ماهنامه دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء

مذہبی آزادی - بقائے باہم کا ایک درخشاں اصول

(قرآن وسنت کے تناظر میں)

از: ریحان اختر

ریسرچ اسکالر، شعبہٴ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

 

اسلام ایک استدلالی وعقلی اور مبرہن ومدلل مذہب ہے۔ جسے مالک الملک نے ایک اصول وضابطے کی شکل میں کائنات انسانی میں بسنے والے لوگوں کے لئے طے کرکے دنیا میں اتار دیا ہے۔ یہ انسان کے لئے زندگی کے تمام تر شعبہ جات میں اس کی مکمل رہنمائی کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا، اس کی تبلیغ و دعوت کے اصول حکمت و دانشمندی، وعظ و تلقین اور بحث ومباحثہ پر قائم ہیں۔ پیغمبراسلام صلى الله عليه وسلم پر جو صحیفہٴ ربانی نازل ہوا، اس نے سب سے پہلے عقل انسانی کو مخاطب کیا۔اور غور وفکر، فہم و تدبر کی دعوت دی کہ اسلام اپنی کسی بھی تعلیم کو لوگوں پر زبردستی نہیں تھوپتا ہے۔ بلکہ وہ لوگوں کو غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتا ہے۔ ضلالت وگمراہی اور نجات و فلاح کے راستے سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے پھر یہ کہ جو مذہب اپنی ترویج واشاعت کے لئے دعوت و تبلیغ، ارشاد و تلقین کا راستہ اختیار کرنے اور سوچنے سمجھنے کا لوگوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھلا کیوں کسی مذہب کے پیروکاروں کو جبر وکراہ کے ذریعہ اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور زور زبردستی اختیار کرے گا۔متعصبین اور معاندین اسلام اس کی اشاعت کو فتوحات اور ملکی محاربات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھک رہی ہے کہ، اسلام کو بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے اپنی ذاتی خوبیوں اور محاسن سے لوگوں کو اپنا مطیع فرمان نہیں بنایا بلکہ اپنی طاقت و قوت سے جبر واکراہ کے ذریعہ دین اسلام کا قلاوہ ان کی گردن میں ڈال دیا ہے اور اسی جبر واکراہ نے امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رضا ورغبت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ لیکن ہم تعلیمات اسلام کی روشنی میں اس قسم کی مسموم ذہنیت رکھنے والوں کے باطل خیالات کو پرکھیں گے، کہ قرآنی آیات اور تعلیمات نبوی صلى الله عليه وسلم میں مذہبی آزادی کے سلسلہ میں کیا احکام وتعلیمات موجود ہیں اوراسلام کے ماننے والے ان تعلیمات پر کتنا عمل پیراہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو طویل معرکہ آرائیوں سے سابقہ پڑا ہے۔ ان کے یہ محاربات جارحانہ ہوں یا مدافعانہ، فتوحاتِ ملکی کے لئے ہوں یا اعلاء کلمة اللہ کے لئے، ان تمام محاربات و فتوحات کا مقصد اور حاصل یہ نہ تھا کہ کسی کو بزورِ شمشیر اور حکومت و اقتدار کے بل بوتے پر مسلمان بنایا جائے اسلام نے تو صرف اور صرف اپنی خوبیوں اور محاسن سے عالم میں رسوخ اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس نے جس تیزی کے ساتھ اقوام وملل کے اذہان و قلوب کو مسخر کیا اس طرح کی نظیر دوسرے مذاہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہ بات کہ اسلام میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے، اس کو ثابت کرنے کے لئے شریعت اسلام کے اصول، رسول صلى الله عليه وسلم کے اوصاف وخصائل اخلاق حمیدہ وطریقہ تعلیم اور پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کا طرز عمل یہ ساری چیزیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ شریعت اسلام نے بہ زور و تخویف کسی کو مسلمان بنانے کی سخت ممانعت کی ہے قرآن کی متعدد آیات اس بات پر شاہد عدل ہیں۔

(۱) لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللّٰہ فقد استمسک بالعروة الوثقٰی لا انفصام لہا واللّٰہ سمیع علیم. (سورہ البقرة ۲۵۶)

ترجمہ: زبردستی نہیں ہے دین کے معاملہ میں بے شک جدا ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے اب جب کوئی نہ مانے گمراہ کرنے والوں کو اور یقین لائے اللہ پر تو اس نے پکڑلیا حلقہ مضبوط جو ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے۔

(۲) افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین. (یونس ۹۹)

ترجمہ: کیا تو زبردستی کرے گا لوگوں پرکہ ہوجائیں با ایمان۔

(۳) ولا تسبو الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبو اللّٰہ عدواً بغیر علم. (الانعام۱۰۸)

ترجمہ: اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا بس وہ برا کہنے لگیں گے بربنائے دشمنی بغیر جانے۔

(۴) ولو شاء ربک لجعل الناس امة واحدة ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک ولذٰلک خلقہم وتمت کلمة ربک لأملئن جہنم من الجنة والناس اجمعین. (ہود:۱۱۸-۱۱۹)

ترجمہ: اوراگر چاہتا تیرا رب تو بنادیتا لوگوں کو ایک جماعت اور لوگ ہمیشہ باہم اختلاف کرتے رہیں گے مگر جن پر رحم کیا تیرے رب نے اور اسی واسطے ان کو پیدا کیا اور پوری ہوئی بات تیرے رب کی کہ البتہ بھر دوں گا دوزخ جنوں سے اور آدمیوں سے اکٹھے۔

(۵) ولو شاء ربک لآمن من فی الارض کلہم جمیعا افانت تکرہ الناس حتّٰی یکونوا موٴمنین. (یونس۹۹)

ترجمہ: اوراگر تیرا رب چاہتا بے شک ایمان لے کر آتے جتنے لوگ کہ زمین میں ہیں سارے۔

(۶) ولو شاء اللّٰہ ما اشرکوا. (الانعام:۱۰۷)

ترجمہ: اوراگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے۔

(۷) ان نشأ ننزل علیہم من السماء آیة فظلت اعناقہم لہا خاضعین. (الشعراء:۴)

ترجمہ: اگر ہم چاہیں تو اتار دیں ان پر آسمان سے ایک نشانی پھر ہوجائیں ان کی گردنین ان کے آگے نیچی۔

(۸) انک لا تہدی من احببت ولکن اللّٰہ یہدی من یشاء وہو اعلم بالمہتدین. (القصص:۵۶)

ترجمہ: تو راہ پر نہیں لاسکتا جس کو تو چاہے لیکن اللہ راہ پر لاتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر آئیں گے۔

(۹) وما انت علیہم بجبار فذکر بالقرآن من یخاف وعید. (ق:۴۵)

ترجمہ: تو نہیں ہے ان پر زور کرنے والا سو تو سمجھا قرآن سے اس کو جوڈرے میرے ڈرانے سے۔

(۱۰) فذکر انما انت مذکر لست علیہم بمصیطر. (الغاشیہ: ۲۱-۲۲)

ترجمہ: سو تو سمجھائے جا تیرا کام سمجھانا ہے تو نہیں ہے ان پر مسلط۔

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانوں کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے۔ اور رد و قبول کے فیصلوں کو اس کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ دین ومذاہب کے سلسلے میں وہ بالکل آزاد ہیں۔ چاہے تو قبول کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں،اور چاہے تو انجامِ بد کے لئے تیار ہوجائیں۔ کیونکہ اسلامی ریاست کے ذریعہ ان پر زور زبردستی، طاقت وقوت اور جبر واکراہ اور حکومت واقتدار کا استعمال کرکے اپنا ہم مذہب بنانا ناجائز ہے۔ اسی لئے تمام انبیاء ورسل کو اللہ نے پیغام رساں بنایا اور انہیں حکم دیا کہ صرف میرا پیغامِ حق ان تک پہنچادو، تم پھر اپنے فرضِ منصبی سے آزاد ہو۔ تمہارا کام صرف پیغام رسانی کا ہے۔ وہ اپنے مذہبی رسم ورواج، دین ومذہب کے افعال واعمال کی ادائیگی میں قطعی طور پر کسی کے پابند نہیں ہیں حق و باطل کا فیصلہ تو ہم کریں گے۔ لا اکراہ فی الدین کی آیت کے ذیل میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:

”لا یتصور الاکراہ فی ان یومن احد اذ الاکراہ الزام الغیر فعلا لایرضی بہ الفاعل وذا لایتصور الا فی افعال الجوارح واما الایمان فہو عقد القلب وانقیادہ لایوجد بالاکراہ“ (تفسیرمظہری،ج:۱، ص:۲۸۰)

کسی کے ایمان قبول کرنے کے باب میں مجبور کرنے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مجبور کرنے کا مطلب ہے کسی کے سر ایسا کام تھوپ دیا جس کو وہ ناپسند کرتا ہے لہٰذا یہ چیز افعال وجوارح میں تو پائی جاسکتی ہے لیکن ایمان جو تصدیق قلبی اور انقیاد محض کا نام ہے دباؤ کے ساتھ نہیں پایا جاسکتا ہے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:

”اس اصل عظیم کا اعلان کہ دین واعتقاد کے معاملے میں کسی طرح کا جبر واکراہ جائز نہیں۔ دین کی راہ دل کے اعتقاد و یقین کی راہ ہے۔اور اعتقاد دعوت وموعظت سے پیداہوسکتا ہے نہ کہ جبر واکراہ سے۔ احکامِ جہاد کے بعد بھی یہ ذکر اس لئے کیاگیا تاکہ واضح ہوجائے کہ جنگ کی اجازت ظلم وتشدد کے انسداد کے لئے دی گئی ہے نہ کہ دین کی اشاعت کے لئے۔ دین کی اشاعت کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔ (مولانا ابوالکلام آزاد: ترجمان القرآن ص:۲۳۲ جلد دوم)

اس میں کچھ تردد شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم خداوندی اور عہدنامہٴ رسول کی پاسداری کی ہے بلکہ ان احکامات ومعاہدات کے مطیع و فرمانبردار بن کر رہے اور ان کا پورا پورا حق ادا کیا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین نے مختلف اقوام وملل سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے تیار کئے ان میں ہمیں اسلام کی وسعت نظری کا اندازہ اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر اقوام کے لوگوں نے بھی اس چیز کو تسلیم کیا ہے۔ کہ اسلام کس طرح سے غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب واحترام محفوظ رکھتا ہے انھیں کس طرح سے مذہبی آزادی، معاشرتی و تجارتی آزادی کی چھوٹ دیتا ہے۔ بطور مثال کچھ معاہدات وصلح نامہ حوالہٴ قرطاس کئے جاتے ہیں اہل نجران کی درخواست پر نبی صلى الله عليه وسلم نے جو انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔“

ولنجران وحاشیتہم جوار اللّٰہ وذمة محمد النبی صلی اللّٰہ علی انفسہم وملتہم، وارضہم واموالہم وغائبہم وشاہدہم وغیرہم وبعثہم وامثلتہم لا یغیر ما کانوا علیہ ولا یغیر حق من حقوقہم. (فتوح البلدان ص ۷۳)

ترجمہ: نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے پناہ اللہ کی اور محمد نبی صلى الله عليه وسلم کا عہد ہے ان کے جانوں کے لئے۔ ان کے مذہب ان کی زمین، ان کے اموال، ان کے حاضر وغائب، ان کے اونٹوں ان کے قاصدوں،اور ان کے مذہبی نشانات سب کے لئے جس حالات پر وہ اب تک ہیں اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا۔

حضرت عمر نے اہل بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ اس طرح ہیں:

اعطاہم امانا لانفسہم واموالہم ولکنائسہم وصلبانہم وسقیمہا وبریہا وسائر ملتہا انہ لا یسکن کنائسہم ولا تہدم ولا ینتقص منہا ولا من صلبہم ولا من مثئی من اموالہم ولا یکرہون علی دینہم ولا یضار احد عنہم. (تاریخ طبری فتح المقدس، ج۴، ص۱۵۹)

ترجمہ: ان کو امان دی ان کی جان ومال اور ان کے کنیسوں اور صلیبوں اور ان کے تندرستوں اور بیماروں کے لئے یہ امان ایلیا کی ساری ملت کے ہے۔عہد کیاجاتا ہے کہ ان کے کنیسوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں سے کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا ان پر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو ضرر پہنچایاجائے گا۔

۱۴ھ میں فتح دمشق کا واقعہ پیش آیا حضرت خالد بن ولید نے اس موقع سے جو امان نامہ لکھ کر اہل دمشق کو دیا اس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:

اعطاہم امانا علی انفسہم واموالہم وکنائسہم وسور مدینتہم لا یہدم ولا یسکن شیٴ عن دورہم. (فتوح البلدان ص ۱۲۷-۱۲۸)

ان کو امان دی ان کی جان ومال کے لئے اوران کے کنیسوں اور ان کے شہر کے فصیل کے لئے ان کے مکانات میں سے نہ کوئی توڑا جائے گا اورنہ ہی مسلمانوں کا مسکن بنایا جائے گا۔

حضرت خالد بن ولید نے اہل عانات کو صلح نامہ لکھ کردیا تھا۔

لایہدم لہم بیعة ولا کنیسة وعلی ان یضربوا نواقیسہم فی ای ساعة شاوٴا من لیل او نہار الا فی اوقات الصلاة وعلی ان یخرجوا الصلبان فی ایام عیدہم. (فتوح البلدان ص۸۶)

ان کاکوئی معبد اور کوئی گرجا گھر منہدم نہ کیا جائے گا رات دن میں جس وقت چاہیں اپنے ناقوس بجائیں مگر اوقات نماز کا احترام ملحوظ رکھیں ان کو حق ہوگا کہ اپنے ایام عیدمیں صلیب نکالیں۔

اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کیا اور ان کا کتنا پاس ولحاظ رکھا۔ اگر انھوں نے اسلامی ریاست میں رہنا قبول کرلیا اور ان سے عہد وپیمان ہوچکا تو۔ اب ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری قرار پائی۔ اب کسی طرح کی ظلم وزیادتی کا ان کو شکار نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا اندازہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے۔

الا من ظلم معاہدًا وانتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخد منہ شیئاً بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامة. (ابوداؤد : حدیث نمبر ۳۰۵۲)

”خبردار جس کسی نے معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کی استطاعت سے زیادہ اس سے کام لیا۔ اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں گا۔ (القرطبی، الجامع لاحکام القرآن ج:۸، ص:۱۱۵)

حضرت ابوبکررضى الله تعالى عنه جس کسی لشکر کو روانہ فرماتے اس کو یہ ہدایت دیتے تھے:

ولا تہدموا بیعة ولا تقتلو الولدان ولا الشیوخ ولا النساء وستجدون اقوامًا حبسوا انفسہم فی الصوامع فدعوہم، وما حبسوا انفسہم لہ وستجدون آحرین اتخد الشیطان فی روٴوسہم افحاصًا فاذا وجدتم اولیک فاضربوا اعناقہم.

کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنھوں نے اپنے آپ کو گرجا گھروں میں محبوس کررکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے جو شیطانی سوچ کے حامل ہیں جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑادینا۔ (البیہقی، السنن الکبریٰ، جلد ۹، ص:۸۵، عبدالرزاق المصنف ۵-۱۹۹)

ایک فعہ حضرت عمرو بن عاص ولی مصر کے بیٹے نے ایک غیرمسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت عمر رضى الله تعالى عنه کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو انھوں نے سرعام گورنرمصر کے بیٹے کو اس غیرمسلم مصری سے سزادلوائی اور ساتھ ہی فرمایا تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔

حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے بیت المقدس کے کلیسا کے ایک گوشے میں نماز پڑھی پھر خیال آیا کہ کہیں مسلمان میری نماز کو حجت قرار دے کر عیسائیوں کو نکال نہ دیں اسلئے ایک خاص عہد نامہ لکھواکر بطریق (پادری) کو دیا۔ جس کی رو سے کلیسا کو عیسائیوں کیلئے مخصوص کردیاگیا۔ اور یہ پابندی لگادی گئی کہ ایک ہی مسلمان کلیسا میں داخل ہوسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ (اسلامی ریاست، امین احسن اصلاحی،ص:۲۹)

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

”حضرت عبداللہ بن عباس کا فتوی بھی اس لحاظ سے تھا کہ اس وقت تک مسلمان اور دوسری قومیں اچھی طرح ملی بھی نہیں تھیں۔ لیکن جب یہ حالت نہیں رہی، تو وہ فیصلہ بھی نہیں رہا۔ چنانچہ خاص اسلامی شہروں میں اکثریت کے ساتھ گرجا، بت خانے، آتش کدے بنے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا۔ بغداد خاص مسلمانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے۔ وہاں کے گرجوں کے نام مجمع البلدان میں کثرت سے ملتے ہیں۔ قاہرہ میں جو گرجے بنے وہ مسلمانوں ہی کے عہد میں بنے۔ (رسائل شبلی)

اسلام قطعی طور پر مذہب کے سلسلہ میں جبر واکراہ کو سرے سے خارج قرار دیتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام صرف ظاہری و روایتی رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی دعوت و تبلیغ کا نشیمن بنانا چاہتا ہے۔ وہ انسان کے خرمن دل کو نور ایمانی سے منور کرنا چاہتا ہے۔ کیسا اسلام اسے درکار ہے کیسے دین و مذہب کا متقاضی ہے سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

”اسلام کی دو حیثیت ہے ایک حیثیت میں وہ دنیا کے لئے اللہ کا قانون ہے۔ دوسری حیثیت میں وہ نیکی و تقویٰ کی جانب ایک دعوت اور پکار ہے۔ پہلی حیثیت کا منشاء دنیا میں امن قائم کرنا ہے اس کو ظالم و سرکش انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانا اور دنیا والوں کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بنانا ہے۔ جس کے لئے قوت وطاقت کے استعمال کی ضرورت ہے لیکن دوسری حیثیت میں وہ قلوب کا تزکیہ کرنے والا ارواح کو پاک وصاف کرنے والا، حیوانی کثافتوں کو دور کرکے بنی آدم کو اعلیٰ درجہ کا انسان بنانے والا ہے۔ جس کے لئے تلوار کی دھار نہیں بلکہ ہدایت کا نور، دست و پاکا انقیاد نہیں بلکہ دلوں کا جھکاؤ اور جسموں کی پابندی نہیں بلکہ روحوں کی اسیری درکار ہے۔اگر کوئی شخص سرپر تلوار چمکتی ہوئی دیکھ کر لا الٰہ الا اللہ کہہ دے مگر اس کا دل بدستور ماسوی اللہ کا بتکدہ بنارہے تو دل کی تصدیق کے بغیر یہ زبان کا اقرار کسی کام کا نہیں اسلام کے لئے اس کی حلقہ بگوشی قطعاً بیکار ہے۔ (الجہاد فی الاسلام،ص:۱۶۵)

علامہ سید سلیمان ندوی اپنے مقالہ ”ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہوئی“ میں لکھتے ہیں: ”تمام دنیا کے مذاہب میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے یہ فلسفہ دنیا میں ظاہر کیا کہ ”مذہب یقین کا نام ہے اور یقین تلوار کی دھار اور نیزہ کی نوک سے نہیں پیدا کیا جاسکتا“ (بحوالہ غیرمسلموں سے تعلقات اور مذہبی رواداری، مفتی سرور فاروقی، جمعیت پیام امن)

آپ صلى الله عليه وسلم اور سلاطین اسلام مذہبی آزادی اور رواداری کے ایسے نقوش چھوڑ گئے جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا کی (قدیم وجدید تاریخ) قاصر ہے غزوئہ خیبر میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا اس میں توریت کے متعدد نسخے تھے۔ یہودیوں نے درخواست کی وہ ان کو عطا کردئیے جائیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا کہ یہ سب صحیفے ان کے حوالے کردئیے جائیں۔ یہودی فاضل ڈاکٹر اسرائیل ولفنسون اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

”اس واقعہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان مذہبی صحیفوں کا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دل میں کس درجہ احترام تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی اس رواداری اور فراخ دلی کا یہودیوں پر بڑا اثر پڑا۔ وہ آپ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتے کہ آپ نے ان کے صحیفوں کے ساتھ کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جن سے ان کی بے حرمتی لازم آتی ہو۔ اس کے بالمقابل انہیں یہ واقعہ بھی خوب یاد ہے کہ جب رومیوں سے یروشلم کو سن ۷۰ قبل مسیح میں فتح کیا تھا تو انھوں نے ان مقدس صحیفوں کو آگ لگادی اور ان کو اپنے پاؤں سے روندا۔ اسی طرح متعصب نصرانیوں نے اندلس میں یہودیوں پر مظالم کے دوران توریت کے صحیفے نذر آتش کئے یہ ہے وہ عظیم فرق جو ان فاتحین (جن کا ابھی ذکر گذرا ہے) اور اسلام کے نبی کے درمیان ہمیں نظر آتا ہے۔ (تاریخ الیہود فی بلاد العرب ص۱۷۰) (ماخوذ رسول اللہ کی انسانیت نوازی عبدالعلیم حبیب ندوی، ادارہ احیاء علم لکھنوٴ)

ایک اور فاضل موٴرخ مسٹرجیسن جو ایک بے باک تاریخ داں ہیں جنھوں نے موجودہ دور کے تمام عیسائیوں اور مسلم موٴرخوں کی تحریروں کا بہت ہی باریک بینی سے اور ناقدانہ مطالعہ کیا ہے، لکھتے ہیں:

”آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اسلامی مملکت میں آباد عیسائیوں کی جان، ان کی تجارت اور ان کے مال واسباب اور مذہبی امور کی ادائیگی اور ہر قسم کے تحفظ کی ضمانت دے دی۔ اور رواداری کے اصول پر نہ صرف خلفائے راشدین ہی نے پوری سختی سے عمل کیا تھا بلکہ تمام عرب حکمراں بھی رواداری کے اس اصول پر کاربند رہے۔ اسلام اورمسلمانوں کے عروج کی تاریخ رواداری، بے توجہی اور ان کے اعلیٰ قدروں کو اجاگر کرنے کی تاریخ ہے۔ اس دور کی مسلمانوں کی سلطنتیں ستم رسیدہ، یہودیوں،اور نسطوری، یعقوبی اور دوسرے عقائد رکھنے والے عیسائیوں کی پناہ گاہ تھیں اور ان کے مذہبی عقائد سے اختلاف کے باوجود مسلم ممالک میں انھیں پناہ لینے کی کھلی آزادی تھی۔ بلکہ انھیں مذہبی فرائض کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کو تعمیر کرنے کی بھی آزادی حاصل تھی“۔ (بحوالہ اسلام اور رواداری ص:۵۹، دعوت، دہلی ۱۳ ستمبر ۱۹۸۳/)

ہملٹن نامی ایک انگریز سیاح جو باشاہ عالمگیر کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا وہ اپنے سفرنامے میں مختلف شہروں کا عینی مشاہدہ درج کرتے ہوئے شہر ٹھٹھ کے متعلق لکھتا ہے:

”حکومت کا مسلمہ مذہب اسلام ہے۔ لیکن تعداد میں اگر دس ہندو ہیں تو ایک مسلمان ہے، ہندوؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پوری طرح برتی جاتی ہے۔ وہ اپنے برت رکھتے ہیں، پوجا پاٹ کرتے ہیں اور تہواروں کو اسی طرح مناتے ہیں جیسے کہ اگلے زمانے میں مناتے تھے۔ جبکہ بادشاہت ہندوؤں کی تھی۔ (سفرنامہ ہملٹن، ج:۱، ص:۱۲۷-۱۲۸)

سرولیم میور نے لکھا:

”رسول خدا نے بنی حارث اور نجران کے پادریوں کو پوری مذہبی آزادی دینے کا اقرار کیا تھا۔ وہ اپنے طریقے پر اپنے گرجاؤں میں جس طرح چاہیں عبادت کریں بشپ اور راہب اپنی جگہ پر بحال رہیں جب تک یہ لوگ امن وامان کے ساتھ رہیں ان کے ساتھ کچھ تعرض نہ ہوگا۔ (لائف آف محمد جلد دوم ص۲۹۹)

دین ومذہب کے سلسلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری اقوام نے کیا سلوک و برتاؤ کیا، کس طرح سے انھیں مذہبی جبر واکراہ کا شکار بنایا اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں آج تک محفوظ ہے۔ کہ اندلس کی سرزمین پر مسلمانوں نے کئی سو سال تک حکومت کی اور وہاں کے چپہ چپہ پر اسلامی تہذیب وثقافت کی یادگاریں قائم کیں۔ لیکن جب حکومت واقتدار ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ادبار نے ان کو آگھیرا تو عیسائیوں نے ان کے ساتھ کیسی سفاکی و درندگی کا مظاہرہ کیا۔ ایک انگریز مورخ کی زبانی سنئے وہ لکھتا ہے:

”غرناطہ کے سقوط کے بعد ان تمام عربوں کی موت تھی۔ جنھوں نے اسپین پر سات سو اکیاسی (۷۸۱) سال (۷۱۱-۱۴۹۲) تک حکومت کی، فردی ننڈ سے معاہدہ تو ضرور ہوگیا تھا۔ لیکن اس پر عمل کرنے کا اس کا مطلق ارادہ نہ تھا۔ اس نے غرناطہ پر قبضہ کرلیا۔ یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ اپنی سیاسی زندگی میں ذاتی مفاد کی خاطر ہر چیز کو قربان کرسکتا تھا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ عربوں کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنے مذہب اور طرز زندگی کو ترک کرکے یہاں کے باشندوں میں ضم ہوجائیں۔ وہ اپنے مذہبی قوانین میں تبدیلی اس طرح کرتا رہا کہ سارے مسلمان کیتھولک بنے رہیں۔ مسلمانوں پر عبادت کرنے کی پابندی عائد کی گئی۔ پھر وہ کھل کر اس اعلان کے ساتھ سامنے آگیا کہ وہ مسلمان جو عیسائیت قبول نہ کریں ملک بدر کردئیے جائیں۔ غرناطہ میں کہرام مچ گیا، مگر کوئی سماعت نہیں ہوئی مسلمان گرجا جاتے عیسائیوں کی طرح عبادت کرتے، مگر گھر آکر توبہ استغفار کرتے۔ “ (ہسٹری آف دی ورلڈ جلد ششم حصہ دوم ص ۲۵۸)

سنگدلی اور بے رحمی کی یہی تاریخ صقلیہ میں بھی دہرائی گئی۔ جہاں عربوں نے دوسوسال تک حکومت کی تھی۔ لیکن جب ۱۰۷۲ میں پلرمو کی لڑائی میں شکست ہوئی تو جس طرح مسلمانوں کو تباہ کیا وہ بھی ایک موٴرخ کی زبانی سنئے:

”پلرمو میں پانچ سو مسجدیں تھیں، ان کو منہدم کرکے گرجا گھر میں تبدیل کردیاگیا۔ وہاں علماء صوفیا اور حکماء کی جتنی قبریں تھیں، سب نیست و نابود کردی گئیں۔ چارلس دوم کے زمانے میں سسلی کے مسلمانوں کو زبردستی عیسائیوں کا بپتسہ دیاگیا۔ نوسیرا اور بوسیرا کے مسلمانوں کی تعداد اسّی (۸۰) ہزار تھی ان کو زبردستی عیسائی بنالیاگیا۔ ساری جگہیں مسلمانوں سے خالی کرالی گئیں۔ (ہسٹری آف ورلڈ ۹۰/۸۲)

اسلام نے دوسرے مذاہب وادیان کے ماننے والوں کو کتنا عزت وتوقیر سے نوازا، ان کو کس طرح کی مذہبی آزادی دی اور کس طرح ان کے حقوق کا پاس ولحاظ رکھا۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے کیا طریقہ کار اپنایا کس طرح سے ان کی عزت وناموس سے کھلواڑ کیا اور ان کے مذہبی حقوق کو چھین لیا۔ اور ان کو اپنا دین ومذہب ماننے پر مجبور کیا۔ ہم نے انھیں کی زبانی مندرجہ بالا سطروں میں ملاحظہ کیاہے۔ یہ ہے وہ واضح فرق اسلام میں اور دوسرے ادیان ومذاہب میں اسلام جیسی وسعت قلبی دنیا آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔

قرآن کریم اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور خلفاء راشدین وسلاطین اسلام نے مذہبی آزادی کے معاملے میں جس وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جتنا انھوں نے دین ومذہب کے سلسلہ میں استغنا سے کام لیا اس کی مثال اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ دوسرے مذہب کی تعلیمات میں اور ان کے ماننے والوں میں مذہبی امور کو انجام دینے کی اس طرح کی آزادی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ مذہبی آزادی اسلام میں کتنی ہے اس کے ثبوت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے کوئی کمیٹی یا کوئی ادارہ قائم نہیں کیاگیا۔ اسلامی ریاست میں یہود ونصاریٰ پوری آزادی کے ساتھ مذہبی امور کو ادا کرتے تھے ان کو بھی ملت اسلامیہ میں وہی حقوق حاصل تھے جو خود مسلمانوں کو حاصل تھے ان کے جان ومال کی وہی قدروقیمت تھی جو ایک مسلمان کے جان ومال کی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے اگر اس قسم کی تدبیریں کی جاتیں جو دوسرے ادیان و مذاہب کی ترویج واشاعت کیلئے اختیار کی گئی ہیں، تو بلاد اسلام میں کسی غیر مذہب یا اس کے ماننے والوں کا وجود بھی باقی نہ رہتا۔ اسلام کی ذاتی خوبیوں اور سادہ تعلیم کے ساتھ اگر سامانِ رضا ورغبت کو بھی جمع کردیا جاتا تو کیا ایک بھی ایسا انسان باقی رہ جاتا جو اسلام کو قبول نہ کرلیتا۔ کیا جس طرح ”اندلس“ (اسپین) جیسا وسیع ملک جہاں کروڑوں مسلمان تھے پھر مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔ روم، شام، عراق، ہند وسندھ وغیرہ اور خود ”اندلس“ کا ہی حال پامال نہ ہوتا، تاآنکہ سوائے اسلام کے دوسرے مذاہب وادیان کا نام و نشان مٹ چکاہوتا، لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا۔

بہرحال اسلام نے مساوات اور مذہبی آزادی کے وہ فراخدل اصول وضابطے تیار کیے جن کی وجہ سے سلطنت اسلامیہ کے عروج کے زمانہ میں یہودی وعیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے تھے اور بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے میں مسلمانوں سے مزاحمت کرتے تھے۔

***