﴿درس ختمِ بخاری شریف﴾

(4)

افادات: مفتی عمر فاروق لوہاروی ، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن- یوکے

ترتیب: الیاس لوہاروی (جامعہ اسلامیہ، ڈابھیل)

 

دوکلمات کی تین صفات میں سے پہلی صفت

احمد بن اشکاب، محمد بن فُضَیل سے، وہ عُمَارَة بن القَعْقَاع سے، وہ ابوزُرعہ بَجَلی سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وعنہم سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں، کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلٰی الرحمٰن. ”دوکلمے، دوبول رحمن کو نہایت محبوب ہیں۔“

آپ نے پڑھا ہے، کہ کبھی کلام پر کلمہ کالفظ بول دیاجاتا ہے، جیسے کلمہٴ شہادت کلام ہے، لیکن اس کو کلمہ سے تعبیر کیا جاتا ہے،اسی طرح یہاں بھی ”سُبحانَ اللّٰہِ وبحمدہ“ ایک کلام ہے، اور ”سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعظِیم“  دوسرا کلام ہے، لیکن ان دونوں کلام کو ”کَلِمَتَانِ“ یعنی دو کلمے کہا گیا ہے۔

اس حدیثِ پاک میں ان کلمات کی تین صفات بیان فرمائی گئی ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے، کہ یہ دو کلمے رحمن کو نہایت محبوب ہیں۔ یہ دونوں کلمے رحمن کو کیوں بہت محبوب اور پیارے ہیں؟ غور کریں! ہر آدمی چاہتا ہے، کہ میری طرف کوئی برائی منسوب نہ کی جائے اور میری طرف خوبی کی نسبت کی جائے۔ جب انسان کو اپنے سے برائی کی نفی اور اپنے لیے خوبی کااثبات محبوب ہے، تو حضرت رحمن کو کیوں نہیں محبوب ہوگا؟ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی. (الروم:۲۷) اللہ تعالیٰ تو اس کے زیادہ حقدار ہیں، اسی لیے ان دونوں کلمات کو پسند فرماتے ہیں۔

بعض علماء فرماتے ہیں، کہ ان دوکلمات کے رحمن کو محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ ان کلمات کا پڑھنے والا اللہ کو محبوب ہے۔ اس قول کے اعتبار سے اس میں مَجاز ہے۔

دوسرے علماء فرماتے ہیں، کہ یہاں مجازی معنی مراد لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،اور حدیثِ پاک کا مطلب یہ ہے، کہ خود یہ دوکلمات اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ اس کی تائید ”صحیح مسلم“ وغیرہ کی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ان احبَّ الکلام الٰی اللّٰہ ان یقولَ العبدُ: سبحانَ اللّٰہ وبحمدہ. ”اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب کلام بندے کا سبحان اللہ وبحمدہ کہنا ہے۔“ اس حدیثِ پاک میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا تعلق ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ“ کلمہ سے بیان کیاگیا ہے۔ اور بھی روایات اس کی موٴید ہیں۔ ظاہر ہے، کہ جب حدیث الباب میں منقول دو کلمے رحمن کو بہت محبوب ہیں، تو ان کلمات کا پڑھنے والا بھی رحمن کو محبوب ہوگا۔ یہ یاد رکھیے، کہ رحمن کا ان دو کلمات سے یا ان کے پڑھنے والے سے یا دونوں سے محبت کرنا اس کے شایان شان ہے، لہٰذا کسی تاویل کی ضرورت رہتی ہی نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے یہاں بطور خاص ”رحمٰن“ کوذکر فرمایا، اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی، کہ حدیثِ پاک میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کرنے کی جزاء کا بیان ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ عملِ قلیل پر اجرِجزیل اور ثوابِ کثیر سے نوازتے ہیں، اس اعتبار سے یہ حدیث رحمن کی اپنے بندوں پر رحمت کی وسعت کے بیان پر مشتمل ہے، اور اسماءِ حسنیٰ میں سے اس کے مناسب نامِ نامی ”رحمٰن“ ہے۔

دوسری صفت

جب ان دو کلمات کا نہایت محبوب ہونا اور پیارا ہونا بیان فرمایا، تو کسی کو خیال ہوسکتا تھا، کہ جب ان کا یہ مرتبہ ہے، تو یہ کلمے ادائیگی کے اعتبار سے بہت بھاری ہوں گے، مشقت وکلفت والے ہوں گے، تو آگے دوسری صفت سے اس خیال کی نفی ہوگئی، فرمایا: خَفِیْفَتَانِ علٰی اللِّسَان. ”زبان پر نہایت ہلکے پھلکے ہیں۔“ زبان پر ہلکا ہونے سے مراد یہ ہے، کہ ان کا پڑھنا نہایت آسان ہے، ان کی ادائیگی میں کوئی دِقّت و دشواری نہیں ہے، اور زبان سے سہولت اور سلاست سے جاری ہوجاتے ہیں۔

ان کلمات کے ہلکاہونے کو معلوم کرنے کے لیے عربی کا عبرانی وغیرہ زبانوں کے ساتھ تقابل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کہ یہ کلمات عربی میں ہیں، اورعبرانی وغیرہ زبانوں کے مقابلے میں عربی زبان خفیف ہے، یعنی اس کے کلمات کی ادائیگی نسبتاً آسان ہے؛ بلکہ خود عربی زبان ہی کے اعتبار سے دیکھیں، تب بھی ان کلمات کا ”خفیفتانِ علٰی اللسان“ یعنی زبان پر ہلکا پھلکا ہونا واضح ہے، اس لیے کہ اولاً: یہ مختصر اور چھوٹے چھوٹے جملے ہیں، ان کے حروف کم ہیں۔اور ثانیاً: عربی میں جو حروفِ شِدَّة معروف ہیں، جن کا مجموعہ ”اجد قط بکت“ ہے، ان میں سے صرف حرف ”باء“ ان کلمات میں ہے۔ حروفِ ”استعلاء“ جن کا مجموعہ ”خص ضغط قظ“ ہے، ان میں سے صرف ”ظاء“ ان میں ہے۔ عربی میں ”ثاء“ اور ”شین“ ثقیل حروف سمجھے جاتے ہیں، دونوں میں سے کوئی ان کلمات میں نہیں ہے۔ پھر اسماء کے مقابلے میں اَفعال کو ثقیل سمجھاجاتاہے، اور ان کلمات میں کوئی فعل نہیں ہے۔ اَسماء میں بھی غیرمنصرف کو ثقیل سمجھاجاتا ہے، وہ ان کلمات میں نہیں ہے۔ پھر الف، واو اور یاء تینوں حروفِ لین ان میں موجود ہیں، جو ادائیگی کے اعتبار سے نہایت سہل و آسان ہیں۔ الغرض ان کلمات میں شدید اور ثقیل حروف کے مقابلے میں سہل اور ہلکے حروف زیادہ ہیں، اس لیے عجمی سے عجمی شخص بھی انھیں آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔

تیسری صفت

جب یہ دو کلمے زبان پر ہلکے پھلکے ہیں، تو کسی کو خیال ہوسکتا تھا، کہ وزن بھی اسی حساب سے بہت کم ہوگا،اور میزانِ عمل میں بھی ہلکے ہوں گے، تو آگے تیسری صفت سے اس کی نفی ہوگئی، فرمایا: ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ. ”میزان میں بڑے وزن دار ہیں، بہت بھاری ہیں۔“ پاپڑ باریک باریک بنتے ہیں، زبان پر تو وہ ہلکے ہوتے ہیں، مگر ہضم کے اعتبار سے معدے میں بھاری ہوجاتے ہیں، یہ مادّی غذاؤں میں اس کا مصداق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اعمالِ شریعت میں یہ دو کلمے زبان پر تو ہلکے، لیکن ان کی وجہ سے میزانِ عمل بھاری ہوجائے گی، خود ان کلمات کا وزن میزان میں بہت زیادہ ہوگا، اور ظاہر ہے، کہ اس کی وجہ سے ان کلمات کے پڑھنے والے کے اجر وثواب کی بھی کثرت ہوجائے گی۔

مذکورہ کلمات کی یہ فضیلت کیوں؟

ان کلمات کی اتنی فضیلت کیوں ہے اور ان میں کیا خاص انوار ہیں؟ اس کا پتہ تو جنت میں جاکر چلے گا، ان شاء اللہ۔ علامہ انورشاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے، کہ یوں تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جنت میں عظیم نعمتوں سے سرفراز فرمائیں گے، لیکن میری نظر میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بعد سب سے لذیذ بات یہ ہوگی، کہ اللہ تعالیٰ وہاں ہم پر حقائق اشیاء منکشف فرمائیں گے۔ جن امور کا ہمیں یہاں پتہ نہیں چلتا، ان کی حقیقت ہمیں وہاں معلوم ہوجائے گی۔ حدیثِ پاک میں وارد ان دو کلموں کی اصل حقیقت سے آگاہی بھی جنت میں حاصل ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔ تاہم حضرات علماءِ کرام نے منجانب اللہ عطا شدہ فہم سے اس سلسلے میں جو کلام کیاہے، یہاں اس سے ماخوذ چند اقوال کا ذکر کیاجاتا ہے:

(۱) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں، کہ ان کلمات کے میزان میں ثقیل اور وزن دار ہونے کی بنیاد یہ ہے، کہ ان میں مقاماتِ الوہیت کا بیان ہے۔ ”سبحان اللّٰہ“ میں مقامِ تنزیہ، ”وبحمدہ“ میں مقامِ تنویہ و تعریف اور ”العظیم“ میں مقامِ عظمت کا بیان ہے۔

(۲) شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم فرماتے ہیں، کہ ”سبحان اللّٰہ“ کے معنی ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے۔ اور ”بحمدہ“ کا مطلب ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے اندر تمام کمالات جمع ہیں اور وہ تمام تعریفات کے لائق ہیں۔ جو ذات تمام عیبوں سے پاک ہو اور اس میں سارے کمالات جمع ہوں، تو وہ ذات یقینا سب سے زیادہ محبت کے لائق ہوتی ہے۔ اور ”سبحان اللّٰہ العظیم“ کے اندراللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا ذکر ہے۔ اور جب کسی ذات کی عظمت اور جلال کاذکر کیاجائے، تو اس کا خوف دل میںآ تا ہے۔ ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ“ سے اللہ تعالیٰ کی ”محبت“ پیدا ہوئی، اور ”سبحان اللّٰہ العظیم“ سے اللہ تعالیٰ کا ”رعب“ پیداہوا۔ جب محبت اور رعب یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوجاتی ہیں، تو اس کا نام ”خشیت“ ہے۔ خشیت عام ڈر اور خوف کا نام نہیں؛ بلکہ اس ڈر کا نام ہے، جو کسی محبت کی وجہ سے پیدا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ سے خشیت سارے اعمال واخلاق کی اساس اور سارے علوم کا حاصل ہے۔

(۳) محدث العصر حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری مدظلہم فرماتے ہیں، کہ ان کلمات کے میزان میں بڑے وزن دار ہونے کی علّت ان دونوں کلموں کا رحمن کو محبوب ہونا ہے۔ رحمن کو محبوب ہونے کی وجہ سے ان کا وزن بڑھ گیا۔ اوریہ دونوں کلمے رحمن کو محبوب کیوں ہیں؟ اس کی وجہ ماقبل میں بیان ہوچکی۔

موضعِ ترجمہ

”ثَقِیْلَتَان فِی الْمِیْزَان“ موضعِ ترجمہ: محلِّ ترجمہ ہے۔ اسی سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے، کہ بنوآدم کے اعمال واقوال تولے جائیں گے، کیوں کہ اس میں ان دو کلمات کے میزان میں ثقیل ہونے کی تصریح ہے، اور کسی چیز کا بھاری یا ہلکا ہونا تولنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا، کہ وہ تولے جائیں گے۔ اور کلام عمل لسان ہے۔ جب انسان کے بعض اعضاء کے عمل کا تولنا ثابت ہوگیا، تو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اسی سے سارے اعضاء کے عمل کو تولنے کو ثابت کردیا۔

حدیثِ مذکور میں سَجْع

حدیثِ پاک میں آپ نے دیکھا، کہ مُسَجَّع ومُقَفّٰی کلام کیاگیا ہے، ان جملوں کے آخری الفاظ بلارعایت وزن ہم قافیہ ہیں: کلمتان حبیبتان الٰی الرحمٰن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان. لیکن یہ سَجْعِ مذموم کے قبیل سے نہیں ہے۔ یہ پُرلطف وشیریں مسجّع کلام رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زبان فیض ترجمان سے بلاتکلف صادر ہوا ہے۔ سَجْعِ مذموم وہ ہے، جس میں تکلف کا دخل ہو، یا جو کسی باطل بات کو متضمن ہو۔

ترکیبی بحث

”کَلِمَتَان حَبِیْبَتَان ...“ اور ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ ....“ ترکیب میں کیا واقع ہے؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمة اللہ علیہ نے ”منحة الباری“ میں اختصار کے ساتھ اور علاّمہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ نے ”ارشاد الساری“ میں قدرے تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ مختصراً سنیے:

(۱) عامّة الشّراح رحمہم اللہ فرماتے ہیں، کہ ”کَلِمَتَان“ اپنی تینوں صفتوں: (۱) حَبِیْبَتَان الیٰ الرحمٰن (۲) خَفِیْفَتَان عَلیٰ اللِّسَان اور (۳) ثَقِیْلَتَان فِی الْمِیْزَان کے ساتھ مل کر خبر مقدم ہے، اور ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم“ مبتدأ موٴخر ہے۔ علم معانی میں پڑھ لیا ہے، کہ کبھی خبر کو مبتدأ پر اس لیے مقدم کیا جاتا ہے، کہ سامع کو مبتدأ کی تشویق ہو، اور اس کی وجہ سے وہ اَوْقَعْ فی النفس ہو۔ یہاں اسی غرض سے خبر کو مقدم اور مبتدأ کو موٴخر لایا گیا ہے۔

(۲) محقق کمال ابن الہمام رحمة اللہ علیہ نے اس کو راجح قرار دیا ہے، کہ ”کَلِمَتَانِ“ اپنی تینوں صفتوں سے مل کر مبتدأ ہے، اور ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم“ خبر ہے۔ اس لیے کہ ”سبحان اللّٰہ...“ لفظاً موٴخر ہے، اور اصل یہی ہے، کہ لفظ کو بلا کسی قوی داعیہ کے اپنے محل سے ہٹایا نہ جائے، اور مبتدأ کا محل پہلے اور خبر کا محل اس کے بعد ہے۔ نیز ”سبحان اللّٰہ...“ خود محل فائدہ ہے۔ بخلاف ”کلمتان“ کے، کہ وہ بذاتِ خود محل فائدہ نہیں ہے؛ بلکہ اپنی صفات کے واسطے سے محل فائدہ بن رہا ہے۔ اور جو بذاتِ خود محل فائدہ ہو، اسے خبر قرار دینی چاہیے۔ یہ امر بھی ”سبحان اللّٰہ...“ کے خبر ہونے کا متقاضی ہے۔

”سبحان اللّٰہ“ کے معنی

رحمن کو نہایت محبوب، زبان پر بہت ہلکے پھلکے اور میزانِ عمل میں بڑے وزن دار کلمات یہ ہیں: ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم“.

”سُبْحَانَ اللّٰہ“ کے معنی ہیں: ”میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔“ پاکی بیان کرنے کے معنی یہ ہیں، کہ میں اس بات کا اقرار واعلان کرتا ہوں، کہ اللہ تعالیٰ نقائص ومعائب سے منزہ ومبرّا ہے، اس کی ذاتِ عالی بے عیب ہے۔ اسی کو ”تنزیہ“ کہا جاتاہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر عیب سے منزہ قرار دینا۔ اللہ تعالیٰ شانہ توازازل تا ابد ایسی چیزوں سے پاک اور منزہ ہیں، جو اس ذاتِ والا شان کے لائق نہیں، چاہے کوئی اس کی پاکی اور بے عیب ہونا بیان کرے یا نہ کرے، لیکن بندہ ”سبحان اللّٰہ“ کہہ کر خود کو ان لوگوں میں شامل کررہا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بے عیب اور پاک ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ بندے کے تسبیح پڑھنے اور پاکی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ پاک نہیں ہوتے،العیاذُ باللہ؛ بلکہ بتصریح نصوص خود بندہ اپنے گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ ”کتاب الدعوات“ میں روایت گزری ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: من قال: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ فِیْ یَومٍ مائة مرةٍ، حُطّتْ (عنہ) خَطَایَاہُ، وَاِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ. ”جو دن میں ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ“ سوبار پڑھ لے، اس کے سارے خطایا معاف ہوجائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔“ یہاں ”جزاء مِنْ جنس العمل“ کا قانون کارفرما ہے، جیسا عمل ویسا ہی بدلہ۔ جب بندہ اپنے رب سے نقائص ومعائب کی نفی کرتا ہے، تو ربّ العالمین جو اکرم الاکرمین ہیں، اپنی طرف سے یہ بدلہ دیتے ہیں، کہ اپنے بندے سے نقائص و معائب کو دھودیتے ہیں،اس کے گناہوں کو معاف کردیتے ہیں،اس اعتبار سے اس میں خود بندہ کا اپنا نفع ہے۔

من نگردم پاک از تسبیح شاں

ہم ایشاں پاک شوند و درخشاں

قرآن مجید میں رسولِ اکرم صلى الله عليه وسلم، دیگر حضرات انبیاء علیہم السلام، حضرات ملائکہ، موٴمنین، حیوانات وجمادات اور جمیع موجودات سے متعلق کم وبیش (۳۰) صورتوں سے تسبیح کا ذکر آیا ہے، کہیں ”سُبْحان“ کا لفظ ہے، تو کہیں ”سَبِّحْ“ بفعلِ امر۔ کہیں ”سَبَّحَ“ بفعلِ ماضی ہے، تو کہیں ”یُسَبِّحُ“ بفعلِ مضارع۔ آخر کوئی تو بات تھی، کہ فتح مکہ جو عظیم ترین فتح تھی، جو درحقیقت سارے عرب کی فتح تھی، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں سے متعلق کوئی اہم پیغام رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو نہ دیتے ہوئے تسبیح و تحمید کے اہتمام کی تلقین فرمائی۔

وَبِحَمْدِہ

”وَبِحَمْدِہ“ میں اللہ تعالیٰ کے لیے خوبیوں اور کمالات کا اثبات ہے۔ اس میں اختلاف ہے، کہ یہاں”واؤ“ کونسا ہے اور ”باء“ کونسی ہے؟ چند اقوال سن لیجیے:

(۱) ”واؤ“ عاطفہ ہے اور ”باء“ سببیہ ہے۔ تقدیر عبارت ہے : اُسَبِّحُ اللّٰہَ تَعَالٰی تَسْبِیْحا وَاُثْنِیْ عَلَیْہِ بِسَبَبِ حَمْدِہ. ”میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور اس کی ثناء کرتا ہوں، اس لیے کہ اس نے اپنی حمد وتعریف کی ہے۔“

(۲) ”واؤ‘ عاطفہ ہے اور ”باء“ استعانت کے لیے ہے۔ تقدیر عبارت ہے: اُسَبِّحُ اللّٰہَ تَعَالٰی تَسْبِیْحا بِمَعُوْنَتِہِ الَّتِیْ ہِیَ نِعْمَةٌ تُوْجِبُ عَلَیَّ حَمْدَہ. ”میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں، لیکن اپنی قوت وطاقت سے نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے، جو ایک ایسی نعمت ہے، جو مجھ پر اس کی حمدوثناء کو واجب کرتی ہے۔“

(۳) ”واؤ“ عاطفہ ہے، ”باء“ ملابست کے لیے ہے اور ”حمد“ کی اضافت فاعل کی طرف ہے۔ تقدیر عبارت ہے: اُسَبِّحُ اللّٰہَ تَعَالٰی وَاَتَلَبَّسُ بِحَمْدِہ اَیْ بِتَوفِیْقِہ.”میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور میرا اس کی پاکی بیان کرنے میں لگنا اس کی توفیق سے ہے۔“

(۴) ”واؤ“ عاطفہ ہے، ”باء“ ملابست کے لیے ہے اور ”حمد“ کی اضافت مفعول کی طرف ہے۔ تقدیر عبارت ہے: اُسَبِّحُ اللّٰہَ تَعَالٰی وَاَتَلَبَّسُ بِحَمْدِہ. ”میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور اس کی تعریف کرنے میں لگا ہوں۔“

(۵) ”واؤ“ حالیہ ہے، اور ”باء“ ملابست کے لیے ہے۔ تقدیر عبارت ہے: اُسَبِّحُ اللّٰہَ تَعَالٰی تَسْبِیْحًا مُتَلَبِّسًا بحَمْدِہ. یعنی جس وقت میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں، ٹھیک اسی وقت میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بھی کررہا ہوں، جب اللہ تعالیٰ سے عیوب ونقائص کی نفی کی گئی، تو کوئی کہہ سکتا تھا، کہ اللہ تعالیٰ کی علوِّ شان کے لحاظ سے یہ تعریف بہت کم ہوئی۔ اتنے بڑے کمالات کے ہوتے ہوئے صرف یہ کہنا کہ اس میں عیوب نہیں ہیں، یہ ایسا ہے۔

شاہ را گوید کسے جُلاہا نیست

ایں نہ مدح اوست مگر آگاہ نیست

”بادشاہ کے متعلق کوئی کہے، کہ یہ جُلاہا نہیں ہے، کپڑا بننے والا نہیں ہے، تویہ اس کی تعریف نہیں ہے، مگر کہنے والا اس حقیقت سے بے خبر ہے۔“

اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے بارے میں صرف یہ کہہ دیا جاتا، کہ اس کی ذات میں کوئی عیب نہیں، تو یہ کم درجہ کی تعریف ہوتی، اگرچہ بعد میں یہ بھی کہہ دے، کہ ”میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں۔“ گویا اس بات کو گوارا نہیں کیاگیا، کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کو بے عیب کہا جائے، اس وقت اس کی صفاتِ کمال کاذکر نہ کیا جائے، اس لیے واؤ حالیہ کے ساتھ کہا گیا: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ. جس وقت میں اللہ تعالیٰ سے عیوب ونقائص کی نفی کرتا ہوں، عین اسی وقت میں اس کی حمد کرتا ہوں، اس کے لیے کمالات کا اثبات کرتا ہوں۔

صفاتِ باری تعالیٰ کی دو قسمیں

باری تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہیں: (۱) صفات عدمیہ یا سلبیہ۔ ان کو ”صفاتِ جلال“ کہا جاتاہے۔ (۲) صفاتِ وجودیہ یا ثبوتیہ۔ ان کو ”صفاتِ اکرام“ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ذوالجلال والاکرام﴾ (الرحمٰن:۲۷) سے ماخوذ ہے۔

صفاتِ عدمیہ: جلال سے مراد وہ صفات ہیں، جن کے ذریعہ باری تعالیٰ کی عیوب ونقائص سے پاکی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مثلاً: اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کی کوئی بیوی اور اولاد نہیں ہے، وغیرہ۔

صفاتِ وجودیہ: اکرام سے مراد وہ صفات ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے کمال وعظمت پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً : وہ زندہ ہیں۔ وہ قادر ہیں۔ وہ خالق ہیں، وغیرہ۔

”سبحان اللّٰہ“ میں صفاتِ جلال کی طرف اشارہ ہے اور ”وبحمدہ“ میں صفاتِ اکرام کی طرف اشارہ ہے۔

پاکی بیان کرنے میں کسی خاص عیب و نقص کا ذکر نہیں کیاگیا ہے، اسی طرح تعریف میں کسی خاص کمال کا ذکر نہیں کیاگیا ہے، اس سے عموم مستفاد ہوتا ہے، کہ میں تمام نقائص سے پاکی بیان کرتا ہوں اور سارے کمالات پر تعریف کرتا ہوں۔

”سبحان اللہ“ کو ”وبحمدہ“ پر مقدم کیوں کیاگیا؟

اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی عظمت کا اقرار تقریباً تمام اقوام کرتی تھیں؛ البتہ مِلل واقوام میں جو اختلافات یا گمراہی کے تصورات تھے، وہ صفاتِ عدمیہ: صفاتِ جلال میں نسبتاً زیادہ تھے۔ اس لیے زیادہ اہم بات یہ تھی، کہ پہلے شوائب نقص و عیب سے ذاتِ باری تعالیٰ کی پاکی و برتری کا اظہار کیا جائے، اس کے بعد اس کی عظمت وکمال کا اقرار کیا جائے، اس لیے ”سبحان اللّٰہ“ کو مقدم کیاگیا اوراس کے بعد ”وبحمدہ“ کو ذکر کیاگیا۔ مشہور ہے: التخلیةُ مقدمةٌ علی التحلیة.

”سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم“

آگے دوسرا کلمہ ہے ”سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم“. ”میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں، جو بڑی عظمت والا ہے۔“

”سُبْحَانَ اللّٰہِ“ کو دوبارہ ذکر کرنے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ چند یہ ہیں:

(۱)                تاکید مقصود ہے۔

(۲)               اللہ تعالیٰ کی طرف عیوب و نقائص منسوب کرنے والوں: مشرکین کی کثرت کا لحاظ کرتے ہوئے صیغہٴ تنزیہ : ”سُبْحَانَ اللّٰہِ“ کو مکرر لایاگیا۔

(۳)               اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے عیوب و نقائص سے پاک ہونے کا ادراک تو عقل سے بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اس کے اقرار سے باز نہیں رہنا چاہیے، نہ کوتاہی کرنی چاہیے۔ ہاں! کمالات کا معاملہ دوسرا ہے، عقل ان کے حقائق کے ادراک سے قاصر ہے۔

سنیے! ظاہر الفاظ کی طرف نظر کرتے ہوئے ”سُبْحَانَ اللّٰہِ“ مکرر ہے اور ”بحمدہ“ میں تکرار نہیں ہے، ورنہ درحقیقت جو مضمون ”سبحانَ اللّٰہ وبحمدہ“ میں بیان ہوا ہے، اسی کو یہاں ”سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم“ سے ادا کیاگیا ہے، کیوں کہ ”العظیم“ کے معنی ہیں: بڑائیوں والا۔ بڑائیوں والا اور عظمت کاملہ والا وہی ہے، جو تمام خوبیوں کا جامع ہو۔ یہی ”بحمدہ“ کا مطلب ہے۔

ان کلمات کی فضیلت کے پیش نظر ان کو پڑھتے رہنے میں آ دمی کو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ کم از کم دن میں سوبار پڑھ لے۔ ان کے پڑھنے میں کیا دیگر لگتی ہے؟ اس میں ہے ہی کیا؟ دو ہی تو کلمے ہیں۔ ابن رجب حنبلی رحمة اللہ علیہ نے ”جامع العلوم والحکم“ میں ذکر کیا ہے، کہ امام ابن سیرین رحمة اللہ علیہ کا عام ورد یہی دو کلمے تھے۔ ہم بھی ان کلمات کو حرزِ جاں اور وردِ زباں بنالیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

براعتِ اختتام

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ اس ”جامع“ کی کتابوں میں سے ہر کتاب کے آخر میں عامتاً اس کا اہتمام فرماتے ہیں، کہ حدیث میں یا اس پر کلام میں ایسا کلمہ ہو، جس سے اس کتاب کے ختم کی طرف اشارہ ہو۔ اختتام پر تسبیح مشروع ہے۔ چناں چہ حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا کَثُرَ فیہ لَغَطُہ، فقال قبلَ أن یقومَ من مجلسہ ذلک: سبحانک اللّٰہم وبحمدک، اشہدُ أن لا الہ الاّ أنت، استغفرُکَ واتوبُ الیک، الا غفر اللّٰہُ لہ ما کان فی مجلسِہ ذلک. ”جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا، جس میں اس سے بہت سی قابل موٴاخذہ فضول باتیں سرزد ہوئیں، پس اس نے اس مجلس سے اٹھتے وقت کہہ دیا: ”سبحانک اللّٰہم وبحمدک، اشہدُ أن لا الہ الاّ أنت، استغفرُکَ واتوبُ الیک. تو اللہ تعالیٰ اس مجلس میں اس سے سرزد ہونے والی سب لغزشوں کو معاف فرمادیں گے۔“ یہ مضمون پندرہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، بعض سے مرفوعاً اور بعض سے موقوفاً مروی ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تسبیح پر ”کتاب التوحید“ کو ختم فرمایا۔ نیز تسبیح کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد اہل جنت کی اخیر بات ہوگی۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿دعوٰہم فیہا سبحٰنک اللّٰہم وتحیتہم فیہا سلٰم واٰخر دعوٰہم ان الحمد اللّٰہ رب العلمین﴾ (یونس:۱۰) ”اہل جنت کے منھ سے یہ بات نکلے گی، کہ سبحان اللّٰہ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا: السلام علیکم اور ان کی (اس وقت کی باتوں میں) اخیر بات یہ ہوگی: الحمد للّٰہ رب العالمین“. ”کتاب التوحید“ کی اس آخری حدیث پاک میں بھی تسبیح کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد آگئی۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کی رائے یہ ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ ہر کتاب کے آخر میں آدمی کو: قاریٴ کتاب کو اس کی موت یاد دلاتے ہیں۔ اور یہ اس آخری باب سے بالکل ظاہر ہے، اس لیے کہ اس سے مقصود وزنِ اعمال کا اثبات ہے اور وزن مرنے کے بعد قیامت کے دن ہوگا۔

احمد بن اشکاب والی روایت آخر میں لانے میں نکتہ

یہ روایت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”صحیح“ میں کل تین مقامات میں ذکر فرمائی ہے۔ ایک ”کتاب الدعوات“ میں، دوسرے ”کتاب الأیمان والنذور“ میں اور تیسرے یہاں آخر کتاب میں۔ ”کتاب الدعوات“ میں زُہَیر بن حَرب، ”کاتب الأیمان والنذور“ میں قُتَیبة بن سعید اور یہاں احمد بن اشکاب کی سند سے ذکر کی ہے۔ خاتمة الکتاب میں احمد بن اشکاب کی روایت لانے میں کیا نکتہ ہے؟

(۱) بعض حضرات فرماتے ہیں، کہ حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہ روایت اپنے ان تینوں شیوخ میں سے احمد بن اشکاب سے سب سے آخر میں سنی تھی،اس لیے اس کو آخر میں لائے۔

بندہ کہتا ہے، کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے کلام میں یہ تو ہے، کہ قال البخاري: آخِرُ مَا لَقِیْتُہ بِمِصْرَ سَنَةَ سَبْعَ عَشَرَةَ. ”امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا، کہ احمد بن اشکاب سے میری آخری ملاقات مصر میں ۲۱۷ھ میں ہوئی۔“ لیکن یہ بات نہ مل سکی، کہ ان تینوں شیوخ میں سے احمد بن اشکاب سے یہ روایت آخر میں سُنی تھی۔ اور ظاہر ہے، کہ ”آخِرُ مَا لَقِیْتُہ بِمِصْرَ سَنَةَ سَبْعَ عَشَرَةَ“ سے یہ مطلب اخذ نہیں ہوسکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

(۲) ”صحیح بخاری“ کی پہلی حدیث ”انما الأعمالُ بالنیات“ کے راوی ”حمیدی“ ہیں،اور اس آخری حدیث کے تین شیوخ میں سے ایک ”احمد بن اشکاب“ ہیں۔ ”حمیدی“ اور ”احمد“ دونوں کا مادہ ”حمد“ ہے۔ گویا لطیف پیرایہ میں ﴿لہ الحمد في الأولٰی والآخرة﴾ (القصص:۷۰) کی طرف اشارہ ہے۔ زُہیر یا قُتیبة کی روایت یہاں ذکر کرنے میں یہ نکتہ حاصل نہ ہوتا۔

مذکورہ حدیث پر کتاب ختم کرنے کی وجوہ

حضرات علماءِ کرام نے اس حدیث پر کتاب ختم کرنے کی متعدد وجوہ وحکم ذکر کی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

(۱) علامہ کرمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اواخر مجلس میں تسبیح مندوب ہے، اس لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب کو مجلس علم ٹھہراکر اسے تسبیح پر ختم فرمایا۔

(۲) علامہ محمد تاودی مالکی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”بدء الوحی“ سے کتاب کا آغاز فرمایا، اور مکمّل سورت کی آخری وحی ”سورئہ نصر“ کی وحی ہے، جس میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے وصال کی خبر ہے۔ اس وحی میں ”فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ“ (النصر:۳) فرمایاگیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تسبیح و تحمید کی فضیلت کی حدیث پر اپنی کتاب کو ختم کیا۔

(۳) شیخ الاسلام زکریا الانصاری اور علامہ قسطلانی رحمہما اللہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب کو اس حدیث پر اس لیے ختم فرمایا، تاکہ مقامِ رجاء وخوف کو جمع کریں، کیوں کہ ”الرحمن“ کے معنی ”انعام“ کی طرف راجع ہیں۔ اور ”العظیم“ ہیبت الٰہیہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس کے معنی ”خوف“ کی طرف راجع ہیں، تو ذاکر جمیع احوال میں بمصداق آیت قرآنیہ ﴿یرجون رحمتہ ویخافون عذابہ﴾ (الاسراء:۵۷) خائف و راجی: ڈرنے والا اور امیدوار ہو اور یہی مقتضاءِ ایمان ہے۔

(۴) شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے شیخ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمة اللہ علیہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں، کہ ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ“ سے اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کی طرف اشارہ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے اور تمام محامد کی جامع ہے۔ اور قابل تعریف ذات وہ ہوتی ہے، جس میں جمال ہو، لہٰذا یہ جملہ صفت جمال کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اور دوسرا جملہ ”سبحان اللّٰہ العظیم“ اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ باری تعالیٰ کے جمال کے تصور سے ”محبت“ پیدا ہوتی ہے اور جلال کے تصور سے ”خوف“ پیدا ہوتا ہے۔ اور”محبت“ اور ”خوف“ دونوں کے ملنے کے نتیجے میں ”خشیت“ پیدا ہوتی ہے، تو اس حدیث کو اس لیے بالکل آخر میں لائے، کہ سارے اعمال واخلاق کی اساس اور تمام علوم کا خلاصہ ”خشیت اللہ“ ہے، اسے اپنے اندر پیدا کرو۔

(۵) محدث العصر حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری مدظلہم فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب کے اختتام پر تسبیح وتحمید پر مشتمل حدیث لاکر تکفیر سیئات والے اعمال کا اہتمام کرنے اور دارالحمد یعنی جنت کے لیے تیاری کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرمارہے ہیں، کہ آپ نے کتاب پوری کرلی، علم دین سے واقف ہوگئے، اب عمل کی طرف توجہ کیجئے، تاکہ ”دارالحمد“ آپ کا مستقر بنے۔

(۶) علامہ ابوالحسن سندھی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تسبیح پر مشتمل حدیث پر اپنی کتاب کو ختم فرمایا ہے، تاکہ حدیث نبوی ”مَنْ کَانَ آخرُ کلامِہ لا الٰہَ الا اللّٰہ دَخَلَ الجنّةَ“. (جس کا آخری کلام ”لا الہ الا اللّٰہ“ ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا) کی رعایت ہوجائے، کیوں کہ تسبیح کی حقیقت، جیساکہ عرض کیاگیا، یہ ہے، کہ شریک، بیوی اور اولاد وغیرہ ایسی چیزوں سے اللہ تعالیٰ کو منزہ قرار دینا، جو اس کی ذاتِ عالی کے لائق و مناسب نہیں ہے۔ اس اعتبار سے تسبیح بدرئہ اتم توحید کے معنی کو ادا کرنے والی ہے۔

علامہ سندھی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے اس ختم میں اس کتاب کی طرف اعتناء کرنے والوں کے حق میں توحید پر خاتمہ کی نیک فالی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ بھی توحید پر فرمائے، آمین۔

پہلی اور آخری حدیثوں میں مناسبات

اب آخر میں ”صحیح بخاری“ کی پہلی اور آخری حدیثوں میں مناسبت کے بارے میں چند اقوال سن لیجئے۔ ویسے تو دونوں حدیثوں میں مناسبت کے سلسلے میں کئی نکتے بیان ہوئے ہیں، جن میں سے بعض اشکال سے خالی نہیں۔

(۱) علامہ ناصرالدین ابن المنیر رحمة اللہ علیہ ”المتواری“ میں فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس کتاب کے فاتحہ اور خاتمہ میں آدابِ سنت کا لحاظ رکھا ہے۔ ابتداء میں ادب یہ ہے، کہ قصد ونیت میں اخلاص ہو، تو حدیث ”انما الأعمال بالنیات“ سے شروع فرمایا۔ اور اختتام مجلس پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کی ترغیب دی ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے تسبیح پر ختم فرمایا ہے۔

(۲) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں، کہ حدیث اول میں ”مقاماتِ عبدیت“ کا بیان ہے۔ عبدکا کام یہ ہے، کہ نیت سے بھی اس کی طرف رجوع کرے، اور عمل سے بھی اس کی طرف رجوع کرے۔ اور اخیر حدیث میں ”مقامات الوہیت“ کا بیان ہے۔ ”سبحان اللّٰہ“ میں ”مقامِ تنزیہ“، ”وبحمدہ“ میں ”مقامِ تنویہ و تعریف“ اور ”العظیم“ میں ”مقام عظمت“ کا بیان ہے۔

(۳) ”صحیح بخاری“ کی پہلی حدیث ”غریب“ ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس حدیث کو نقل کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ متفرد ہیں، صحت کے ساتھ یہ روایت ان کے علاوہ کسی اور سے مروی نہیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں علقمہ بن وقّاص لَیْثی، ان سے روایت کرنے میں محمد بن ابراہیم تیمی اور ان سے روایت کرنے میں یحییٰ بن سعید متفرد ہیں۔

اسی طرح ”صحیح بخاری“ کی یہ آخری حدیث بھی ”غریب“ ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس حدیث کو نقل کرنے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ متفرد ہیں۔ ان سے روایت کرنے میں ابوزُرعة، ان سے روایت کرنے میں عُمَارَة بن القَعْقاع اور ان سے روایت کرنے میں محمد بن فُضیل متفرد ہیں۔

علامہ محمد تاودی مالکی رحمة اللہ علیہ نکتہ بعد الوقوع کے طور پر فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے غریب حدیث سے کتاب کا آغاز کیا، اور غریب حدیث پر ختم فرمایا، جیسے ”اسلام“ کے بارے میں حدیث پاک میں فرمایاگیا: بَدَأَ الاسلامُ غریباً وسَیَعُودُ غَرِیْبًا.

”نوادر الحدیث“ میں نکتہ بعد الوقوع ہی کے طور پر ذکر کیاگیا ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ متعلّم کو تنبیہ فرمارہے ہیں، کہ طلب علم کے لیے غریب الوطنی اختیار کرے۔ یا آخرت کو یاد دلاتے ہیں، اس لیے کہ مردہ گورستان میں غریب الوطن کے طور پر ہوتا ہے۔

میں اپنی بات اسی پر ختم کرتا ہوں۔ دعاء ہے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس باب اور حدیث سے حاصل ہونے والے تمام اسباق پر عمل کرنے کی توفیق کامل عطا فرمائے، آمین۔

وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی وَسَلَّمَ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَصَحْبِہ أَجْمَعِیْن وآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن.

***

____________________________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء