ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء

 

فلسطینی طلباء کو ذرائع تعلیم سے محروم کرنے کی اسرائیلی سازش

 

از: مولانا سہیل اختر قاسمی

 

غزہ فلسطین کا وہ بدنصیب حصہ ہے جہا ں کی ہر خشت پر اسرا ئیلی بربریت کی خونی لکیریں نظر آتی ہیں در حقیقت اسرا ئیلی درندوں نے فلسطین کو تہہ وبا لا کرنے میں کسی بھی طرح کی کو ئی فروگزا شت نہیں چھوڑی ،قتل ،اغوا ء،نسل کشی ،معاشی واقتصا دی بندش،فلسطینی عورتوں کی عصمت دری ،تشویہہ اطفا ل اور ہر طرح کے در دنا ک مظا لم انکے زیر تجربہ رہے ہیں ،انسا نیت کی ہر حد اور قانون کی ہر شق پر نا بودی کا ہتھوڑا پھیرنا ہمیشہ سے اسرا ئیل کا خصوصی شیوہ رہا ہے تعجب یہ ہے کہ مظالم کے اس بحر بیکرا ں کے با وجود انکی پیا س ظلم اب تک نہیں بجھی ،معا شی ،سیا سی ،تہذیبی،اقامتی اور انسا نی سہو لیا ت ،ضروریا ت اور ا حتیا جا ت جبرا َچھین لینے کے با وجود اسرا ئیلی درندو ں میں عداوت کا لا وہ اب تک پھوٹ رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ فلسطینیو ں کو پوری طرح پتھروں کے شہر میں بھیج دینا چاہتے ہیں،المیہ یہ ہے کہ آتش و خو ن ،با رود اور گولیوں کی جنگ کے بعد اسرائیلیوں نے ایک نئے محا ذ کی یا فت کی ہے اس محا ذ میں فلسطین کی وہ تعلیمی نسل نشانہٴ تخریب ہے جس پر پوری قوم کی قسمت معلق ہے ،ضروری ذرائع تعلیم، قلم ،کاپی ، پینسل اور اس طر ح کی ہلکی پھلکی ضروریا ت پر پابندی اور تعلیمی میدا ن میں فلسطینیوں کو نا خوا ندہ رکھنے کی ہر کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، در اصل پہلے فلسطین کی فضا ء میں گولیوں کا بہتر ین نشا نہ فلسطینی عوام کی جسموں سے نکلنے والے بارود کی بو ہو تی تھی اب وہ طلبہ وطا لبا ت کی اندرونی شخصیتوں کی چرمراہٹ سننے کی عادی ہو گئی ہے کیو نکہ جو لڑائی گلیو ں کی تھی وہ آ ج ا پنا دائر ہ پھیلا چکی ہے افسوس اب تعلیم کی شمع بجھا کر فلسطینیو ں کو قسطو ں کی تا ریکی دکھا ئی جا رہی ہے تا کہ تعلیم کی روشنی میں فلسطینیو ں کو پھر سے کہیں زندہ ہو نے کا موقع نہ مل جا ئے۔

 

یہ سچ ہے کہ فلسطینیو ں کو حصا ر میں رہنے کی عا دت ہے ، سنگینیو ں کے سا ئے میں سونا ان کا معمول ہے ،ہر صبح لاشو ں کو کا ندھا دینا ا نکی ذمہ دا ری ہے ،پا نی ،بجلی ،اشیا ء ما کو لا ت ،طبی سہو لیا ت اور تعمیرا ت ہر طر ح کی بندش کے با وجود ا نہو ں نے اپنے عز م کو قا ئم رکھا ،اپنا حوصلہ تھامے رکھا، اسرائیلیو ں کو ا نکا صبر زہر لگا انہو ں نے مز ید ظلم کر نے کی ٹھا ن لی اور ا س طر ح انسا نی حقوق کی پا ما لی کرتے ہوئے غز ہ میں اسکو لی سا ما نو ں کی درآ مد پر روک لگا دی ۔

 

فلسطینی اقتصا دو معیشت کے وزیر حاتم عو یضہ نے ا پنے ایک ا نٹر ویو میں کہا کہ غا صب اسرائیل فلسطین میں اسکو لی آ لا ت کی در آ مد ی پر شدت سے رو ک لگا رہی ہے تا آ نکہ انسا نی حقوق کی محا فظ تنظیمو ں کے مطا لبا ت کو بھی ٹھکرا دیا ہے حا لا نکہ ا ن دنو ں غز ہ میں اسکو لی لوا ز ما ت کی بے پنا ہ ضرورت ہے،مزیدا ر بات یہ ہی کہ ان سنگین حا لا ت کی ا طلا ع ا ن تما م مما لک کو ہے جو حقوق انسانی اور تعلیمی بیدا ری کا پروپیگنڈہ کر تے ہیں مگر اس معا ملے میں انکی حسا س اور خود سا ختہ لب گویائی پر خوف و مصلحت کا تا لا پڑا ہوا ہے۔

 

ابو امجد نا م کا ایک فلسطینی شہر ی جو کہ غزہ میں رہا ئش پذیر ہے اور انکے پا نچ بچے ہیں انکا کہنا ہے کہ” میر ے سا رے بچے سر کا ری ا سکو لو ں میں پڑھتے ہیں المیہ یہ ہے کہ تعلیمی سا ل شر وع ہو چکا ہے اور وہ اسکو ل کے ضروری اشیا ء اور لوا زما ت نہیں خرید پائے ہیں“،علاوہ ازیں فلسطینی عورت ام المجدبھی اسی طر ح کا ا لم ظا ہر کر تے ہوئے کہتی ہیں کہ” میں غزہ کے تما م با زا رو ں میں گھوم چکی ہوں مگر مجھے نہ کا پیا ں ملی اور نہ قلم وغیر ہ دستیا ب ہو ئے اور جہا ں یہ سب چیزیں مل رہی ہیں وہا ں آسما ن چھوتی قیمت نے میر ے ہا تھو ں کو روک دیا“یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑی کہ”جب سے میرے شوہر اسرا ئیلی بربر یت میں شہید ہو ئے ہیں تب سے میں تنہا اپنے بچو ں کی کفا لت اور پرورش کررہی ہوں“اس نے فلسطینی وزا رت تعلیم وتربیت کے سا منے یہ مطا لبہ رکھا ہے کہ وہ اس معاملے میں پائے جا نے وا لے بحرا ن کی مزا حمت کریں اور اسرائیل کی جنگی ،انسا نی اور تعلیمی جرا ئم پر قدغن لگا نے کی تحریک شروع کریں۔

 

واضح ہو کہ غزہ میں اس تعلیمی ظلم کے خلا ف 9ستمبر 2009کو فلسطینی طلباء و طا لبا ت نے زبردست احتجا ج کیا تھا ،وہ لوگ ا پنے ہا تھو ں میں احتجا جی بینر تھا مے ہو ئے تھے جس پر متعدد احتجاجی جملے رقم تھے مثلا ”ہما ری کتا ب اور ہما ری کا پیا ں کہا ں ہیں“”ہم نونہا لا ن پر لگا ئی گئی تعلیمی بندش کو ختم کرو“”ہم پڑھنا چاہتے ہیں“”ہم اپنا تعلیمی حق ما نتے ہیں“اس احتجا جی جلسے کے بعد کم عمر طلباء نے اقوام متحدہ کے مقا می مرکز کو اسرائیل کی ظا لما نہ بندش پر اپنا احتجا جی پیغا م پیش کیا جسکے مخا طب اقوام متحدہ کے صدر با ن کی مون تھے ،اس ا حتجا جی وفد کا مطا لبہ یہ تھا کہ موصوف محتر م اور عالمی برا دری اسرائیل کی تعلیمی خلا ف ورز یوں پر رو ک لگا ئیں ۔

 

نو سا لہ اکر م احمد پور ی معصو میت کے سا تھ یہ کہتا ہے کہ ”یہو دیو ں نے میر ے وا لدین کو مارڈا لا اور ہما ری رہا ئش گا ہو ں کو زمین بو س کرڈا لا ،میری کا پیا ں اور میر ی کتا بیں اس ظا لما نہ کاروائی کی نذر ہو گئیں ،مجھے کتا ب ، قلم اور کا پی کی ضرورت ہے ،میں پڑھنا چاہتا ہوں“۔

 

مشہو ر عربی مجلہ’ فلسطین مسلمہ‘کے اعدادو شما ر جو ا نہو ں نے فلسطینی وزا رت تعلیم و تر بیت سے حا صل کیا ہے؛کے مطا بق اس سال 240 طلبا ء او ر 15اسا تذہ اسرا ئیلی دہشت گردی کی نذر ہوئے او ر تقریبا 942طلبا ء اور ا سا تذہ زخمی ہوئے جن میں سے ا کثر پور ی طرح اپا ہج ہو چکے ہیں، اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے غزہ میں تقریبا 7اسکو ل پور ی طر ح تبا ہ اور بے شما ر تعلیم گا ہو ں کو جزوی طور پر نقصا ن پہنچایا گیا ہے ،علا وہ ا زیں اب تک پورے فلسطین میں مجموعی طور پر 4828ایسے مکا نو ں کو پوری طر ح منہد م کر دیا گیا ہے جس میں ا سکو لی طلبا ء مقیم تھے اور اسی طر ح کے 9738مکا نوں کو جز وی نقصا ن پہنچا یا جا چکا ہے،وزا رت تعلیم وتر بیت کے تر جما ن خا لد را ضی نے فلسطین مسلمہ کو دئے گئے اپنے ا نٹر ویو میں کہا کہ” حا لیہ جنگ نے تعلیمی میدا نو ں کو سخت نقصا ن پہنچا یا ہے خصوصا تعلیم گاہو ں ،ہاسٹلز ،کلا سوں اور لا ئبریریوں کو پور ی طر ح نشا نہ بنا یا گیا ہے“۔

 

اسرا ئیل جس طرح مدارس اور تعلیم گا ہو ں کو بر با د کر ہا ہے اس سے یہی اشا رہ ملتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ہر حق کو پا ما ل کرنا چا ہتا ہے ، لا ئبریریو ں،درسگا ہو ں اور اقامت گاہو ں کو تبا ہ کر نے کے سا تھ سا تھ اسکو لی ا شیا ء پر مکمل بندش لگا کر یقینا اسرا ئیل نے شیطنت کا عظیم مظاہرہ کیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تما م مظا لم پر دنیا کب تلک خا موش رہے گی؟

 

***