ماهنامه دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء

تحریک آزادی ہند اور تحریک آزادی فلسطین

دونوں میں امتیاز کیوں؟

از: ڈاکٹر اجمل فاروقی

۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

مسلمانان ہند کی نمائندہ تنظیموں کے نمائندوں اور دیگر امن پسندوں کی جانب سے مسئلہ فلسطین اور محصورین غازہ کے مسئلہ کے لئے شروع کی گئی اجتماعی جدوجہد دیر سے اُٹھایا گیا صحیح قدم ہے جو مظلوموں کی حمایت اور قبلہٴ اول کی بازیابی کیلئے ملت اسلامیہ ہند کی طرف سے فرض کفایہ ہوسکتا ہے، مگر اس تحریک کو کافی اکیڈمک ہوم ورک کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت کے ہر شعبہ سے لے کر عوام خصوصاً میڈیا اور دانشور طبقہ میں اسرائیل، امریکی لابی کی زبردست پکڑ ہے۔ وہ اس طرح کی کسی بھی کوشش کو اسی طرح مطعون کرسکتی ہے جیسے حال کے لکھنوٴ پرسنل لاء بورڈ کی قرارداد فلسطین پر حکمراں جماعت کے نامزد ایم پی کا تھا جن کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی میں ملکی مفادات کو دیکھا جائے گا کسی خاص گروہ کے احساسات وجذبات کو اولیت نہیں دی جائے گی۔ مظلومین فلسطین کی مخالفت یا اس کے حق میں رائے بنانے کے دو اصول ہوسکتے ہیں: (۱) مبنی برمفاد (۲) مبنی بر اصول۔ مبنی برمفاد کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیل سے دوستی رکھنے میں ملک کا زیادہ فائدہ ہے یا عربوں فلسطینیوں کا ساتھ دینے میں۔ (۲) اصولوں پر مبنی رویّہ یا پالیسی کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نفع و نقصان سے اُوپر اُٹھ کر دیکھیں کہ کون حق پر ہے اور کون ظالم ہے؟

ہمارے ملک کی اسرائیلی حامی لابی جن میں مسلم دانشوروں اور اردو میڈیا بھی شامل ہے، وہ کسی بھی فلسطینی حامی مہم کا ہندوستانی میڈیا کے تعاون سے فوراً ملک مخالف مہم اور دیش بھکتی کے خلاف قرار دے گی۔ اس لابی کی تغلیط اور تردید کے لئے ہمارے پاس بہت مضبوط دلائل ہیں جن کو یکجا کرکے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم مفادات کی بات کریں تو سب سے بڑی بات یہ کہ خود سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پورے خلیج میں تقریباً ۳۵ لاکھ ہندوستانی کام کرکے ہندوستانی معیشت اور سماج کو مضبوط کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں سالانہ اربوں ڈالر کی بیرونی کرنسی ملک میں آرہی ہے۔ ۳۵ لاکھ کی تعداد بھارت سرکار کے کل سرکاری ملازمین کی تعداد سے تھوڑا ہی کم ہے۔ اسرائیل میں کتنے ہندوستانیوں کو روزگار ملا ہوا ہے؟ وہاں سے کتنا ڈالر ہندوستان آتا ہے؟ اکیلے سعودی عرب میں ہندوستانیوں کی تعداد پورے امریکہ میں ہندوستانیوں سے زیادہ ہے۔ اور یہ لوگ بھی وہ ہیں جنہیں امریکہ اور یوروپ میں کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے یعنی بہت کم پڑھے لکھے اور کم ہنرمند افراد۔ اس کے برعکس اسرائیل ہندوستان سے صرف اور صرف ڈالر کمارہا ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں بیس ارب ڈالر سے زیادہ کا ہتھیار ہندوستان کو فروخت کرکے اپنی آمدنی بڑھا رہا ہے۔ اسرائیل جو بھی ہتھیار ہمیں دے رہا ہے وہ دوسرے ممالک سے بھی خریدے جاسکتے ہیں۔ ہم آج فلسطینی عوام کو دہشت گرد کہہ کر ان کا اناج، بجلی، آمد ورفت سب کچھ بند کرنے کی کیسے حمایت کرسکتے ہیں جبکہ آج سے صرف ۶۰ سال قبل ہم خود وقت کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف سوسالہ جنگ آزادی لڑچکے ہیں۔ ہم بھی تو مکمل خود مختاری (سوراج) سے کم کی قیمت پر نہیں تیار ہوئے تھے۔ آج ہم فلسطینیوں کی کیوں کہتے ہیں کہ وہ خیرات کی طرح ملنے والی لنگڑی لولی آزادی پر راضی ہوجائیں جس میں نہ ان کے پاس فوج ہوگی نہ سمندر اور نہ خارجہ پالیسی ہوگی۔ جس لنگڑی لولی ”ہوم رول“ پر ہم ۶۰ سال پہلے تیار نہیں تھے آج فلسطینی ویسی ہی کسی لنگڑی لولی آزادی پر کیسے تیار ہوسکتے ہیں؟

ہندوستان کی یہ برآمدات (ہرطرح کی) کا بڑا حصہ خلیجی ممالک کو جاتا ہے۔ اسرائیل ہم سے کیا خریدتا ہے؟ وہ اگر خریدنا بھی چاہے تو اس کی آبادی کتنی ہے جو وہ ہماری صنعت کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے؟ پھر عربوں کے ہندوستان سے جو تاریخی رشتے ماقبل اسلام سے ہی ہیں وہ بھی اہم پہلو ہے۔ پٹرول کا معاملہ تو سب سے اہم ہے ہی۔ اس معاملہ میں ہم اسرائیل سے کتنا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اسرائیل بھی تو مفت میں ہتھیار نہیں دیتا۔ اسی طرح عرب بھی مفت میں پٹرول کیسے دے سکتا ہے مگر وہ اس پر کوئی شرائط عائد نہیں کرتے۔ ماہرین کی رائے میں اگلے پچاس سالوں تک پٹرول کا کوئی قابل عمل متبادل نہیں ملنے والا ہے۔ پٹرول کے علاوہ دوسری ضمنی پیداوار گلسرین، گریز، تارکول اور نہ جانے کیا کیا پٹرول اشیاء کی ضمنی پیداوار ہیں یہ نیوکلیر اور گرین انرجی سے تھوڑی حاصل ہوجائے گی۔

دوسری وجہ اصولوں کی ہوسکتی ہے اور اس معاملہ میں تو اسرائیل طرز عمل کا ایک قدم بھی نہیں ٹھہرتا۔ ۱۹۶۷ء میں اس نے ناجائز طور پر پورے علاقہ پر قبضہ کیا۔اس کے قبضہ کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکولر کونسل اور جنرل اسمبلی کی سیکورٹی ریزولیوشن دھول چاٹ رہے ہیں جبکہ عراق، افغانستان، مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی صرف ایک ہی روزولیوشن وہ بھی متنازعہ کو لے کر ایک سال سے کم عرصہ میں مخالفوں کو تہہ تیغ کردیاگیا اور یہاں ظالم اسرائیل ۴۷-۴۳ سالوں سے مسلسل فلسطینی عوام کو ان کے علاقہ سے بے دخل کرکے ناجائز بستیاں بسارہا ہے اور امن وانصاف کے منافق علمبردار چپ بیٹھے ہیں بلکہ الٹا بے چارہ ”دشمنوں سے گھرے چھوٹے سے ملک“ کے غم میں دبلے ہوتے رہتے ہیں۔ حماس جب ایک الیکشن کو جمہوری طریقہ سے جیت کر غزہ اور مغربی کنارہ پر حکومت کررہی تھی تو اس کو بے دخل کرنے والے امریکہ، اسرائیل اور ساری دنیا کیسے جمہوریت کے فروغ کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ ۱۵ لاکھ لوگوں کو مسلسل ضروریاتِ زندگی سے محروم رکھنا اور ساری نام نہاد منافق مہذب دنیا کو اس کو برداشت کرنا انسانیت اور تہذیب کے نام پر کلنک ہے۔ یہ آج کی پوری بین الاقوامی سیاسی قیادت کی مجرمانہ روش کا اظہار ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد ہر انسان پر فرض ہے۔

***