ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء

حرفِ آغاز

اسلام کا آفاقی نظام

حبیب الرحمن اعظمی

 

اسلام ایک آسمانی دین ہے اس کے قوانین واحکام رب ہر دوعالم کی تنزیل اوراس کے نبیٴ مرسل کی تبیین و تشریح کے مطابق وضع کئے گئے ہیں، جو اس قدر ہمہ گیر وہمہ جہت ہیں کہ رہتی دنیا تک ان میں کسی ترمیم واضافہ کی حقیقی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور کائنات انسانی کی اس ہدایت ورہنمائی میں دارین کی صلاح و فلاح کی منزلیں طے کرتی رہے گی، خالق ہر دوسرا نے خود اسلام کی کاملیت پر مہر تصدیق ثبت فرمادی ہے۔

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِینًاَ۔ (آلِ عمران)

آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی، اور تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کیا۔

پھر کتاب الٰہی اور سنتِ رسول (علی صاحبہا الصلوٰة والسلام) کے ماہرین فقہائے مجتہدین نے اپنی جاں گسل جہد مسلسل سے ان خدائی قوانین واصول کو تغیر پذیر دنیاکے مسائل و معاملات پر منطبق کرنے کے لئے ایسے مناہج اور شاہراہیں مقرر کردیں جن پر چل کر علماے اسلام اور مفتیان دین نت نئے مسائل و مشکلات کا شرعی حل پیش کرتے رہیں گے۔

اسلام کے احکام وہدایات کی آفاقیت اور ہمہ جہتی کا کچھ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ صرف اس فنا ہوجانے والی زندگی ہی کے بارے میں رہنمائی نہیں کرتا بلکہ اس جہانِ بے ثبات سے رخصت ہوجانے کے بعد آخرت کی ابدی حیات کے متعلق بھی ہدایات واحکام دیتا ہے۔

جاننے والے جانتے ہیں اور صحیح جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات ہماری زندگی کے جملہ شعبوں اور تمام گوشوں پر حاوی ومحیط ہونے کے ساتھ صحتمند انسانی فطرت اور نیچر کے عین مطابق ہیں، اسلامی تعلیمات واحکام کا یہ ایسا امتیاز اور منفردانہ مقام ہے کہ مذاہب وملل اور تہذیب وتمدن کی وسیع دنیا میں کسی بھی ملت وتہذیب کو اس کی ہمسری نصیب نہیں۔ ”جسے چاہے مالکِ رنگ و بو اسے نکہتوں سے نوازدے“

یہ رتبہٴ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر اک کا یہ نصیب یہ بختِ رسا کہاں

ذیل میں اسلام کے آفاقی نظام کا اجمالی اور نہایت اجمالی خاکہ ملاحظہ کیجئے:

۱- عقاید: دینِ اسلام کا بنیادی واساسی پتھر جس پر اس کی عمارت قائم ہے، الوہیت، رسالت، آخرت، تقدیر وغیرہ سے متعلق اس کا نظریہٴ عقیدہ ہے اسلام انھیں افراد کو اپنا حلقہ بگوش اور فرزند تسلیم کرتا ہے جو اس کی تصریحات اور وضاحتوں کے مطابق مذکورہ بالا حقائق کو دل کی گہرائیوں سے مانتے اور بوقت طلب ان کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں۔ اسلام کا یہ نظریہٴ عقاید متواترات وقطعیات کی مستحکم غیرمتزلزل بنیادوں پر قائم ہے جس میں کسی قسم کی پیچیدگی اور خفا و پوشیدگی نہیں ہے؛ بلکہ نہایت واضح، شفاف، ہموار و استوار شاہراہ ہے، جس پر انسان اپنے ابتدائے وجود سے چلتا آرہا ہے۔

۲- عبادات: اسلام کا اپنا ایک نظام عبادت ہے، جس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں پنج وقتہ نماز، زکوٰة، روزہ اور حج کو رکن یعنی ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام کے نزدیک ان چاروں عبادتوں کی فرضیت کا قائل ہونا بھی اس کے زمرے میں شامل ہونے کے لئے لابدی اور ضروری ہے۔ ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر ان چاروں کی ادائیگی اپنی استطاعت و قدرت کے مطابق فرض اور ضروری ہے، ان میں کوتاہی کرنے والوں کو اسلام اپنی پسندیدہ اولاد نہیں مانتا اس کی نظر میں ایسے لوگ سپوت نہیں بلکہ کپوت ہیں۔

۳- معاملات: اسلامی تعلیمات کے اس باب کا بھی حدود اربعہ نہایت وسیع ہے جوانسانی زندگی میں پیش آنے والے جملہ معاملات کو گھیرے ہوئے ہے ”تجارت، ملازمت، کرایہ داری، حرفت وصنعت، نکاح وطلاق“ وغیرہ اقتصادیات ومعاشیات سے متعلق جملہ امور مسائل اسی باب کے تحت ہیں۔ علمائے اسلام نے اس باب پر خصوصی توجہ دی ہے اور ان سے متعلق مسائل کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیاہے اور اسلام کے اقتصادی نظام کا دیگر نظاموں سے مقابلہ اور موازنہ کرکے واضح کیا ہے۔ اب تک اسلام جیسا متوازن ومعتدل اور پورے انسانوں کے لئے یکساں مفید و نفع بخش اقتصادی نظام پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔

۴- نظام مملکت: اسلام کا یہ نظام بھی اپنے اندر بڑی وسعت اور ہمہ گیری رکھتا ہے۔ اس نظام کی کلیدی شرط یہ ہے کہ حکومت ومملکت کا قیام ارباب حل وعقد اور عوام کی باہمی رضامندی پر استوار ہونا چاہئے، محض قوت و طاقت کی بنیاد پر انسان کی جماعت پر تسلط انسانی حرمت وشرافت کے منافی ہے۔ پھر حکومت کے جملہ معاملات میں اصل حکمرانی عدل اور قانون وانصاف کی ہونی چاہئے افراد واشخاص کی شخصی رائے اور خواہشات کی نہیں۔ اسی نظام کے تحت فرد کا جماعت سے تعلق نیز مسلم حکومت کا دیگر اہل مذاہب اور مملکتوں سے تعلق پر بھی اسلام اپنی منصفانہ ہدایات دیتا ہے۔ اس موضوع پر فقہائے اسلام نے کتاب وسنت کی روشنی میں مکمل بحث کی ہے، جنھیں ان کی تصانیف میں دیکھا جاسکتا ہے۔

۵- نظام معاشرت: یہ بھی اسلام کا ایک وسیع نظام ہے۔ فرد کا فرد کے ساتھ رشتہ، فرد کا جماعت، سماج، ملک کے ساتھ رشتہ، نیز والدین کے حقوق اور ذمہ داریاں، زوجین کے حقوق اور باہمی ذمہ داریاں،اولاد کے حقوق اور فرائض نیز اہل رشتہ اور پڑوسیوں وغیرہ کے حقوق و فرائض کے بارے میں اسلام کی اپنی ہدایات وتعلیمات ہیں، جن کا مقصد اصلی ایک صالح، انسانیت نواز اور ہرسلیم الفطرت کے لئے قابل قبول معاشرہ اور سماج کا وجود و قیام ہے۔ اسلام کی نظر میں اس معاشرہ کے برپا کرنے میں جو امور مخل اور سدّ راہ بنتے ہیں، وہ ان پر قدغن لگاتا ہے اور پابندیاں عائد کرتا ہے، حجاب نساء اور پردئہ نسواں کا تعلق دراصل اسی سد ذرائع سے ہے۔ عورت کی بے حرمتی یا سماج میں اسے الگ تھلگ کردینے سے قطعی طور پر اس کا تعلق نہیں۔ وہ لوگ جو عورت کی ترقی اور زندگی کے میدان میں اسے بلند مقام پر پہنچانے کے نام پر اسے گھر سے نکال کر کاروباری دفتروں میں پہنچادینے کے جتن میں مصروف ہیں اور اپنی رائے وعمل کے خلاف کسی بات کو سنجیدگی سے سننے کے لئے تیار نہیں ہیں وہ کم از کم آج سے پچاس سال پہلے ہندوستانی سماج کا جائزہ لیں، جبکہ بلالحاظ مذہب وقوم عورتیں بے لباسی کے مقابلہ میں لباس اور بے حجابی کے مقابلہ میں حجاب کو پسند کرتی تھیں اور یہ عام دستور تھا کہ عورتیں جب کسی کام سے گھر سے باہر نکلتی تھیں تو ان کا پورا جسم لباس سے مستور ہوتا تھا حتی کہ چہرے کو چھپانے کے لئے لمبا گھونگھٹ نکال لیا کرتی تھیں، اور انصاف سے بتائیں کہ آج سے پچاس برس پہلے کی ان باحیا پردہ دار عورتوں کی جان اور عزت وناموس زیادہ محفوظ تھی، یا سڑکوں پارکوں اور دفتروں میں نمائش بدن کرنے والی آج کی ماڈرن عورتوں کی جان اور عزت وناموس زیادہ محفوظ ہے۔ ہاں اس میں کوئی تردد نہیں کہ کمپنیوں، سرکاری دفتروں اور اسٹوروں میں آج کی اہل کار عورتوں کے پاس ان پردہ نشین عورتوں کی بنسبت مال ودولت زیادہ ہے لیکن عزت وناموس کو معرض خطر میں ڈال کرکون باغیرت ہوش مند روپے پیسوں کو ترجیح دینے کی جسارت کرے گا۔

بہرحال اسلام کے دائرئہ احکام کی یہ ایک اجمالی اور نہایت اجمالی فہرست ہے جس سے کسی حد تک اس کی ہمہ گیری کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ علمائے اسلام اور مفتیان دین شرعی طور پر اس کے مکلف ہیں اور ان کا یہ علمی فریضہ ہے کہ اسلام کے ان احکام و تعلیمات کے بارے میں اگر کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو زبان و قلم سے حسب موقع اسے مطلوبہ معلومات بہم پہنچائیں۔ رہا مسئلہ اسلام کے نظریات اور احکامات وتعلیمات پر علمی ونظری بحث و تحقیق کا تو علم و فکر کے تقاضے اور آداب کی حدود میں رہتے ہوئے گفتگو کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے

آج کے دور میں جبکہ آزادیٴ تقریر و تحریر، آزادیٴ رائے ومذہب وغیرہ کو ہرفرد بشر کا بنیادی حق گردانا جارہا ہے تو کیا یہ حق صرف مغرب گزیدہ میڈیا اور لینن واسٹالن کے پرستاروں کو ہی حاصل ہے؟ یا پابند دین مسلمان اور علمائے دین کو بھی یہ حق حاصل ہے اور بلاشبہ انھیں یہ حق حاصل ہے اور وہ اپنے اس حق کا استعمال کرتے رہیں گے۔

مسلمانوں کے مسائل پر ارون شوری کے دماغ سے سوچنے اور ٹھاکرے کی زبان بولنے والے میڈیا سے متعلق بعض عناصر اور کچھ مسلم نما اسلام سے بے خبر افراد اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے شور وغوغا مچانے سے اسلام کے یہ باوفا اپنے اس حق کے استعمال اور اپنے دینی فریضہ کی انجام دہی سے باز آجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے، یہ لوگ اپنی عادت کے مطابق غبار اڑاتے رہیں گے مگر یہ کاروان علم و دین اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گا۔

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

***