ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء

شیخ نصیر خاں علم حدیث کے کوہ ہمالیہ تھے

از:       سہیل اختر قاسمی

عظیم دینی ومذہبی دانش گاہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث پر ۳۲ سال سے براجمان رہنے والے، علم حدیث کے کوہ ہمالیہ اور درس نظامی کے ماہر متخصص سابق شیخ الحدیث مولانا نصیراحمد خاں صاحب پرسوں رات ہمیشہ کے لئے دار فانی کو سدھار گئے ہیں۔ خاں صاحب کی وفات پر حسرت کی خبر نے سچ مچ ان دلوں کو دہلادیا ہے جس میں علم حدیث کی عظمت کے ساتھ اس کی درایت کے صفات ہوتے ہیں۔ علم حدیث تو قدسی علم ہے، اس کاربط کسی خاص مکتب فکر یا مسلک سے نہیں ہوتا اورنہ کسی نظریہ سے، علم کا نظریہ مشترکہ طور پر سب کے لئے قابل افتخار و اعتزاز ہوتا ہے، خصوصاً علم حدیث جس کی عظمت وحیثیت مانند قرآن مسلم ہے۔

علم حدیث پر گہری نظر، اس کی تدریس ومطالعہ کا وسیع تجربہ، اس کے اختصاصات پر کامل واقفیت اور اس کے عروض وآہنگ سے گہری مناسبت رکھنے والے عالم دین حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب کے انتقال سے علمی حلقوں میں ایک سُن کردینے والی خاموشی پائی جارہی ہے۔ میدان حدیث میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے چہروں کی لکیریں غم وحزن سے سرخ ہوچکی ہیں، خصوصاً طالبین و دارسین ایک ایسے آبشار سے محروم ہوچکے ہیں جس کے ہر قطرہ میں علم حدیث کی بو، پاکیزگی اور نفاست جھلکتی تھی، جس کا ہر سیل علمی لطافتوں اور فنی وفقہی تجربات کی عکاسی کرتا تھا اور اس کا واقعی قلبی سرور کے لئے کافی ہوا کرتا تھا۔

حضرت مرحوم کو تدریس و تعلیم کا پچاس سالہ تجربہ تھا، وہ واحد ایسے شخص تھے جنہیں درس نظامی کی ہر کتاب پر اختصاص حاصل رہا تھا، حضرت شیخ جہاں علوم ومعارف کے تاجور تھے وہیں صلاح وتقویٰ، اخلاق وکردار اور عادات و اطوار میں بدرکامل بھی تھے۔ حضرت مرحوم ۱۳۳۵ھ میں بلندشہر کے ایک قصبہ ”بسی“ کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد باوجود اس کے کہ وہ انگریزی فوج کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے علماء نواز اور مولانا خلیل احمدامبیٹھوی کے مرید تھے، ان کے والد ماجد عبدالشکور خاں دینی غیرت اور اس پرجان ومال قربان کرنے کا جانثارانہ جذبہ رکھتے تھے۔ ان کے دینی جذبہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت شیخ الہند کے ”ترک موالات“ کے اعلان کے بعد وہ انگریزی ملازمت سے ہمیشہ کے لئے سبکدوش ہوکر کاشتکاری میں لگ گئے۔ والدہ بھی انتہائی پارسا اور نیک طبیعت تھیں۔ حضرت شیخ نے از اوّل تا آخر تعلیم اپنے برادر کبیر مولانا بشیراحمد خاں جو کہ اس وقت مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی میں مدرس تھے؛ کے پاس حاصل کی، بعد ازاں جب ۱۳۶۲ھ میں مولانا بشیراحمد خاں بحیثیت مدرس دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تو وہ بھی ان کے ساتھ آگئے اور اس وقت کے موجودہ اکابر مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، شیخ الادب مولانا اعزاز علی رحمة الله عليه وغیرہ سے استفادئہ حدیث کیا اور ۱۳۶۳ھ میں از سر نو دورئہ حدیث سے فراغت حاصل کی اور ۱۳۶۵ھ تک تفسیر وقرأت، فقہ واصول فقہ، منطق و فلسفہ اور طب وحکمت جیسے اہم علوم وفنون پر اختصاص کیا، اسی سال وہ دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے اور ۱۳۹۱ھ تک میزان سے لے کر موقوف علیہ تک کی ساری کتابیں پڑھا ڈالیں اور اس درجہ تجربہ حاصل کیا کہ ہندوستان میں بیک وقت درس نظامی پر گہری نظر رکھنے والے اساتذہ و علماء میں ان کے ہم پلہ مشکل سے کوئی ملے گا۔ ۱۳۹۱ھ سے لے کر ۱۳۹۷ھ تک حدیث کی معروف کتابیں، موطا امام مالک، طحاوی، ترمذی اور مسلم وغیرہ آپ کے زیردرس رہیں اور تاآنکہ ۱۳۹۷ھ میں بخاری شریف پڑھانے کا موقع ملا جو وفات سے قبل تک مسلسل اور پیہم پڑھاتے چلے آرہے تھے۔ حضرت مرحوم ایک متقی، خدا ترس اور شریف عالم دین تھے، زندگی بھر علم وعمل سے لگاؤ رہا، حدیث سے بے انتہا لگاؤ اور سنت پر عمل رکھتے تھے، تدریس کا نرالا انداز تھا، ان کا کلام انتہائی عام فہم مگر علم وفن سے لبریز ہوتا تھا، ۹۵ برس کی عمر گزارنے کے بعد بھی آواز بلند تھی، اس عمر میں بھی گفتگو صاف ستھری، واضح اور حیرت انگیز تھی، عالمانہ لب ولہجہ اور معتدل انداز کے حامل تھے، رعب ووقار کا یہ عالم تھا کہ جدھر سے بھی گزرجاتے ایک مجمع ان کے ادب میں اٹھ کھڑا ہوتا، جدھر سے بھی وہ گزرتے طلبہ کی ایک بھیڑ ان کے جلو میں ہوتی تھی۔

حضرت مرحوم ایک رحمدل استاذ تھے، اتنے اعلیٰ منصب کے باوجود نہ کبھی شیخی بگھاری اور نہ کبھی اس کا ناجائز استعمال کیا، دارالعلوم کے نائب مہتمم اور صدر مدرس ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی بھی ناجائز رعب دکھانے کی کوشش نہ کی، وہ اپنے عہدہ اور ذمہ داری کے تئیں مخلص تھے، دارالعلوم دیوبند کی خدمت اوراس کا ارتقاء ان کا مقصد زندگی تھا۔ طلبہٴ دارالعلوم کو باشرع اور باتہذیب بنانے کے لئے وہ ذمہ داران دارالاقامہ کو مستقل ہدایات دیتے رہتے تھے، ایک بار مادر علمی میں ایک ناگوار قضیہ پیش آیا تھا، جس سے مادرعلمی کی عصمت پر آنچ آرہا تھا اس قضیہ کے پیش آنے پر وہ بہت ناراض ہوئے اور جو جو طلبہ اس میں شریک تھے انہیں فوراً دارالعلوم بدر کردیا، ان کا کہنا تھا کہ دارالعلوم امت کی میراث ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔

حضرت مرحوم کو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه کے انتقال کے بعد قاری محمدطیب رحمة الله عليه نے خلافت عطا فرمایا تھا مگر وہ پیری مریدی کی زحمت سے بچے رہے، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ”بچو میرا مزاج نہیں ہے، پیری مریدی میرے بس کا روگ نہیں ہے، یہ تو بڑے لوگ کرتے ہیں۔“

حضرت مرحوم گوشہ گیر، تدریس وتعلیم کے لئے یکسو اور دارالعلوم کی خدمت کے لئے ہمہ تن متوجہ رہتے تھے۔ تنازعات سے دور، خرافات سے گریزاں اور مناقشات سے بددل تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کے خاص شاگرد ومرید ہونے کے باوجود کبھی بھی انھوں نے ملکی منظر نامے پر آنے کو گوارہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ یکسو رہے اور آخر حیات تک یکسو رہے۔ وہ ایک دلچسپ ترین اور بھرپور انسان تھے۔ تواضع حلم و بردباری، نرم خوئی، خوش اخلاقی اور صلاح و تقویٰ کے حامل تھے، ان کی انہی صفات کی بنا پر دارالعلوم کے ہر خاص وعام طلبہ، اساتذہ، ملازمین اور تمام متعلقین دارالعلوم میں محبوب شخصیت کے مالک تھے، وہ تواضع کی عملی مثال تھے۔ ان سے کبھی کوئی غلطی یا چوک ہوجاتی تو برملا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے؛ بلکہ بعض مرتبہ اگر اپنے شاگردوں کو ڈانٹ دیتے تو وہ دوسرے وقت بلاتامل معذرت خواہی کرتے ہوئے نظر آتے۔ الغرض ان تمام خصوصیات کی حامل ایک فرشتہ صفت انسان کے چلے جانے سے اس دنیا میں نیک بندے کم ہوتے جارہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ان کی شخصیت اسی طرح کی تھی جیسی بیان کی جارہی ہے، وہ صحیح معنوں میں ایک کامل انسان، عظیم محدث اور بہترین عالم دین تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبرکو نور سے منور کردے۔

***