اِس سے پہلے میں تمہارے درمیان ایک عمرگذار چکا ہوں کا نبوی چیلنج

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی

 

اللہ رب العالمین نے اپنے رسول رحمة للعالمین حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسانی کے لیے اپنی ہدایت ورہنمائی ہمیشہ کے لیے ارسال کردی۔ اوریہ بھیجا جانا علمی، عقلی اور کردار ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ جس طرح انسانی زندگی کے انفراد ی اور اجتماعی ہزاروں پہلو ہیں اسی طرح ہزاروں پہلوؤں سے حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی رہنمائی بھی موجود ہے۔ اور کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ اور حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اپنی تمام تعلیمات پر سب سے بڑھ کر سب سے پہلے آپ خود عمل کرتے تھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود اس پہلو کو اجاگر کیا ہے ۔ ”تم اِن سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“ سورہ یوسف آیت ۱۰۸۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی زندگی اور کردار کو اللہ پاک نے ایسا بے عیب اور مکمل بنایا اور محفوظ فرمایا کہ کردار اور سیرت مصطفی صلى الله عليه وسلم کو تمام دنیا کے سامنے ایک چیلنج کے طور پر پیش کردیا۔ اور قرآن پاک نے اس چیلنج کو رہتی دنیا تک اِن الفاظ میں تمام مخالفین حق کے لیے عام کردیا ”کہو اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اُس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اِس سے پہلے میں تمہارے درمیان ایک عمر گذارچکا ہوں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے؟ سورہ یونس آیت ۱۷۔ خط کشیدہ جملہ میں جو چیلنج دیاگیا ہے وہ آپ کے علمی چیلنج کا ایک طرح کا تکملہ ہے۔ ایک طرف تو جگہ جگہ یہ چیلنج اللہ تعالیٰ نے تمام مخالفین حق کو دیا ہے ”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے۔ کہو اگر تم اپنے اِس اِلزام میں سچے ہو تو ایک سورة اس جیسی تصنیف کرلاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلاسکتے ہو مدد کے لیے بلالو“ یونس آیت ۳۸۔ ایک طرف قرآن کا چیلنج اور دوسری طرف صاحب قرآن کا عمل اور کردار کا چیلنج اور دلیل ان دونوں کے آگے بڑے سے بڑا ”مخلص“ مخالف سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگیا۔

اچھی اچھی اخلاقیات کی باتیں کرنا، اونچی اونچی ڈینگیں ہانکنا ناممکن قسم کی خوبصورت باتیں بنانا یہ سب اخلاقیات، دین، روحانیت کے نام پرکرنا بہت آسان ہے۔ اوریہ سب تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ بڑی خوبصورت اخلاقی باتیں کرنے والے مصلحین، روحانیت کے نام نہاد مبلغین کی ذاتی زندگیاں عموماً عمل اور کردار سے خالی بلکہ اس کی ضد ہوتی ہیں۔ کسی بھی انسان کے قول پر اس کی دعوت پر سب سے زیادہ موثر دلیل اس کا اپنا عمل اور کردار ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد اس کے قریب ترین لوگوں کی گواہی یا اس کے مخالفین کے تاثرات قطعی اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس معیار پر انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ جو شخصیت پوری اترتی ہے وہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ہے۔ آپ کی نبوت سے قبل کی زندگی بھی اس حقیقت پر گواہ ہے۔ خارق عادات چمتکار، سعید اور مسحور کن کرتب دکھانا بڑا آسان ہوتا ہے مگر بلند اخلاقی تعلیمات پر خود عمل کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے مذکورہ بالا آیات میں آپ نے دونوں کسوٹیوں پر عمل کا ثبوت پیش کیا۔ پہلا یہ کہ اپنی دعوت پر سب سے بڑھ کر یقین رکھنے والا میں خود ہوں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ میں پہلے خود مسلم ہوں۔ دوسری آیت میں عمل اور کردار کے لحاظ سے ثبوت دیا گیا کہ اپنی ماقبل کی چالیس (۴۰) سالہ زندگی میں نے تمہارے درمیان ہی گذاری ہے کیا میں نے کبھی جھوٹ بولا؟ کبھی قصہ کہانی سنائے، اقتدار کی خواہش کی؟

تاریخ کے ذریعہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ مخالفین حق کفار و مشرکین مکہ نے اِن دونوں چیلنجوں کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اجتماعی طورپر نظم کرکے اہل ادب کو مکمل یکسوئی کے ساتھ قرآن کی ایک آیت جیسی آیت لانے کی کوشش کی گئی۔ حضور صلى الله عليه وسلم کو نعوذ باللہ مجنون، جادوگر، گھر والوں کو آپس میں لڑانے والا، پرانے رسم ورواج سے برگشتہ کرنے والا، سماجی تانے بانے کو بکھیرنے والا، شاعر، کاہن اور نہ جانے کیاکیا کہا گیا۔ مگر خود ہی اِن الزامات پر مطمئن بھی نہ ہوتے تھے۔ جادوگر، جھوٹے یا سحرزدہ تھے تو اپنے جھگڑوں میں ان کو فیصلہ کرنے والا کیوں بناتے تھے؟ ان کو صادق اور امین کیوں کہتے تھے؟ اُن کے پاس اپنی قیمتی امانتیں کیوں جمع کراتے تھے؟ ہجرت کے وقت حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو صرف اسی مقصد سے خطرہ مول لے کراپنے بستر پر سلایاگیا تھا کہ امانت داروں کی امانتیں واپس کردی جائیں۔

Sir William Myur سرولیم میور جو حضور صلى الله عليه وسلم کے صف اوّل کے مخالفین میں سے ہے نے اپنی کتاب ”لائف آف محمد“ میں مجبور ہوکر لکھا ہے ”ہماری تمام تصنیفات محمد کے چال چلن کی عصمت اور ان کے اطوار کی پاکیزگی میں جو اہل مکہ میں کمیاب تھیں متفق ہیں۔ اور ولیم میور جیسے مخالف کو بھی یہ لکھنے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ حضرت محمد کے وقت کے مخالفین بھی متفقہ طور پر آپ پر کوئی الزام نہیں لگاسکے تھے۔ تو کردار کشی کی دوسری ڈگر اختیار کی کہ اِن کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں چلتے، ان کے پاس باغات نہیں ہے، یہ ہمارے اوپر عذاب کیوں نہیں لے آتے، آسمان سے کوئی ٹکڑا کیوں نہیں گرادیتے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن تمام بیہودہ مطالبوں کا ایک ہی جواب دلوایا کہ ”میں تو صرف ڈرانے والا اور پہنچانے والا بناکر بھیجا گیا ہوں میں کوئی تمہارے اوپر داروغہ بناکر نہیں بھیجا گیا ہوں اور نہ عذاب لانا، مُردوں سے بات کرانا، مُردوں کو زندہ کرکے دکھانا میری ذمہ داری ہے۔ میں تو صرف کہتا ہوں کہ پہاڑی کے خطبہ (صفا پہاڑ سے پہلا دعوتی خطبہ) میں آپ نے فرمایا ”تم میری بابت کیا رائے رکھتے ہو؟ مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا سمجھتے ہو؟، سب نے ایک زبان ہوکر جواب دیا ”ہم نے تمہارے منھ سے کبھی کوئی جھوٹی یا بیہودہ بات نہیں سنی ہم جانتے ہیں کہ تم سچے اور امین ہو“ یہ تو تھی مخالفین کی غیر جانب دار گواہی جس میں تعصّب کو دخل نہیں تھا۔ وہ حضور صلى الله عليه وسلم کی چالیس سالہ زندگی کے برتاؤ اور کردار کے نتیجہ میں آپ کو جیساکچھ جانتے تھے وہ انھوں نے بتادیا۔ مگر جیسے ہی آپ نے اگلے جملہ میں دعوت دین پیش کرتے ہوئے کہا ”میں یہ کہتاہوں کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، موت برحق ہے اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اگر ان باتوں پر ایمان لاؤگے تو فلاح پاؤگے اور دنیا وآخرت میں سرخرو ہوگے ورنہ تم پر بہت بڑا عذاب نازل ہوگا۔“ یہ دعوت سننے کے بعد ایک لمحہ پہلے صادق امین بتانے والے کہنے لگے ”کیا ہمیں اسی لیے بلایا تھا؟ بیکارہمارا وقت برباد کیا“۔

دوسری طرف ایک اور زاویہ سے حضور صلى الله عليه وسلم کے کردار کو جانچیں کہ انسان کے بارے میں سب سے زیادہ اس کے قریب ترین لوگ جانتے ہیں خاص طور سے وہ لوگ جو مشکل اور آزمائش کے حالات میں اس کے ساتھ رہے ہوں۔ کیونکہ نارمل حالات میں تو آدمی اپنی اصلیت پر پردہ ڈال سکتا ہے نیک اور پارسا، خوش مزاج اور ملنسار بنا رہ سکتا ہے مگر کشمکش، آزمائش اور پریشانی اس کے اوپر اوراندر کا سارا ملمع اور میک اپ و مکاری اتار دیتی ہے۔ ایسے میںآ دمی وہی نظر آتا ہے جو اندر ہوتا ہے۔ ایسے میں نزولِ اوّل وحی کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم کا گھر آکر اپنی اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضى الله تعالى عنها سے نہایت حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں ملاقاتِ جبرئیل کا واقعہ سناکر مجھے ڈھانک دو مجھے ڈھانک دو فرمانا اور اس کے جواب میں حضور صلى الله عليه وسلم کی سب سے قریب ترین رازدار کی تاریخی گواہی دینا ”آپ تردّد نہ فرمائیں: (۱) آپ مہمان نواز ہیں (۲) اقرباء کی مدد کرتے ہیں (۳) بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کی دست گیری کرتے ہیں (۴) سچ بولتے ہیں خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا“ اس چیلنج کی سب سے بڑی دلیل ہے ”آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گذار چکاہوں“؟

کردارِ نبوی کے اس چیلنج کا ایک دوسرا رخ قرآن میں اس طرح پیش کیاگیا ہے ”اے نبی ان سے کہو میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو تمہارے صاحب میں کون سی بات ہے جو جنون کی ہو وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے۔ ان سے کہو اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک ہو۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے ۔ النساء آیت ۴۷۔

انبیاء کرام کی یہ سنت اورمستقل کردار رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنی دعوت کے بدلہ میں کوئی اجر انسانوں سے طلب نہیں کیا۔ ”ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتے ہمارا اجر تو اللہ کے پاس ہے“ یہ ہر نبی کے کلام کا مقطع ہوتا تھا۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنے ذاتی اور اقربا کے مفاد کے لیے کوئی کوشش اور منصوبہ بندی نہیں کی۔ اپنی زندگی میں بھی اپنے شان و شوکت، خدم وحشم، ہٹو بچو، مصنوعی تکلّفات اور آداب کی زندگی نہیں گذاری۔ زندگی گذارنے کا جو معیار حالت تنگدستی اور مغلوبیت میں تھا وہی معیار دس لاکھ مربع میل کے بلا شرکت غیرے حاکم بننے کے بعد بھی تھا۔ اپنے لیے خصوصی مراعات کا کیا ذکر زکوٰة جیسی امدادی مد سے اپنی آل کا حصہ ہی منع فرمادیا۔ اپنے پیچھے کوئی جائداد اور ترکہ نہیں چھوڑا۔ جو تھا بھی وہ بھی وفات سے ایک روز قبل تقسیم کردیا۔ حضور صلى الله عليه وسلم کے کردار کے اس پہلو کی آج تقلید کی جائے تو دنیا سے بے انصافی، رشوت خوری، جرائم، بے روزگاری بالکل ختم ہوجائے۔ جب حکمراں چٹائی پر سوئے اس کے آگے پیچھے بلیک کیٹ کمانڈو Black cat Commando نہ ہوں، محلوں کے باہر کئی پرتوں والا حفاظتی انتظام نہ ہو، ہر فرد حاکم سے براہ راست مل سکتا ہو اور فوری انصاف حاصل کرسکتا ہو تو بدامنی کیوں ہوگی؟ رشوت خوری کیسے ہوگی؟ ملاوٹ کیسے ہوگی؟ سیرتِ نبوی کے اس پہلو پر چند گواہیاں اس طرح ہیں:

۱- ٹامس کارلائل Thamas Carlyle نے لکھا ہے کہ ”آپ کا گھر بار معمولی اور کمتر لوگوں کے طرز کا تھا اور آپ کی عام غذاء جوکی روٹی اور پانی، اکثر آپ کے چولھے میں مہینوں آگ نہیں روشن ہوتی تھی۔ کسی طرّہ دار شہنشاہ کی اتنی اطاعت نہیں ہوئی جتنی کہ اِس شخص کی اُس کے اپنے ہاتھ کی سی ہوئی عبا میں ہوئی تھی۔

۲- ایڈورڈ گبن Edward Gibbon اپنی دنیوی طاقت کے عروج پر بھی محمد کی شرافت نفس نے شاہانہ تزک واحتشام روانہ رکھا۔ دنیا چھوڑے ہوئے مجاہدوں سے نفرت کرتے ہوئے آپ بلا بناوٹ اور بلا تکلف ایک عرب اورایک سپاہی کی طرح سادہ غذا استعمال فرماتے تھے۔

۳- پروفیسر سیڈیو ”آپ خندہ رُو، ملنسار اکثر خاموش رہنے والے بکثرت ذکر خدا کرنے والے لغو اور بیہودہ باتوں سے نفرت کرنے والے بہترین رائے رکھنے والے تھے۔ آپ نہایت منصف مزاج تھے غریبوں میں رہ کر خوش ہوتے تھے، تنگدستوں کو ان کی تنگدستی کی وجہ سے نہ تو حقیر جانتے تھے اور نہ بادشاہوں کو ان کی بادشاہی کی بنا پر برتر سمجھتے تھے“۔

۴- واشنگٹن ارون Washington Irvin ”اپنے انتہائی قوت واقتدار کے دور میں بھی آپ نے وضع قطع اور اخلاق وعادات میں وہی سادگی قائم رکھی جو پریشانی اور بے وقعتی کے زمانہ میں آپ کا وصف رہی تھی۔ شاہانہ کروفر تو بڑی بات ہے۔ اگر کسی مجلس میں آپ کے ساتھ کچھ خصوصیت کابرتاؤ کیاجاتا تو وہ بھی آپ کو بہت ناگوار ہوتا تھا“۔

ہمارے پیارے رسول صلى الله عليه وسلم کی پوری سیرت کو پڑھ جائیے آپ کو کہیں یہ بات نظر نہ آئے گی کہ آپ نے اپنے لیے کسی چیز کا ذخیرہ کیاہو۔ آپ نے اپنے لیے کیا چاہا؟ آپ نے ساری دوڑ دھوپ انسانیت کی فلاح کے لیے۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت، تزکیہ کے لیے کی۔ آپ بڑے پیار ومحبت سے کہتے کہ میری حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کسی باپ کی اپنے بچہ کے سامنے ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے کیا لیا؟ آپ دنیا سے چلے گئے اس حال میں کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ کون ایساہوگا جو غیروں کی بھلائی کے لیے سانپ کاٹے ہوئے بچہ کی طرح بلکے اور دوسروں کی بھلائی کے لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے۔ یہاں تک کہ اللہ رب العالمین خود دلاسہ دیں کہ ”کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے اگر لوگ ایمان نہ لائے تو“۔ آج دنیا میں ہر طرف ایسے محسن انسانیت بادشاہی میں فقیری کرنے والے، رحیق مختوم، رحمت عالم کے نام اور کام کو داغدار کرنے کی کوششیں اور سازشیں کرنے والے کیا اس کے ۱۰۰ ویں یا ۱۰۰۰ ویں حصہ کی بھی شخصیت کو پیش کرسکتے ہیں۔ درود و سلام ہو پیارے رسول پر! رحمتیں وبرکتیں نازل ہوں آپ کی روحِ مبارک پر۔ آمین

------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء