فطرت سے بغاوت کب تک؟

از: ڈاکٹر ایم. اجمل فاروقی ،  ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

نئی تہذیب اور نئے عالمی نظام کے دعویداروں نے دنیائے انسانیت کی تاریخ کے بھیانک ترین فسادات میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ فساد عقیدہ کا بھی ہے اور عمل کا بھی۔ ہم نے دیکھا اس سال دنیا عظیم ترین غدائی اجناس کی کمی اور گرانی کے بحران سے گذر رہی ہے، غدائی اجناس کی کمیابی یا غلط استعمال نے انسانوں کے لیے اناج کی فراہمی مشکل کردی ہے۔ ان کی قیمتوں میں ایک سال میں 40-60% اضافہ ہوا، اور ابھی کمی کے امکان نہیں ہیں۔ معاشی کسادبازاری، مہنگائی اور بے روزگاری نے گلوبلائزیشن کے بلبلہ کی حقیقت عیاں کردی ہے۔ صارف کلچر (زیادہ سے زیادہ خرچ کرو) تہذیب کی بدولت انسان نے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور نتیجہ سامنے آیا عالمی حدت Global warming اور آلودگی کی متنوع اقسام کی تباہ کاریوں کی صورت میں، آج دنیا کی جو عمومی سماجی، سیاسی، اقتصادی، اخلاقی صورت حال ہے اس کے لیے کون سے عوامل ذمہ دار ہیں؟ کیا اِن عوامل پر غور کرکے صورت حال کے سدھار کا وقت نہیں آیا ہے۔ الٹا یوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے اس دنیا کے بڑے یا دنیا کو کنٹرول کرنے والوں کا گروہ مسلسل منظم انداز میں ہر طرح کی تباہی کی طرف لے جانے پر آمادہ ہے۔

اقوام متحدہ اور اس سے جڑے اداروں کے بارے میں گمان کیا جاسکتاہے کہ وہ کم سے کم عالمی رائے عامہ کے اظہار کا اسٹیج تو ہے ہی اگرچہ فیصلہ وہاں وہی ہوتے ہیں جو عموماً ایک مخصوص استعمار پسند ذہن چاہتا ہے۔ پچھلے دنوں اقوامِ متحدہ سے دو خبریں ایسی آئی ہیں جن سے موٹے طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی اداروں کے ذریعہ دنیا کو کس طرح اخلاقی گراوٹ کی انتہا تک پہنچانے کی سازش پر عمل ہورہا ہے۔ پہلی خبر میں بتایاگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں فرانس اور ہالینڈ نے تحریک پیش کی کہ ہم جنس پرستی کو حق سمجھا جائے اور اِسے جرائم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ اس قرار داد کے حق میں ۶۶ ممالک نے دستخط کردیے۔ فوری طور پر شامی ممبر نے اس تحریک کے خلاف تحریک پیش کردی انہیں بھی (۶۰) ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ (رائٹر ۱۹/۱۲/۲۰۰۸/)

دوسری خبر میں بتایاگیا ہے کہ جینوا میں اظہار رائے کی آزادی کے ماہرین نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کو ان قرار دادوں کو منظور کرنا بند کردینا چاہئے جنھیں مسلم ممالک پیش کرتے ہیں جن میں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ”مذہب کی توہین کرنے کے خلاف قانون بنائیں“ اِن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد مذہبی لیڈروں کو تنقید سے بچانا اور مذہبی اقلیتوں اور مذہب نہ ماننے والوں کو کچلنا ہے۔ ان ماہرین کا یہ بھی فرمان ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور انسانی حقوق کونسل کو آئندہ ایسے ریزولیشن پاس نہیں کرنے چاہئیں جن میں مذہب کی توہین کی بات کی جاتی ہو۔ (رائٹر۱۷/۱۲/۲۰۰۸/)

مذکورہ بالا دونوں کوششوں کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ عالمی انسانی سماج کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں عالمی انسانی برادری کو کس تہذیب کی طرف لے جانا چاہتی ہیں۔ آزادیٴ اظہار رائے کی آڑ میں تنقیص، تضحیک اور تمسخر کو اسلام اور تعلیمات اسلام کے خلاف روا رکھا جاتا ہے۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ اسلام کبھی بھی افہام و تفہیم، بحث ومباحثہ، مجادلہٴ احسن سے بھاگتا نہیں ہے۔ اسلام عقلی اور منطقی دلائل کا قائل ہے۔ قرآن پاک میں ہر چوتھی پانچویں آیت میں کسی نہ کسی طورپر استدلال کیاگیا ہے۔اور عقل و منطق کے استعمال پر ابھارا گیا ہے مگر یہاں جو آزادی چاہی جارہی ہے وہ بے قید مادر پدر آزاد ہے۔ اس میں علمی نکات سے بحث نہیں ہے عقلی و منطقی استدلال کی گنجائش نہیں ہے۔ کارٹون بنانا، جھوٹے الزامات لگانا، حقائق کو توڑ مروڑ کر کردار کشی کرنا کس طرح آزادی رائے کے ضمرہ میں آسکتا ہے؟ پھر کیا آزادی کے یہ دیوانے بتاسکتے ہیں کہ آج 9/11 کے بعد کی دنیا میں کتنی آزادی میسر ہے؟ کیا دیگر معاملات میں بھی اسی طرح کی مطلق آزادی دی جارہی ہے؟ مثال کے طور پر آج قومی مفاد کے نام پر انسانوں کی آزادیاں محدود نہیں کردی گئی ہیں؟ 9/11کے بعد کی دنیا میں جس طرح سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں یا آج ماحولیاتی آلودگی سے نپٹنے کے لیے جس طرح سخت فیصلہ کرنے کے منصوبہ بنائے جارہے ہیں یا امریکی مالیاتی اور بینکنگ نظام کے بحران کے بعد بے قید مطلق آزاد نظام کے بجائے جس طرح سرکاری کنٹرول کو بڑھایا جارہا ہے کیاوہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ کوئی بھی آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ انسانی آزادی کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ انسانی سماج کچھ حدود و قیود کا پابند ہو۔ عملاً آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس سماج کو جو اقدار Values عزیز ہیں وہ اس کے لیے ”مقدس گائے“ Holy cow کا درجہ رکھتا ہے۔ کہیں ملک کا جھنڈا، ملک کا گانا، قومی ہیرو، مقامی روایت یا قدریں ایسی بنادی گئی ہیں کہ کوئی بھی اس کے خلاف عمل نہیں کرسکتا۔ جھنڈا الٹا ہوگیا، گرگیا ، قومی گیت کے دوران کھڑا نہیں ہوا تو پھر کیا آزادی کا حق باقی رہ جاتا ہے؟ کیا یہ کھلی منافقت نہیں ہے کہ کچھ اداروں یا علامتوں کو آپ تنقید سے بالاتر سمجھیں تو بھی آپ آزادی پسند کہلائیں اور دوسرے لوگ کچھ دیگر اشخاص یا علامتوں کا مضحکہ اڑانے سے روکیں تو وہ نکّو بناکر غیرمہذب بتائے جائیں۔

دوسری خبر کے سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم جنس پرستی جیسی شیطانی حرکت کے لئے آزادی کا مطالبہ خود اس بات کا اظہار ہے کہ آزادی کے نام پر دنیا کو کس بربادی کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا پہلے ہی ایڈس جیسے تاحال ناقابل علاج مرض سے جوجھ رہی ہے جو خطاکاروں کے ساتھ معصوموں کو بھی نگل رہا ہے دوسری طرف اس مرض کو بڑھانے کے لیے جو ممکن ہوسکتا ہے وہ بھی کیا جارہا ہے۔ پورے انسانی سماج کو یہ آزادی کس طرح تباہ و برباد کردے گی اسے صرف سوچ کر بھی وحشت ہوتی ہے۔ جب مرد، مرد اور خاتون - خاتون کی شادی ہوگی تو نئی نسل کیسے چلے گے؟ اس کا اندازہ اس مثال سے لگائیں کہ ایک اسرائیلی ہم جنس جوڑے (مرد مرد) نے ممبئی میں اپنے نطفہ کو کسی کرائے کی ماں کے رحم میں پرورش کراکر اسے گودلیا ہے اوراس کی پرورش کررہے ہیں۔ اب اس بچہ کا باپ کون ہوگا؟ ماں کون ہوگی؟ باپ کی جائداد کا وارث کون ہوگا؟ وغیرہ نت نئے مسائل جوکھڑے ہونگے وہ معاشرہ کی بنیادوں کو جڑوں سے ہلاکر برباد کردیں گے۔ ہمارے ملک میں بھی مفاد عامہ کی ایک درخواست دہلی کی عدالت میں زیرسماعت ہے جس میں حکومت ہند سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ اس فعل کو جرائم کی فہرست سے نکال کر باقاعدہ اس کو منظور کرے۔ محکمہ صحت کے وزیرامبونی رام داس اس کے حمایتی ہیں مگر وزارت داخلہ راضی نہیں ہے۔ اب ماحول یہ بنادیاگیا ہے کہ اس شیطانی فعل کی حمایت کرنے والے آزاد خیال، مہذب اور ترقی پسند مانے جارہے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے کٹر، جنونی اور پرانے خیالات کے بتائے جارہے ہیں۔

اگر دنیا انسانیت خصوصاً اس کے بڑے اس دنیا کو مسائل اور بحرانوں سے پاک کرکے امن، انصاف، ترقی، خوشحالی کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو سب کو تحفظات اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر مسائل کی واقعی رہنمائی کی طرف دیکھنا ہوگا۔ جیسے ابھی عالمی اقتصادی اور مالی بحران کے حل کے ضمن میں سود کی شرح کم کرکے اسے تقریباً صفر پر لے آیاگیا ہے۔ دنیا بھر میں مالیاتی ادارہ شرح سود کم کرکے مندی کے اثرات کو کم کرنا چاہ رہے ہیں ہمارے ملک میں بھی سرکار اور ریزروبینک لگاتار ایسا ہی کررہے ہیں۔ کانگریس کے ترجمان اور ممبرپارلیمنٹ ابھیشک سنگھوی نے اپنے مضمون (Profit for all) سب کافائدہ میں اسلامی اقتصادی نظام اپنانے کی صلاح دی ہے۔ انھوں نے اس نظام کی جو خصوصیات بتائی ہیں اس میں:

                (۱)          سود سے پاک ہونا۔

                (۲)         حصہ داری ہونا۔

                (۳)         محنت اور سرمایہ کی برابری ہونا۔

 کا خاص ذکر کیا ہے۔ موصوف نے یہ بھی بتایا ہے کہ خلیجی علاقہ کے مالیاتی ادارہ کیونکہ انہیں اصولوں پر چلائے جاتے ہیں اس لئے وہ موجودہ بحران کو زیادہ جھیل پارہے ہیں اور ان کا شمار دنیا کے دس مضبوط ترین مالیاتی اداروں میں ہوتا ہے۔ ( ٹائمس آف انڈیا ۲۸/۱۱/۲۰۰۸/)

کیا دنیا کے دیگر تمام مسائل بھی اِسی الٰہی رہنمائی سے حل نہیں کیے جاسکے؟

*  *  *

---------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 02 ، جلد: 93 صفر 1430 ھ مطابق فرورى 2009ء