حرفِ آغاز

دارالعلوم دیوبند فرقہ پرستوں کے نشانہ پر

حبیب الرحمن اعظمی

 

دارالعلوم دیوبند ایک تعلیمی دینی ادارہ ہے جو لگ بھگ ڈیڑھ صدی سے انتہائی اخلاص اور جانسوزی سے اسلامی علوم وثقافت کی تعلیم و ترویج میں مصروف عمل ہے،جس کے نفع بخش ثمرات کے نتیجہ میں رجالِ کار کی ایسی عظیم باکمال جماعت منصہ شہود میں نمایاں ہوئی جس کی ہمہ جہت عالمگیر خدمات نے چہار دانگ عالم میں دارالعلوم کے نام وکام کو روشن کردیا اور آج دارالعلوم عالم اسلام ہی کا نہیں بلکہ ساری متمدن ومہذب دنیا کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے،ایشیا، افریقہ، یورپ،امریکہ غرضیکہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ملے گا جہاں دارالعلوم کے شناسا اور عقیدت کیش نہ ہوں۔

دارالعلوم دیوبند کی تاریخ خدمات کا ایک سنہری باب یہ بھی ہے کہ اس نے ”الدین الخالص“ کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت کا فریضہ بڑی چابک دستی اور پامردی کے ساتھ ادا کیا ہے۔ اسلامی آثار و روایات کے خلاف جب بھی کسی فتنہ نے سراٹھایا تو دارالعلوم کے ساختہ و پرداختہ علماء نے علم وحکمت کے ہاتھوں اس کو کچل دیا،اور دین اسلام کو خارجی اثرات کی دخل اندازیوں سے محفوظ رکھا۔

علاوہ ازیں علم ودین سے وابستہ دارالعلوم دیوبند کے اکابر و ابناء نے وطن عزیز کو سامراج کے پنجہٴ استبداد سے نجات دلانے اور ملک کی پیشانی سے داغِ غلامی کو مٹانے کے لئے ایثار و قربانی کی ایک ایسی عظیم تاریخ رقم کی ہے جس کے تذکرہ کے بغیر جنگِ حریت کی داستان مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جذبہٴ حریت سے سرشار علماء وفضلاء کی یہی وہ حوصلہ مند جماعت ہے جس نے سب سے پہلے مکمل انقلاب اور آزادیٴ کامل کا نعرہ بلند کیا،اور تاریخ گواہ ہے کہ ان کے اس جذبہ کی تپش کو مالٹا کی برفیلی فضائیں اور کالے پانی کی مرطوب ہوائیں بھی سرد نہیں کرسکیں۔ قید وبند، جبر و تشدد، ظلم و جارحیت اور خانماں بربادی وغیرہ سے بے نیاز ہوکر اپنے متعین ہدف کے لئے سرگرم عمل رہے اوراس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک کہ ملک آزاد نہیں ہوگیا۔

علمائے دیوبند کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں بھانت بھانت کی زبانیں بولی جاتی ہیں، جس کی کھلی اور وسیع فضاؤں میں ان گنت تہذیبیں سانس لے رہی ہیں، جس میں مختلف مذاہب سے متعلق لوگ دوش بدوش زندگی کے مراحل طے کررہے ہیں، وہاں وہی نظام حکومت ملک اور اہل ملک کے لئے مفیداور بارآور ہوسکتا ہے جو جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیادوں پر قائم ہو، کہ حکومت بحیثیت حکومت کے کسی مذہب سے نفیاً و اثباتا دلچسپی نہیں لے گی بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے امن عامہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود اپنے مذہب کے تحفظ وفروغ کے ذمہ دار ہوں گے، اس لئے انھوں نے ہر قسم کی مخالف آواز کو نظر انداز کرکے آزاد ہندوستان میں دستوری اعتبار سے رائج سیکولر اور جمہوری نظام حکومت ہی کو ترجیح دیا اور مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر ہرقسم کی فرقہ پرستی کو مسترد کرکے ملک میں سیکولر اقدار کو استوار اور مستحکم کرنے میں پوری مستعدی سے کوشاں ہیں، اپنی اسی فکری ترجیح کی بناء پر مجموعی طورپر ہمیشہ سے ان کی وابستگی ملک کی انھیں سیاسی پارٹیوں سے رہی ہے جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں اور اسی حیثیت سے وہ ملک میں معروف اور جانی پہچانی جاتی ہیں۔

فرقہ پرستی اور اس کے نتیجہ میں دوسروں پر ظلم و زیادتی، جارحیت و دہشت گردی وغیرہ سے نفرت و بیزاری ان کا عام شیوہ ہے، اسی لئے بغیرکسی تفریق کے فرقہ پرست افراد، جماعت، تنظیموں اور پارٹیوں سے ان کا کبھی کوئی تعلق اور رشتہ نہیں رہا ہے، ان کے فکر وعمل کا یہ اعتدال عالم آشکارا ہے، جس کا اظہار وہ حسب موقع وقتاً فوقتاً اپنی تقریروں وتحریروں کے ذریعہ کرتے بھی رہتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند اور اس سے واستہ مدارس و علماء کا یہی علمی، دینی، سیاسی کردار دین بیزار اور فرقہ پرست عناصر کے لئے سوہان روح بناہوا ہے، وہ اپنی بددینی اور فرقہ پرستی کے پھیلانے میں سب سے بڑی رکاوٹ دارالعلوم دیوبند کو باور کرتے ہیں،اس لئے دارالعلوم کا نام سنتے ہی ان پر جنون طاری ہوجاتا ہے اور اس عالم جنون میں ایسی باتیں کہہ جاتے اور ایسے کام کرگزرتے ہیں جن کا ہوش و خرد اور انسانی قدروں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند چونکہ روادار اور سیکولر طاقتوں کا حلیف اور شریک کار ہے، جس طرح یہ سیکولر طاقتیں دارالعلوم دیوبند اوراس کے علما و فضلاء سے خیر و تعاون کی امید رکھتی ہیں اسی طرح دارالعلوم کے ارباب حل وعقد بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وقت پڑنے پر یہ حلیف طاقتیں اپنا دستِ تعاون بڑھائیں گی، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اور جنونی عناصر دارالعلوم کی عزت و ناموس پر پیہم حملہ کرتے رہتے ہیں اورہمارے یہ حلیف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں بلکہ بسا اوقات ہماری سیکولر حکومتیں نہ جانے کن ذہنی تحفظات کی بناء پر ان جنونیوں کو ایسے مواقع فراہم کردیتی ہیں کہ وہ دارالعلوم کی عظمتوں سے اپنا سرٹکرائیں، سیکولر طاقتوں کے اس رویہ سے دارالعلوم دیوبند سے زیادہ خود سیکولر اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے جسے سیکولر حامیوں کو محسوس کرنا چاہئے۔

گو ترے ستم نے ہر اک طرح ہمیں نا امید بنادیا

یہ مری وفا کا کمال ہے کہ نباہ کرکے دکھا دیا

***

______________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء