ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری مطابق جولائی 2010 ء

ختمِ نبوت کے موضوع پر چہل حدیث

از:             ڈاکٹر محمد سلطان شاہ

صدر شعبہ عربی وعلوم اسلامیہ، جی، سی یونیورسٹی، لاہور

 

نوٹ: اس مضمون میں صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کے نمبرز اس کے مطابق ہیں۔

--------------

اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور اُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ وہ الوہی پیغام پر عمل پیرا ہوکر اپنے امتیوں کے سامنے لائق تقلید نمونہ پیش کرسکیں۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ علیہ التحیة والثناء پر اختیام پذیر ہوا۔ خلاّقِ عالمین نے اپنے محبوبِ مکرم صلى الله عليه وسلم کو رحمة للعالمین کے لقب سے سرفراز فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر عالم کے لیے رحمت کبریا ہیں۔ اس کے علاوہ رب کریم نے حضور سید انام صلى الله عليه وسلم پر دین مبین کی تکمیل فرمادی اور وحی جیسی نعمت کو تمام کردیا اور اسلام جیسے عالمگیر (Universal)، ابدی (Eternal) اور متحرک (Dynamic)دین کو رہتی دُنیا تک کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں حضور اکرم، نبی معظم، رسول مکرم صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اس آیت مبارکہ میں کیاگیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا. (سورة الاحزاب:۳۳-۴۰)

محمد صلى الله عليه وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (بریلوی، احمد رضاخان، کنزالایمان فی ترجمة القرآن، لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص:۵۰۹)

یہ نص قطعی ہے ختم نبوت کے اس اعلان خداوندی کے بعد کسی شخص کو قصرِ نبوت میں نقب زنی کی سعی لاحاصل نہیں کرنی چاہئے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مہبطِ وحی صلى الله عليه وسلم کے بہت سے ارشادات کتب احادیث میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ایسی احادیث پر مبنی اربعین پیش کی جارہی ہے تاکہ منکرین ختم نبوت پر حق واضح ہوسکے اور یہ عمل اس حقیر پرتقصیر کے لئے نجاتِ اُخروی کا باعث ہو، کیونکہ محدثین کرام نے اربعین کی فضیلت میں روایات نقل فرمائی ہیں۔ حافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی المتوفی ۴۳۰ھ نے حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے مروی یہ روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

من حفظ علی اُمتی أربعین حدیثا ینفعہم اللّٰہ عز وجل بہا، قیل لہ: أدخل من أی أبواب الجنة شئت.

جس شخص نے میری اُمت کو ایسی چالیس احادیث پہنچائیں جس سے اللہ تعالیٰ عز وجل نے ان کو نفع دیا تو اُس سے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الاصفہانی، ابی نعیم احمد بن عبداللہ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مصر: مکتبہ الخانجی بشارع عبدالعزیز ومطبعة السعادہ بجوار محافظہ، ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲/)۔ ۴:۱۸۹

۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا،اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۵۳۴، ۳۵۳۵)

۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ وَنَحْنُ الْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ، یبدأ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ.

ہم سب آخر والے روزِ قیامت سب سے مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حالانکہ (پہلے والوں) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان سب کے بعد۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعہ، باب ہدایة ہذہ الامة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۷۸، ۱۹۷۹، ۱۹۸۰، ۱۹۸۱، ۱۹۸۲)

۳- حضرت ابوحازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ نبی مکرم رسول معظم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ.

بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنادیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث: ۳۴۵۵)

۴- حضرت انس رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملاکر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَہَاتَیْنِ.

میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة والنازعات، حدیث: ۴۹۳۶، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث: ۵۳۰۱، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلى الله عليه وسلم، بعثت انا والساعة کہاتین، حدیث: ۶۵۰۳، ۶۵۰۴، ۶۵۰۵)

۵- امام مسلم نے تین اسناد سے یہ حدیث بیان کی ہے:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، وَفِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ: قَالَ: قُلْتُ لِلزُّہْرِیْ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، عقیل کی روایت میں ہے زہری نے بیان کیا عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۷)

۶- حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسولِ معظم، نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.

بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۶)

۷- حضرت محمد بن جبیر اپنے والد گرامی حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حدیث: ۳۵۳۲، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب من بعد اسمہ احمد، حدیث: ۴۸۹۶)

۸- امام مسلم نے ثقہ راویوں کے توسط سے حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضى الله تعالى عنه سے یہ روایت نقل کی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَہ أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبة اور نبی الرحمة ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۸)

۹- حضرت جبیربن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:

اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادے گا، میں حاشر ہوں لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۵)

۱۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامَکُمْ مِنْکُمْ.

اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے کوئی شخص ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکما بشریعة نبینا محمد صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۹۲)

۱۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لاَتَقُوْمَ السَّاعَةُ حَتّٰی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِیْمَةٌ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ، کُلُّہُمْ یَزعُمُ أَنَّہ رَسُوْلُ اللّٰہ.

قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث: ۳۵۷۱)

۱۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.

نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث:۶۹۹۰)

۱۳- حضرت ابواُمامہ الباہلی رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ایک خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے:

أَنَا اٰخِرُ الْأَنْبِیَاءِ، وَأَنْتُمْ اٰخِرُ الأُمَمِ.

میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج، حدیث: ۴۰۷۷، المستدرک للحاکم حدیث:۸۶۲۱)

۱۴- حضرت عرباض بن ساریہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن.

بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اور انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ (المستدرک للحاکم، تفسیر سورة الاحزاب، حدیث: ۳۵۶۶، جلد:۷، ص:۴۵۳۔ مسند احمد، حدیث عرباض بن ساریہ، جلد۴، ص:۱۲۷)

۱۵- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أَہْل الدُّنْیَا، وَالأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الْمُقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ.

ہم (امت محمدیہ صلى الله عليه وسلم) اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روزِ قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب کتاب ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب ہدایة ہذہ الأمة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۸۲)

۱۶- حضرت ضحاک بن نوفل رضى الله عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدَ اُمَّتِیْ.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، عن ضحاک بن رمل الجہنی، حدیث: ۸۱۴۶، ج:۸، ص:۳۰۳)

۱۷- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کُنْتَ أَوَّلَ النَّبِیِّیْن فِی الْخَلْقِ وَاٰخِرُہُمْ فِیْ البَعْثِ.

میں خلقت کے اعتبار سے انبیاء کرام میں پہلا ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، حدیث: ۴۸۵۰، ۳:۲۸۲، حدیث: ۷۱۹۰، ۴:۴۱۱)

۱۸- حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہیں درود شریف کے یہ الفاظ سکھائے:

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلاَتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاِمَامَ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامَ الْخَیْرِ، (وَقَائِدِ) الْخَیْرِ، وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُہ بِہِ الأَوَّلُوْنَ وَالاٰخِرُوْنَ (اسکے بعد پورا درود ابراہیمی ہے)

الٰہی اپنا درود ورحمت اور برکات رسولوں کے سردار، متقیوں کے امام ابو نبیوں کے خاتم محمد پر نازل فرما جو تیرے بندے اور رسول اور امام الخیر اور (قائد) الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ الٰہی آپ صلى الله عليه وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اولین وآخرین رشک کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب اقامة الصلوٰة والسنة فیہا، باب ما جاء فی التشہد، حدیث:۹۰۶)

۱۹- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ: اِنَّ لَہ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا.

جب اللہ کے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی (کا انتظام) ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۱)

۲۰- امام ابن ماجہ سے مروی روایت میں حضرت ابراہیم رضى الله تعالى عنه کے بارے میں ہے:

مَاتَ وَہُوَ صَغِیْرٌ وَلَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نَبِیٌّ لَعَاشَ ابْنُہ، وَلٰکِنْ لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ.

ابراہیم رضى الله تعالى عنه کا انتقال ہوا جب وہ چھوٹے تھے۔ اگر فیصلہ (تقدیر) یہ ہوتا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو ان کا صاحبزادہ زندہ رہتا۔ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۰)

۲۱- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النَّبُوَّةِ اِلاَّ الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرٰی لَہ.

اے لوگو علاماتِ نبوت میں سے صرف رویائے صالحہ (سچا خواب) ہی باقی ہے جو مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے لئے کوئی دیکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۹، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة، باب النہی عن قرأة القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث:۱۰۷۴)

۲۲- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ، فِی غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَخَلَّفْنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے غزوئہ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه کو ساتھ نہیں لیا بلکہ گھر پر چھوڑدیا تو انھوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہوجاؤ جیسے ہارون، موسیٰ کے ساتھ لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه ، حدیث:۶۲۱۸-۶۲۲۱)

۲۳- ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِی الأُمَمِ قَبْلَکُمْ، مَحَدَّثُوْنَ، فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْہُمْ اَحَدٌ فَاِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْہُمْ، قَالَ: ابْنُ وَہْبٍ: تَفْسِیْرُ مُحَدَّثُوْنَ، مُلْہَمُوْنَ.

تم سے پہلے پچھلی اُمتوں میں محدث تھے۔ اگر اس امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر بن الخطاب ہیں۔ ابن وہب نے کہا محدث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة۔ باب من فضائل عمر رضى الله تعالى عنه، حدیث:۶۲۰۴)

۲۴- حضرت عقبہ بن عامر رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لَوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب قولہ صلى الله عليه وسلم: ”لو کان نبی بعدی لکان عمر“ حدیث:۳۸۸۶)

۲۵- حضرت ام کرز الکعبیة رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور ختی المرتبت صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

ذَہَبَت النَّبُوَّةُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.

نبوت ختم ہوگئی، صرف مبشرات باقی رہ گئے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۶)

۲۶- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:

فَاِنِّیْ آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ، وَاِنَّ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ.

بے شک میں آخر الانبیاء ہوں، اور میری مسجد آخرالمساجد ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فضل الصلوٰة بمسجدی مکة والمدینة، حدیث:۳۳۷۶)

۲۷- حضرت نعیم بن مسعود رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم نے اپنے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی اطلاع ان الفاظ میں دی:

لاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَلاَثُوْنَ کَذَابًا کُلُّہُمْ یَزْعمُ اَنَّہ نَبِیُّ.

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کذاب ظاہر نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ نبی ہے۔ (ابن ابی شیبہ فی مصنفہ، حدیث: ۳۷۵۶۵، ۷/۵۰۳)

۲۸- حضرت ابوذر رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ حضور سیدانام صلى الله عليه وسلم نے اُن سے مخاطب ہوکر کہا:

یٰا أَبَا ذَرٍ أَوَّلُ الْاَنْبِیَاء آدَمُ وَآخِرُہ مُحَمَّدٌ.

اے ابوذر! انبیاءِ کرام میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم ہیں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، عن ابوذر، حدیث: ۸۵:۱/۳۹)

۲۹- حضرت مصعب بن سعد اپنے والد حضرت سعد رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں:

أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ اِلٰی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِیًّا فَقَال: أَتُخَلِّفُنِیْ فِی الصِّبْیَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنی جگہ چھوڑا تو انھوں نے عرض کیا: کیا آپ صلى الله عليه وسلم مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی مناسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوئہ تبوک، حدیث: ۴۴۱۶)

۳۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور سیدانامصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

فُضِّلَتْ عَلٰی الأَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ ونُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ، وَجُعِلَتْ لِیْ الأَرْضُ طَہُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ اِلی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبیُّوْنَ.

مجھے تمام انبیاء کرام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی اوّل یہ کہ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور دوسرے یہ کہ رُعب سے میری مدد کی گئی۔ تیسرے میرے لئے غنیمت کا مال حلال کردیاگیا۔ چوتھے میرے لئے تمام زمین پاک اور نماز پڑھنے کی جگہ بنادی گئی۔ پانچویں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد وموضع الصلاة، حدیث:۱۱۶۷)

۳۱- حضرت ابو ہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانَتْ تَسُوْسُہُمْ اَنْبِیَائُہُم کُلَّمَا ذَہَبَ نَبِیٌّ خَلْفَہ نَبِیُّ وَّ اِنَّہ لَیْسَ کَائِنًا فِیْکُمْ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

بنی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاء کرام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ، امام، المصنف، جلد۱۵، ص:۵۸۔ کراچی: ادارة القرآن ۱۴۰۶ھ)

۳۲- حضرت سعد رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے ارشاد فرمایا:

أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۸)

۳۳- حضرت جابر بن سمرہ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

وَرَأَیْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتْفِہ مِثْلَ بَیْضَةِ الْحَمَامَةِ یُشْبِہُ جَسَدَہ.

اور میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جس کا رنگ

جسم کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اثبات خاتم النبوة، حدیث:۶۰۸۴)

۳۴- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِیْتُ خَزَآئِنَ الأَرْضِ فَوُضِعَ فِیْ یَدَیَّ اُسْوَارَانِ مِنْ ذَہَبٍ فَکَبُرَ ا عَلَیَّ وَأَہَمَّانِیْ فَأُوْحِیَ اِلَیَّ أَنِ انْفُخْہُمَا فَنَفَخْتُہُمَا فَذَہَبَا فَأَوَّلْتُہُمَا الْکَذَّابِیْن الَّذِیْنَ أَنَا بَیْنَہُمَا صَاحِبَ صَنْعَآءِ وَصَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکرہوا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اُڑادوں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑگئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ میں دو کذابوں کے درمیان ہوں۔ ایک صاحب صنعاء ہے اور دوسرا صاحب یمامہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الروٴیا، حدیث:۵۹۳۶)

۳۵- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک حدیث مبارکہ کے آخر میں ہے:

فَأْوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْن یَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُہُمَا الْعَنْسِیَّ صَاحِبَ صَنْعَآءَ وَالآخَرُ مُسَیْلِمَةَ صَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

میں نے اس کی یہ تعبیر لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخصوں کا ظہور ہوگا۔ ایک ان میں سے صنعاء کا رہنے والا عنسی ہے دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتابالروٴیا، حدیث:۵۸۱۸- ۲۲۷۴)

۳۶- حضرت وہب بن منبہ حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت نوح عليه السلام کی امت کہے گی:

وَأَنّٰی عَلِمْتَ ہٰذَا یَا أَحْمَدُ وَأَنْتَ وَأُمَّتُکَ آخِرُ الأُمَمِ.

اے احمد! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ آپ صلى الله عليه وسلم اور آپ کی اُمت اُمتوں میں آخری ہیں۔ (المستدرک للحاکم، باب ذکر نوح النبی، حدیث: ۴۰۱۷-۲،۵۹۷)

۳۷- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کے متعلق فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیْ بَعْدِیْ.

تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليه السلام کیلئے ہارون عليه السلام تھے۔ سنو بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس روایت کی بابت راوی کے استفسار پر حضرت سعد نے فرمایا: ”میں نے اس حدیث کو خود سُنا ہے۔“ انھوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سُنا ہوتو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۰۹۵)

۳۸- حضرت علی المرتضیٰ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے:

بَیْنَ کَتِفَیْہ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم آخری بنی ہیں۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب وصف آخر من علی رضى الله تعالى عنه، حدیث:۳۶۳۸)

۳۹- حضرت عامر اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۷۔ سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، فضل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث:۱۲۱)

۴۰- علامہ علاء الدین علی المتقی نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا یہ قول رقم کیا ہے:

لا نبی بعدی ولا أمة بعدکم، فاعبدوا ربکم، أقیموا خمسکم وصوموا شہرکم، وأطیعوا ولاة أمرکم، أدخلوا جنة ربکم.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت، پس تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پنج گانہ نماز قائم کرو اور اپنے پورے مہینے کے روزے رکھو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، (پس) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (علی المتقی الہندی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۸، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/ ج:۱۵، ص:۹۴۷)

۴۱- علاء الدین علی المتقی نے ”کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں یہ حدیث نقل کی ہے:

لا نبوة بعدی الا المبشرات، الریا الصالحة.(ایضاً، حدیث ۴۱۴۲۲، ج:۱۵، چ:۳۷۰)

۴۲- علامہ علاؤالدین علی المتقی بن حسام الدین الہندی رحمة الله عليه نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:

یا ایہا الناس! انہ لا نبی بعدی ولا امة بعدکم، الا! فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وصلوا ارحامکم، وادوا زکاة اموالکم طیبة بہا انفسکم، واطیعوا ولاة امرکم، تدخلوا جنة ربکم.

اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ سنو! اپنے رب کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز پڑھو اور اپنے مہینے (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنی رشتہ داریاں جوڑو اور اپنے اموال کی زکوٰة خوشدلی سے ادا کرو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، تم جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (علی المتقی الہندی کنزل العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۷، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/، ج:۱۵،ص:۹۴۷)

۴۳- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے امام احمد بن حنبل نے یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو انھوں نے عرض کیا:

یا رسول اللّٰہ، اتخلفنی فی الخالفة، فی النساء والصبیان؟ فقال: اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ؟ قال: بلی یا رسول اللّٰہ، قال: فادبر علی مسرعا کانی انظر الی غبار قدمیہ یسطع، وقد قال حماد: فرجع علی مسرعا.

یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں میں (یعنی) عورتوں اور بچوں میں جانشین بنارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون عليه السلام  کی موسیٰ عليه السلام سے تھی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ اُس (راوی) نے کہا: پس علی رضى الله تعالى عنه تیزی سے مُڑے تو میں نے گویا ان کے قدموں کا غُبار اُڑتے دیکھا اور حماد نے کہا: پس علی تیزی سے مُڑے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث: ۱۴۹۰، احمد محمد شاکر (شرحہ وضع فہارسہ) مصر: دارالمعارف، ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵/، ج:۳،ص:۵۰)

۴۴- امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں، امام طحاوی نے مشکل الآثار میں، علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور میں، علامہ علی المتقی الہندی نے کنزالعمال میں، امام ہیشمی نے مجمع الزوائد میں حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاہے:

لا نبی بعدی ولا أمة بعدک. میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔ (زغلول، ابوطاہر محمد السعید بن بسیونی، موسوعة اطراف الحدیث النبوی الشریف، بیروت: دارالفکر،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴/، ج:۷،ص:۲۸)

***