میرے قابل احترام اساتذئہ کرام

(۶)

حضرت مولاناسیّدحسن صاحب دیوبندی رحمہ الله علیہ

استاذ تفسیر وحدیث دارالعلوم دیوبند

از: مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

 

دوآبے کا یہ قصبہ ”دیوبند“ جو پوری دنیا میں معروف ہے، بڑا مردم خیز علاقہ ہے۔ اسی سرزمین سے وہ لوگ اٹھے ہیں جنھوں نے اپنے دورِ شباب میں دارالعلوم جیسی درسگاہ کی بنیاد رکھی تھی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ایسی ایسی شخصیات کے نام سامنے آتے ہیں جو اپنی ذات سے ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔ اور یہ لوگ جب ایک ادارے میں جمع ہوئے تو اس ادارے کی عظمت کو چار چاند لگ گئے۔

یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہے، نہ نری عقیدت ہے، بلکہ حقیقت ہے کہ دیوبند نے ایسی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے کہ جن میں ایک ایک نام ہزاروں ناموں پر بھاری نظر آتا ہے۔ یوں کہئے کہ ایک سلسلة الذہب ہے، سنہری زنجیر کی کڑیاں ہیں اور دینی خدمات کا ایک سلسلہ ہے، جوبرابر چلا آرہاہے اور آج تک بھی وہ سلسلہ کسی نہ کسی درجے میں قائم ہے۔

میں نے اپنے اساتذہ کے تعلق سے کچھ تاثرات اور بیتی ہوئی باتیں قلم بند کرنے کا ارادہ کیا تھا تو مجھے اندازہ نہ تھا کہ میری یہ روکھی پھیکی ماضی کی داستانیں لوگوں کو اتنا اپیل کریں گی کہ اس سلسلے کو اور آگے لے جانے کے تقاضے مجبور کریں گے کہ ابھی اس کو جاری رکھا جائے۔

اساتذہ کی فہرست پر نظر ڈالی تو ابھی بہت سے ایسے اہم نام باقی تھے جن کا تذکرہ نہ کرنا خود اپنے ساتھ بے انصافی ہوتی۔

میرے بہت ہی محسن، بہت ہی مشفق اور بہت ہی زیادہ تعلق رکھنے والے اساتذہ میں ایک نام دارالعلوم دیوبند کے تفسیر وحدیث کے استاذ مولانا سید حسن صاحب دیوبندی رحمة الله عليه کا ہے۔

اگرچہ ان کا اجمالی تذکرہ اس سلسلے کی چوتھی قسط ”شعبہٴ فارسی وریاضی دارالعلوم دیوبند میں میرے اساتذہ“ کے عنوان کے تحت آچکا ہے۔ مگر وہ تذکرہ بہت مختصر ہے۔

جب میں نے مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے اور ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، اس وقت وہ درجہ فارسی وریاضی دارالعلوم دیوبند میں استاذ مقرر ہوئے تھے اور میں نے اس وقت ان سے شیخ سعدی رحمة الله عليه کی گلستاں پڑھی تھی۔

جس درسگاہ میں وہ گلستاں پڑھایا کرتے تھے، اس کی بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے کسی نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت سعدی رحمة الله عليه یہاں بیٹھے ہوئے گلستاں پڑھا رہے ہیں۔ ان کی یادگار میں وہ درسگاہ تعمیر کی گئی اور اکثر ایسا ہوتا رہا کہ فارسی کے اسی استاذ نے گلستاں پڑھائی جن کو یہ درسگاہ پڑھانے کے لئے دی جاتی تھی۔

خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی اتفاق ہوا کہ فارغ ہونے کے بعدجب مجھے درجہٴ فارسی میں مدرس مقرر کیاگیا، تو ابتداء میں دارالصنائع کے برابر والی درسگاہ ملی، اس کے بعد یہ درسگاہ دی گئی اور اس میں ایک عرصے تک میں نے گلستاں کا درس دیا۔ اور ا ٓخر تک یہ کتاب میرے پاس رہی۔

بہرحال مولانا سید حسن صاحب رحمة الله عليه سے ہماری شاگردی کا آغاز درجہٴ فارسی میں گلستاں پڑھنے سے ہوا... ابتدائی عربی کے بعد جب میں وسطیٰ میں آیا تو مولانا سید حسن صاحب بھی فارسی سے وسطیٰ میں آچکے تھے اور ان سے ہم نے ”مقامات حریری“ کا درس لیا۔

اس کے بعد ہم دورئہ حدیث میں آئے تو مولانا سید حسن صاحب اس زمانے میں طحاوی شریف پڑھاتے تھے۔

وہ ہمارے دولہا بھائی بھی تھے، ہمارے والد صاحب کی بھانجی، ہماری پھوپھی زاد بہن صالحہ خاتون سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ مولانا کی طبیعت میں مزاح تھا۔ ہم دونوں میں اس بات پر کبھی کبھی بات ہوتی تھی تو میں کہہ دیتا تھا کہ جتنا میں پڑھنے میں آگے بڑھ رہا ہوں، آپ پڑھانے میںآ گے بڑھ رہے ہیں۔ جس جمات میں میں ہوتا ہوں، آپ اسی جماعت میں پڑھانے کے لئے ترقی کرجاتے ہیں۔

* * *

مولانا سید حسن صاحب کے والد مولانا نبیہ حسن صاحب خود ایک بڑی بزرگ شخصیت تھے تقریباً تیس سال تک وہ دارالعلوم دیوبند میں مدرس رہے۔ تفسیر اور حدیث کی بڑی کتابوں کے علاوہ علم ہیئت اور ریاضی میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ان کے مزاج میں جذب کا غلبہ تھا۔ ۱۳۵۱ھ میں تقریباً پچپن سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے پانچ بیٹوں میں مولانا سیدحسن صاحب ممتاز عالم دین اور صاحب تصنیف وتالیف ہوئے۔ ۱۳۳۴ھ میں دیوبند میں پیداہوئے۔

مولانا سیدحسن صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۳۵۴ھ میں تعلیم سے فارغ ہوگئے۔ فارغ ہونے کے بعد شروع میں نینی تال کے مدرسہ عربیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں اور ۱۳۶۰ھ میں درجہٴ فارسی سے دارالعلوم دیوبند میں ان کی تدریسی زندگی کا آغاز ہوا۔

ہمارے دینی مدرسوں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت ایک لازمی حصہ رہی ہے اور دیکھا جائے تو تعلیم کا مقصد ہی تربیتِ اخلاق ہے۔ تربیتِ اخلاق کے لئے مولانا سیدحسن صاحب کا تعلق حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه سے رہا۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مفتیٴ اعظم پاکستان مولانا کے حقیقی ماموں تھے ان کے واسطے سے خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون سے تعلق قائم ہوا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه نے مولانا کو مجازِ صحبت قرار دیا۔ اس سلسلے میں حضرت تھانوی رحمة الله عليه کا جو مکتوب ہے اس کی فوٹوکاپی مولانا کے صاحبزادے مولانا خورشید حسن قاسمی نے اپنی کتاب ”دارالعلوم اور دیوبند کی تاریخی شخصیات“ میں صفحہ نمبر ۶۴ پر شائع کیاہے۔ اس کا مضمون یہ ہے:

السلام علیکم حسب معمول قدیم اس وقت بھی بعض احباب کو میں نے اس خدمت کے لئے منتخب کیا ہے کہ وہ شایقین دین کو اپنی معلومات سے دینی نفع پہنچاویں اور ایسی جماعت کا لقب مجاز صحبت رکھا گیا ہے میں نے آپ کو بھی توکلا ً اس سلسلہ کے لئے تجویز کیاہے بشرطِ ترکِ مزاح لانہ یخل بالوقار، لابد انہ لا ینتفع عوام المسلمین کما ہو مشاہد. امید ہے کہ ایسے طالبین کی طرف توجہ رکھیں ، اللہ تعالیٰ مدد فرماوے“۔

                                                                                                       اشرف علی تھانہ بھون

---------------- پوسٹ کارڈ بنام: مولوی سیدحسن ----------------

مدرس فارسی، مدرسہ دارالعلوم دیوبند

ضلع سہارنپور۔

-------------- مہر پوسٹ آفس دیوبند: ۴/نومبر ۱۹۴۲/ --------------

مولانا میں ذہانت تھی، لیاقت تھی اور دارالعلوم دیوبند کے کامیاب مدرس تھے۔ ان کی زندگی کا ایک روشن اور تابناک پہلو یہ تھا کہ وہ دیوبند کے مسلک پر ہمیشہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے تھے اور اپنے درس میں اور اپنی مجلسوں میں ہمیشہ اس کو بہت نکھار کر مدلل طور پر پیش کرتے تھے۔

حدیث اور فقہ میں دارالعلوم کا اپنا ایک مزاج ہے اور ایک خاص ذوق ہے۔ وہ ذوق ایک خاص اعتدال رکھتا ہے، اس میں افراط ہے نہ تفریط .... دیوبند کے علماء بحر حدیث کے شناور ہیں۔ اس کی گہرائی سے جب مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور حدیث کے دروبست کو سمجھ کر مدلل طور پر پیش کرتے ہیں تو ان کی فقیہانہ بصیرت ابھرکر سامنے آتی ہے۔

قابل اور لائق لوگوں کی کمی نہیں۔ مگر دیوبند کے مزاج کو سمجھنے والے اوراس کے ذوق کو پرکھنے والے دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔

مولانا سیدحسن صاحب نے لمبی عمر نہیں پائی۔ ۲۱/جمادی الاولیٰ ۱۳۸۱ھ پہلی نومبر ۱۹۶۱ء کو ان کی وفات ہوئی۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ وہ بازار سے گھر آئے اور گھر آکر اپنی چارپائی پر بیٹھے ہی تھے کہ لیٹتے چلے گئے اتنے میں میں اور بھائی منیف صاحب جو کہ ہمارے پھوپھا بابو لطیف صاحب کے صاحبزادے تھے، ہم دونوں پہنچ گئے۔ میں نے یہ سمجھا کہ دولہابھائی بیہوش ہوگئے ہیں، جلدی سے ڈاکٹر کو لانے کے لئے دوڑا۔ اُس زمانے میں دیوبند میں ایک ہی مشہور ڈاکٹر ہوا کرتے تھے ”ڈاکٹرچنی لال“ ان کا مکان زیادہ دور نہ تھا، ہندواڑے میں رہا کرتے تھے۔ میں دوڑا ہوا گیا، ڈاکٹر صاحب سے جاکر بتایا، انھوں نے کہا میں آتاہوں تم چلو اور دل کی طرف ان کے سینے کو ملو۔ ڈاکٹر صاحب کے آنے تک میں اور بھائی منیف صاحب ان کے سینے کے ملتے رہے، جس سے ان کے سینے پر ایک نیلا نشان پڑگیا، ڈاکٹر صاحب بھی جلدی پہنچ گئے۔ انھوں نے آکر دیکھا، بدن گرم تھا، مگر روح پرواز کرچکی تھی۔

علم اور علم کے ساتھ ذہانت اور ذہانت کے ساتھ عمل اور پھر خدمت کی لگن اپنے مقصد کے ساتھ غیرمعمولی شغف، یہ سب چیزیں مل جاتی ہیں تو ایسی شخصیت بنتی ہے، جس کو دنیا صدیوں تک یاد رکھتی ہے۔اور اس کا فیض دیر تک جاری رہتا ہے۔

مولانا کے ہزاروں شاگرد، ان سے فیض پانے والے اور ان کے علمی سلسلے کو آگے بڑھانے والے، پھر شاگردوں کے شاگرد، ان سب کے اجر وثواب میں وہ صاحب علم شریک ہیں کہ جن کی موت ایک عالَم کی موت ہوتی ہے۔

دیوبند کے قبرستان قاسمی کی مٹی نہ جانے کتنے لعل وگہر کو اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ اپنے نانا مولانا محمد یٰسین دیوبندی رحمة الله عليه (والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله عليه) کے مزار کے جلو میں مولانا حسن صاحب محو خواب ہیں۔ ان کا مزار جیسے زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔

نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق

ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما

مولانا صاحب تصنیف تھے، ان کی اہم تصنیفات کا اجمالی تذکرہ ان کے صاحبزادے مولانا خورشید حسن قاسمی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس کی فہرست بتارہی ہے کہ مولانا کے قلم نے ہر ضروری موضوع کو چھیڑا ہے اوراس پر اپنی علمی تحقیقات پیش کی ہیں۔

اہم تصنیفات کا تذکرہ پیش خدمت ہے:

(۱)          تنویر الحواشی شرح سراجی کامل مع مناسخہ۔

(۲)         مصباح المنیر شرح نحومیر اردو۔

(۳)         مصباح المعانی شرح شرح جامی اردو بحث فعل۔

(۴)         شرح مفید الطالبین اردو، مع حل ترکیب۔

(۵)         تذکرہ سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام قرآن وحدیث کی روشنی میں۔

(۶)          تاریخ سیدنا حضرت حسن رضى الله تعالى عنه مع فضائل اہل بیت وحضرت حسن رضى الله تعالى عنه۔

(۷)         فضائل وبرکات درود شریف وواقعات اولیاء۔

(۸)         تحقیق اسم اعظم شریف۔

(۹)          قرآنی دعائیں۔

(۱۰)        چہل حدیث استغفار۔

(۱۱)         اسرار اسم اعظم کا شرعی فیصلہ۔

(۱۲) ردّ بدعات پر تحقیقی کتاب۔

(۱۳)       تنبیہات، مودودی صاحب کی بنیادی علمی غلطیوں پر تحقیقی رسالہ۔

(۱۴)       چہل حدیث اسلامی اخلاقی، بخاری شریف کی اخلاق سے متعلق۔

(۱۵)        سیرت الصدیق رضى الله تعالى عنه، مع فضائل حضرت صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه تاریخ اور سیرت کی اہم کتب سے۔

(۱۶)        سجدئہ تعظیمی کی شرعی حیثیت، یہ رسالہ فتاویٰ دارالعلوم قدیم کا جزبن کر، نیز جواہر الفقہ جلد۴ میں بھی شائع شدہ ہے۔

(۱۷)       راکٹ سے چاند تک، یعنی خلا کی تسخیر کی شرعی حیثیت اور چانداوردیگر سیارات کے آسمانی سفر سے متعلق شرعی فیصلہ۔

(۱۸)       تحفہٴ معراج، واقعہ معراج سائنس اور شریعت کی روشنی میں۔

(۱۹)        ترجمہ المنجد، عالم اسلام کی جن مشہور شخصیات نے المنجد کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے ان مترجمین میں حضرت مولانا بھی شامل ہیں۔

(۲۰)       تسہیل آداب المعاشرت۔

(۲۱)        تسہیل حیات المسلمین۔

(۲۲)       سیرت فاروق رضى الله تعالى عنه۔

(۲۳)      شہید کربلا۔

(۲۴)      جمالین شرح جلالین۔

مولانا کی جو کتابیں ابھی نہیں چھپی ہیں ان کو چھپنا چاہئے، تاکہ اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ عام ہوسکے۔

مولانا کا انتقال ہوا تو سب بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ بڑے بیٹے مولوی شاہد حسن، وہ بھی ابھی زیر تعلیم تھے۔ دوسرے بیٹھے مولوی خورشید حسن اور سلیمان ظفریہ سب بچے ابھی نوعمر تھے۔ والد صاحب کا معمول تھا کہ مولانا کے انتقال کے بعد تقریباً روزانہ ہی ان کے گھر جایا کرتے تھے اور اپنی بھانجی اور بچوں کا خیال رکھتے تھے۔

یہ اُس زمانے میں اعلیٰ قدریں تھیں۔ قرابت داری کے تقاضے تھے، باہمی تعلق کے احساس تھے، وقت گذرگیا، بچے قابل ہوگئے، اپنے اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔ صالحہ باجی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھوں نے اکیلے ماں کے ساتھ باپ کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ بڑے بیٹے مولوی شاہد بھی اب نہیں رہے۔ مولوی خورشید اور میاں سلیمان ظفر، الحمدللہ دونوں بچے اپنے والد کے طریقے پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں برکت دے۔

جامع مسجد کے سامنے بکر قصابوں کے محلے میں ان کا مکان، کبھی وہاں ہمیشہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اب ہم بھی پردیسی ہوگئے۔ یادیں رہ گئیں، باتیں رہ گئیں، زندگی کا قافلہ رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دنیا کیسے کیسے قابل لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ لوگ چلے جاتے ہیں، یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اللہ بس باقی ہوس۔

* * *

------------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان - ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر - اكتوبر 2010 ء