ہے ورنہ یہ آزادی کتنی گہری ہے سب کو معلوم ہے۔ 9/11کے بعد سے ساری دنیا میں خصوصاً آزادی کے علمبرداروں نے جو ملک کی سلامتی کے قوانین بنائے ہیں اس کے بعد آزادی کا نام لینا بھی ان ممالک کی انتہائی بے شرمی کی دلیل ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ سماج کے تحفظ کے لئے کچھ نہ کچھ آزادی کی قربانی دینا ضروری ہے اور ان کی عوام اس مطالبہ کو مان بھی رہی ہے۔ اب مغربی؛ امریکی اور ان کے غلام ممالک کے عوام کی زندگی میں کچھ بھی ذاتی نہیں ہے۔ فون؛ ای میل؛ انٹرنیٹ؛ سی سی ٹی وی؛ ہر ذریعہ سے عوام پر نگاہ رکھی جارہی ہے۔ وہ ہر وقت سرکار کی نظروں میں ہے۔ عبادت گاہوں میں بھی آزادی نہیں باقی رہی۔ ہوائی اڈوں پر تلاشی کے نام پر بالکل ننگاکردیا جاتا ہے؛ نئی مشینیں لگادی گئی ہیں جن سے تلاشی لی جاتی ہے تو انسان کے تمام اندرونی اعضاء کی تصویر اسکرین پر نظر آتی ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ ہاں آزادی ہے حضور صلى الله عليه وسلم کے کارٹون بنانے کی؛ قرآن پاک کو کموڈ میں بہانے کی؛ عورتوں کی ننگی پیٹھوں پر قرآنی آیات لکھنے کی؛ اللہ کا پاک نام جوتوں کی ایڑیوں اور تلوں پر ڈیزائن کرنے کی؛ ننگارہنے کی اور ننگا کرنے کی آزادی ہے مگر کپڑا پہننے پر پابندی ہے؛ سرڈھانکنے پر پابندی ہے۔ صاف کہا جارہا ہے کہ اگر سرڈھانکنا ہے تو ملک چھوڑ دو بغیربرقع کے فوٹو شناختی کارڈ پر نہیں لگواسکتے تو الیکشن میں حصہ مت لو؛ حجاب پہن کر اسکول؛ بس؛ پارک؛ اسپتال میں نہیں آسکتے کیا یہی ہے آزادی؟ ایک اور آزادی کی بات آتی ہے وہ ہے خیالات وافکار کی آزادی۔ باقی آزادی کی طرح اس آزادی میں بھی وہی دوہرے پیمانہ اپنائے جاتے ہیں جب آزادی افکار سے مغرب کا نقصان ہورہا ہو اس آزادی کو کسی نہ کسی نام سے اس کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے جس کی سیکڑوں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ رواداری کا راگ الاپنے والے اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں وہ کیتھولک اور پروٹسٹینٹ فرقوں کی خوں ریز تاریخ میں موجود ہیں۔ وہ اسپین کی مسلم کش تاریخ موجود ہے، وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں یک طرفہ مسلم دشمن فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں موجود ہے اور اس بات میں بھی موجود ہے کہ اسپین اور ہندوستان دونوں مقامات پر مسلمانوں نے کم وبیش ۸۰۰ سال حکومت کی اس کے باوجود دونوں ممالک میں وہ اقلیت میں ہی ہیں بلکہ اسپین میں تو جب عیسائیوں کو حکومت ہوئی توانھوں نے اسلام کا نام لینے والا بھی نہیں چھوڑا۔ مسلمانوں کی مذہبی رواداری اور تحمل کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عرب ممالک میں اس وقت ۱۴۳۱ سال کے مسلمان غلبہ کے باوجود آج عیسائیوں کی تعداد 1.5کروڑ سے زیادہ ہے۔ لبنان میں ان کی تعداد لگ بھگ کل آبادی کا 50فیصد ہے۔ مسلمانوں نے نہ ان کے گرجا توڑے نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کارٹون بنائے نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور نہ حضرت داؤد عليه السلام کو نعوذ باللہ زنا میں ملوث بتایا۔ مسلمانوں نے یہ شری کرشن کے نہ شری رام کے نہ مہاتما بدھ کے کارٹون بنائے۔ مسلمانوں نے نہ کوئی رنگیلا ... ”کتاب لکھی“ جس طرح ہندوستان میں ۸۰۰ سال حکومت کے بعد بھی جبکہ ان کے ایک ہی بادشاہ پر الزام ہے کہ وہ 50سال تک روزانہ 50سیر جنیو دیکھنے کے بعد ہی کھانا کھاتے تھے۔ پھر بھی اس کے بعد بھی مسلمان کل آبادی کا 20فیصدی تک ہی رہے۔ اسلام میں مذہبی خود اختیاری کا حق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ازل سے عطا کیاہے یہی اس کا امتحان ہے۔ اسلام میں بار بار اس بات کی تاکید ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے کیوں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے چاہے تو اللہ کا شکر اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو کفر اور اللہ سے بغاوت کا راستہ اختیار کرے کیوں کہ اگر جبر؛ طاقت یا لالچ سے ایمان قبول بھی کرلے تو وہ دل سے ایمان نہ لانے کی وجہ سے قابل قبول بھی نہیں ہوگا۔ اسلام کی پوری تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے: انڈونیشیا؛ ایران؛ افغانستان؛ سینٹرل ایشیا؛ کشمیر؛ کیرل ہر جگہ مسلمان تلوار کے ساتھ نہیں گئے پھر بھی یہ علاقے پورے کے پورے اسلامی علاقوں میں تبدیل ہوگئے۔ آج رواداری کے نام پر یہ چاہا جارہا ہے کہ اسلام کی دعوت جیسی وہ ہے نہ دی جائے۔ اسلام کا صاف اعلان ہے کہ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام اور اب قیامت تک دنیاکے تمام انسانوں کے لئے راہ ہدایت اب قیامت تک صرف اسلام ہی ہے۔ رواداری کے مبلغین چاہتے ہیں کہ اسلام اس بات سے انکار کردے اوراس بات پر راضی ہوجائے کہ ”تم بھی ٹھیک ہم بھی ٹھیک“۔ اسلام دراصل دین نصیحت اور خیرخواہی ہے اب اگر مسلمان اپنے عقیدے کے تحت یہ یقین رکھتا ہے کہ ہمارا دوست؛ پڑوسی؛ ہم سفر جس راستے پر جارہا ہے وہ دنیا میں فتنہ اور فساد کا ہے اور آخرت میں آگ اور جہنم کا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ آگ اور جہنم کی طرف جاتے ہوئے اس اللہ کی مخلوق کو دنیا میں امن اور عدل و آخرت میں جنت اور اللہ کی رضا کی طرف نہ بلائے تاکہ لوگوں کو برا نہ لگے تو کیا یہ انسانیت کے حق میں خیرخواہی ہوگی۔ دراصل اختلافِ رائے کی آزادی اور رواداری کے سلسلے میں اسلام کا رویہ ایک صحت مند بحث کا ہے جیسے آج کاروباری دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک صابن بنانے والی کمپنی یہ کہتی ہے کہ میرا صابن سب سے اچھا ہے اور صابن بنانے والی ساری کمپنیاں یہی کہتی ہیں مگراسے اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا ہے۔ ہر کمپنی کے مال کو عوام استعمال کرتے ہیں اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر کمپنیوں کے دعوؤں کو جانچتی ہے اوراپنی پسند کی کمپنی کا مال خریدتی ہے ٹھیک اسی طرح ہونا یہ چاہئے کہ دنیامیں کامیابی کی طرف رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے ہر مذہب کو اس بات کی کھلی آزادی ہوکہ وہ اپنی بات بالکل صاف طریقے سے عوام کے سامنے رکھے۔ آج یہ ہورہا ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے قائدین اپنے مذاہب کی دلیل کی کمزوریوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک صحت مند مقابلہ میں وہ اسلام کے سامنے ٹک نہیں سکتے اس لئے وہ سیکڑوں سالوں سے اسلام کے خلاف جھوٹ اور شرارت آمیز پروپیگنڈہ مہم چھیڑے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی سازشیں؛ عیاریاں؛ مکاریاں کرکے اسلام کے چہرے کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ اب انھوں نے پہلو بدل کر یہ نیا دواؤ چلایا ہے کہ دراصل اس وقت دنیا میں خرابی؛ بدامنی اور کشمکش کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام یہ کہتا ہے کہ وہی صحیح ہے تو اب اسلام سے یہ مطالبہ ہے کہ آپ یہ نہ کہیں بلکہ یہ کہیں کہ سب صحیح ہیں جو چاہے اپنا لو ”میرا صابن بھی اچھا تمہارا صابن بھی اچھا“۔ جو نسخہ رواداری؛ مکالمہ؛ جمہوریت کا رینڈکارپوریشن نے تیار کیا ہے کیا وہ نسخہ مغرب پچھلے ۳۰۰ سالوں سے خود نہیں استعمال کررہا ہے؟ اگر آج برق وبخارات اور ایٹم کی تجلیات مغرب کی ترقی کی نشانیاں ہیں تو آج نیشنلزم کے نام پر گاؤں گاؤں بہنے والا خون کس کے کھاتہ میں جائے گا۔ آج اسلحہ کی بے لگام دوڑ؛ مہنگائی؛ بھکمری؛ خشک سالی؛ ماحولیاتی حرارت؛ بن ماں باپ کے بچے؛ بڑھتے ذہنی ودماغی مریض؛ مسلح جنگیں کس کے کھاتہ میں جائیں گی۔ ان تمام برائیوں کے لئے اصل ذمہ دار تو مغربی؛ مادی فلسفہ اور فکر ہے۔ اسلام کے اوپر یہ ذمہ داری کیسے عاید ہوتی ہے کہ وہ اس کے بارے میں صفائی دے۔ رواداری منافقت کی ابتدائی منزل ہے جبکہ اسلام نے عقیدے کی خودمختاری اور خود اختیاری کی آزادی دی ہے۔ نبی اور اس کی امت تمام انسانوں کو صرف حق کی طرف بلاتے ہیں قبول حق کے لئے جبر نہیں کرتے۔ اسلام میں انسانوں کے درمیان آپسی تعلقات کی بنیاد اللہ کا بندہ اورآدم کی اولاد ہونے کی مشترک پر بنائی ہے۔ شریعت میں غیرمسلموں کے حقوق انتہائی تفصیل سے بتائے گئے ہیں اور اس میں ظلم کا شائبہ تک نہیں ہے مگر مسلمان رواداری کے نام پر انسانوں تک ان کے رب کا پیغام پہنچانے سے باز نہیں آسکتا اگرچہ یہ ان کو برا بھی لگے۔ دکھاوے کی رواداری میں ایک غیرمسلم مسجد میںآ تا ہے؛ درگاہ جاتا ہے؛ روزہ بھی رکھ لیتا ہے پھر وہ مسلمان سے توقع کرتا ہے کہ وہ بھی جواب میں رواداری دکھائے؛ مندرجائے؛ ماتھا ٹیکے؛ درشن کرے اور اگرایسا نہیں کرتا تو اسے کہا جاتا ہے تم توکٹر ہوتو پھر سوچئے کہ رواداری کتنے قدم چلی؟ اس سلسلے میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ ہمارے لئے نمونہ ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم یہودی خادم کی عیادت کیلئے گئے اس کے لئے دعا کی مگر ساتھ ہی اسے عین مرض وفات میں اسے اسلام کی دعوت دی اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا، والد کا اشارہ پاتے ہی اس نے اسلام قبول کرلیا۔ غور کریں کہ اس لڑکے کے حق میں کیا رویہ بہتر تھا۔ حضور کا یا آج کے ہمارے دانشوروں کا کہ وہ رواداری کی کانفرنسوں میں اسپین کے ہوٹل میں غیرمسلم مہمانوں کے سورکے گوشت کی بنی ہوئی ۵۰ سے زیادہ اقسام سے تواضع کرنے والوں کا؟ اگر امت مسلمہ جوآخری نبی کے ماننے والی امت ہے وہ آپ کے ذریعے آخری حج میں کی گئی آخری وصیت (تم میں جو حاضر ہیں وہ غائب لوگوں تک پہنچادیں) پر عمل نہیں کرتی تو کل حوض کوثر پر اور آج دنیا میں ذلیل ہی ہوگی اور ہورہی ہے۔

جہاں تک بات مسلح شورشوں اور تصادموں کی ہے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اس کے پیچھے یہی ہتھیاروں کے تاجر اور تیل و سونے کے لالچی ہیں جو دوسروں کو دہشت گرد بتارہے ہیں۔ گسٹاپو؛ خاد؛ موساد؛ CIA؛ ہارکیری گروپ؛ مجاہدین خلق؛ مجاہدین افغانستان؛ شمالی اتحاد؛ جند اللہ؛ فتح اللہ؛ پی کے کے؛ اوریہاں تک کہ حماس بھی ان سب کے پیچھے اصل رنگ ماسٹرکون رہے ہیں۔ حال میں جنداللہ کا لیڈر عبدالمالک ریگی کو پکڑاگیا۔ وہ دودن پہلے ہی افغانستان کے ایک امریکی اڈے پر تھا اور وہاں سے خلیج ہوتے ہوئے ازبکستان جاتے ہوئے ایرانی حکاموں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ امریکہ؛ ترکی اورایران کے مسلح کرد باغیوں کو ہرطرح سے مدد دے رہا ہے۔ ایران کے مجاہدین خلق کو اس نے دہشت گردوں کی لسٹ سے نکال کر مسلح کرنا شروع کردیا ہے۔ لبنان میں وہ حزب اللہ کے مقابلہ سنی مسلمانوں فتح اللہ کے نام پر مدد دے رہا ہے۔ خود ہمارے ملک ہندستان میں دودہائیوں پہلے چلنے والی سکھ دہشت پسندی کو کنیڈا اور انگلینڈ کے راستہ امریکہ نے ہی پروان چڑھایا تھا۔ چین میں سینکیاگ کے مسلمانوں کو ربیعہ قدیر کی سرپرستی میں بغاوت پر آمادہ کررہا ہے۔ وسطی ایشیا میں روس کے پڑوسی مسلم ریاستوں میں جمہوریت کے قیام کے نام پر کروڑوں ڈالر وخفیہ ایجنسیوں کو جھونک دیاگیاہے۔ ہندوستان میں 26/11اوراس سے پہلے کے حملوں میں کین ہے ووڈ؛ ہیڈلی جیسے لوگوں کے نام آئے ہیں۔ گجرات فسادات میں استعمال ہونے والا انتہائی تیزی کے ساتھ جلنے والا مواد اور لاشوں کو گلانے والا کیمیکل اسرائیل کا ہی سپلائی کیا ہوا تھا۔ فروری ماہ میں دہرہ دون میں ایک اسرائیلی کو سیٹالائٹ فون کے ساتھ ممنوعہ علاقہ میں بغیر اجازت کے گرفتار کیاگیا۔ دہلی ہوائی اڈے کے پاس ریڈیسن ہوٹل سے دو مشکوک برطانوی شہریوں کو انتہائی حساس رڈار کیمرے اورآوازریکارڈ کرنے کے آلات سمیت گرفتار کیاگیا اور شام تک انہیں چھوڑدیاگیا یہ بتانے پر کہ وہ یہاں چڑیوں کی حرکات وسکنات وآواز کا مشاہدہ وریکارڈ بنارہے تھے۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ چار دن کے لئے ہندوستان آئے تھے جس میں سے دو دن تو وہ ہوٹل کے کمروں اور ہوٹل کی چھت کے علاوہ کہیں نہیں گئے تو وہاں سے وہ کون سی چڑیوں کا مشاہدہ کررہے تھے۔ یہ تو انتہائی مختصرریکارڈ ہے امن کے ان دشمنوں کا جو آج امن کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں ان کے مکروہ عزائم کے بارے میں ممتاز صحافی؛ سنتوش بھارتیہ نے لکھا ہے کہ موساد اور سی آئی اے نے مل کر بھارت میں ۲۳۰ ملین ڈالر کے بجٹ کا خفیہ پلان تیار کیا ہے جس میں ہندوستان کے ۳۲ انصاف پسند مسلم دوست؛ غیرمسلم دانشوروں؛ صحافیوں؛ ججوں کے خلاف کرردارکشی؛کرپشن اور دیگر جرائم میں پھنساکر جھوٹے اسٹنگ آپریشن کرائے جانے ہیں (راشٹریہ سہارا دہلی ۱۶/۱/۲۰۱۰ء) نوجوان نسلوں کو ذہنی اور فکری طور سے برباد کرنے کے لئے بین الاقوامی طور پر ادبی؛صحافتی؛ تعلیمی؛ تفریحی سرگرمیاں منعقد کی جارہی ہیں۔ مئی ۲۰۰۹ء میں خلیج میں ایشیا کے بہت سے مسلم اکثیرتی ممالک وغیراکثریتی ممالک کے طلباء کی ڈنمارک کے ایک ٹیچر کی رہنمائی اور اقوام متحدہ کے تعاون سے سہ روزہ معلوماتی پروگرام رکھا گیا جس کے آخر میں تمام شریک لڑکے لڑکیوں اوران کے ساتھ گئے ٹیچرس کا مشترکہ میوزک؛ ڈانس؛ شراب اور کھانے کا لازمی پروگرام ہوا۔ امریکہ کی فورڈ فاؤنڈیشن مسلم مسائل کے عنوان سے جرمنی؛ امریکہ؛ پاکستان و دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے ریسرچ اسکالروں کے سیمینار کراتی رہی ہے اور ان میں مسلمانوں کے ہی مسائل پر بحث ہوتی ہے مگر ان کے نگراں سب امریکہ نواز اپنے آقا کی مرضی کا خیال رکھنے والے مسلم اور غیرمسلم اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بی بی سی خصوصاً اردو بی بی سی اور الحرہ عربی چینل اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے مقامی میڈیا کو خریدکر منظم طریقے سے نئی نسل کو بہت ہمدردی کی آڑ میں اسلام سے بیزار کرتے ہوئے ملت اسلام میں انتشار اور فساد پھیلایا جارہا ہے۔ ہمیں یہ بات بہت وثوق کے ساتھ ذہن میں بٹھالینی ہوگی کہ فسادی طاقتیں دنیا میں فساد وانتشار پھیلاکر اپنے مذموم مقاصد پورا کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک اِشو اچھال کر اپنے غلام میڈیا کے ذریعے ایک مسلم اور اسلام مخالف ماحول بناتی ہیں مثلاً اسلامی دہشت گردی؛ مسلم بنیادپرستی؛ اسلامی مذہبی زبردستی؛اسلام میں عورتوں کے حقوق کی پامالی؛ جہاد اور پھر پوری امت اس کی صفائی دینے میں جٹ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ صفائی دیتے دیتے اسلامی تعلیمات کا ہی حلیہ بگاڑ دیتی ہیں اس کے نتیجے میں عرب ممالک اور اسلامک ممالک میں دینیات کے کورس میں سے جہاد؛ یہودیوں؛ مشرکوں سے متعلق آیات کے سبق دینے بند کردئیے گئے ہیں۔دنیا بھر میں جہاد جیسے فریضہ کو بدنام کرکے اسے دہشت گردی بتادیاگیا ہے۔ اسلامی مدارس ومکاتب کے کورس ونصاب میں تبدیلی کرکے اس میں آخرت پسندی کے بجائے دنیاپرستی کے عنصر کو لگاتار بڑھایا جارہا ہے۔ برقعہ اوڑھنے والی خواتین؛ داڑھی رکھنے والے نوجوان دہشت گردی کے علامت بنادئیے گئے ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ مہم مناکشی پورم میں بڑے پیمانہ پر ہونے والے قبولِ اسلام سے گھبراکر ایک سلسلہ مسلم دشمن اِشوز کو اچھالنے کا چلا جس میں دھرم پریورتن؛ مسلم تشٹیکرن؛ ایک کامن لآ؛ بابری مسجد چھوڑو؛ ایک نہیں تو تین ہزار؛ وندے ماترم کہنا ہوگا وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ ہم سے ہمارے دانشوروں اور ہندوتو کے سرداروں نے کہا کہ آپ بابری مسجد چھوڑدو؛ مسلم پرسنل لآ چھوڑدو؛ اردو چھوڑدو؛ وندے ماترم پڑھنے لگو تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہ ایک پلان کے تحت ایک کے بعد ایک ایشوپر آپ سے تورعایت لیتے رہے مگر خود کچھ نہیں چھوڑا۔مسلم دشمن؛ اسلام دشمن پروپیگنڈا اب دہشت گردی؛ بنیادپرستی؛ جہاد؛ عدم رواداری کے نام پر جاری ہے۔ ہم پیچھے ہٹتے جارہے ہیں وہ آگے بڑھتے جارہے ہیں۔

خواتین کے تعلق سے انکا ایجنڈا خصوصاً لاگو کیا جارہاہے کیوں کہ ہمارے یہاں خواتین کی دینی اور دنیاوی دونوں ہی تعلیم کم رہی ہے۔ ابھی حال میں دنیاوی تعلیم بڑھنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے رشتہ بہت کمزور ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ موقع ملنے پر مسلم خواتین میں ردِّ عمل کی نفسیات سے مغلوب ہوکر فسادیوں کے لئے نرم چارہ بن گئی ہیں۔ شریعت میں خواتین ومردوں کی جسمانی اور نفسیاتی بناوٹ کے لحاظ سے ان کے لئے جو دائرہ عمل رکھا ہے وہ ہی انسانیت کے لئے بہترین راہ ہے مگر شیطان کے مغربی ایجنٹوں اور ان کے مشرقی غلاموں میں اس منصفانہ تقسیم کو ہی نشانہ بناکر خواتین کے ذہنوں میں یہ فکر پیدا کردی کہ اسلام خواتین کو برابری کا مقام نہیں دیتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فرانسیسی انقلاب کے بعد سے اب تک ۳۰۰ سالوں میں عورتوں کی آزادی اور برابری کے نام پر جو کچھ حاصل کیاگیا ہے اور جو کچھ کھویا گیا ہے وہ خواتین کی ترقی کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیتا ہے۔ خواتین کو ۱۲ گھنٹے کے بجائے ۲۴ گھنٹے کی شفٹ پر لگادیاگیا ہے۔ آج بھی خواتین کو پوری دنیا میں اہم فیصلہ کن ذمہ داریاں نہیں دی جاتیں صرف ان کے جسموں اور نسوانی کشش کی ہی قیمت ہے۔ امریکہ کی آزادی کے ۳۰۰ سالوں میں ایک بھی خاتون صدر منتخب نہیں ہوئی۔ برطانیہ؛ فرانس؛ اٹلی؛ جرمنی میں بھی ایک یا دو سے زیادہ کا اوسط نہیں ہے۔ ایک بھی ملک میں کسی خاتون کو کمانڈر انچیف نہیں بنایاگیا ہے۔ تمام بڑی کمپنیوں میں افسر اعلیٰ (C.E.O) گنتی کی تین یا چار ہی ہوں گی۔ فوج میں خواتین کی بھرتی کھولنے کے بعد دوبارہ محدود یا بند کی جارہی ہے۔ خواتین کی تمام معاشی آزادی وخوشحالی کے باوجود کیا مغربی معاشرہ ایک خوشحال؛ مطمئن؛ آسودہ؛ پرامن خاندان دنیا کو دے سکا۔ عورت کی جوانی اور کشش ختم ہونے کے بعد وہاں کے معاشرہ میں ان کی کیا قیمت ہے؟ جو حقوق اسلام میں خواتین کو ۱۴۰۰ سال پہلے سے حاصل ہیں اس میں کون سے نئے حقوق ان کو مغرب میں عطا کئے جو کہ واقع میں خواتین اور معاشرہ دونوں کی مجموعی بھلائی میں مفید ہوں۔

کرنا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو اسلام جیسا کہ وہ ہے ویساہی اسے اپنانا اور پھیلانا ہے اسے ایک نظام کی طرح برپا کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ جو لوگ اسلام کے عقیدے والے حصہ پرایمان نہیں بھی لاتے انہیں کم سے کم اس کے سماجی؛ معاشی؛ اقتصادی؛ فلاحی؛ خاندانی نظام سے متعارف کرانا ہے اورایسے لوگوں کے ساتھ مل کر حضور صلى الله عليه وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ حلف الفضول کے طرز پر یہ عملی پروگرام ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ (۱) ظلم اور استحصال کے خلاف (۲) جدوجہد وبدامنی کے خلاف (۳) فحش ومنکرات؛ ہر طرح کی جنسی بے راہ روی کے خلاف (۴) سود؛ سٹہ بازی؛ جمع خوری کے خلاف (۵) صارفیت پسندی (Consumerism) کے خلاف (۶) ماحولیاتی آلودگی (Environmental Pollution) کے خلاف (۷) غریبوں؛ کمزوروں؛ آفات کے ماروں کے لئے ہلالِ احمر کی طرز پر بڑے پیمانہ پر ساری دنیا میں امداد کے نکات پر مشترکہ عملی پروگرام (Common Action Programme) بنایا جانا چاہئے۔ ان تمام مہمات میں اسلام کی انقلابی رہنمائی کامیاب ہوں گی جیسا کہ ایڈس کے خاتمہ میں افریقہ میں ختنہ اور جنسی پرہیزگاری نے رول ادا کیا ہے اورحالیہ عالمی مالی بحران کے دور میں غیرسودی مالی اداروں نے کیاہے وغیرہ۔

آخر میں میڈیا کے سلسلے میں ملت کی تہی دامانی کم مائیگی اور لاپرواہی کے سلسلے میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنا پیسہ ہماری حکومتیں آج امریکہ اور یوروپ سے میک اپ کا سامان؛ کوک اور پیپسی اور اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے میں خرچ کررہے ہیں اس کا دس فیصد بھی اگرمیڈیا پر خرچ کرتے تو اسلام دشمنوں کا کام اتنا آسان نہ ہوتا جتنا آج ہے۔ امت مسلمہ کو دین سے دور کرنے؛ گمراہ کرنے؛ خواتین کو دین سے بغاوت پر آمادہ کرنے اور غیرمسلموں کو مسلسل اسلام مخالف خوراک دینے میں اس یہودی؛ مغربی؛ براہمنی میڈیا کے تباہ کن رول کو ہم روزانہ بھگت رہے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے پروگراموں؛ اجتماعات؛ کانفرنسوں کی کوریج بھی یہی مسلم دشمن میڈیا اپنی عینک سے اپنے مفاد کے مطابق کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ کانفرنس اور اجتماعات اپنے پنڈال کے باہر تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایک کانفرنس کے بجٹ سے ایک لوکل چینل یا مقامی اخبار چلایا جاسکتا ہے۔ یہی میڈیا دراصل غیرمسلموں کے ذہنوں میں اسلام کی صحیح تعلیمات؛ اسلام کی تاریخ؛ انسانی ترقی میں اسلام کے رول کو واضح کرکے اسلام کے خلاف پھیلائی جارہی بدگمانی اور نفرت کو دور کرسکتا ہے۔

***