ان فتنوں پر میڈیا و ”دانشوران“ کو کیوں سانپ سونگھ گیا؟

از: ڈاکٹرایم- اجمل فاروقی ، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

دیوبند یا کسی بھی مستند مسلم ادارہ سے جاری فتویٰ کا ملکی میڈیا کس طرح خوردبینی تجزیہ کرکے حسب توفیق برائی اور ملامت کا پہلو نکالتا ہے وہ حالیہ چند ماہ میں ہم بارہا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ کس طرح فتویٰ کی زبان کو بدل کر اپنے مفہوم اس میں ڈال کر اس کو پوچھنے والے کے سیاق وسباق سے ہٹاکر دیوبند کی آڑ میں اسلام اور صرف اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی خوردبیں، انسانیت کا حدود خواتین کا غمگسار میڈیا حالیہ دو بین الاقوامی غیرمسلم فتوی پر تاحال چپّی سادھے ہوئے ہے۔ پہلا فتویٰ توریت کے حوالہ سے اسرائیلی علماء یہود کی جانب سے اپنے پیروکاروں کو جاری کیاگیا ہے۔ اسرائیلی اخبار معاریف میں شائع خبر کے مطابق القدس کی ”ہریڈیم سوسائٹی“ کے علماء کی طرف سے تمام یہودی خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے سروں پر بڑی چادریں اوڑھیں اور اپنے جسم کو سرسے پاؤں تک مکمل طور پر ڈھاپنے کی پابندی اختیار کریں۔ فتویٰ میں موجودہ ہر قسم کے جدید لباس اسکرٹ، تنگ شلوار قمیص شامل ہیں پہننے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ صرف سیاہ رنگ کا ایسا لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو پورے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ دے۔ بیت المقدس میں جگہ جگہ اس فتویٰ پر عمل درآمد اور اس کی تشہیر کے لئے پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ نیز ریڈی میڈ کپڑوں کے تاجروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تنگ اور چھوٹے تیار شدہ کپڑوں کی فروخت بند کردیں، کیوں کہ یہ لباس تورات کی تعلیم کے منافی اور باعث عذاب ہے۔ اس ہدایت پر عمل نہ کرنے والے تاجروں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا ہے بلکہ ان کی دوکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔ (روزنامہ صحافت، I.N.S. India) کے حوالہ سے ۳۰/۷/۲۰۱۰/۔

دوسرا مسیحی فتویٰ ویٹکن کے سینٹ پیٹرگرجا کے جانب سے گرجا گھر آنے والے زائرین کے لئے جاری کیاگیا ہے، ان کو کہاگیا ہے کہ آنے والے زائرین بہت چھوٹے اور شرمناک مختصر گرمیوں کے لباس میں اندر نہیں آئیں گے۔ اب آنے والے زائرین کو داخلہ پر روک کر حفاظتی ملازمین ان کو درست لباس میں آنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس لئے آس پاس کپڑے کی دوکانوں سے لوگ اسکارف، پینٹ، رومال وغیرہ خرید کر ہی اندر جاپاتے ہیں۔ (ٹائمس آف انڈیا، دہلی ۲۹/۷/۲۰۱۰/)

حالانکہ یہ خبریں میڈیا کے ذریعہ ہی آئی ہیں مگر یہ صرف خبر کے طور پر آئی ہیں ان پر تجزیہ، تحریریں، مباحثہ، مرثیہ، حقوق نسواں اور آزادی نسواں، سیکولرزم کی دہائی اور واویلہ نظر نہیں آئے، کیوں؟

اس سوال کا جواب ہمارے دانشوروں اور میڈیا دونوں پر قرض ہے۔ اور خواتین کے لئے لمحہٴ فکریہ بھی ہے کہ ایک طرح کے احکامات پر دو پیمانہ کیوں؟  

----------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده  – ذىالحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء