انکارِ حدیث کیوں؟

از: مولانا محمد یوسف لدھیانوی

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ .

اما بعد!

مذہب اسلام کیلئے موجودہ دور میں جو سوالات خاص اہمیت کے حامل ہیں، ان میں حدیث نبوی (علی صاحبہا الف الف سلام) کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات بالخصوص توجہ طلب ہیں۔

۱- حدیث کا مرتبہ اسلام میں کیا ہے؟

۲- حدیث سے شریعت اسلامیہ کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟

۳- حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے تواس سے دین کو کیا نقصان ہوگا، دور حاضر میں انکار حدیث کی جو وباء پھوٹ پڑی ہے، یہ کن جراثیم کا نتیجہ ہے؟

سطور ذیل میں ہم ان سوالات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔

واللّٰہ الموفق والمعین.

لیکن اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند اصولی امور ناظرین کی خدمت میں پیش کردیں جن سے نظر وفکر کی مزید راہیں کھل سکیں۔

۱- نبی امت کی عدالت میں

انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔

اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟

تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرمملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لیا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکان اسمبلی صدر مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا، ﴿بئسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہِ ایمانکم انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْن﴾۔

بہرحال مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو (غلبہ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)

۲- فتنہ کی شدت

فتنہ کی کجی ملاحظہ کیجئے۔ دین قیم کے وہ صاف، واضح، روشن اور قطعی مسائل جن میں کل تک شک وتردد کا ادنیٰ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا؛ کل تک ملت اسلامیہ جن کو یقینی مانتی چلی آئی تھی، شکی مزاج طبیعتیں آج ان ہی مسائل کو غلط اور ناقابل قبول ٹھہراتی ہیں۔

ایک رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات اب تک محفوظ تھی، تمام امت کا مرجع تھی، ہر امتی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتا تھا۔ امت میں کوئی اختلاف رونما ہو، اس کے فیصلہ کے لئے آپ کی ذات آخری عدالت تھی اور آپ کا ہر فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن افسوس! آج کس کے پاس یہ شکایت لے جائیں کہ فتنہ کے سیلاب کی موجیں علماء، صلحاء، صوفیاء، متکلمین، محدثین، مجتہدین، تابعین اور صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) ان سب کو روندتی ہوئی دین وشریعت کی آخری فیصل ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم سے ٹکرارہی ہیں اور چاہا جاتا ہے کہ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے آخری عدالت کو بھی مجروح کردیا جائے فالی اللہ المشتکی.

اف! مبتلائے فتنہ امت میں یہ بحث موضوع سخن ہے کہ کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث حجت ہے یا نہیں، دینی حیثیت سے قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا یہ صاف اور موٹی بات بھی کسی کی عقل میں نہیں آسکتی کہ کسی ذات کو نبی اور رسول ماننا یا نہ ماننا تو ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جس ذات کو رسول مان لیا جائے، ماننے والے کے ذمہ اس کی ہر بات کا مان لینا بھی ضروری ہے، جس کام کا وہ حکم کرے اس کی تعمیل بھی ماننے والے کے لیے لازم ہے اور جس فعل سے وہ منع کرے اس سے رک جانا ضروری ہے۔

رسول کو رسول مان کر اس کے احکام میں تفتیش کرنا کہ یہ ”حکم آپ اپنی طرف سے دے رہے ہیں یا خدا کی طرف سے؟ اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو اس کی تعمیل سے معاف رکھا جائے“ نری حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ کتنی صاف اور سیدھی بات تھی لیکن نہیں معلوم لوگ عقل کو کہاں استعمال کیا کرتے ہیں کہ ایسے بدیہی امور میں بھی شک اور تردد کا مرض ان کو ایمان ویقین سے محروم کئے رکھتا ہے۔

شرح تحریر میں ہے۔

”حجیة السنة سواءٌ کانت مفیدة للفرض او الواجب أو غیرہما (ضرورةٌ دینیةٌ) کل من لہ عقل وتمیز حتی النساء والصبیان یعرف أن من ثبت نبوتہ صادق فیما یخبر عن اللّٰہ تعالی ویجب اتباعہ“ (تیسیر التحریر ص:۲۲ ج۳)

ترجمہ: سنت خواہ مفید فرض ہو یا واجب یا ان کے علاوہ کے لئے مفید ہو، اس کا حجت ہونا دین کا ایسا واضح مسئلہ ہے جس میں طلب دلیل کی ضرور نہیں، جس کو ذرا بھی عقل وتمیز ہو، عورتوں اور بچوں تک بھی، وہ جانتا ہے کہ جس کی نبوت ثابت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتلائے گا اس میں قطعاً سچا ہوگا اور اس کی بات کی پیروی واجب ہوگی۔“

منکرین حدیث کی کورچشمی ملاحظہ کرو۔ اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رسول برحق ہیں اس پر بھی اتفاق ہے کہ علم و عرفان کے سرچشمہ ہوتے ہیں الغرض آفتاب طلوع ہوچکنے کے بعد، بحث اس پر ہورہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد دن ہوتا ہے، یا رات ہوتی ہے۔ زبان وقلم، عقل وفہم اور دل ودماغ کی قوتیں اس پر صرف کی جارہی ہیں کہ رسول کو رسول ماننے کے بعد اس کی کسی بات (حدیث) پراعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو خیرہ چشم طلوع آفتاب کا اقرار کرنے کے باوجود ”دن نہیں رات“ کی رٹ لگارہا ہو اور چاہتا ہو کہ تمام دنیا اسی کی طرح آنکھیں موندلے، بتلایا جائے کہ آپ ایسے سوفسطائی کو کس دلیل سے سمجھاسکتے ہیں۔

اسی طرح محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا زبانی اقرار کرنے والوں سے جب سنا جاتا ہے کہ جس ذات کو ہم رسول مانتے ہیں اسی کا کوئی قول اور فعل ہمارے لئے حجت نہیں تو بتلائیے ایسے محرومان بصیرت کے لئے کونسا سامان ہدایت سود مند ہوسکتا ہے؟ کاش ان کو چشم بصیرت نصیب ہوجاتی۔ ﴿فَانَّہَا لا تَعْمَی الأبْصَارُ وَلکِنْ تَعْمَی الْقُلُوب الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾ ”کیونکہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوچکے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں۔“

۳- منکرین حدیث کی بے اصولی

حدیث کا جو ذخیرہ اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے اس کے دو جز ہیں۔

(۱) متن (۲) سند۔ یعنی ایک تو حدیث کے وہ جملے ہیں جو قولاً یا فعلاً یا تقریراً صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب ہیں کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا یا آپ نے فلاں عمل کرکے دکھایا یا آپ نے فلاں کام کی ... جو آپ کے سامنے کیاگیا، تصویب فرمائی۔ دوم اساتذہ حدیث کا وہ سلسلہ ہے جو امت اورامت کے نبی صلى الله عليه وسلم کے درمیان واسطہ ہیں۔ مثلاً امام بخاری جس حدیث کو روایت کریں گے وہ ساتھ ہی یہ بھی بتلاتے جائیں گے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے یہ حدیث کن کن واسطوں سے ہم تک پہنچی۔

پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی حدیث جن لوگوں نے خود آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سنی وہ سننے والوں کے حق میں اسی طرح قطعی تھی جس طرح قرآن کریم قطعی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک سے جو حکم بھی صادر ہوا بالمشافہ سننے والوں کے لئے اس کا درجہ وحی خداوندی کا ہے اگر آپ نے اس کو قرآن میں لکھنے کا حکم دیا تو وہ وحی جلی کہلائے گا ورنہ وحی خفی۔

قسم اوّل (وحی جلی) کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ تھے۔

قسم دوم (وحی خفی) کا مضمون منجانب اللہ ہوتا تھا، الفاظ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ہوتے تھے، بہرحال وحی کی یہ دونوں قسمیں چونکہ منجانب اللہ ہیں اس لئے دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کا قبول کرنا اہل ایمان کے ذمہ ضروری ہوا۔ البتہ روایت حدیث کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں ہوجاتی ہیں جن کی تفصیل کو مع ان کے احکام کے اپنی جگہ بیان کیاگیا ہے۔

اب منکرین حدیث کی بے اصولی دیکھئے کہ وہ ان دونوں اجزاء (متن حدیث اور سند حدیث) کے متعلق مخلوط بحث کریں گے۔ حالانکہ بے اعتمادی کا زہر پھیلانے سے پہلے انصاف ودیانت کا تقاضا یہ تھا کہ محل بحث کو طے کرلیا جاتا کہ کیا ان کو نفس حدیث ہی پر اعتماد نہیں خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو؟ یا نفس حدیث پر ان کو اعتماد ہے اور وہ اسے دینی سند بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن موجودہ ذخیرہ حدیث کے متعلق ان کی بے اعتمادی کا سبب یہ ہے کہ پوری امت میں ان کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی یہ امانت امت تک صحیح پہنچادی ہو اس لئے اس کو موجودہ ذخیرہ حدیث سے ضد ہے۔ مثلاً امام مالک کی وہ روایت جو مالک، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے مروی ہیں، جو شخص ان روایات پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے، کیا اس کا فرض نہ ہوگا کہ وہ اپنی بداعتمادی کی وجہ بتلائے کہ آیا اسے حدیث کے ان تین ناقلین، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہم پر ہی اعتماد نہیں۔ معاذ اللہ۔ یا خود ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر اعتماد نہیں۔ استغفراللہ۔

بہرحال جب تک موضوع کی تنقیح اور تعین نہ کرلی جائے، اس وقت تک کسی بھی مسئلہ پر بحث لغو اور لایعنی مشغلہ ہے۔ لیکن آپ منکرین حدیث کو پائیں گے کہ وہ کبھی نفس حدیث پر بحث کریں گے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور کبھی بے چارے ناقلین حدیث پر تبرا شروع کردیں گے کہ ان لوگوں نے اُمت کی یہ امانت بعد میں آنے والی امت تک کیوں پہنچائی۔ لیکن انکار حدیث کا منشاء متعین کرنے سے وہ گریز کریں گے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ حدیث پر سے اعتماد اٹھانے کا اصل حل تلاش کرو اور محل بحث تلاش کرنے کے بعد افہام و تفہیم کریں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ قصور وار ناقلین روایت ہوں اور فرد جرم خود حدیث پر عائد کردی جائے۔ یا اعتماد نفس حدیث پر نہ ہو،اور اس کی سزا حدیث روایت کرنے والی پوری امت کو دی جانے لگے۔

۴- انکار حدیث کا عبرتناک انجام

حدیث پر اعتماد نہ کرنے والوں کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ذات نبوی صلى الله عليه وسلم یا پوری امت میں سے ایک کو ناقابل اعتماد قرار دینا ہوگا استغفراللہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ زیدکا کلام عمرو نقل کرے، سننے والے کو زید کے صدق کا یقین ہو اور عمرو پر اعتماد ہو کہ وہ نقل میں جھوٹا نہیں لیکن اس کے باوجود کہے، کہ یہ کلام جھوٹا ہے۔ بہرحال یہاں یہ سوال کسی خاص حدیث کا نہیں بلکہ مطلق حدیث کا ہے۔ جب اس کا انکار کیا جائے گا اور اسے ناقابل اعتماد قرار دیا جائے گا تو اس صورت میں یا خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی ذات سے اعتماد اٹھانا ہوگا یا پوری امت کو غلط کار اور دروغ گو کہنا ہوگا۔ انکار حدیث کی تیسری کوئی صورت نہیں۔ اور ان دونوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاذ اللہ خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم یا چودہ سو سالہ امت سے اعتماد اٹھالیا جائے تواس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں، کہ اسلام اور قرآن پر بھی ان کا اعتماد نہیں۔ اور دین وایمان کے ساتھ بھی ان کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کے متعلق بے اعتمادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال دل میں نہ لانا چاہئے کہ اس تمام تر سعی مذموم کے باوجود وہ اسلام اور قرآن کو بے اعتمادی کے جھگڑے سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

* * *

۵- تنقیح بحث

اب تمام تر بحث جو آپ کے سامنے آئے گی، وہ نفس حدیث سے متعلق ہوگی، سند حدیث اور رجال سند کی بحث کو ہمارے موضوع سے خارج سمجھنا چاہئے۔

ان ابتدائی اشارات کے بعد ہم پہلے سوال پر غور کرتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ۲۳ سالہ دور نبوت کے ارشادات، کلمات طیبات، قضایا اور فیصلے، افعال واحوال، سیرواخلاق، الغرض اس طویل مدت میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے امت کو جو زبانی حکم دیا یا جوکچھ عملاً کردکھلایا، یا کسی عمل کی تصویب قولاً یا سکوتاً فرمائی (ان ہی امور کے مجموعہ کا نام حدیث ہے)

* ان سب کو قرآن مجید کیا مرتبہ دیتا ہے؟

* خود آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ان کی حیثیت کیا تھی؟

* صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے تقریبا صد سالہ دور میں ان کے ساتھ کیا تعلق رکھا؟

* صحابہ کرام کے بعد کی امت کی نظر میں ان کا کیا مرتبہ رہا؟

* عقل صحیح کی روشنی میں ان کا کیا مقام ہے؟

یہ پانچ نکات ہیں، جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایک مجلاتی مضمون میں جس قدر شرح وبسط کی گنجائش ہوسکتی ہے حتی الوسع اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حق تعالیٰ سوء فہم اور قصور تعبیر سے حفاظت فرمائیں (آمین)

۱- فرمودہ رسول صلى الله عليه وسلم کو بلا چون وچرا قبول کرو

قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف سے جو کچھ دیا جائے۔ اس کو بلا چون وچرا قبول کرلیں اور آپ کے منع کردہ امور سے باز رہیں۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا،تو ان کے حق میں شدید عذاب کا اندیشہ ہے۔ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ فخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾ (الحشر:۷)

(ترجمہ) اورر سول تمہیں جو کچھ بھی دے دیں۔ اس کو لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ

سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہیں۔

۲- حکم نبوی سے روگردانی باعث فتنہ وعذاب ہے

آپ صلى الله عليه وسلم کے امر کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو ڈرایاگیا ہے کہ ان کی یہ روش بدترین فتنہ اور دردناک عذاب میں انہیں دھکیل کر رہے گی۔

﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أمْرِہ أن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ أوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ ألِیْمٌ﴾ (النور:۶۳)

(ترجمہ) اور جو لوگ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔انہیں ڈرنا چاہئے، کہ کہیں ان کو کوئی عظیم فتنہ پیش نہ آجائے یا کہیں ان کو عذاب الیم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

چنانچہ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کے ذیل میں رقمطراز ہیں:

یعنی اللہ اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر ونفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لئے جڑ پکڑ نہ جائے۔اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں،العیاذ باللہ۔ (تفسیر عثمانی ص۴۶۶)

۳- اطاعت نبوی باعث رحمت خداوندی ہے

رحمت خداوندی کے نزول کو آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کاملہ کے ساتھ وابستہ کیاگیا ہے۔ فرمان باری ہے۔

﴿وَأقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ وآتُوْ الزَّکَوةَ وَأطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (النور۵۶)

”اور اے مسلمانوں نماز کی پابندی رکھو، اور زکوٰة دیا کرو، اور باقی احکام میں بھی رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کیاکرو۔ تاکہ تم پر کامل رحم کیاجائے۔ (ترجمہ حکیم الامت رحمہ اللہ)

۴- فوز وفلاح کا راز

ہر قسم کی فوز وفلاح، رشدوہدایت، اور بہبودیٴ دنیا وآخرت کو آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت میں منحصر قرار دیاگیا۔

﴿وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِیْنَ وَالصِدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیْقًا، ذلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا﴾ (النساء۶۹)

(ترجمہ) ”اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا۔ تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یعنی انبیاء اور صدیقین، اور شہدا اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ کافی جاننے والے ہیں۔“

۵- اتباع رسول صلى الله عليه وسلم محبت ومحبوبیت الٰہی کا معیار ہے

دعوائے محبت خداوندی کے صدق وکذب کا امتحان کرنے کے لئے اتباعِ محبوبِ خدا صلى الله عليه وسلم کو معیار قرار دیاگیا۔ اسی کے ساتھ آپ کی ہر ادا کی نقل اتارنے والوں کو مقام محبوبیت پر فائز ہونے کی بشارت اور مغفرت سے ہمکنار ہونے کی خوشخبری سے نوازا گیا ہے۔

﴿قُلْ انْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (آل عمران:۳۰)

(ترجمہ) آپ صلى الله عليه وسلم فرمادیجئے۔ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے۔ تمہارے گناہ بخش دیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بہت رحم والے ہیں۔

علامہ شبیر احمد عثمانی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:

”دشمنان خدا کی موالات ومحبت سے منع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا معیار بتلاتے ہیں۔ یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو، تو لازم ہے کہ اس کو اتباع محمد صلى الله عليه وسلم کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا جو شخص جس قدر حبیب خدا محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی راہ چلتا،اور آپ کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے،اسی قدر سمجھنا چاہئے کہ خدا کی محبت کے دعوے میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعوے میں سچا ہوگا،اتنا ہی حضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا۔جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا۔اور اللہ کی محبت اور حضور صلى الله عليه وسلم کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری باطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی۔ مختصراً ان آیات میں پیغمبر آخر الزماں کی اطاعت کی پرزور طریقے سے دعوت دی گئی ہے۔ (تفسیر عثمانی ص۶۹)

۶- آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی تصفیہ طلب امور میں بحیثیت آخری عدالت!

اعلان کیاگیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو جب تک شعار زندگی نہ بنایا جائے گا اور ہر قسم کے تصفیہ طلب امور کے لئے آپ کی ذات پاک کو آخری عدالت کی حیثیت نہیں دی جائے گی اہل ایمان کو نہ ذرہ خیروبرکت میسر آسکتا ہے نہ اس کے بغیر کسی اچھے انجام کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

﴿یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وأولِی الأمْرِ مِنْکُمْ، فَانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوْہ الی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ انْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَّ أحْسَنُ تأوِیْلاً﴾ (النساء:۵۹)

(ترجمہ) اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو، اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں سے جو لوگ اہل حکومت ہیں، ان کا بھی۔ پھر اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور رسول کے حوالے کردیا کرو۔ اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ امور سب بہتر ہیں۔اور انجام کار خوش تر ہیں۔

مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اختلافات کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق حل کریں اوراگر کوئی اپنے اختلافات ختم کرنے کے لئے قرآن وسنت سے پہلو تہی کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور ہوگا۔

علما نے لکھا ہے کہ اگر دو مسلمان آپس میں جھگڑیں۔ ایک نے کہا کہ چلو شرع کی طرف رجوع کریں۔ دوسرے نے کہا کہ میں شرع کو نہیں سمجھتا یا مجھ کو شرع سے کیاہے۔ تو اس کے یہ کلمات دائرئہ اسلام سے خارج کرنے والے ہیں۔ (تفسیر عثمانی)

۷- رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا حکم واجب العمل ہے

آگاہ کیاگیا ہے کہ نہ صرف دینی امور بلکہ خالص دنیوی امور میں بھی کسی مومن مرد اور عورت کو آپ کے فیصلے کے بعد کسی قسم کی گنجائش نہیں کہ فیصلہ نبوت کے بعد وہ اپنے لئے ادنیٰ اختیار کا تصور بھی ذہن میں لائے۔

﴿وَمَا کَانَ لِمُوٴمِنٍ ولاَ مُوٴْمِنَةٍ اذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أمْرًا أنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أمْرِہِمْ﴾ (الاحزاب:۳۶)

(ترجمہ) اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا وجوباً حکم دے دیں کہ (پھر) ان مومنین کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں۔ بلکہ عمل کرنا ہی واجب ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

۸- فیصلہٴ نبوی سے انحراف باعث ہلاکت ہے

بات یہیں پوری نہیں ہوجاتی، بلکہ پُرجلال انداز میں ہر سننے والے کے کان کھول دئیے گئے کہ فیصلہ نبوی کے بعد جن لوگوں کو اپنے لئے کسی قسم کی اختیاری گنجائش پیداکرنے کی فکر رہتی ہے، ایسے نافرمان صریح بھٹکے ہوئے ہیں۔

﴿وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِیْنًا﴾ (الاحزاب:۳۶)

(ترجمہ) اور جو شخص اللہ کا اور اسکے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا۔

۹- ہدایت صرف اطاعت نبوی میں منحصر ہے

یہ بھی واضح کردیاگیا، کہ ہدایت صرف اطاعت نبوی میں منحصر ہے۔ اوریہ کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی پیروی کے علاوہ ہدایت کے تمام راستے بند ہیں۔ اس کے ساتھ بتلادیاگیا۔ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اوامر سے سرتابی کرنے والے کوتاہ اندیش لوگوں کو اس کے ہولناک نتائج کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

﴿قُلْ أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ فَانْ تَوَلَّوْ فَانَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلتُمْ وَانْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوا وَمَا عَلی الرَّسُوْلِ الا الْبَلاغُ الْمُبِیْنَ﴾ (النور:۵۴)

(ترجمہ) آپ کہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو۔ اور رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم (اطاعت سے) روگردانی کروگے، تو سمجھ رکھو کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ذمہ وہی (تبلیغ) ہے جس کا ان پر بار رکھا گیا۔اور تمہارے ذمہ وہ ہے جس کا تم پر بار رکھا گیا ہے اور اگر تم نے ان کی اطاعت کرلی، تو راہ پر جالگو اور بہر حال رسول کے ذمہ صاف صاف طور پر پہنچادینا ہے۔

۱۰- مومن اور جذبہٴ سمع وطاعت

واضح کردیاگیا کہ ایمان کا سب سے بڑا نشان آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی دعوت پر لبیک کہنا، آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر حکم پر سمع وطاعت بجالانا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کردینا ہے۔ اور یہ کہ کامرانی اور کامیابی انہیں لوگوں کے قدم چومے گی، جو اپنے اندر یہ ایمانی صفات رکھتے ہوں گے۔

﴿انَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اذَا دُعُوآ الَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أنْ یَقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا وَأوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (النور:۵۱)

(ترجمہ) مسلمانوں کا قول تو جبکہ ان کو (کسی مقدمہ میں) اللہ اوراس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردیں یہ ہے کہ وہ (بطیب خاطر) کہتے ہیں۔ کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور ایسے لوگ آخرت میں فلاح پائیں گے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یعنی ایک سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی معاملے میں ان کو خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے۔ خواہ ان میں بظاہر ان کا نفع ہو، یا نقصان ایک منٹ کا توقف نہ کریں۔ فی الفور سمعًا وطاعةً کہہ کر حکم ماننے کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاح کا راز مضمر ہے۔ (تفسیر عثمانی)

۱۱-     گفت او گفتہٴ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

بتلایاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وعمل وحی الٰہی کا تابع اور منشائے خداوندی کا ترجمان ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ اپنی ذاتی خواہش سے نہیں، بلکہ وحی الٰہی سے فرماتے ہیں۔

﴿وَالنَّجْمِ اذَا ہَوَیٰ، مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَیٰ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ انْ ہُوَ الاَّ وَحْیٌ یُوْحَیٰ﴾ (النجم من أولی الی الأربع آیات)

(ترجمہ) ”قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے۔ یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نہ راہ سے بھٹکے، اور نہ غلط رستے ہوئے اور نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اپنی نفسانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں اور ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

پس جس ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ غلط روی کا احتمال ہے اور نہ وحی الٰہی کے خلاف کسی لفظ کے زبان مبارک پر آنے کا اندیشہ ہے، ایسی ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے ہر قول وفعل پرہمہ دم وحی الٰہی کا پہرا رہتا ہو انصاف کیا جائے...

حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دلائل وبراہین سے محقق کرنے کے بعد خدا تعالیٰ آپ کے متعلق یہ حکم سناتا ہے کہ جو ہمارے رسول صلى الله عليه وسلم کی فرمانبرداری کرے گا وہ بے شک ہمارا تابعدار ہے۔ اور جو اس سے روگردانی کرے گا تو ہم نے تجھ کو اے رسول ان لوگوں پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا کہ ان کو گناہ نہ کرنے دے ہم ان کو دیکھ لیں گے تیرا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ آگے ثواب یا عتاب یہ ہمارا کام ہے۔“

۱۲- اطاعت نبوی کی حقیقت

یہ بھی اعلان کردیاگیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، اور جو لوگ آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی نہیں سمجھتے وہ اپنی بدفہمی کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں۔

﴿مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أرْسَلْنَاکَ عَلَیہِمْ حَفِیْظاً﴾ (النساء:۸۰)

ترجمہ: جس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے روگردانی کرے سو آپ کچھ غم نہ کیجئے کیونکہ ہم نے آپ کو نگراں کرکے نہیں بھیجا کہ آپ ان کو کفر نہ کرنے دیں۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

۱۳- ایک مثالی نمونہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول، علم وعمل، گفتار وکردار، نشست وبرخاست غرضیکہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات سے صادر ہونے والی ہر چیز سراپا ہدایت ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی کو امت کیلئے بہترین مثالی نمونہ قرار دیاگیا۔

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب:۲۱)

ترجمہ: تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔“

اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہر ایسے شخص کے لئے معیاری نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور جس کا دل ذکر الٰہی کی کثرت سے منور ہو، برعکس اس کے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالی نمونہ نہیں سمجھتا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اقوال و افعال کو واجب الاطاعت اور لائق اقتدا نہیں سمجھتا اسے نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ نہ آخرت پر۔ اس کا دل ذکر الٰہی کے نور سے محروم ہونے کی وجہ سے ظلمت کدہ ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھو۔ سختیوں اور جانگداز حالات میں کیا استقلال رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب سے زیادہ اندیشہ اور فکر ان ہی پر ہے مگر مجال ہے کہ پائے استقامت ذرا جنبش کھاجائے۔ جو لوگ اللہ سے ملنے اور آخرت کا ثواب حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں ان کیلئے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے۔ چاہئے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون، اور نشست وبرخاست میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ہمت واستقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔

۱۴- ایک نکتہ

آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت سے اعتقاداً پہلو تہی کرنے والوں پر صاف صاف کفر کا فتویٰ صادر کیاگیا۔

﴿قُلْ أطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَانْ تَوَلَّوْا فَانَّ اللّٰہَ لا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (آل عمران:۳۲)

(ترجمہ) آپ فرمادیجئے کہ تم اطاعت کیا کرو۔ اللہ اوراس کے رسول کی۔ پھراگر وہ لوگ اعراض کریں تو سن رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتے۔“

۱۵- فیصلہ نبوی سے منحرف ظالم ہے

آپ صلى الله عليه وسلم کے فیصلوں سے اعراض کرنے والوں کو شک و تردد اور نفاق کے مریض، غلط اندیش اور ظالم قرار دیاگیا۔

وَاِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ o وَاِنْ یَّکُن لَّہُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْآ اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ o اَفِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْا اَمْ یَخَافُوْنَ اَن یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَرَسُوْلُہُ بَلْ اُولٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ. (النور ع۶، آیت ۵۱)

(ترجمہ) ”اور یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف اس غرض کے لئے بلائے جاتے ہیں کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو ان میں ایک گروہ پہلو تہی کرتا ہے۔ اور اگر ان کا حق ہو تو سر تسلیم خم کئے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں۔ آیا ان کے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں پڑے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم نہ کرنے لگیں، نہیں! بلکہ یہ لوگ سراسر ظالم ہیں۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

۱۶- اتباع رسول صلى الله عليه وسلم سے پہلو تہی منافقانہ عمل ہے

آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع سے انحراف کرنے والوں کو صاف صاف منافق اور ایمان سے عاری قرار دیاگیا۔

﴿وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا الَی مَا أنْزَلَ اللّٰہُ وَالی الرَّسُولِ رأیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾ (النساء:۶۱)

(ترجمہ) اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، تو آپ منافقین کی یہ حالت دیکھیں گے کہ آپ سے پہلو تہی کرتے ہیں۔“

مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ یعنی جب کسی جھگڑے میں منافقوں سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم نازل فرمایا ہے اس کی طرف آؤ۔ ظاہر میں چونکہ مدعی اسلام ہیں، اس لئے صاف طور پر تو انکار نہیں کرسکتے مگر آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آنے سے اور حکم الٰہی پر چلنے سے بچتے ہیں اور رکتے ہیں کہ کسی ترکیب سے جان بچ جائے۔اور رسول صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر جہاں ہمارا جی چاہے اپنا جھگڑا لے جائیں۔ (ص۱۱۳)

۱۷- ارشادات نبوی سے بے اعتنائی برتنے والے کا حکم

آپ کے پاک ارشادات کے ساتھ بے اعتنائی برتنے والوں اور آپ کے اقوال شریفہ کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کے متعلق اعلان کیاگیا کہ ان کے قلوب پر خدائی مہر لگ چکی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایمان ویقین اور رشد وہدایات کی استعداد گم کرچکے ہیں اور ان لوگوں کی ساری تگ ودو خواہش نفس کی پیروی تک محدود ہے۔

﴿وَمِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعْ الَیْکَ حَتّٰی اذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ أوْتُوْا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا. أوْلئک الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْا أہْوَائَہُمْ﴾ (محمد:۱۶)

(ترجمہ) اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تحقیر کے طور پر) کہتے ہیں کہ حضرت نے ابھی کیا بات فرمائی تھی؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی، اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانوی بتصرف یسیر)

۱۸- اسلامی دستور کا دوسرا مآخذ احادیث نبوی ہیں

قرآن کریم نے صاف صاف یہ اعلان بھی کردیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو صرف اسی مقصد کیلئے بھیجا جاتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انکار اور آپ کے ارشادات سے سرتابی کرنا گویا انکار رسالت کے ہم معنی ہے۔ اس طرح آپ کی اطاعت کے منکرین انکار رسالت کے مرتکب ہیں۔

﴿وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ﴾ (النساء:۶۴)

(ترجمہ) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جائے۔“

قرآن کریم کی وہ آیات جن میںآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اہل ایمان کے لئے لازم قرار دیاگیا ہے، بے شمار ہیں۔ ان میں سے یہ چند آیات آپ کے سامنے ہیں۔ کتاب اللہ کے ان واضح اعلانات کی روشنی میں یہ فیصلہ بالکل آسان ہے، کہ اسلام میں ذات اقدس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مرتبہ کیا ہے؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی اطاعت اور پیروی کا حکم خود قرآن ہی میں موجود ہے اور جب قرآن کریم ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی قرار دیتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جب قرآن ہی وحی خداوندی بتلاتا ہے (وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ انْ ہُوَ الاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی اور آپ صلى الله عليه وسلم کے کلمات طیبات کو جب قرآن ہی ”گفتہ او گفتہ اللہ بود“ کا مرتبہ دیتا ہے تو بتلایا جائے کہ حدیث نبوی کے حجت دینیہ ہونے میں کیا کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ اور کیا حدیث نبوی کا انکار کرنے سے کیا خود قرآن ہی کا انکار لازم نہیں آئے گا؟ اور کیا فیصلہ نبوت میں تبدیلی کے معنی خود قرآن کو بدل ڈالنا نہیں ہوں گے۔ اور اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم بھی تو امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان مبارک سے سنا، اور سن کر اس پر ایمان لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”یہ قرآن ہے“ یہ ارشاد بھی تو حدیث نبوی ہے۔ اگر حدیث نبوی حجت نہیں تو قرآن کریم کا قرآن ہونا کس طرح ثابت ہوگا۔ آخر یہ کونسی عقل ودانش کی بات ہے کہ اس مقدس ومعصوم زبان سے صادر ہونے والی ایک بات تو واجب التسلیم ہو اور دوسری نہ ہو؟

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه نے ایک موقع پر فرمایاتھا:

”یہ تو میرے میاں (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کمال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور یہ میراکلام ہے، ورنہ ہم نے تو دونوں کو ایک ہی زبان سے صادر ہوتے ہوئے سنا تھا۔“

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن تو حجت ہے مگر حدیث حجت نہیں ہے ان ظالموں کو کون بتلائے کہ جس طرح ایمان کے معاملہ میں خدا اور سول کے درمیان تفریق نہیں ہوسکتی کہ ایک کومانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ایک کو تسلیم کرلیجئے تو دوسرے کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا اور ان میں سے ایک کا انکار کردینے سے دوسرے کا انکار آپ سے آپ ہوجائے گا۔ خدائی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کے کلام کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کیا جائے اوراس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ٹھکرایا جائے۔ وہ ایسے ظالموں کے خلاف صاف اعلان کرتا ہے۔

فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہ یَجْحَدُوْنَ.

(ترجمہ) ”پس اے نبی ! یہ لوگ آپ کے کلام کو نہیں ٹھکراتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں۔“

لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے اور کلام اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں لامحالہ رسول اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ ورنہ ان کا دعویٰ ایمان حرف باطل ہے۔                                                                      

(باقی آئندہ)

* * *

-------------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان - ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر - اكتوبر 2010 ء