کانگریس پارٹی کیلئے لمحہٴ فکریہ

حبیب الرحمن اعظمی

 

ایک طویل مشترکہ جدوجہد کے بعد وطن عزیز سامراج کے پنجہٴ استبداد سے آزاد ہوا تو اس وقت کے قائدین کی (جن کی اولی العزمیوں اور بے پناہ قربانیوں کے نتیجہ میں ہندوستانی قوم غلامی کی ذلت سے نجات پاکر آزادی کے شرف و مجد سے ہم کنار ہوئی تھی) ذات و مذہب کے لحاظ سے یہاں کی مختلف النوع آبادی، اور رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے پیش نظر متفقہ رائے ہوئی کہ کسی خاص مذہب و قوم کی حکومت کی بجائے یہاں سیکولر بنیادوں پر جمہوری نظامِ حکومت ہی کامیاب، بارآور، اور ملک وقوم کے استحکام و ترقی اور فلاح و بہبود کا ضامن ہوسکتا ہے، بلاشبہ ملک کے یہ معمار اپنی اس رائے میں نہایت مخلص تھے اور ان کا یہ فیصلہ ملک کی مشترکہ آبادی کے لحاظ سے صد فی صد درست تھا، جسے آج دنیا تسلیم کررہی ہے اور ان کی سیرچشمی و بالغ نظری کو سلام کررہی ہے، ان کے اسی فیصلہ کی بدولت آج ہمارے ملک کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اور یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ بعض تنگ دل، کج فکر اور مفاد پرست سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کے باوجود ملک میں جمہوریت کی جڑیں مستحکم ہیں اور ملک کی اکثریت بلکہ اکثریت سے بھی اکثر ذات و قوم اور تہذیب و مذہب کی سیاست کے مقابلہ میں سیکولر جمہوری نظام کو ہی پسند کرتے اور ترجیح دیتے ہیں، اور بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ملک کے سیکولر سیاسی رہنما وقتی جذبات، ذاتی مفاد اور غرض آمیز مصلحتوں سے بلند ہوکر بغیر کسی فرق و امتیاز کے پوری ہندوستانی قوم کو جمہوریت کے فوائد و ثمرات سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرتے تو آج ہندوستان میں کوئی ان کا حریف اور مدمقابل نہیں ہوتا اور ملک میں صرف اور صرف جمہوریت ہی کا بول بالا ہوتا۔

خود کانگریس پارٹی کی عبرت انگیز تاریخ سامنے ہے، جو ملک کی سب سے قدیم اور سب سے پرانی سیکولر سیاسی پارٹی ہے، جسے یہ تاریخی عزت وعظمت حاصل ہے کہ اسی کی قیادت میں اور اسی کے جھنڈے تلے آزادی کی جنگ لڑی گئی اورکامیابی سے ہم آغوش ہوئی، اسی کانگریس پارٹی نے جب سیکولر اور جمہوریت کا دم بھرنے کے باوجود اپنے سیکولر کردار کو خود اپنے ہاتھوں مجروح کردیااور نہ جانے کن ذہنی تحفظات کے تحت اس کے اہل کار ملک کی ایک بڑی آبادی کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم کردینے کے درپے ہوگئے تو ہندوستانی قوم نے اسے برداشت نہیں کیااور اس کی تمام تر ملکی و قومی خدمات کے باوجود اسے ایوان اقتدار سے بے دخل کردیا، کانگریس پارٹی کی اسی ترقیٴ معکوس کے نتیجے میں فرقہ پرست طاقتوں کو فروغ حاصل ہوا، ذات و برادری کی بنیاد پر علاقائی سیاسی پارٹیوں کا وجود عمل میں آیا، اور ملک کی سیاست میں نامناسب وغیرپسندیدہ عناصر کا عمل دخل بہت بڑھ گیا، جس کی وجہ سے ملک میں نہ صرف امن وسلامتی، انصاف وقانون، استحکام و ترقی کی حالت ابتر ہوگئی، بلکہ خود سیاست کا اخلاقی معیار نہایت پست ہوگیا جو ایک عظیم قومی خسارہ ہے۔

اب ادھر حالیہ سالوں میں کانگریس پارٹی کی سربراہی میں قائم حکومت نے مسزسونیا گاندھی اور جناب منموہن سنگھ کی کوششوں سے اصلاح حال کی طرف توجہ دی ہے اور حالات میں اگرچہ برائے نام ہی سہی سدھار بھی پیدا ہوا، تو ملک کے عوام، بالخصوص مسلم اقلیت جس نے کانگریس پارٹی سے مایوس ہوکر دیگر علاقائی پارٹیوں سے رابطہ قائم کرلیا تھا، حالیہ انتخاب میں اس کا رجحان پھر کانگریس کی طرف ہوگیا جس کا اثر یہ ہوا کہ کانگریس پارٹی جو خود اپنی طرف سے ایک حد تک مایوس تھی اور اس کے لیڈران دیگر پارٹیوں سے حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھے، حیرت انگیز طور پر اپنے تمام حریفوں کو پیچھے چھوڑ کر کامیابی کی اس منزل پر پہنچ گئی جس کا اس الیکشن میں اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ مسلمان ملک میں اقلیت میں ہیں تنہا اپنے ووٹوں سے کسی امیدوار کو کامیاب نہیں کرسکتے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک جانی مانی سچائی ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلم اقلیت کا عددی تناسب اپنے اندر ایسا وزن رکھتا ہے، کہ یہ جس کی طرف جائیں گے اس کا پلڑا بھاری ہوجائے گا، مسلم ووٹوں کی اس حیثیت کا ادراک تمام سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈروں کو بھی ہے۔ جس کا اچھی طرح اندازہ الیکشن کے موقع پر ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنھیں منھ پھیر کر مسلمانوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا ہے، وہی انتخاب کے زمانے میں مسلمانوں کی خوشامد ومدارات کرتے نظر آتے ہیں۔

پھر کانگریس کو یہ کامیابی ایسے حالات میں حاصل ہوئی ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے طے کردہ ایجنڈا کے مطابق اپنی کامیابی کا یقین کئے ہوئے تھیں اور ایک کے بجائے اپنے دو دو متوقع وزیراعظم کے ناموں کا اعلان بھی کردیا تھا، بعض علاقائی پارٹیوں کی طرف سے بھی وزارت عظمیٰ کی دعویداری بڑی شدومد سے کی جارہی تھی، تیسرے محاذ کے نام سے قائم ایک کانگریس مخالف محاذ بھی اس دوڑ میں شامل ہوگیا تھا۔ کانگریس پارٹی کے بہت سے حلیف کانگریس کے حق میں حالات ناسازگار دیکھ کر اس سے ناطہ توڑ کر اپنا الگ سے ایک محاذ بنالیا تھا، بظاہر حالات ایسے تھے جس میں کانگریس پارٹی کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی، ایسی مایوس کن صورت حال میں ایک ہلکی سی امید پر مسلم اقلیت نے کانگریس کی طرف دستِ تعاون بڑھایا اور اپنے کرشماتی عددی تناسب سے کانگریس کے واسطے باعزت طور پر ایوان اقتدار تک پہنچنے کی راہیں ہموار کردیں۔

بلاشبہ مسلم اقلیت نے اس موقع پر اپنی دانشمندی اور وطن دوستی کے تقاضوں اور ذمہ داریوں کا پاس و لحاظ رکھا ہے، اور ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جلنے سے بچالیا ہے۔ اب کانگریس پارٹی کی جمہوریت اور سیکولر پسندی کا امتحان ہے اگر وہ اس پنج سالہ امتحان میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اسے یقین کرلینا چاہیے کہ کامیابی کی گیند اسی کے پالے میں گرے گی، بصورت دیگر جو حشر ہوگا اس کے ذکر کی ضرورت نہیں کیوں کہ بذات خود وہ اس کا تجربہ کرچکی ہے، بلکہ اس تجربہ سے وہ ابھی پوری طرح باہر نہیں نکل سکی ہے۔

ملک کا ایک تسلیم شدہ آئین و دستور ہے۔ جس میں حکومت اور عوام کے اختیارات وحقوق مصرح ہیں اس دستور میں ملک کی اقلیتوں کو اکثریت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاگیا ہے، بلکہ انھیں تمام شعبہٴ زندگی میں مساوی حق دیا گیا ہے۔ قانون وانصاف کے مطابق کسی فرق و امتیاز کے بغیر یہ حقوق ان کے حقداروں تک پہنچنے چاہئیں، حکومتیں اور ان کے اہل کار عوام تک حقوق رسانی میں جب ذات ومذہب کی بنیاد پر فرق وامتیاز کرنے لگتے ہیں تو پھر سیکولر و جمہوری قدریں مجروح ہوتی ہیں اور باہمی کشمکش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، مسلم اقلیت کو شکایت یہی ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، سچرکمیٹی نے ان کی اس شکایت کو حرف بحرف سچا ثابت کردیا ہے، حکومت نے جس ہمت و جذبہ کے ساتھ خود اس کمیٹی کی تشکیل کی تھی، اسی حوصلہ اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی سفارشات پر عمل درآمد کرنا چاہیے، یہ حکومت کے ذمہ مسلم اقلیت کا حق ہے، خود محترمہ سونیا گاندھی نے رام پور میں اپنی تقریر میں کہا تھا اگر ہمیں موقع دیاگیا تو سچرکمیٹی کی سفارشات کو پورے طورپر نافذ کیا جائے گا۔ اب یہ موقع انھیں حاصل ہوگیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ وہ اپنے اس وعدہ کو پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں، ویسے ان کے طرز فکر سے یہی توقع ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو یاد رکھیں گی اور اس کے پورا کرنے میں دانستہ کوتاہی نہیں کریں گی، اور خود وزیراعظم نے بھی ایک موقع پر کہا تھا مسلم اقلیت زندگی کی راہ میں جس طرح پیچھے رہ گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ دوسروں کے مقابلہ میں اسے دوگنے مواقع فراہم کئے جائیں۔ اب یہ مواقع خود ان کے ہاتھوں میں ہیں اور پہلے کی طرح ان کا ہاتھ بندھا بھی نہیں ہے، اس لئے انھیں اپنے اس صحیح احساس کو بروئے کار لانے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے، وہ بھی ایک صاف ستھرے امیج کے مالک ہیں اور کہنے کے ساتھ کرنے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں جس کا اظہار انھوں نے اپنے حریف کے مقابلہ میں بارہا کیا ہے اس لئے ہمیں بجا طور پر ان کی اس بلندحوصلگی کے ثمرات کا انتظار ہے۔

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

* * *

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء