۹۳ آل عمران – ۱۷۰

بدیہیات قرآن

حکمتیں اور فائدے (۱/۸)

از: محمد عارف جمیل مبارک پوری ، ڈربن، ساؤتھ افریقہ

 

۱۔ فرمان باری

فرحین بما آتاہم اللّٰہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بہم من خلفہم أن لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون ،یستبشرون بنعمة من اللّٰہ وفضل وأن اللّٰہ لا یضیع أجرالموٴمنین ( آل عمران /۱۷۰۔۱۷۱)

” وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ نے اپنے فضل (و کرم) سے عطافرمائی ، اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی بھی حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں، اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔ وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت و فضل سے، اور اس بات سے کہ اللہ ایمان والوں کی مزدوری ضائع نہیں کرتا“ ۔

اس آیت میں دو مقام پر بدیہیات ہیں :

مقام اول

ا وپر آچکا ہے کہ انہیں اپنے حالات اور اپنے اوپر فضل الٰہی سے فرحت ہوگی ، فرحت اور ”استبشار “ ایک ہی چیز ہے، پھر اس کو دوبارہ بیان کرنے میں کیا حکمت ہے ؟

اس میں دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں

اول:استبشار سے مراد ، فرحتِ تامہ ہے، لہٰذا اس میں تکرار نہیں ۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۱)

دوم: فرحت سے مراد ، سردست انہیں جو اللہ نے عطاء فرمایا ہے ، اس پر خوشی ہے، اور ”استبشار“ سے مراد ،وہ خوشی ہے ، جس کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ آخرت میں ان کو ملے گی۔(۲)

مقام دوم

یہاں پر ”یستبشرون “ فعل کو مکرر لایا گیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے ؟

اس اشکا ل کے کئی جوابات دیے گئے ہیں۔

ا- ان افعال کے متعلقات الگ الگ ہیں: پہلے ”یستبشرون “ کا تعلق ، ان لوگوں کے حالات سے ہے ، جو ان سے پیچھے رہ گئے ،اور ابھی ان سے نہیں ملے ، جب کہ دوسرے کا تعلق ،ان کے اپنے حالات سے ہے ۔ لہٰذا اس میں تکرار نہیں ۔ یہ جواب : رازی ،ابو سعود ، آلوسی اور شوکانی نے لکھاہے، ابو حیان نے اس کو ”ظاہر “قراردیا ہے۔(۳)

۲- اگر ”نعمة“ اور ”فضل“ کو ”استبشارِ “اول کا بیان مانا جائے توفعل میں تکرار ، تاکید کے لیے ہے۔ زمخشری لکھتے ہیں

”فعل یستبشرون “ کو مکرر لا یا گیا تاکہ اس کے ساتھ ا س نعمت و فضل کو متعلق کیا جاسکے،جو (لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون) کا بیان ہے ، اور یہ کہ یہ ان کو ان کے ایمان کا اجرو صلہ ہے، اللہ کے عدل و حکمت کا یہی واجبی تقاضا ہے کہ انہیں یہ ملے ،او رضائع نہ ہو“۔(۴)

ابو حیان نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے:

” زمخشری کا یہ کلام اعتزالی نظریہ کے موافق ہے کہ ایمان پر اجرو ثواب کا ملنا واجب ہے۔ لیکن ابن عطیہ نے اہلِ سنت کے طریقے پر چلتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ان کے ” استبشار“ کی تاکید، ددبارہ(یستبشرون) کے ذریعہ کی،پھر (فضل) کے ذریعہ یہ بیان فرمایا کہ جنت میں ان کا داخلہ اللہ کے فضل کے ذریعہ ہوگا، کسی کے عمل کی وجہ سے نہیں ۔البتہ جنت کی نعمتوں اور درجات کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ اعمال کے لحاظ سے ہوں گے“۔(۵)

سوم: ’ استبشار“اول دفعِ مضرت کی وجہ سے ہے، او ر’’استبشار“ دوم ،اسباب مسرت کے حصول کی وجہ سے ہے۔ یہ جواب آلوسی نے لکھا ہے۔(۶)

۲۔ فرمان باری

ولایحزنک الذین یسارعون فی الکفر انہم لن یضروا اللّٰہ شیئا یرید اللہ ألا یجعل لہم حظا فی الآخرة ولہم عذاب عظیم )(آل عمران/۱۷۶)

” کفر میں آگے بڑھنے والے آپ کو غم میں نہ ڈالیں ، یہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ آخرت میں ان کیلئے کوئی حصہ نہ عطاء کرے، اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے “۔

یہاں سوال یہ ہے کہ ارادہ ء الٰہی کے ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے، اگر صرف یوں کہہ دیتے کہ اللہ ان کو آخرت میں کوئی حصہ عطا ء نہ کرے گا تو بھی کلا م تام تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس ٹکڑے میں یہ بتا نا مقصود ہے کہ ان کی محرومی اور عذاب کا محرک و سبب بالکل قطعی اور ثابت ہوچکا ہے،اور کوئی رکاوٹ نہ رہی، کہ یہ کفر میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں،اس میں یہ تنبیہ ہے کہ یہ لوگ سرکشی پر مصرہیں،اور اس کی انتہا ء کو جا پہنچے ہیں، یہاں تک کہ وہ ذات جو ارحم الراحمین ہے، وہ بھی ان پر رحم نہیں کرنا چاہتی ۔

یہ جواب زمخشری نے لکھا ہے۔(۷)

۳۔ فرمان باری

ان الذین اشتروا الکفر بالایمان لن یضروا اللّٰہ شیئا ولہم عذاب الیم (آل عمران/۱۷۷)

”جن لوگوں نے ایمان کے بدلہ کفر خریدا وہ ہرگز اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرسکتے ،ان کے لیے دردناک عذاب ہے“۔

یہاں پر آیت میں تکرار ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے فرمایا (ولایحزنک الذین یسارعون فی الکفر انہم لن یضروا اللّٰہ شیئا یرید اللّٰہ الا یجعل لہم حظا فی الآخرة ولہم عذاب عظیم )(آل عمران/۱۷۶) پھر اس آیت میں فرمایا(ان الذین اشتروا الکفر بالایمان لن یضروا اللّٰہ شیئا ولہم عذاب الیم) (آل عمران/۱۷۷) اس تکرار کا فائدہ کیا ہے؟

اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں

۱ول۔ فرمان باری (ولایحزنک الذین یسارعون فی الکفر انہم لن یضروا اللہ شیئا یرید اللہ الا یجعل لہم حظا فی الآخرة ولہم عذاب عظیم )(آل عمران/۱۷۶) تمام کفار کے حق میں ہے، اور اس کے بعد کی آیت بھی تمام کفارکے حق میں ہے، اور تکرار کا فائدہ تاکید ہے۔ یہ جواب زمخشری ،ابو حیان ، ابوسعود ، آلوسی اور شوکانی نے لکھا ہے،اور شوکانی نے اس کو راجح قرار دیا ہے۔(۸)

دوم۔ امام رازی نے اس کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

”اس تکرار میں کئی باتیں فائدے کی ہیں

(۱) جن لوگوں نے ایمان کے بدلہ کفر خریدا بلا شبہ پہلے وہ کافر تھے،پھر مسلمان ہوئے،پھر کفر کیا۔اس سے ان کے سخت اضطراب ،رائے کی کم زوری، اور عدم ثباتی کا اندازہ ہوتاہے۔او را س طرح کے انسان سے نہ کسی کو کوئی خوف ہوسکتاہے،نہ اس کا کوئی رعب ودبدبہ ہوتا، اور نہ ہی ایساانسان دوسرے کو ضرر پہنچانے پر قادر ہوتاہے۔            

(۲) دین کا معاملہ سب سے اہم اور سب سے نازک ہے، اور اس طرح کے امور میں انسان کوئی مثبت یا منفی پہلو اختیار کرنے سے پہلے ،ہزار بار سوچتاہے۔غور و فکر کو کام میں لاتاہے، لیکن یہ لوگ اس طرح کے نازک مسئلہ میں بھی ،نہایت معمولی اسباب ، اور حقیر محرکات کی و جہ سے بھی کوئی مثبت یا منفی قدم اٹھالیتے ہیں، جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بے عقل ،اور نہایت بے وقوف ہیں۔ایک عقل مند اس طرح کے لوگوں کی طرف نظرِ التفات بھی نہیں کرتا ۔

(۳) ان میں سے اکثر یت تو ان لوگوں کی ہے،جو کسی شبہ کی وجہ سے آپ کے ساتھ دینی نزاع نہیں رکھتے ؛ بلکہ محض حسد اور منصب کی خاطرآپ سے دشمنی رکھتے ہیں ، او رجس کی عقل ہی اتنی ہو کہ وہ حقیر دنیا کی خاطر آخرت کی عظیم سعادت کو فروخت کردے، وہ حد درجہ احمق ہے۔اور ایسا انسان دوسرے کو کیا نقصان پہچاسکتاہے۔ اس آیت کے تکرارمیں یہی فائدہ ہے۔(۹)

سوم۔ پہلی آیت (ولایحزنک الذین یسارعون فی الکفر انہم لن یضروا اللہ شیئا یرید اللہ الا یجعل لہم حظا فی الآخرة ولہم عذاب عظیم )منافقین یا مرتدین یا کفار قریش کے ساتھ خاص ہے ، اوریہ اس صورت میں تاکید کے لیے تکرار کی قبیل سے نہیں؛بلکہ تمام کفار کے بارے میں یہ حکم ہے کہ وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکتے،اور اس عموم میں یہ خاص افراد بھی داخل ہیں ۔ اور ان کے حق میں یہ حکم تاکید کے طور پر ہوگا۔اور اس طرح خاص افراد کے لیے، عذاب کی دونوں انواع( بڑا اور دردناک عذاب )جمع کردی گئی ہیں۔یہ جواب زمخشری، ابوحیان؛ ابوسعود،آلوسی اور شوکانی نے نقل کیا ہے۔(۱۰)

چہارم۔ پہلی آیت(ولایحزنک الذین یسارعون فی الکفر انہم لن یضروا اللّٰہ شیئا یرید اللّٰہ الا یجعل لہم حظا فی الآخرة ولہم عذاب عظیم) تمام کفار کے بارے میں ہے اور دوسری آیت خاص طور پر منافقین کے بارے میں ہے۔خاص طور پر ان کاذکر اس لیے کیا گیا کہ ان کا ضرر اورمکر و فریب عام کفار سے بڑھا ہوا ہے۔(۱۱)

لیکن ابو سعود اس توجیہ سے مطمئن نہیں،وہ رقم طراز ہیں :

” پہلی آیت میں عام کفار مراد لینا ، قرآن کریم کی عظمت کے شایان شان نہیں،اس لیے کہ مذکورہ معنی میں”مسارعت “کا صدور اور اس کا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے لیے باعثِ ملال ہونا(جیسا کہ ”نہی “کے اسلوب سے اندازہ ہوتاہے)تو ان کفار کی طرف سے متصور ہے، جن کے اندر ان اوصاف کا ہونا معلوم ہو،لیکن جو کفار دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں ،اور ان کے بارے میں کوئی علم نہیں،ان کی طرف مسارعت کی نسبت کرنا ، اور اس کو آپ صلى الله عليه وسلم کے لیے رنج و غم کے اسباب قرار دینا بلا وجہ ہے۔(۱۲)

جب کہ آلوسی نے اس توجیہ کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے:

”ممکن ہے کہ جن لوگوں نے یہ توجیہ کی ہے ،ان کے پیش َنظر مسلمانوں کے مقابلہ میں عام کفار ( خواہ وہ کہیں اور کسی حالت میں ہوں) مراد نہ ہوں ؛ بلکہ وہ مرتدین اور متخلفین مراد ہوں ، جن سے اندیشہ ہے کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کو ایذا ء پہچاسکتے ہیں۔ اس کے بعد یہ اعتراض نہیں رہتا۔(۱۳)

۴۔ فرمان باری

واذ أخذ اللّٰہ میثاق الذین أوتوا الکتاب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ فنبذوہ وراء ظہورہم واشتروا بہ ثمنا قلیلا، فبئس ما یشترون(آل عمران/۱۸۷)

”اور جب اللہ نے عہد لیا کتا ب والوں سے کہ اس کو بیان کروگے ،لوگوں سے،اور نہ چھپاؤ گے،پھر پھینک دیا انہوں نے وہ عہد اپنی پیٹھ کے پیچھے او رخرید لیا اس کے بدلے تھوڑا مول ، سو کیا برا ہے وہ جو خرید تے ہیں “۔

سوال یہ ہے کہ ”بیان“ ، ”کتمان “کی ضد ہے،جب بیان کا حکم دیا تو اس میں کتمان کی ممانعت بھی ہے۔پھر الگ سے ”کتمان“ کی ممانعت کرنے میں کیا فائدہ ہے۔

اس کے دو جواب دیے گئے ہیں :

اول: ”بیان“ سے مرادتوریت و انجیل میں رسول  صلى الله عليه وسلم کی نبوت کے جو دلائل ہیں ، ان کو بیان کرنا ہے۔اور ”کتمان “سے مرادیہ ہے کہ ان میں غلط تاویلیں،اور باطل شبہات پیدا نہ کریں۔ یہ جواب راز ی، ابو سعود، اور آلوسی نے لکھا ہے۔ (۱۴)

دوم: یہ ماسبق میں داخل ہے، مامور بہ کے ایجاب میں مبالغہ کے لیے اس کی تصریح کردی۔ یہ جواب ابو سعوداور آلوسی نے لکھا ہے۔ (۱۵)

۵۔ فرمان باری

ان فی خلق السماوات والأرض واختلاف اللیل والنہارلآیات لأولی الألباب (آل عمران /۱۹۰)

” بے شک آسمانوں اور زمین کا بنانا ،رات دن کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے“۔

یہ آیت بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ سورہ بقرہ (۱۶۴)میں آچکی ہے، پھر اس کو یہاں پر دوبارہ لانے میں کیا حکمت ہے؟

امام رازی نے یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالات اٹھانے کے بعد ان کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے

” نقطہء بصیرت ،آنکھ کی پتلی کے قائم مقام ہے۔ جس طرح آنکھ کی پتلی ایک ساتھ دو چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتی ،بلکہ جب وہ کسی ایک چیز کی طرف نظر جمائے تو اسی حالت میں کسی دوسری چیز کی طرف نظر نہیں جما سکتی ، اسی طرح جب انسان اپنی بصیرت کی پتلی کو کسی عقلی وذہنی چیز پر جمالے تواسی حالت میں ، کسی اور دوسری ذہنی چیزپرپتلی کو جمانادشوار ہوتاہے۔بناء بریں ،عقل، جس قدرمختلف معقولات کی طرف توجہ دینے میں مشغول ہوگی، ان معقولات ،و ادراکات کے احاطہ سے محروم ہوگی۔ اسی لحاظ سے ایک سالک الی اللہ کے لیے ابتداء امر میں ضروری ہوتاہے کہ وہ دلائل پر خوب توجہ دے،اور جب اس کا دل ، معرفتِ الٰہی کے نور سے منور ہوجائے تو اب ان دلائل میں اس کا اشتغال ،دل کے معرفتِ الٰہی میں استغراق سے حجاب کے مانند ہوجائے گا، تو ایک سالک ابتداء امر میں ، تکثیر دلائل کا طالب تھا ؛لیکن جب اس کے دل میں یہ نور آگیا تووہ تقلیل دلائل کا طالب ہوگیا۔یہاں تک کہ جب غیر اللہ کے ساتھ دل کے اشتغال کی وجہ سے جو ظلمت و تاریکی پیدا ہوئی تھی،وہ دور ہوگئی ، تو اس کے اندر معرفتِ الٰہی کی تجلی مکمل ہوگئی ۔اس آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

فاخلع نعلیک انک بالوادی المقدس طوی (طہ/۱۲)

”سو اتار ڈال اپنی جوتیاں ،توہے پاک میدان طوی میں “۔

”نعلین“ سے مراد وہ دو مقدمات ہیں ، جن کے ذریعہ عقل ،معرفتِ الٰہی تک پہنچتی ہے،اور جب وہ معرفتِ الٰہی تک پہنچ گئی تواس کو اتار دینے کا حکم آیا ۔اور اس سے کہا گیا کہ تم وحدانیت کی مقدس وادی میں قدم رکھنا چاہتے ہو،تو دلائل کے ساتھ اشتغال چھوڑ دو۔

 یہ قاعدہ سمجھ لینے کے بعد اب اصل مقصد پر آتے ہیں ۔سورہ بقرہ میں آٹھ طرح کے دلائل بیان کیے،پھر اس سورہ میں ان میں سے صرف تین قسم کے دلائل کا اعادہ کیا ،اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ایک ” عارف “ کے ” صاحبِ معرفت“ ہونے کے بعد ، ضروری ہے کہ وہ دلائل کی طرف التفات کم کرے،تاکہ مدلول کی معرفت میں استغراق اس کے لیے مکمل ہو۔ لہذا بقیہ دلائل کو نظر انداز کرکے صرف تین طرح کے دلائل کے اعادہ سے مقصود ، اسی سابقہ امر پر تنبیہ ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے ان آسمانی دلائل کو استقصاء کے ساتھ بیان کیا ، اور بقیہ پانچ ( ارضی ) دلائل کو نظر اندازفرمایا ،اس لیے کہ آسمانی دلائل،زیادہ زبردست اور سخت حیران کن ہیں،اور ان میں عجائب بھی زیادہ ہیں۔اور ان کو دیکھ کر دل ،اللہ کی عظمت اور کبریاء کی طرف زیادہ منتقل ہوتاہے۔پھرسابقہ آیت کے اختتام پر فرمایا۔

لقوم یعقلون              ” ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں“

اور اِ س آیت کے اختتام پر فرمایا:

لأولی الألباب            ”لب والوں کے لیے“

اس لیے کہ عقل کا ایک ظاہر اور ایک ”مغز “ ہوتا ہے، شروع شروع میں اسے”عقل“ کہتے ہیں ،اور حالتِ کمال میں ”لب“(مغز ) کہتے ہیں۔اس سے بھی ہمارے دعوے کو تقویت ملتی ہے۔ہمارے ذہن کی رسائی یہیں تک ہے، اللہ کے حکیمانہ کریمانہ کلام کے اسرار کو وہی بہتر جان سکتاہے۔(۱۶)

۶۔ فرمانِ باری

ربنااننا سمعنا منادیا ینادی للایمان أن آمنوا بربکم فآمنا،ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وکفرعناسیئاتنا وتوفنا مع الأبرار(آل عمران/۱۹۳)

”اے رب ہمارے !ہم نے سنا ایک پکارنے والا ، پکارتاہے :ایمان لانے کو کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر سو ہم ایمان لے آئے اے ہمارے رب!اب ہمارے گناہ بخش دے،اور ہم سے برائیاں دور کردے، اور ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ موت دے“۔

اس آیت میں چند مقامات پر بدیہیات ہیں ۔

مقام اول

مناد ی وہی کہلاتا ہے ،جو نداء دے ، پھر ”منادیا“ کے بعد ”ینادی“ کے اضافہ میں کیا حکمت ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اولا نداء کو مطلقا ذکر کیا پھر ایمان کے ساتھ مقید کرکے ذکرکیا ،اس کا مقصد،منادی کی عظمت ِ شان کو بیان کرنا ہے، اس لیے کہ ایمان کی نداء دینے والے منادی سے بڑھ کر کوئی اور منادی نہیں ہوسکتا۔اس کی نظیر ”مررت بہادیہدی للاسلام “ ( ایسا راہ بر ، جو اسلام کی راہ بری کررہا تھا)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر منادی کا لفظ مطلقا بولا جائے تو ذہن ،جنگ کے منادی یا آگ بجھانے کی خاطر نداء دینے والے، یا مصیبت کے مارے کی مدد کے لیے نداء دینے والے،یا کسی ناگہانی آفت میں تعاون کے لیے نداء دینے والے کی طرف جاتاہے۔اسی طرح ”ہادی“(راہ بر )کا اطلاق ،راستہ دکھانے والے پر ، اور فکری رہ نمائی کرنے والے پر ہوتاہے، لیکن جب اس کے بعد ” ینادی للایمان“ یا ”یہدی للاسلام“ کہہ دیا تو آپ نے منادی اور ”ہادی“ کی شان بڑھادی ، اور اس کو اونچااٹھادیا۔یہ جواب : زمخشری،رازی، ابو حیان، ابوسعود،اور شوکانی نے نقل کیا ہے۔(۱۷)

مقام دوم

مغفرت اور تکفیر ہم معنی ہیں ،پھر دونوں کو ایک ساتھ لانے میں کیا حکمت ہے ؟

اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں :

۱۔ ان دونوں سے مراد ایک ہے ،البتہ تاکید کے لیے دوبارہ ذکر کردیا گیا، اس لیے کہ دعاء میں الحاء وزاری مستحب ہے۔یہ جواب :رازی،ابوحیان ، اور ابن عاشور نے دیا ہے ۔ (۱۸)

۲۔ اول الذکر سے مراد سابقہ گناہ،اور موخر الذکر سے مراد نئے اور بعد کے گناہ ہیں۔یہ جواب رازی نے دیاہے۔(۱۹)

۳۔ مغفرت سے مراد وہ گناہ ہیں جوتوبہ سے معاف ہوجاتے ہیں،اور تکفیر سے مراد وہ گناہ ہیں،جو کسی بڑی نیکی سے ہی معاف ہوتے ہیں۔یہ جواب رازی نے دیا ہے ۔ (۲۰)

۴۔ غفران اور تکفیر مادہ اشتقاق کے لحاظ سے قریب قریب ہیں،البتہ غفر اور غفران کا استعمال،گناہ سے معافی میں عام ہے، اور تکفیر کا استعمال گناہ کے بدلہ کوئی دوسراکام کردینے کے معنی میں ہے،گویا اس کے عوض اوربدلہ نے اس گناہ کو چھپا دیا،اور اسی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کے عوض کو کفارہ ،اور قسم توڑنے کے عوض کو کفارہ کہتے ہیں۔ یہاں پر ذنوب“ سے مراد وہ گناہ ہیں جو ان کی ذات تک محدود ہیں،اسی لیے انہوں نے ان کی مغفرت کی درخواست کی اور”سیئات “ سے مراد وہ گناہ ہیں، جن میں دوسروں کا حق ہے، اسی لیے انہوں نے ان کی تکفیر کی درخواست کی ۔یہ جواب : ابن عاشور، ابو حیان، اور آلوسی نے دیا ہے۔ (۲۱)

مقام سوم

”ذنوب “ اور ” سیئات“ایک ہے، پھر اس تکرار کا کیا فائدہ ہے؟

اس کے کئی فائدے بیان کئے گئے ہیں:

ا۔”ذنوب “ سے مراد گناہِ کبیرہ اور ” سیئات“سے مراد گناہِ صغیرہ ہیں، اس کی تائید اس فرمان ِ باری سے ہوتی ہے:

ان تجتنبوا کبائرماتنہون عنہ نکفرعنکم سیئاتکم وندخلکم مدخلا کریما (نساء/۳۱)

”جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتاہے،ان میں جو بھاری بھاری کام ہیں، اگر تم ان سے بچتے رہوتوہم تمھاری خفیف برائیاں تم سے دور کردیں گے ،اور ہم تم کو ایک معززجگہ میں داخل کردیں گے“۔

یہ تفسیر حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے مروی ہے،اس کی تائید میں انہوں نے یہ دلیل دی کہ اس میں لغو ی مناسبت ہے،کیوں کہ ”ذنوب“،”ذنب“ بمعنی دم سے ماخوذہے،لہذا س کا استعمال ایسی چیز کے لیے ہوا جس کاانجام براہو،اور وہ گناہ ِ کبیرہ ہے، کیوں کہ اس کے نتیجہ میں بڑا گناہ ہے۔اور اسی وجہ سے اس کو ”تبعة“ (انجام )کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے سزا ہوتی ہے، راغب نے اس کی تصریح کی ہے۔جب کہ” سیئات“ ،کا ماخذ ،”سوء“ ہے، جس کے معنی قبیح چیز ہے، اسی وجہ سے یہ ”حسنة “ کے مقابلہ میںآ تاہے، لہٰذا یہ اول الذکر کے بہ نسبت اخف ہے۔ یہ فائدہ زمخشری ، ابوحیان ، ابو سعود،اور آلوسی نے بیان کیا ہے ۔ (۲۲)

۲۔ اول الذکر سے مراد وہ گناہ ہیں ، جن کو انسان معصیت اور گناہ سمجھ کر کرتاہے، اور موخرالذکرسے مراد وہ گناہ ہیں،جن کے ارتکاب کے وقت آدمی ، ان کو گناہ اور معصیت نہیں سمجھتا۔یہ جواب بھی رازی نے دیا ہے۔(۲۳)

۳۔ذنوب سے مراد سابقہ معاصی ،اور سیئات سے مراد بعد کے گناہ ہیں۔یہ فائدہ آلوسی نے بیان کیا ہے۔(۲۴)

۴۔ ذنوب سے مراد: نیک کام نہ کرنا، اور سیئات سے مراد،برائی کرنا۔یہ فائد ہ ابو حیان نے لکھا ہے۔ (۲۵)

۵۔ذنوب اور سیئات ہم معنی ہیں،تاکید اور مبالغہ کے لیے مکرر ذکر کردیا گیا،تاکہ دعاء میں الحاء و زاری ہو،اس لیے کہ حدیث میں ہے۔

ان اللہ یحب الملحین فی الدعاء(۲۶)

”دعاء میں الحاء وزاری کرنے والوں کو ،اللہ تعالی پسند کرتاہے“۔

یہ فائدہ ابو حیان نے لکھا ہے۔(۲۷)

۷۔فرمانِ باری

ربناوآتنا ما وعدتنا علی رسلک ولا تخزنا یوم القیامة،انک لاتخلف المیعاد (آل عمران/۱۹۴)

”اے ہمارے رب! دے ہم کو جو وعدہ کیا تونے ہم سے، رسولوں کے واسطے سے اور رسوا نہ کر ہم کو قیامت کے دن ، بے شک تو وعدہ خلاف نہیں کرتا۔

اس آیت میں دو مقام پر بدیہیات ہیں:

مقام اول

یہ بدیہی ہے کہ اللہ تعالی کے یہاں وعدہ خلافی محال ہے،پھر جو چیز لامحالہ ہونے والی ہے،دعاء کے ذریعہ اس کو مانگنے میں کیا حکمت ہے؟

اس اشکال کے کئی جواب دیے گئے ہیں:

۱۔ دعاء کامقصد اس کو انجام دینے کی درخواست کرنا نہیں،بلکہ اس کا مقصد،خشوع ،خضوع اورذلت و عبودیت کا اظہار ہے،ہمیں ایسی چیزوں کی دعاء مانگنے کا حکم دیا گیا ہے ، جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ لامحالہ واقع ہوں گی،جیسے قل رب احکم بالحق(انبیاء/۱۱۲) ”پیغمبر نے کہا: اے میرے رب! فیصلہ کردیجیے حق کے موافق“۔

نیز

فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک (غافر/ ۷)

”سوان لوگوں کو بخش دیجئے ،جنہوں نے توبہ کی،اور آپ کے رستہ پر چلے“۔

یہ جواب: رازی،ابوحیان، ابوسعود، آلوسی،اور ابن عاشور نے بیان کیا ہے۔ (۲۸)

۲۔وعدئہ الٰہی ، امت کے کسی معین فرد کو شامل نہیں،بلکہ ان کے اوصاف کے لحاظ سے ان کو شامل ہے،اس لیے کہ اللہ تعالی نے متقیوں کے لیے ثواب کا وعدہ کیا اور فاسقوں کو سزادینے کا وعدہ فرمایاہے،اب ”وآتنا ما وعدتنا“ کا معنی یہ ہے کہ خدایا !ہمیں ایسے اعمال کی توفیق دے،جن کو انجام دے کر ہم تیرے وعدے کے اہل و مستحق بن جائیں ، اور ہمیں ایسے اعمال سے دور رکھ ،جن کی نحوست سے ہم ،سزااور رسوائی کے مستحق ٹھہریں۔اس توجیہ کی صورت میں آیت کا مقصد ،نیکی کی توفیق اور معصیت سے حفاظت کی درخواست کرنا ہے ۔ یہ جواب: زمخشری، رازی، ابوحیان، ابوسعود، آلوسی،اور ابن عاشور نے بیان کیا ہے۔ (۲۹)

۳۔ اللہ تعالی نے اہل ِ ایمان سے وعدہ فرمایا کہ دنیا میں ان کی نصرت کرے گا، اور ان کے دشمنوں کو مغلوب کرے گا،اس دعاء کے ذریعہ وہ اس وعدہ کو جلد پورا کرنے کی درخواست کررہے ہیں۔اس توجیہ کے بعد اعتراض نہیں رہتا۔یہ جواب: طبری،رازی،اور آلوسی نے بیان کیا ہے۔(۳۰)

ابن عاشور نے یہ جواب نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کی نظیر حضرت خباب رضى الله تعالى عنه بن ارت کا یہ مقولہ ہے۔

” ہم نے رضاء ِ الٰہی کی خاطر ،رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہجرت کی،اس لیے ہمارااجر اللہ کے ذمہ ہوگیا،پھر کچھ لوگ تو وہ ہیں،جن کا پھل پک گیا اور ور اس میں سے توڑرہے ہیں،اور ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں،جواپنا صلہ حاصل کیے بغیر دنیا سے چلے ،انہی لوگوں میں سے حضرت مصعب بن عمیر رضى الله تعالى عنه ہیں،غزوہ احد میں ان کی شہادت ہوگئی تو ہمارے پاس اتناکپڑا بھی میسر نہ تھا،جس میں ان کو کفن دے سکیں۔(۳۱)

۴۔ ابوحیان لکھتے ہیں کہ قرافی نے فرق (۲۷۳)میں لکھا ہے:

”انہوں نے اس کی درخواست اس لیے کی کہ اس کا حصول ایمان پر وفات کے ساتھ مشروط ہے،اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے کہاتھا: وتوفنا مع الابرار“۔

لیکن اس جواب کی بنیاد پر ،وعدئہ خداوندی کو ،آخرت کے ثواب میں منحصر کرناہوگا۔ اور چوں کہ آخرت کے دن ،رسوائی نہایت سخت ہوگی ،اس لیے انہوں نے اس سے نجات کی درخواست دوبارہ کی ۔ (۳۲)

۵۔ انہوں نے اس کی درخواست اس لیے کی کہ اس کا حصول،ان اعمال کی قبولیت کی نشانی ہے،جن پر اللہ کا وعدہ قائم ہے۔کیوں کہ وہ ایسے اعمال تو کرتے ہیں ،جن سے اس درجہ تک پہنچ سکتے ہیں،لیکن یہ کھٹکا لگارہتاہے کہ نیک اعمال کے ساتھ ایسے اعمال بھی ہوگئے ہیں ،جو اس کو ضائع کردیں۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ ( وآتنا ما وعدتنا) میں” فاء“کے بجائے،”واو“کا استعمال کیا، کیوں کہ انہوں نے اس کو ایک مستقل دعاء بنائی، تاکہ اس کے پورا ہونے پر اس کے اسباب بھی پورے ہوں،اور اس کو انہوں،کسی ایسے فعل کا نتیجہ قرار نہیں دیا،جو قطعی الحصول ہو،اس توجیہ کی صحت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا

فاستجاب لہم ربہم انی لا اضیع عمل عامل منکم (آل عمران/۱۹۵)

”پھر قبو ل کی ان کی دعاء ان کے رب نے، کہ میں ضائع نہیں کرتامحنت کسی محنت کرنے والے کی“۔

حالاں کہ انہوں نے یہاں پر ، اپنے اعمال کے ضائع نہ کرنے کی درخواست نہیں کی۔یہ جواب ابوحیان نے لکھا ہے۔ (۳۳)

مقام دوم

یہ بدیہی بات ہے کہ جب ثواب مل جائے گا تو عقاب و سزا لازمی طور پر ٹل جائے گی۔ (ربناوآتنا ما وعدتنا علی رسلک ) میں ثواب کا مطالبہ تھا،اس کے بعد (ولا تخزنا یوم القیامة) میں ترک عقاب کے مطالبہ کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، ہاں اگر پہلے ترک عقاب کا مطالبہ ہوتا پھر ثواب کا، تو بات درست تھی؟

اس کی کئی توجیہات کی گئی ہیں :

۱۔ ثواب کی شرط یہ ہے کہ وہ ایسا نفع ہو جس میں تعظیم و سرور ساتھ ساتھ ہو،(ربناوآتنا )سے مراد منافع ہیں ،اور (ولا تخزنا) سے مرادتعظیم ہے۔یہ جواب رازی اور آلوسی نے لکھا ہے ۔ (۳۴)

۲۔اس آیت کا مقصد، نیکی کی توفیق ، اور معصیت سے بچنے کی درخواست ہے،اس لحاظ سے یہ عبارت مناسب ہے، گویا یوں کہا گیا کہ ہمیں نیکیوں کی توفیق دے، اور جب آپ نے ہمیں اس کی توفیق دے دی توہمیں ہر ایسے عمل سے بچاجو اس کو اکارت اور ضائع کردے،اور ہمیں رسوائی اور ہلاکت میں ڈال دے۔ حاصل یہ ہے کہ گویا یوں کہا گیا کہ ہمیں اپنی فرماں برداری کی توفیق دے، اس لیے کہ تیری توفیق کے بغیر ہم کوئی نیکی نہیں کرسکتے،اور جب آپ نے ہمیں اس کی توفیق دے دی تو ہمیں یہ بھی توفیق دے کہ ہم اس کو قائم اور دائم رکھیں ، اس لیے کہ تیری توفیق کے بغیر ہم اس کو قائم اور باقی نہیں رکھ سکتے۔ا س میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ کوئی عمل ، کوئی فعل ،کوئی حرکت و سکون ، اللہ کی اعانت اور توفیق کے بغیر نہیں کرسکتا۔یہ جواب رازی نے لکھا ہے۔(۳۵)

۳۔ انہوں نے اولا ثواب کا مطالبہ کیا کہ اس سے عذاب جسمانی ٹل جاتاہے۔پھر روحانی عذاب کے ٹالنے کا مطالبہ کیا اس لیے کہ ”خزی“ سے مراد اہانت انگیزی اور شرمندہ کرنا ہے۔اور اس کلام میں ادنی سے اعلی کی طرف ترقی کرنا ہے،گویا انہوں نے یوں کہا کہ پروردگار!ہم سے جسمانی عذاب ہٹادے، اور وہ روحانی عذاب بھی ہٹادے، جو اس جسمانی عذاب سے سخت اور بھیانک ہے۔یہ جواب آلوسی نے لکھا ہے۔ (۳۶)

۴۔اول اس سے مراد،دنیا میں نصرت کی دعاء کرنا ہے،اور اس صورت میں ،صرف ایک کا ذکرنا کافی ہونا ظاہر ہے، دونوں کا تذکر ہ ضروری ہے،بلکہ دونوں طرح کی دعائیں کرنے میں ایک لطیف اشارہ ہے،اس لیے کہ پہلی دعاء کا حاصل یہ ہے کہ ہم پر دشمن کو غلبہ دے کر ،ہمیں دنیا میں رسوا نہ کر،گویا انہوں نے یہ دعاء مانگی کہ خدایا !ہمیں دنیا میں رسواکر ، نہ آخرت میں ۔البتہ اس کی تعبیر الگ الگ انداز سے کی،اور چوں کہ دونوں مقاصد الگ الگ تھے ، اس لیے ہر ایک کے لیے علاحدہ اسلوب اختیار کیا ۔یہ جواب آلوسی نے لکھا ہے ۔ (۳۷)

 اختتام سورہ آل عمران

 آغاز سورہ نساء

۱۔ فرمان باری

یاایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منہا زوجہا و بث منہما رجالا کثیرا ونساء ،واتقوا اللّٰہ الذی تساء لون بہ والأرحام ، ان اللّٰہ کان علیکم رقیبا (نساء/۱)

”اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے ، جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے ، او راسی نے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطہ سے سوال کرتے ہو، آپس میں، خبر دار رہو قرابت والوں سے ،بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے“۔

اس آیت میں چند مقام پر بدیہیات ہیں

مقام اول

اس آیت میں پہلے فرمایا (اتقوا ربکم ) اس کے بعد پھر فرمایا (واتقوا اللہ ) ،اس تکرار کا کیافائدہ ہے؟

اس تکرار کے کئی فائدے بیان کیے گئے ہیں:

۱۔اس میں امر سابق کی تاکید اور اس پر ابھارنا ہے،جیسے آپ کہتے ہیں : اعجل ، اعجل ( جلدی کرو، جلدی کرو) اوراس میں صرف ایک بار : اعجل ( جلدی کرو) کہنے سے زیادہ مبالغہ رکھتاہے۔ یہ فائدہ رازی،ابو حیان، قرطبی، اور آلوسی نے بیان کیا ہے۔ (۳۸)

۲۔ تقوے کا پہلا حکم اس لیے دیا کہ وہاں تخلیق وغیرہ کا انعام مذکورہے،اور دوبارہ تقوے کا حکم اس لیے دیا کہ لوگ جب ایک دوسرے سے کوئی سوال کرتے ہیں تو اللہ کا ہی حوالہ دے کر مانگتے ہیں۔یہ فائدہ رازی اور ابو حیان نے بیان کیا ہے۔(۳۹)

یہی فائدہ ابوسعود بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

 ” (واتقوا اللّٰہ الذی تساء لون بہ) میں تقوے کا حکم دوبارہ آیا ہے، اور اس میں اللہ تعالی کی فرماں برداری کے تقاضوں میں سے ایک اور تقاضے کو یا د دلایا گیا ہے،اس لیے کہ لوگ جب اللہ کے حوالے سے ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے واسطے میں یہ چاہتا ہوں ،تو ا س کا تقاضا ہے کہ اللہ کے اوامر و نواہی کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، اور اس میں ضمیر کے بجائے ،صراحتاً لفظ ” اللہ “کے ساتھ تقوے کو متعلق کرنے میں ، اللہ کی اطاعت پر آمادہ کرنے کی مزید تاکید و مبالغہ ہے، اور ا س سے اللہ کی ہیبت و رعب و دبدبہ قائم ہونے کی تربیت دینا مقصود ہے، نیز اس لیے بھی کہ ایک دوسرے سے سوال کرنے میں لوگ لفظ” اللہ “کا سہارا لیتے ہیں ،اللہ تعالی کے کسی دوسرے اسم یا صفت کا ذکر نہیں کرنے ۔ “(۴۰)

۳۔ آیت میں پہلے فرمایا (اتقوا ربکم ) اس کے بعد (واتقوا اللہ ) فرمایا۔لفظ ” رب “ سے تربیت اور احسان کا معنی نکلتاہے، اور لفظ” اللہ“ قہر و ہیبت پر دلالت کرتا ہے،اس لیے پہلے ترغیب کے طور پر تقوی کا حکم دیا پھر ترہیب کے طور پر تقوی کاحکم دیا۔جیسا کہ اس فرمان باری میں ہے

یدعون ربہم خوفا وطمعا(سجدہ/۱۶)

” اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں “۔

نیز فرمایا:

یدعوننا رغبا ورہبا(ابنیاء/۹۰)

”امید و بیم کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے“۔

گویا یوں کہا گیا کہ اس ذات نے تمہاری تربیت فرمائی ،لہٰذا اس کی خلاف ورزی سے ڈرو، اس لیے کہ وہ سخت عذا ب والا، اور زبر دست سطوت والاہے۔یہ فائدہ امام رازی نے بیان کیا ہے۔(۴۱)

۴۔ فعل ’اتقوا“ دوبارہ اس لیے ذکر کیا گیا کہ اس تقوے کاحکم صرف مسلمانوں کو ہے، کیوں کہ ان کے اندر غیر شعوری طور پر جاہلیت کی بعض عادات ( مثلا رشتہ داروں اور یتیموں کے حقوق میں تساہل )باقی رہ گئی تھیں۔یہ فائدہ ابن عاشور نے بیان کیا ہے۔ (۴۲)

مقام دوم

یہاں پر ”خلق “ فعل دوبار ذکر کیا گیا، حالاں کہ دوسرے فعل کے مفعول کا ، پہلے فعل کے مفعول پر عطف ہوسکتا تھا، اور اس طرح تکرارسے بچاجاسکتاہے،پھر اس میں کیا حکمت ہے ؟

ابو سعوداس کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:

” دوسرے فعل کے مفعول ،کا پہلے فعل کے مفعول پر عطف ممکن تھا،جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے

یاایہا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم ․․(بقرہ/۲۱ )

”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت اختیار کرو،جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی ،جو تم سے پہلے گزر چکے “۔

اس کے باوجود ، فعل کو دوبارہ لانے کا مقصد ، دونوں تخلیقوں میں جو فرق ہے ، اس کو بیان کرنا ہے۔اس لیے کہ پہلی تخلیق ، اصل سے تفریع کے طور پر ہے،اور دوسری تخلیق ، بذاتِ خود مادہ سے وجود میں لانے کے طورپر ہے،کیوں کہ اللہ تعالی نے حضرت حواء کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا فرمایا۔(۴۳)

***

حواشی

(۱)           رازی ۴/۴۷۳۔

(۲)           رازی ۴/۴۷۳۔

(۳)          رازی ۴/۳۷۴،ابو سعود ۲/۱۵، آلوسی ۴/۱۲۳،شوکانی تفسیرآیت؛ ابو حیان تفسیرآیت۔

(۴)          زمخشری تفسیرِآیت۔

(۵)          ابن عطیہ ۲/۴۴؛ ابوسعود ۲/۱۵؛ آلوسی ۴/۱۲۳،شوکانی تفسیرآیت؛ ابو حیان تفسیرآیت۔

(۶)           آلوسی۴/۱۲۳۔

(۷)          زمخشری تفسر آیت۔

(۸)          زمخشری تفسیرِآیت ،ابو حیان تفسیرِآیت ، ابوسعود۲/۱۲۰ ، آلوسی ۴/۱۳۴؛ شوکانی تفسیرِآیت ۔

(۹)           رازی ۴/۴۸۳۔

(۱۰)         زمخشری تفسیرِآیت ،ابو حیان تفسیرِآیت ، ابوسعود۲/۱۲۰ ، آلوسی ۴/۱۳۴؛ شوکانی تفسیرِآیت ۔

(۱۱)          زمخشری تفسیرِآیت ۔

(۱۲)         ابوسعود۲/۱۲۰ ، آلوسی ۴/۱۳۴۔

(۱۳)         آلوسی ۴/۱۳۴۔

(۱۴)         راز ی۵/۵، ابو سعود۲/۱۲۶، آلوسی۴/۱۴۹۔

(۱۵)         ابو سعود۲/۱۲۶، آلوسی۴/۱۴۹۔

(۱۶)         رازی۵/۹۔

(۱۷)         زمخشری تفسیرِآیت،رازی۵/۱۹، ابو حیان تفسیرآیت، ابو سعود۲/۱۳۴، شوکانی تفسیرِآیت۔

(۱۸)         رازی۵/۱۹، ابو حیان تفسیرآیت؛ ابن عاشور تفسیرآیت۔

(۱۹)          رازی۵/۱۹۔

(۲۰)         رازی۵/۱۹۔

(۲۱)         ابن عاشور۳/۳۰۵؛؛ابوحیان۳/۴۹۵؛ آلوسی ۴/۱۶۶۔

(۲۲)         زمخشری تفسیرِآیت، ابوحیان تفسیرِآیت، ابو سعود۲/۱۳۴،اور آلوسی۴/۱۶۶۔

ّ(۲۳)        رازی۵/۱۹؛ آلوسی ۴/۱۶۶۔

(۲۴)        آلوسی ۴/۱۶۶۔

(۲۵)        ابو حیان۳/۴۹۵۔

(۲۶)         شعب الایما ن از بیہقی ۳/۱۶۷(۱۱۲۰) بروایت حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها میں روایت کے الفاظ یہ ہیں :ان  اللّٰہ لیحب الملحین فی الدعاء۔

(۲۷)        ابو حیان۳/۴۹۵۔

(۲۸)        رازی ۵/۲۲،ابوحیان تفسیرِ آیت، ابوسعود۲/۱۳۵، آلوسی۴/۱۷۶، ابن عاشورتفسیرِآیت۔

(۲۹)         زمخشری تفسیر آیت؛رازی ۵/۲۲،ابوحیان تفسیرِ آیت، ابوسعود ۲/۱۳۵ ، آلوسی ۴/۱۷۶ ، ابن عاشورتفسیرِآیت۔

(۳۰)        طبری۴/۱۴۲،رازی۹/۴۶۹، آلوسی ۴/۱۷۶۔

(۳۱)         ابن عاشور ۳/۳۰۷۔

(۳۲)        ابوحیان تفسیرِ آیت۔

(۳۳)        ابوحیان تفسیرِ آیت۔

(۳۴)        رازی ۹/۴۶۸ ؛ آلوسی۴/۱۶۶۔

(۳۵)        رازی۹/۴۶۸۔

(۳۶)        آلوسی ۴/۱۶۶۔

(۳۷)        آلوسی ۴/۱۶۶۔

(۳۸)        رازی تفسیرِ آیت،ابو حیان تفسیرِ آیت، قرطبی۵/۱۳۹، آلوسی۳/۱۸۵۔

(۳۹)         رازی تفسیرِ آیت،ابو حیان تفسیرِ آیت۔

(۴۰)        ابوسعود ۲/۱۳۹۔

(۴۱)         رازی تفسیرآیت۔

(۴۲)        ابن عاشور ۳/۳۱۔

(۴۳)        ابوسعود۲/۱۳۹۔

***

________________________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 93 ذیقعدہ 1430 ھ مطابق نومبر 2009ء