تيسری اور آخری قسط

پڑوسی کے حقوق

ازمحمد عظیم فیض آبادی

 

حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے خود اپنا ایک واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ”۱۹۶۳ء میں جب میں سعودی عرب گیا تو وہاں کے ایک باشندے نے مجھے اپنا واقعہ خود سنایا کہ ایک مرتبہ میں کپڑا خریدنے کے لیے بازار گیا ایک دکان میں داخل ہوکر بہت سے کپڑے دیکھے دکاندار پوری خوش اخلاقی سے مجھے مختلف کپڑے دکھاتا رہا بالآخر میں نے ایک کپڑا پسند کرلیا دکاندار نے مجھے قیمت بتادی میں نے دکاندار سے کہا کہ مجھے یہ کپڑا اتنے گز کاٹ دو۔ وہ دکاندار ایک لمحہ کے لئے رکا اور اس نے مجھ سے کہا آپ کو یہ کپڑا پسند ہے؟ میں نے کہا جی ہاں اس نے کہا قیمت بھی آپ کی رائے میں مناسب ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ اس پر اس نے کہا اب آپ میرے برابر والی دکان پر چلے جائیے اور وہاں سے یہ کپڑا اسی قیمت پر لے لیجئے، میں بڑا حیران ہوا اور میں نے اس سے کہا کہ میں اس دکان پر کیوں جاؤں میرا معاملہ تو آپ سے ہوا ہے کہنے لگا کہ آپ کو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو کپڑا چاہئے وہاں موجود ہے اور آپ کو اسی قیمت میں مل جائے گا جاکر وہاں سے لے لیجئے میں نے کہا پہلے وجہ بتائیں کیا وہ آپ ہی کی دکان ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اب میں بھی اڑگیا اور میں نے اصرار کیا کہ جب تک آپ وجہ نہیں بتائیں گے میں اس دکان پر نہیں جاؤں گا۔ آخر کار اس نے ..... ہوکر کہا کہ آپ خواہ مخواہ بات لمبی کررہے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ میرے پاس صبح سے اب تک بہت سے گاہک آچکے ہیں اور میری اتنی بکری ہوچکی ہے کہ میرے لئے آج کے دن کے حساب سے کافی ہوسکتی ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پڑوسی دکاندار صبح سے خالی بیٹھا ہے اس کے پاس کوئی گاہک نہیں آیا اس لئے میں چاہتاہوں کہ اس کی بھی کچھ بکری ہوجائے آپ کے وہاں جانے سے اس کا بھلا ہوجائے گا آپ کا اس میں کیا حرج ہے“؟

یہ اس اسلامی معاشرے کی ایک بچی جھلک تھی جس میں مسرت و کامیابی محض پیسوں کی گنتی کا نام نہیں تھا بلکہ روح کے اس سکون اور قلب وضمیر کے اس اطمینان کا نام تھا جو اپنے کسی بھائی بہن کا دکھ دور کرنے یا اس کے چہرے پر مسکراہٹ لاکر حاصل ہوتا ہے۔

مذہب اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تاکید کی ہے حتی کہ تھوڑی دیر کے پڑوسی یعنی تھوڑی دیر کے ساتھی کے ساتھ بھی حسن سلوک اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دی ہے جیساکہ سفر وغیرہ میں یہ مواقع پیش آتے ہیں جن کو عموماً پڑوسی اورہمسایہ تصور ہی نہیں کیاجاتا، اس کے حقوق کی رعایت، اس کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کا بالکل بھی خیال نہیں کیا جاتا حالانکہ اس کو بھی ہمسایہ وپڑوسی کی طرح قربت وصحبت اور ساتھ رہنے سہنے کا اتفاق ہوتا ہے جیساکہ سفرکے ساتھی کارخانہ کے ملازم، دوکان کے دوشریک اور اسی طرح طالب و شاگرد وغیرہ، یہ بھی ایک طرح کے پڑوسی ہیں اگرچہ ان کے ساتھ ہمسائیگی دائمی نہیں ہوتی اس کا نام صحبت و رفاقت بھی رکھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم نے جہاں رشتہ داروں، ہمسایوں، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم و ترغیب دی وہیں تھوڑی دیر کے ساتھی کے ساتھ کا بطور خاص ذکر فرمایا، چونکہ انسان عموماً ایسے ساتھی کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا اوراس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کوکوئی خاص اہمیت نہیں دیتا بہت کم خوش نصیب ایسے ہیں جو ان مواقع پر اپنے ساتھی کے حقوق کا خیال رکھتے اوراسکی راحت رسانی پر آمادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے ایسے لوگ عموماً اجنبی اور بے گانہ ہوتے ہیں اور ان سے جدائی کے بعد دوبارہ اس ملاقات کی امید اور کوئی واسطہ نہیں پڑتا اس وجہ سے اگر ان کے ساتھ کوئی بداخلاقی اور ناروا سلوک اور اس کے ساتھ کچھ دل آزاری کا معاملہ پیش آگیا تو کسی دیرپا بدنامی اور رسوائی کا اندیشہ نہیں ہوتا اس وجہ سے لوگ سفر میں ریل، بس ہوائی جہاز وغیرہ ، اور اسی طرح دیگر مجالس و پروگراموں اور کارخانوں میں اس کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ دیگر حضرات کو اس کے کس عمل و کردار سے ایذاء و تکلیف پہنچی حالانکہ بدزبانی و بداخلاقی سے پیش آنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے حدیث شریف میں ہے ”مَنْ بَذَا جَفَا“ جس نے بدزبانی کی اس نے ظلم کیا۔ (حاتم) بدزبانی یقینا ظلم ہے دوسروں پر بھی اور خود اپنے نفس پر بھی کیونکہ بدزبانی و بداخلاقی دوستوں اور خیرخواہوں سے محروم کردیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں خوش خلقی اور رحم دلی ایک ایسا محمود و محبوب وصف ہے جو غیروں کو بھی اپنا بنادیتی ہے۔ مخلوقِ خدا کے ساتھ رحم دلی اور نرمی کا برتاؤ اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے اس کے برعکس اگر کوئی بوقت ضرورت بھی لوگوں پر رحم نہ کرے تو یہ خدا کی ناراضگی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی اس پر رحم نہیں کرتے ”مَنْ لاَ یَرْحَمْ لاَ یُرْحَمْ“ جو دوسروں پر رحم نہ کرے اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری ومسلم) اور ایک حدیث میں ہے ”لاَ یَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لاَّ یَرْحَمُ النَّاسَ“ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا۔ مذہب اسلام نے کسی شخص کی دل آزاری وایذاء رسانی سے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے حتی کہ حیوانات و چوپایوں کو بھی بلاوجہ تکلیف دینے سے اجتناب کی تاکید کی ہے اور ان کے ساتھ بے رحمی کا مظاہرہ کرنے سے منع کیاہے۔

قرآن کریم نے تھوڑی دیر کے ساتھی کے بھی حقوق بیان فرمائے ”والصاحب بالجنب“ (نساء آیت۳۶) اس کے لفظی معنی ہیں ہم پہلو ساتھی یا تھوڑی دیر کا ساتھی جس میں رفیق سفر بھی داخل ہے جو جہاز، ریل، بس وغیرہ گاڑی میں آپ کے برابر اور پہلو میں بیٹھا ہو اور وہ شخص بھی داخل ہے جو کسی عام مجلس میں آپ کے برابر بیٹھا ہو۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ”شریعت اسلام نے جس طرح نزدیک دور کے دائمی پڑوسیوں کے حقوق واجب فرمائے اسی طرح اس شخص کا بھی حق صحبت لازم کردیا جو تھوڑی دیر کے لئے کسی مجلس یاسفر میں آپ کے برابر بیٹھا ہو جس میں مسلم وغیرمسلم اور رشتہ دار وغیررشتہ دار سب برابر ہیں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت فرمائی جس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی قول و فعل سے اس کو ایذاء نہ پہنچے کوئی گفتگو ایسی نہ کرے جس سے اس کی دل آزاری ہو کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کو تکلیف ہو مثلاً سگریٹ پی کر اس کا دھواں اس کے منہ کی طرف نہ چھوڑیں یا پان کھاکر پیک اس کی طرف نہ ڈالیں اس طرح نہ بیٹھیں جس سے اس کی جگہ تنگ ہوجائے۔ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ اگر قرآن کریم کی اس ہدایت پر لوگ عمل کرنے لگیں تو ریلوے مسافر کے ساتھ جھگڑے ختم ہوجائیں ہر شخص اس پر غور کرے کہ مجھے صرف ایک آدمی کی جگہ کا حق ہے اس سے زائد جگہ گھیرنے کا حق نہیں دوسرا کوئی اگر قریب بیٹھا ہے تو اس گاڑی میں اس کا بھی اتنا ہی حق جتناکہ میرا ہے۔

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری کے اندرمختلف صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کئے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت مجاہد، عکرمہ، قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ”صاحب بالجنب“ سے رفیق سفر مراد ہے۔ حضرت جریج وابن زید رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص مراد ہے جو تم سے کسی نفع کی امید پر تمہارے ساتھ شریک ہے لہٰذا یہ شاگرد اور ہم سبق ساتھی کو بھی شامل ہوگا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے بیوی مراد ہے جو شوہر کے پہلو میں رہتی ہے اور امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ رفیق سفر ہے۔ بعض حضرات مفسرین فرماتے ہیں کہ ”صاحب بالجنب“ میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کام اور کسی پیشہ میں آپ کا شریک صنعت ہے، مزدوری میں، دفتر کی ملازمت میں، سفر میں حضر میں اور کسی دعوت، جلسے، یا اجتماع عام کے مواقع میں جو شخص ہمارے قریب اور پہلو میں ہے وہ ہمارا ”صاحب بالجنب“ ہے۔ غرض قرآن کریم کے الفاظ کی وسعت ان تمام کو محیط ہے۔

قرآن کریم نے خاص طور پر ”صاحب بالجنب“ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بظاہر اس حکمت کے پیش نظر فرمائی ہے کہ انسان کی شرافت و خوش اخلاقی کا اصل مظاہرہ ایسے ہی موقعوں پر ہوتا ہے، اچھے اچھے بظاہر مہذب، بااخلاق، شائستہ ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی انجانے اور اجنبی سے واسطہ اور سابقہ پڑا یا سفر وغیرہ کی نوبت پیش آئی تو وہ تہذیب و تمدن سے عاری اور خوش اخلاقی کے بجائے بداخلاقی کا مظاہرہ اور وہ بھی ایسی کہ انھوں نے اپنے ہم سفروں کے ساتھ پرلے درجے کی خود غرضی کا برتاؤ اور سنگدلی کرتے نظر آئے۔ اسی لئے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ تم کسی شخص کی نیکی کی حتمی گواہی اس وقت تک نہ دو جب تک تمہارا اس کے ساتھ کوئی لین دین نہ ہوجائے جس میں تم نے اس کے اندراسے کھرا پایا ہو یا اس کے ساتھ تم نے کوئی سفر کیا ہو جس کے اندر تم نے واقعی اس کو خوش اخلاق پایا ہو۔ انسان کی خوش خلقی اور بدخلقی کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ اس کو وہ اچھا کہے جو اس سے سب سے زیادہ قریب ہو، چنانچہ ایک دن صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ ہم اچھا کررہے ہیں یا برا؟ فرمایا جب اپنے پڑوسی کو تم اپنی نسبت اچھا کہتے سنو تو سمجھو کہ اچھا کررہے ہو اور جب برا کہتے سنو تو سمجھ لو کہ برا کررہے ہو۔(ابن ماجہ)

خوش اخلاقی جو صرف بدنامی کے خوف اور دوسروں کی طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے کی جائے وہ خوش اخلاقی نہیں بلکہ ریا ہے، خوش اخلاقی دراصل ایسی صفت ہے جو صرف رضاء خداوندی کے پیش نظر کی جائے جس کے اندر شہرت ونیک نامی کو بالکل دخل نہ ہو اور جب یہ صفت کسی شخص کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ شخص ہر جگہ اور ہر انسان کے ساتھ رضاخداوندی کے پیش نظر اپنی اس پاکیزہ فطرت کے تحت وہی رویہ وہی بتاؤ اور طرز عمل اختیار کرے گا جو اسے کرنا چاہئے کیونکہ اس کے سامنے شہرت وناموری اور لوگوں کے دیکھنے کا ڈر نہیں بلکہ اس ذات کے دیکھنے کا خوف ہے جس کی خوشی اور غضب سے جنت و جہنم کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں بلا تفریق مذہب وملت اپنے ہرہمسایہ و پڑوسی اپنے مصاحب و قریبی اپنے ہم مجلس،اور اپنے ہر طرح کے ہم سفر کے ساتھ، نرمی، خوش خلقی، اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے اور ان کے راحت وآرام کی خاطر تھوڑی تکلیف و مشقت ہی برداشت کرلے تو ان کے دلوں پر اس کے اخلاق و کردار کا جو نقش مرتب ہوگا وہ تادیر قائم رہے گا۔ وہ ہمیشہ اس کا محسن رہے گا اوراس کے نامہٴ اعمال میں نیکیوں کا جو بینک بیلنس ہوگا وہ دنیا کے مال و دولت کے ذخیرے سے بہتر و پائیدار ہوگا اور آخرت کی دائمی و ابدی زندگی میں اس کے لئے کارآمد و باعث نجات ہوگا، اور اس طرح ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ اور زندگی کے اس چین و سکون کا باعث ہوگا، ہر شخص آج جس کا خواہاں اور مال و دولت کی فراوانی، سامان عیش و عشرت کی بہتات کے باوجود آج دنیا جس سے محروم ہے اور محرومیت کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جارہا ہے۔ اللہ رب العزت تمام انسانوں کو چین وسکون کی لازوال دولت سے مالامال کرے بے چینیوں اور الجھنوں سے محفوظ رکھے اور اسلامی معاشرے کی خوش گوار فضاء کو قائم فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

***

__________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء