ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء

 

حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی کی غزلیہ شاعری

معاصر ادباء کی نظر میں

 

از: اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم، دیوبند

 

 

دیوبند کی سرزمین بڑی زرخیز ہے، یہاں ہر زمانے میں ایک سے ایک صاحب فضل وکمال رہے ہیں، اربابِ علم وہنر، صاحب فکر وفن اور زبان وادب کے شناوروں نے دیوبند کا نام روشن کیا ہے، یہاں کے انشا پردازوں نے بامقصد فن پاروں کے ذریعہ جہاں بڑے بڑے انقلابات برپا کیے ہیں، وہیں زبان وادب کی آبیاری بھی کی ہے۔ آج بھی یہاں کے نغموں کی مہک اور غزلوں کی صداقت ملک بھر میں؛ بلکہ اردو ادب کی دنیا میں اپنی شناخت اور ممتاز پہچان رکھتی ہے، ان میں بہت ہی نمایاں اور بجا طور پر فخر کیا جانے والا نام، عظیم پُرگوشاعر ”حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی دیوبندی رحمة الله عليه“ کا ہے، یہ جہاں ایک طرف بڑے فقیہ اور جید عالم دین، دارالعلوم دیوبند کے نائب مفتی تھے؛ وہیں اردو ادب کی دنیا میں جانے پہچانے شاعر و ادیب بھی تھے، ان کی شاعری نصف صدی پر محیط ہے، اِن کا شمار ملک کے اُن شاعروں میں ہے، جن کے یہاں فکر ونظر، جذبہٴ تخیل اور لفظ ومعانی کے درمیان ایک ربط، ایک تسلسل پایا جاتا ہے، جن کی شاعری میں زندگی کی عکاسی، حالات وواقعات کی بجا ترجمانی لفظوں کے قالب میں ڈھل کر سامنے رقص کرنے لگتی ہیں۔

نشاط مرحوم نے جس سلیقے سے اپنے احساسات، جذبات، مشاہدات اور تخیلات کا فنکارانہ اظہار کیاہے،اس سے ان کی فکری آفاقیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے، ان کا کلام انفعالی ابتذال سے دور ہے، البتہ اس میں شرافت، حسن اخلاق اور حسن وعشق کی رعنائی کا آہنگ خوب خوب ملتا ہے، غزل میں مضامین کا تنوع اور معنوی وسعت بے انتہا موجود ہے، حالی نے ”مقدمہٴ شعر وشاعری“ میں غزل کی معنویت کو وسیع کیاہے، اس سے نشاط صاحب بخوبی واقف ہیں، ان کی شاعری نئے دور کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرتی ہے، ان کے اسلوب وآہنگ سے ہر قاری متاثر ہوتا ہے، ان کی ”غزل گوئی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے، جناب ندیم الواجدی لکھتے ہیں:

”ان کے یہاں غزل نے اس قدر وسعت اختیار کی ہے کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوگئی ہے، ان کی شاعری میں غزل تمام تر فنّی لوازم کے ساتھ مخصوص آہنگ اور اسلوب میں اپنے جلوے بکھیرتی نظر آتی ہے، وہ فن کی نزاکت اور باریکیوں پر نظر رکھتے ہیں، ان کے یہاں بے ساختگی بھی ہے اور سبک روی بھی، نغمگی بھی ہے اور شائستگی بھی، وہ سیدھے سادے انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتوں اور سچائیوں کو اس قدر بے ساختگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا جذبوں کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گہرا علم رکھتے ہیں، اس لیے ان کے یہاں گہری بصیرت بھی ہے اور بالغ نظری بھی، ان کے اشعار میں حسن خیال کی معنی آفرینی تو ہے، لیکن بے راہ روی اور کج فکری نہیں ہے، ہر شعر کوثروتسنیم سے دُھلا دھلایا معلوم ہوتا ہے۔“(ترجمانِ دیوبند جون ۲۰۰۶/)

آگے مزید رقم طراز ہیں:

”جو خیالات اُن کے یہاں ملتے ہیں، جو نظریات وہ پیش کرتے ہیں، جو محسوسات ان کی غزلوں میں جھلکتے ہیں وہ سب اُن کے باطن کا پرتو اور ان کے اندرون حقائق کا آئینہ دار ہیں۔

ان کے مزاج میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہ حسن اخلاق کے جوہر سے بھی سجے سجائے نظر آتے ہیں؛ چنانچہ یہ دونوں وصف ان کی شاعری پر بھی غالب ہیں۔“(ایضاً)

دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز ادیب جناب مولانا نور عالم خلیل امینی زیدمجدہ نشاط مرحوم کی وفات کے بعد ایک تاثراتی مضمون میں، ان کا تعارف اس طرح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:

”مرحوم نشاط اردو زبان کے اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ، قادر الکلام شاعر بھی تھے، انھوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر گراں قدر مضامین لکھے، جن میں زبان کی ستھرائی اور مطالعے کی گیرائی وگہرائی نمایاں ہوتی تھی، میں نے خود کئی مضامین پڑھے اور ان کی علمی لیاقت کی داد دی۔“ (ماہنامہ فیصل ہند، ص:۴۸)

آگے شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”ان کے اشعار میں مولانا حالی کی طرح لفاظیت سے اجتناب ہوتا تھا، لیکن معانی اور خیالات کا انوکھاپن، زندگی کی سچائیوں کی سچی ترجمانی اور انسانوں پر بیت رہے ظلم وستم کی کہانی کا آہنگ بہت اونچا اور اس کا رنگ بہت شوخ ہوتا تھا۔ ان کے اشعار بھی اس راقم نے بہت سے رسالوں میں پڑھے اور ان کی پختہ وخوش گوئی سے ہر بار نیا لطف ملا، بعد میں ان کے اشعار کا ایک مجموعہ ”شناسا“ کے نام سے چھپا، جس کے ذریعہ لوگوں کو ان کے کہنہ مشق شاعر ہونے کی شناسائی ہوئی....

ان کے شعر میں منیر کی نزاکت، غالب کی حلاوت، حالی کی گہرائی، داغ کا سوز، مومن کی شفافیت، جگر کی روانی، اصغر کی تپیدگی، فانی کا انداز اظہار غم والم اور کہیں کہیں اقبال کی بلند آہنگی اور احساس بلندی بھی ہے۔“(ایضاً)

مولانا امینی جہاں عربی زبان وادب کے غواص اور شناور ہیں، وہیں ان کو اردو ادب سے بھی عشق کی حد تک تعلق و وابستگی ہے، ایک جگہ نشاط مرحوم کی شاعری سے محظوظ ہونے کے بعد فرماتے ہیں:

”مفتی کفیل الرحمن نشاط کے اشعار، رواں دواں اور پیہم جواں زندگی کے نت نئے مسائل کی ترجمانی میں لب ولہجہ، انداز وادا اور رنگ و آہنگ کے تعلق سے اپنی مخصوص طرح رکھتے ہیں، زندگی کی کامرانیوں اور فیض بختیوں اور اس کی ناقابل تلافی ناکامیوں اور محرومیوں دونوں کی نقشہ گری اپنے اشعار میں لاجواب انداز میں کرتے ہیں، ان کے اشعار کا بغور مطالعہ کیجیے اندازہ ہوگا کہ وہ شاعر کی پاکیزہ نفسی، روح کی شفافیت، احساس کی نزاکت، تخیل کی بلندی، مسائل حیات کے احاطے اور کائنات کی سچائیوں کی ہمہ گیر تعبیر پر شاہد عدل ہیں۔“ (ایضاً، ص:۴۹)

چند اشعار ملاحظہ ہوں:

کوہِ غم ٹوٹ پڑے دید و دل پر کتنے

قافلے درد کے آئے ہیں برابر کتنے

خشک کانٹوں سے ٹپکتا رہا کلیوں کا لہو

قتل گاہوں سے ملے پھول سے پیکر کتنے

ہم ہیں منصور لبِ دار نے چوما ہم کو

ہم ہیں سقراط ملے زہر کے ساغر کتنے

ہم نے دیکھے ہیں بُرے وقت کے منظر کتنے

پھول بن جاتے ہیں حالات کے پتھر کتنے

حادثہ شرط محبت ہے تو تسلیم مگر

حادثے ہوں گے مرے قد کے برابر کتنے

مقطع ملاحظہ ہو:

صرف الفاظ کے پیکر نہیں اشعارِ نشاط

فکر ومعنی کے سموئے ہیں سمندر کتنے

ایک غزل میں اس طرح نغمہ سرا ہیں:

ملا کرو کبھی ہم سے تو زندگی کی طرح

یہ کیا کہ دیکھ کے اٹھ جاؤ اجنبی کی طرح

سمٹ سکو تو سمٹ جاؤ ماہتاب صفت

بکھرسکو تو بکھر جاؤ چاندنی کی طرح

تمہاری ریشمی زلفیں رخِ حیات کی ضو

مسخر کے دوش پہ مانوس تیرگی کی طرح

رہِ حیات کے غم میں نشاط کا پہلو

کسی کے حسن لب ورخ کی دل کشی کی طرح

         

مزید چند اشعار پیش ہیں:

دستِ قدرت نے سموئے ہیں اُجالے مجھ میں

جب ضرورت ہو چراغوں کی، جلا لو مجھ کو

زیست کی راحت ڈھونڈنے والو

زیست مکمل دھوپ نہ سایہ

جس کو ہم رندِ بلا نوش کہا کرتے تھے

اس کو نزدیک سے دیکھا تو فرشتہ نکلا

ترے غم کی وسعتوں میں غم کائنات پنہا

ترا غم رہے سلامت تو ہزار غم گوارا

نشاط مرحوم نے اپنے چالیس سالہ ادبی سفر کی تکمیل پر اپنے منتخب ”سوعدد“ کلام کا مجموعہ شائع کیا، اس کا نام ”شناسا“ رکھا، لکھتے ہیں:

”تقریباً چالیس سالہ ادبی سفر کا مختصر انتخاب پیش ہے، اس طویل ادبی سفر میں سبزہ زاروں کی بھی سیر کی، پھولوں کی دلآویز نکہتوں نے بھی مشامِ دل وجاں کو معطر کیا؛ راہ کے کانٹے بھی والہانہ استقبال کے لیے آئے؛ صحرا کے پُرہول سناٹے بھی دیکھے؛ گاؤں کی پگڈنڈیاں، شہر کے صاف شفاف راستے، قصباتی زندگی کے مناظر تجربات کی نگاہ سے گذرے۔

اِن سب کے مجموعی اثر سے ادب کی راہ کا مسافر کس قدر متأثر ہوا، اور اشعار کی زلفوں کو کتنا سنوارکر خوبصورت انداز میں پیش کیا، اس کا فیصلہ قارئین کے حوالے ہے۔“ (شناسا ص۴)

ڈائرکٹر ٹی، وی اردو سیکشن؛ آل انڈیا ریڈیو دہلی، نشاط مرحوم کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”نشاط صاحب نے جس سلیقے سے مشاہدات، محسوسات، جذبات، حالات اور خیالات کا فنکارانہ اظہار کیا ہے وہ ”کلاسیکی“ ادبی روایت، ذاتی شرافت، نسبی نجابت اور اس درد مند دل کے بغیر ممکن نہیں، جس سے شعر میں تأثر پیدا ہوتا ہے، تأثر اور اثر پذیری ہی ایک ماورائے لفظ کیفیت ہے، جس کے ذریعہ کلام موزوں اور شاعری میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ (شناسا ص۶)

کم ہی ملتے ہیں بھلے شعر کے نباض نشاط

یوں تو کہنے کو بہت لوگ سخنور ٹھہرے

اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈائرکٹر ٹی، وی جناب دلیل الرحمن انجم عثمانی کہتے ہیں کہ:

”سخنوری میں نباضی کے لیے اس صدری نسخے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کتابوں میں نہیں دلوں میں ودیعت کیاجاتاہے؛ چنانچہ تخلیق کار مخلوق ہونے کے باوجود بحدِ توفیقِ خدا قوتِ خلق بھی رکھتا ہے، اس لحاظ سے تخلیق کار محبت، مقبولیت اور پسندیدگی کے ہی نہیں؛ احترام کے بھی لائق ہے، خاص طور پر وہ تخلیق کار جو خالقِ حقیقی کی بخشی ہوئی تخلیقی توفیق کو صالح اقدار اور صحت مند لطافتِ طبع کے لیے استعمال کرتا ہے، اس اعتبار سے انسانیت کی ارتقا میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا ہے، ایسے ہی صاحب کردار شاعروں میں نشاط صاحب نے اپنا مقام بنایا ہے، انھوں نے شاعری کو صرف لذتِ ذہنی کا ذریعہ نہیں بنایا ہے بلکہ فن کی راہ سے اذہان کو فکر کی بلندیوں اور حسِ لطیف کی گیرائیوں سے ہم کنار کرنے کا کام لیا ہے، کہتے ہیں:

غم بھی تری عطا ہے خوشی بھی تری عطا

کافی ہے بارگاہِ محبت سے انتساب

حضرت نشاط مرحوم مشاہدات واحساسات کی سطح پر ماضی کی صالح روایات کے امین بھی ہیں، حال سے باخبر بھی اور مستقبل پر مفکرانہ نظر بھی رکھتے ہیں، عصری زندگی کی برہنہ حقیقتیں ان کے سامنے ہیں، مگر ناسازگار ماحول میں بھی (اقبال کی طرح) امید کے چراغ کی لو کو مدھم نہ ہونے دیتے ہیں۔

حیات کی تلخیوں نے آخر نشاط طرزِ حیات بدلا

وہ آج ہے باوقار انسان کبھی تھا نازک مزاج پہلے

محبتوں کے دیے جلاکر دلوں کی دہلیز پر سجادو

کہ نفرتوں کی فضا سے یہ بھی ہے صورتِ انتقام ساقی

اپنے کمالِ ضبط کا دعویٰ نہیں مگر

اکثر حوادثات پہ میں مسکرادیا

نشاط صاحب کا دل ایک سچے شاعر اوراچھے انسان کی طرح انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے، ان کے ذہنی پس منظر میں اسلامی روایات کی روشنی ہے، ان کے جذبات واحساسات دردمندی سے مملو ہیں، اسی دردمندی سے انھوں نے الفاظ کے موتی اور مفاہیم کی سوغات سے شاعری کا دامن بھردیا ہے:

ذرا شیشہ گرو ہشیار رہنا

کہ ایک خوابیدہ پتھر جاگتا ہے

(شناسا ص ۷-۸)

نشاط مرحوم نے مختلف اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے، حمد، نعت، قصیدہ، مثنوی، غزل، رباعی، نظم، مرثیہ، شہر آشوب، حالاتِ حاضرہ، رخصت نامہ، ادبِ اطفال وغیرہ اصناف پر ان کی شعری تخلیق ملتی ہے، لیکن مجموعی حیثیت سے نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے غزل سے دلچسپی لی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری کا اثر دوسرے اصناف پر بھی نظر آتا ہے، اپنے کلام کے لیے اُن کو جہاں مشاعرے میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا وہیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی انھوں نے دادِ آفریں حاصل کی ہے، شاعری کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں:

(۱) شناسا (۲) نعتِ حضور     (۳) کلیاں

ملک وبیرونِ ملک کے پچاسوں اخبار، رسائل، مجلات، روزنامے، ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہنامے، سہ ماہی دستاویزی اور ادبی پرچوں میں آپ کے کلام شائع ہوتے رہے ہیں۔ شاعری سے ہٹ کر دیگر موضوعات پر تصانیف کی تعداد تین دہائیوں سے متجاوز ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ دونوں گلشنوں میں آپ نے شعروسخن کے موتی پروئے، خوشی ومسرت کے گیت گائے، غم والم کا مرثیہ پڑھا، سیکڑوں اشعار غیر مطبوعہ ہیں، اللہ کرے ان کی طباعت واشاعت کا سامان ہوجائے، تاکہ زبان وادب کے عاشق کے نقوشِ قلم کو دوام، خلود اور جاویدیت نصیب ہو!

خلاصہ یہ کہ نشاط مرحوم کی شاعری خصوصاً ”غزلیہ شاعری“ اپنے اندر بے انتہا وسعت رکھتی ہے، زبان وبیان کے اصول وضوابط کی پابندی کو دیکھتے ہوئے ان کی شاعری بجا طور پر، پختگی کے ساتھ کلاسیکی شاعری میں اونچا مقام رکھتی ہے۔ زبان وادب کی بے راہ روی اور ذوق کے ناقص وفاسد ہونے کا حضرت نشاط مرحوم کو بڑا افسوس تھا۔ ایک غزل کا مقطع ہے:

غزل گوئی نشاطِ جاں ہے لیکن

ادب کا احترامِ فن کہاں ہے؟

***