جو داغ اُبھرے ہیں دامن پر

اُنھیں دھویا کہاں ہوں میں...!

از: عزیز بلگامی

                                               

جس زمین پر ہم زندگی بسرکرتے ہیں،چند صدیوں پہلے تک اِس کے بارے میں ہمیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ یہ ایک مقام پر ٹھہری ہوئی ہے یا متحرک ہے، گول ہے یا بیضوی ۔ ہمیں خبرتک نہیں تھی کہ اس کا رقبہ یا حجم کیا ہے۔ سائنسی اور جغرافیائی علوم کی ترقی نے اِس کے گوناگوں رازوں پر پڑے دبیز پردے ہٹا دیے ہیں۔اب ہم تمام تر شواہد کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ زمین بسیط کائنات کے کسی نامعلوم گوشے میں سورج کے گرد ایک گیند کی مانند گردش کررہی ہے جس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے اور صرف ایک تہائی حصہ پر ہی خشکی ہے،جس پر انسانوں کے علاوہ کئی انواع و اقسام کے جاندار مخلوقات کا بسیرا ہے۔

زمانہ ٴ قدیم سے ساحلوں پر آباد انسان جانتے تھے کہ سمند ر کا پانی نمک آلود یا کھارا ہوتا ہے۔ اسی میں ندیوں اوردریاؤں کامیٹھا پانی جن سے ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، آ گرتا ہے ۔اِن دونوں ہی قسم کے پانیوں سے رب تعالیٰ اپنی مخلوق کو رزق مہیا کرتا ہے۔بغیر پانی کے انسانی آبادی کا وجود سنگین خطرے کی گرفت میں ہوگا۔ دنیا کے تقریباً تمام قدیم اورمشہور شہر زیادہ ترکسی نہ کسی ندی کے کنارے ہی آباد نظر آتے ہیں۔ رفتہ رفتہ زیرِ زمین پانی کی موجودگی کا انسانوں کو علم ہوا۔ کنووٴں سے پانی کی انسانی ضرورت کسی درجے میں پوری ہونے لگی۔مشینی دور کے آغاز کے بعد زیرِ زمین شیریں پانی کے ذخائر کی کھوج اور حصول کے طریقوں میں ترقی ہوتی گئی۔یہ حقیقت سامنے آئی کہ زیر زمین پانی Sub soil water کی شکل میں کھارے اور شیریں پانی کے زبردست ذخیرے کرّہ ارضی کا حصہ ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات یہ کہ دونوں قسم کے آبی ذخائر ایک دوسرے میں تحلیل نہیں ہو پاتے۔حالانکہ ہمیں ان کے درمیان ایسی کوئی دیوارBarrier دکھائی نہیں دیتی، جبکہ Salanity اورSpecific Gravity کی شکل میں یہ نہ دکھائی دینے والی دیوار ان دونوں قسم کے پانیوں کے درمیان حائل رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحلِ سمندر پر آباد شہروں کے کنوؤں کا پانی بھی قابلِ استعمال اور شیریں ہوتا ہے، جبکہ سامنے چندہی گز کے فاصلے پر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا کھارا پانی موجود ہوتا ہے جو پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ اگر کبھی سمندر کا کھارا پانی میٹھے پانی کے اِس ذخیرے میں تحلیل Mix ہوجائے تو انسانیت پینے کے پانی سے محروم ہوجائے گی اور زندگی کا وجود باقی نہیں رہے گا۔مگر رب تعالیٰ کی قدرت دیکھئے، کہ اُس کی یہ دونوں ہی مخلوقات یعنی میٹھاپانی اور کھارا سمندری پانی آپس میں تحلیل ہوئے بغیرانتہائی وفاداری اور شرافت کے ساتھ انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں کہ محسوس بھی نہیں ہونے دیتے۔سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ دونوں سمندروں کا پانی ایک دوسرے میں، ایک مخصوص گہرائی کو حاصل کرلینے سے پہلے مل نہیں سکتا اورجب وہ یہ گہرائی حاصل کر لیتا ہے تواِنسان کی ضرورتیں تب تک پوری ہو چکی ہوتی ہیں۔ وہ رنگت جودونوں پانیوں کو الگ کرنے والی ہے وہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ مگر دونوں کی Density اور Specific Gravity اور دونوں کی تپش بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ دونوں ہی طاقتور منبع ہائے آب، چاہے زمین پر ہوں یا زیرِ زمیں، اپنے رب کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے۔قرآنِ مجید کی پچپنویں سورة کی اُنیسویں اور بیسویں آیتوں میں اِسی غیر معمولی حقیقت کی طرف اشارہ موجودہے:

”(رب تعالےٰ نے)دوبحرپہلو بہ پہلو رواں کئے اِن دونوں کے مابین( ایک) آڑ حائل ہے (جس سے آگے)وہ تجاوز نہیں کرسکتے(اورنہ ایک دوسرے میں تحلیل ہوسکتے ہیں)۔“

 دنیا کی تیز رفتار ترقی،اُس کی مسلسل کھوج اور علمِ جدید کی مستقل جستجو یعنی کُل ملا کر ان میں انسان کو ایک بے کراں سمندر دکھائی دیتا ہے جب کہ یہ نت نئی سائنسی ایجادات، سمند ر تو کیاسمندر کے ایک قطرے کے برابر بھی نہیں ہیں۔ گزشتہ صدی میں کچھ ایسے ملحد بھی منظرِ عام پر آئے جنہوں نے اِن ہی چند سائنسی ایجادات کی بنا پر بڑی عجلت میں خدا کے وجود کا انکار کر دیا تھا۔شکر ہے کہ آج وہ حالت باقی نہیں رہی ہے۔ جدیدتعلیم یافتہ سائنس داں ایک Error Free Nature کی عظمت کو تسلیم کرنے لگاہے ۔اب اُسے خدا کی بے پناہ عظمتوں کااعتراف ہے اوراُسے یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ خدا کتنی زبردست قدرتوں والا ہے۔اس نے ہر طرح کی مخلوق کو کس کمال درجے سے تخلیق فرمایا ہے اور کیسی زبردست جامعیت اور Perfectionسے سرفراز کیاہے۔کہیں کوئی جھول،کوئی نقص باقی نہیں رکھا۔اس کا ہر کام انتہائی منضبط اورمنظم ہے۔کسی بھی کام کے لئے اسے کسی کی مدددرکار نہیں ۔کائنات کی بڑی سے بڑی شے کی تخلیق سے پہلے اُسے کسی ماڈل کی ضرورت نہیں پڑتی۔اُس کے تخلیقی منصوبے میں کبھی ”آزماؤاور غلطی ہو تو پھر بناؤ“یا Trial and Errorجیسی کوئی کیفیت نہیں پائی جاتی۔

اب اُسے غور کرنا چاہیے کہ دنیا کی ہر شے ایک دوسرے سے انتہائی مربوط ، ہم آہنگ اورایک دوسرے کی معاون ہے تو کیوں ہے۔ یہاں کا ہر سسٹم ایک دوسرے پر منحصر اور ایک دوسرے کا مددگار ہے تو کیوں ہے۔ دراصل یہی باہمی ربط و ارتباط اِس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ اِس کائنات کا ایک ہی خداہونا چاہیے اور فی الواقع ہے،اِس لیے کہ ایک سے زائد خداؤں کی موجودگی میں اِس قدر عظیم ربط وضبط اور Perfection کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اِن عظیم قدرتوں والے رب کا کوئی پارٹنر بھی نہیں ہوسکتا ہے؟نہ اس کے جیسا کوئی ہے ۔ پھرکوئی دوسرا ایسا نہیں جس نے کسی ایک چیز کی بھی تخلیق کی ہو؟ اپنی پُرنورکتاب کی پینتیسویں سورة کی چالیسویں آیت میں تمام انسانیت سے خود رب تعالےٰ دریافت کر رہا ہے:”آپ (اِن مشرکین سے)دریافت کیجیے(کہ) تمہاری نگاہِ (خرد )کیا(اِس حقیقت کوکبھی)دیکھ(بھی) پاتی ہے کہ اللہ کے بجائے جن(نام نہاد)شرکاء سے تم فریادیں کرتے (رہتے)ہو(اُن کی حقیقت کیا ہے؟)،مجھے بتاؤ (تو سہی) کہ زمین میں اِنہوں نے کون سی (شے)تخلیق کر(دکھائی) ہے یا(یہ کہ) آسمانوں(کی تخلیق میں)اِن کی(کسی قسم کی) شراکت داری(بھی) ہے...“

 کائنات کی ہر شے جیسے پکار پکار کرکہہ رہی ہے کہ میں خالقِ واحد کی تخلیق ہوں۔انسانوں کی عقلِ عام اور سائنس بھی یہی جواب دے گی کہ ہر شے اُسی کی خالقانہ قدرتوں کی مرہونِ منت ہے، اس پراُسی کے مالکانہ حقوق قائم ہیں اور کوئی مخلوق اپنے آپ میں بااختیار ہرگز نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ آج بھی ، حضرتِ انسان بڑے فخر کے ساتھ جسے عصرجدید کہتا ہے، عقل و فہم، منطق و معقولیت کا خود کوعلمبردار کہتے نہیں تھکتا، اپنے رب کو پہچانتا نہیں یا نہ پہچاننے کی اداکاری کرتا ہے اور اُسی کی تخلیق کردہ اشیاء یا شخصیات کے آگے بے مہابہ سرِ تسلیم خم کرتا ہے، جنہیں تخلیق کا یارہ تو کیا ہو، یہ خود مخلوق کے زُمرے میں شمار ہوتے ہیں۔

اپنی کتابِ ہدایت کی پچیسویں سورةکی تیسری آیت میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے : ”(شرک زدہ اِنسانوں کا حال بھی بڑا عجیب ہے کہ)اللہ کے بجائے،تراش لیتے ہیں اپنے لیے معبود،جبکہ اِن(جیسے خود ساختہ) معبودوں نے کسی شے کی تخلیق کی ہی نہیں،(تخلیق تو کجا)وہ خودہی تخلیق شدہ ہیں اور (اِن کی محرومیوں کا یہ عالم ہے کہ) خود اپنی ذات( کے سلسلے میں) کسی نفع و ضررکے مالک نہیں اور نہ اپنی موت کے مالک ہیں اور نہ اپنی حیات کے اور نہ دوبارہ جی اُٹھنے پر اُن کی کوئی گرفت ہے۔“

انسانیت کی ترقی روز افزوں ہے۔ نت نئی سائنسی ایجادات کا سلسلہ جاری ہے۔ فطرت کے نہاں خانوں میں موجود قوتوں کی دریافت پر دریافت ہو رہی ہے اور اگلے وقتوں کے مقابلے میں اِس کی رفتارکچھ زیادہ ہی ہے۔ پھر حال یہ ہے کہ کسی بھی شے کی دریافت کے لیے اُسے،اپنے رب ہی کی تخلیق کردہ اشیاء کا سہارا لیناپڑتاہے اور ان ہی کے استعمال سے وہ ترقی کی اگلی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے خوب واقف ہے کہ اُس نے کچھ تخلیق نہیں کیا ہے۔ کارِ تخلیق میں اُ س کاکوئی حصہ نہیں۔انسان نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ رب تعالےٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کی پوشیدہ قوتوں کا تفصیلی تعارف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُس کی طبعی، نامیاتی،کیمیائی خصوصیات کیا ہیں۔ان ہی سائنسی خصوصیات کے بل بوتے پر اُس نے اپنی ترقی کی راہیں طے کی ہیں۔ کیا ان خصوصیات کی تخلیق میں اور ان میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں میں انسان کا کوئی رول ہو سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا اشیاء کی خصوصیات کی تخلیق میں اور اِن میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں کی تخلیق میں حضرت اِنسان کا کوئی حصہ بھی ہے؟

بائیسویں سورة کی تہترویں آیت میں رب تعالیٰ کا یہ چیلنج ہے:”اے کرّہٴ ارض کے باشندو! ایک تمثیل پیش کی جاتی ہے،جسے توجہ سے سماعت کرو:اللہ کے بجائے(یہ جو تم)جن جن کوپکارتے رہتے ہو،یہ( سب کے سب) ایک مکھی کو معرض ِ وجود میں لانے کے لیے مجتمع ہو جائیں(تو تم دیکھو گے کہ) وہ ایک مکھی کی بھی تخلیق ہر گزنہیں کر پائیں گے۔(تخلیق تو دور کی بات ہے) اگر کوئی مکھی اِن سے کوئی شے جھپٹ لے جائے تب بھی وہ اُس کی باز یافت نہیں کر سکیں گے۔(یہ تمثیل اِس حقیقت پر مہرتصدیق ثبت کردیتی ہے کہ کس قدر)ضعف زدگی کا مارا ہوا ہے، طلب گار بھی اور وہ بھی جس سے طلب کیا جارہا ہے۔“

الغرض حقیقتِ توحید کی بازیافت کے لیے اِنسان کو بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اپنے آس پاس کی اشیاء ہی پر جیسے درجِ بالا آیت کی تمثیل میں نظر آتا ہے، غور کرلے تو اُسے اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔مثلاً،اگردوسری بظاہر معمولی شے پانی پرہی ہم غو ر کریں تو حقائق کی کئی پرتیں ہمارے سامنے کھل جاتی ہیں۔ پانی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہ ایک وزنی مائع ہے۔ایک گھڑے میں پانی بھرا ہوا تو اِسے اٹھانے میں بڑی دشواری ہوتی ہے، اِس لیے کہ پانی وزن رکھتا ہے۔ایک ہزار لیٹر پانی کا وزن کم از کم ایک ٹن ہوتا ہے۔چونکہ سیال ہوتا ہے ، اِس لیے اِس کاTransportation کافی پیچیدہ بھی ہوتا ہے اورمہنگا بھی۔اگرپانی سمندرکاہو تومعاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔اِس کو قابلِ استعمال بنانے یا اصطلاحاًTreatmentکے مراحل سے گزارنے کے لیے سرمایہٴ کثیردرکار ہوتا ہے۔ بڑی محنت و مشق کے بعد سمندر کے پانی کی ایک محدود مقدار کے کھارے پن کو دور کرنا غیر تسلی بخش طور پر ممکن ہوسکتا ہے ۔چونکہ سمندر کے نمکین تلخ پانیSaline Water سے ایک تو، پیڑ پودوں کی سیرابی ممکن نہیں اور دوسرے، سمندری پانی کی گرفت میں آنے والی مٹی سبزہ اُگانے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے، کوئی پیڑ پودااِس کی نمکینی کے سبب زمین میں قرار نہیں پکڑتا۔ابھی چند سال قبل سونامی کے حواس باختہ واقعہ نے ایسی کئی مثالیں زمین کی سطح پر ثبت کی ہیں، جیسے جزائرِ انڈمان کے زرعی علاقے آج کسی فصل کو جڑ پکرنے نہیں دے رہی ہیں اور حکومت ہند کی ساری تدبیریں بے نتیجہ ثابت ہورہی ہیں اور یہ سب کچھ محض ایک لہر کا نتیجہ ہے جو صرف ایک بار آئی اور لوٹ گئی۔

اب خدائی نظام ملاحظہ ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے تقریباً71% حصہ پر سمند رپھیلا ہوا ہے۔ اسی سمندر سے رب تعالیٰ پانی کو بخارات کی شکل میں اوپر کی جانب اٹھنے کا حکم دیتا ہے۔ پھر بخارات کویہ حکم دیتا ہے کہ پانی کی ساری تلخیاں ، ساری کثافتیں اورنمکینیاں اپنے پیچھے چھوڑ کر اٹھیں۔ اب جب بارش کی بوندیں زمین پر برستی ہیں تو د نیا جانتی ہے کہ ہمیں جو پانی میسر آتا ہے وہ کثافت اور آلودگی سے پاک یاNon Polluted ہوتا ہے، جس کا مقابلہ زمین پر موجود کوئی شیریں پانی نہیں کر سکتا ۔ سمند ر کے پانی کی نمکینی کو ختم کرنے کا یہ ایک ایسا مکمل نظام ہے، جس میں نقص تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ یہی پانی تلخ اور نمکین خصوصیات سے پاک ہوئے بغیر اگر ہم پر برسنے لگے تو ہمیں اپنی بے بضاعتی اورہماری عالمِ مجبوری کا احساس ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ ہمارے کسی کام کانہ ہوگا نہ انسانیت اپنی پیاس بجھا پائے گی۔ دراصل دورِ حاضر کے مادہ پرست انسان کی اِس جانب توجہ ہی نہیں کہ کتنی عظیم نعمت سے اُس کے رب نے انسانیت کو نوازا ہے۔ ہمارے سینے اِس قدر خشک ہوگیے ہیں کہ اِن سے شکرگذاری کے جذبات کی ایک لہر بھی نہیں اٹھتی۔ہمارے مزاج کی نرمی اوراِس کی انکساریHumblenessپتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم جھک جائیں، اپنے آپ کو بچھا دیں اپنے رب کریم کے حضور۔

دراصل ہم خود اپنی ہستی سے ناواقف ہیں اِسی لیے اپنے رب کو پہچان نہیں پاتے نہ ہم اپنے آپ کو اُس کی فرمانبرداری میں دینے پر آمادہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم مظاہرِ کائنات پر غورو فکر کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ ورنہ ہمیں غور و فکر کی عادت ہوتی تو بہ آسانی سمجھ میں آتا کہ کس سلیقے کے ساتھ ایک مکمل نظام کے تحت اُس کی ضرورت کی ہر شے کی مسلسل سپلائی جاری ہے۔صرف پانی کی سربراہی Continuity میں فرق پڑ جائے تو کیا اس کا ذخیرہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہے؟ بارش سے پانی کی سپلائی نہ ہو، تو ندیاں سوکھ جائیں گی اورچھوٹے بڑے Damsبھی خالی ہو جائیں گے۔کہاں سے ہم پانی کا ذخیر ہ کر سکیں گے؟ پانی کے بغیر اپنے سارے چھوٹے بڑے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے!دریاؤں،ندیوں، تالابوں، زیر زمین پانی کے بہتے چشموں یا ذخیروں،پہاڑی آبی دھاریوں، فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے چمکدار تودوں کی موجودگی، پانی کے اُسی Storage System کا حصہ ہے جسے خود رب تعالیٰ نےDevelope کیا ہے۔

اس عجیب نظام کا ذکر ہمیں تیئسویں سورة کی اٹھارویں آیت میں واضح طور پر ملتا ہے اور ہمیں یہ اعتراف کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کس قدر کمزور واقع ہوئے ہیں اور ہمارے رب کی مہربانیوں کا کیا عالم ہے:”اور آسمان کی بلندیوں سے ہم ایک مخصوص مقدار میں بارش برساتے ہیں اور (پھر تمہاری ضروریات کی تکمیل کے لیے آبی ذخیروں کی شکل میں بھی)زمین میں اِسے جائے قرار عطا کرتے ہیں،جب کہ ہم اِس بات پر بھی قادر ہیں کہ(اِن ذخیرہ ہائے آب کو)ہٹادیں یا( بھاپ بنا کر اُڑا دیں)۔“

 بعض اوقات ایک فضول سا خیال ہمارے ذہنوں کو چھو کر گزر جاتا ہے کہ اگر سمندر کا پانی کھارا رہنے کے بجائے میٹھا ہوتا تو شاید انسانیت بڑے فائدہ میں رہتی! لیکن تھوڑے سے غور و فکر کے بعد ہماری خام خیالی ہم پر منکشف ہو جاتی ہے کہ دراصل ہم سمندری پانی کے کھارے پن کی خصوصیات اور فوائد سے ناواقف ہونے کے سبب ایسے فضول خیالات کو اپنے ذہنوں میں راہ پانے کا موقع دیتے ہیں۔سمندر چونکہ زمین پر پانی کا ایک بے پناہ ذخیرہ ہے اور خشکی سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اِس لیے یہ لاتعداد انواع و اقسام کے جانداروں کا گھر ہے جہاں ظاہر ہے کہ اِ ن کی اموات بھی واقع ہوتی رہتی ہیں جس طرح خشکی کے جانور مرتے رہتے ہیں۔اب اگر سمندر کا پانی میٹھا رہتا ہے تو مرے ہوئے سمندری مخلوقات کے سڑ جانے سے پورے عالم میں ایک تباہ کن تعفن کا پیدا ہونا ناقابلِ قیاس نہیں۔ یہاں تک کہ خشکی پر مرنے والے جانوروں کے تعفن کو دیگر انسانی کثافتوں کے ساتھ آخر کار پانی ہی ختم کرتا ہے جو پہلے تو ندی نالوں کے ذریعہ بہا کر لے جاتا ہے اور بالآخر سمندر کا نمکین پانی اِس کی بیماری پھیلانے کی صلاحیتوں کو ختم کردیتا ہے۔پھر یہی پانی آبی بخارات کی صورت اختیار کر کے ساری کثافتوں کو فلٹر کردیتا ہے اور بادلوں،ہواؤں کے دوش پر اوپر کی جانب اُٹھتا ہے اور انسانوں کو یہ پیغام دے جاتا ہے کہ پاکیزہ و طیّب چیزیں ہمیشہ عروج کی سمت ہی حرکت کرتی ہیں۔ پھر اسی طرح جب یہ پاک پانی آسمان سے برسنے لگتا ہے تو اِس احساس سے دل و دماغ ایمان کی خوشبو سے مہکنے لگتے ہیں کہ ہر طیّب و پاکیزہ چیز اوپر ہی سے اُترتی ہے جیسے اللہ کا کلام اور اُس کی آیتیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں لفظ”نازل ہونا “ وحی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور پانی کے لیے بھی۔

پھر ہمیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کی کثافتوں، اپنے نفس کی آلودگیوں اوراپنی انا، ضد ، غصہ اور حسد کی گندگیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے کردار و معاملات کو پاکیزگیوں کی بلندیوں کی طرف نہیں لے جاتے؟

ابھی کچھ شرم ساری ہو ، ابھی کچھ اشک بہنے دو

جو داغ اُبھرے ہیں دامن پر اُنہیں دھویا کہاں ہوں میں

(ع ب)

* * *

---------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 03 ، جلد: 93 ربيع الاول 1430 ھ مطابق مارچ 2009ء