ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء

 

اشیاء خورد ونوش میں ملاوٹ میزانِ عقل و شرع میں

 

از: محمد تبریز عالم قاسمی ، معین مدرس دارالعلوم دیوبند

 

 

غذائی اجناس میں ملاوٹ ۔۔۔۔، اشیاء خوردنی میں ملاوٹ کے خلاف جگہ جگہ چھاپے۔۔۔، کھوئے میں آلو کے چھلکے اور شکرقند کا انکشاف ۔۔۔، ہری سبزیوں کے نام پر لوگوں کی صحت سے مذاق ۔۔۔، مٹھائی کی دوکان پر ایس۔ ڈی۔ ایم کا چھاپہ ۔۔۔۔

اخباروں میں ایسی سرخیاں آئے دن دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں، اللہ جل مجدہ نے اس رنگا رنگ دنیا میں، ہم انسانوں کی خاطر، انگنت اشیاء پیدا کی ہیں، جو ہماری صحت کی بقاء اور استحکام کے لئے ضروری ہیں جو در آنے والی کمزوریوں اور بیماریوں کی مدافعت کرتی ہیں۔ صحت خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ چہرے پر خوب صورت رنگ اور رونق اسی وقت ابھرتی ہے جب ہمارے پاس صحت جیسی عظیم دولت ہوتی ہے۔ بقول شخصے: کسی بھی فرد یا جماعت کی کامیابی تین چیزوں میں مضمر ہے؛ صحت، صالحیت اور صلاحیت، ان میں صحت سرفہرست ہے۔ اگر انسان صحت مند نہ ہو تو زندگی بے لطف معلوم ہوتی ہے۔ حیات وکائنات کی رعنائیاں بے کیف لگتی ہیں، دنیا اپنی تمام تر رنگینیوں اور جلوہ سامانیوں کے باوجود وحشت ناک نظر آتی ہے۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے ”ہیلتھ از ویلتھ“ (صحت ہی دولت ہے)

ہندوستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں عام آدمی صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ اس کے لئے ہم سبھی براہ راست نہ سہی، لیکن بالواسطہ طور پر ذمہ دار ضرور ہیں۔ تشویش میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے کھانے پینے کے سامان اصلی اور قدرتی شکل میں دست یاب نہیں ہیں؛ جب کہ اچھی صحت کیلئے اشیاء خورد ونوش کا اپنی قدرتی حالت میں ہونا ناگزیر ہے۔ اگر اچھی اور صاف ستھری غذائیں انسان کو فراہم ہوں تو صحت کے کیا کہنے؛ لیکن آج اچھی اور اصلی چیزیں انسانیت سوز حرکتوں کی وجہ سے اپنی اصلیت ومعنویت کھوچکی ہیں۔ خصوصاً غذائی اجناس میں ملاوٹ کا مسئلہ جس طرح خطرناک شکل اختیار کررہا ہے یہ بڑا ہی تشویشناک امر ہے۔ اشیاء خوردنی میں شاید ہی کوئی چیز ہو جو ملاوٹ سے پاک ہو، اشیاء خورد ونوش کے پیک ڈبوں پر لیبل اصلی (Pure) کا چسپاں ہوتا ہے، لیکن اندر اس کا عُشر عَشیر بھی ہوتو غنیمت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مضر صحت اشیاء، کھانے پینے کی چیزوں میں مل کر انسان کے جسم میں پہنچ رہی ہیں اور صحت کو گلارہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہوا اور پانی جیسی انسان کی بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی اندھی ترقی کی دوڑ میں آلودگی کی زد میں آگئی ہیں، کہا جاتا ہے کہ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے، لیکن نقلی اور ملاوٹی اشیاء کے سبب نہ جسم صحت مندر رہا اور نہ ہی دماغ، ڈپریشن، بلڈپریشر جیسی بیماریوں کا بڑھنا اس کا بین ثبوت ہے۔

دودھ اور گھی اور ان سے بننے والی اشیاء میں ملاوٹ تو عروج پر ہے، ہر ضلع میں سینتھٹک دودھ بڑے پیمانے پر تیار کیا جاررہا ہے جن میں گلوکوز پاؤڈر، گلوکوز ہائیڈروجن وغیرہ ملائے جاتے ہیں؛ بلکہ بعض رپورٹوں کو صحیح مانیں تو ”یوریا“ کھاد کا استعمال ہوتا ہے۔ گھی میں چربی اور ہڈی ملائے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے، کھوئے میں آلو کے چھلکے اور شکرقند کا استعمال ہورہا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق یہ چیزیں، جگر، آنتوں اور گردے کے لئے انتہائی مضر ہیں۔

ہری سبزیاں صحت کیلئے انمول ہوتی ہیں، لیکن اب ان میں بھی اصلیت برائے نام ہے۔ کیمیکل کی مدد سے ان کی پیداوار بڑھائی جارہی ہے۔ اتنا ہی نہیں کریلا، بھنڈی، بیگن، ہری مرچ، ترئی اور مٹر سمیت دیگر ہری سبزیوں کو ہرا اور تازہ دکھانے کے لئے سینتھٹک رنگ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہی حال پھلوں کا بھی ہے، پھلوں کو تازہ، میٹھا اور چمک دار بنانے کے لئے کیمیکل کا استعمال بے روک ٹوک ہورہا ہے۔ ہری سبزیوں کی قدرتی پیداوار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے۔

بیل والی سبزیوں کو کیمیکل کی مدد سے ایک ہی رات میں کافی بڑا کردیا جاتا ہے، ان میں لوکی، کریلا، تربوز، خربوز، کھیرا ککڑی سمیت دیگر سبزیاں شامل ہیں۔ عام آدمی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ جس کھیرے اور ککڑی کو وہ سلاد میں استعمال کرکے کھارہے ہیں وہ صرف ایک ہی رات میں - محض ۱۰/ سے ۱۲/ گھنٹے میں پوری طرح تیار ہوجاتے ہیں۔

اخبار کی خصوصی رپورٹ کے مطابق منافع خوری کرنے والے ۵۰ پیسے والے آکسی ٹوسن نامی انجکشن سے یہ کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق قدرتی طورسے سبزیوں اور پھلوں کو لائق استعمال ہونے میں تقریباً دس سے پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ پھلوں میں سیکرین نامی کیمیکل ڈالا جارہا ہے، اس سے پھل کا ذائقہ زیادہ میٹھا ہوجاتا ہے، لیکن سیکرین کے استعمال سے یہ پھل صحت کیلئے نقصان دہ بن جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آکسی ٹوسن کا استعمال عام طور پر بوقت حمل ڈلیوری میں پریشانی کے وقت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دوا کا کوئی استعمال معروف نہیں۔ ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ اس سے تیار کی جانے والی سبزیوں سے لوگ پیٹ اور دیگر خطرناک بیماریوں کی زد میں آسکتے ہیں، بلکہ کینسرتک کی بیماری ہوسکتی ہے۔

روز مرہ استعمال میں آنے والے مسالوں سے لے کر تیل، وناسپتی گھی اور دیگر نقلی غذائی اشیاء لوگوں کو بیمار بنارہی ہیں۔ انسان اگر حالات وموسم کی ناسازگاری و ناموافقت کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے تو کبھی دواؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے، مگر افسوس یہ دوائیں بھی ملاوٹ ونقل سے محفوظ نہیں، آپ حصول صحت کی غرض سے جو دوا استعمال کررہے ہیں ممکن ہے کہ وہ بہ شکل کیپسل کوئی ٹافی اور بہ شکل ٹانک کوئی شربت ہو، یا کچھ بھی نہ ہو؛ بلکہ نقصان دہ ہو۔ ایکسپائری ڈیٹ دوائیں بھی بھولے بھالے عوام کو دے دی جاتی ہیں، جو بعض دفعہ مرض میں اضافہ کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں ایک طرف، دوسری طرف کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی کم پریشان نہیں ہیں۔ اس تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں لوگوں کے پسینے کی کمائی برباد ہورہی ہے وہیں صحت بھی خراب ہورہی ہے۔

ان سب ناجائز کاموں کے پیچھے کون سا مقصد کارفرما ہے، ہر آدمی اسے بخوبی سمجھتا ہے، آج دنیا جہاں ایک طرف ترقی کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے، روز نت نئے انکشافات ہورہے ہیں، وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دونوں ہاتھوں ناجائز دولت سمیٹنے کے لئے ہر وہ قدم اٹھانے کے لئے کوشاں ہے، جس کی منزل ”حصول زر“ کے علاوہ کچھ نہیں، لمبی کمائی کی لالچ اور انسان کی لاپروائی نے اسے لالچی بنادیا ہے، جس سے وہ تمام حدیں پار کررہے ہیں، دولت کی ہوس اور شارٹ کرٹ راستے سے بجلد امیر ترین بننے کی تمنا نے، آدمی سے آدمیت کا لبادہ چھین لیا ہے، انسان پیغامِ انسانیت سے نا آشنا ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے ملاوٹ اور نقلی اشیاء تیار کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ کم پونجی میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کریں، انسان کی صحت خراب ہوتو ہو، شریعت وسماج سے بھی کچھ سروکار نہیں۔ یہ ساری چیزیں اور موجودہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دولت کی ناجائز ہوس نے انسان کو انسانی جذبے اور حقیقی اقدار سے عاری کردیا ہے۔

بے روزگاری اور غریبی بھی ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے اس عمل کو کبھی جواز کی سند نہیں دے سکتے۔ ملاوٹ خوروں اور منافع خوروں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے غیر ایمان دارانہ راستہ اختیار کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ ترقی اور مالداری کی معراج کے لئے تو شب وروز محنت ہونی چاہئے۔ ملاوٹ ایک غیر انسانی عمل ہے افسوس اور تعجب تو اس وقت اور بڑھ جاتے ہیں، جب اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی ایسی سرگرمیوں اور بدعنوانیوں میں ملوث نظر آتے ہیں، ارے ہم تو امّت محمدیہ میں ہیں، ہماری پاک صاف شریعت، انسانیت نوازی اور حقوق العباد کی پاسداری کا پاک درس دیتی ہے، اور ہر اُن ناجائز کاموں سے منع کرتی ہے جس میں بندوں کے حقوق کا زیاں ہے۔ حرام غذا سے عبادات پر منفی اثر پڑتا ہے، بلکہ ناجائز آمدنی اور ناجائز رزق سے عبادت کی توفیق سلب ہونے کا خطرہ رہتا ہے، مشہور عالم دین، مفسر قرآن حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی کی بات نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ فرماتے ہیں: ”آج دودھ میں ملاوٹ عام جرم ہے، پانی کی ملاوٹ، مکھن نکال کر سپریٹا دودھ بنانا، دودھ میں پاوڈر ملانا، یہی وہ ناپاک کمائی ہے جس کے ذریعے کی گئی عبادت کو خدا قبول نہیں کرتا۔ حج پر حج کرو یا مذہبی دورے کرو، سب بے اثر ہیں کسب حلال سے کی گئی عبادت ہی آخرت میں کام آئے گی، اس کے علاوہ سب نفس کا دھوکہ ہے۔ آج خدا اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو جس گناہ کی سزا مل رہی ہے وہ گناہ ترک صلاة، ترک صوم اور ترک تہجد کا گناہ نہیں ہے؛ بلکہ حقوق اللہ میں دھوکہ دھڑی کا گناہ ہے“۔

سرکار نے اس کے خلاف قانون بنایا ہے؛ مگر طبیعت میں جب خباثت ہوتو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اپنے اندر بے ایمانی کو ختم کیے بغیر، بدعنوانی کا ازالہ ناممکن ہے، کسی بھی برائی کو روکنے کے لئے ضروری چیز قوت ارادی ہے جس کا فقدان جگ ظاہر ہے۔ اس بابت سماج کی فکر اور سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ وقت مثبت فیصلہ لینے کا متقاضی ہے۔ پورے سماج کو اس کے لئے کوشاں ہونا چاہیے، انقلابی پیش رفت کے لئے ذاتی مفادات کو ختم کرکے آپسی تعاون کے فروغ میں حصہ لینا ضروری ہوگیا ہے۔ اچھے ہیں وہ لوگ جو دیہات میں رہتے ہیں اور خالص قدرتی غذا استعمال کرتے ہیں۔

***