قرآن مجید

طریقہٴ تعلیم کی تبدیلی انقلاب لاسکتی ہے

از: (مفتی) فضیل الرحمن ہلال عثمانی ، دارالسلام اسلامی مرکز، مالیرکوٹلہ (پنجاب)

 

قرآن مجید کی تعلیم کا روایتی طریقہ جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں یہ چلا آرہا ہے کہ پہلے حروف کی پہچان کرائی جاتی ہے، پھر حروف کو ملا کر الفاظ بتائے جاتے ہیں اور ابتدائی قاعدے کے بعد بچہ قرآن مجید پڑھنے لگتا ہے۔ پہلے قرآن مجید ناظرہ پڑھایا جاتا ہے کہ بچہ دیکھ کر قرآن پاک پڑھنے لگے۔ اگر کسی کو حافظ قرآن بنانا ہوتا ہے تو تھوڑا تھوڑا کرکے اس کو بغیر دیکھے یاد کرایا جاتا ہے اور چند سالوں میں بچہ حافظ قرآن ہوجاتا ہے۔

یہ قرآن مجیدکا اعجاز ہے کہ اس طرح قرآن لوحِ دل پر نقش ہوجاتا ہے اور ہزاروں حافظ قرآن بغیر دیکھے ہوئے پورا قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز میں سناتے ہیں، تراویح کی رونقیں اُنہیں خوش نصیب حافظوں کے دم سے قائم ہیں۔

ناظرہ یعنی دیکھ کر قرآن مجید پڑھنے والے الحمدللہ اِس امت میں ہزاروں ہزار کی تعداد میں ہیں، بے شمار لوگ ہیں جو روزانہ تلاوت قرآن کے عادی ہیں،جو روزانہ تلاوت نہیں کرسکتے وہ کبھی کبھی قرآن ضرور پڑھتے ہیں۔

نمازوں میں قرآن مجید پڑھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو قرآن مجید کی اتنی سورتیں ضرور یاد ہوتی ہیں جو نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔

مسجدوں اور مدرسوں میں ہزاروں مکاتب قرآن حکیم کی خدمت پر لگے ہوئے ہیں اور الحمدللہ امت مسلمہ میں آج بھی قرآن کا چرچا مختلف صورتوں میں پایاجاتا ہے۔

دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید ہے۔ اور بڑی تعداد میں قرآن مجید شائع ہوتا رہتا ہے، اس میں قرآن مجید بلاترجمہ، ترجمہ کے ساتھ، مختلف تفسیروں کے ساتھ، مختلف سائز میں اور تقریباً ہرزبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور اس کی تفسیر الحمدللہ دستیاب ہے۔

یہ سب باتیں شکر اور فخر کے لائق ہیں اور جب تک قرآن زندہ ہے اسلام بھی زندہ ہے اور مسلمان بھی۔

***

اب ہم ایک اور پہلو سے غور کرتے ہیں، بیشک قرآن مجید کی تلاوت بڑا اجر وثواب رکھتی ہے، اس کے ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت دلوں کا زنگ دور کرتی ہے اور ایمان کو تازگی بخشتی ہے۔ تلاوت قرآن کے یہ بہت سے مفید پہلو ہیں۔

آئیے! غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کیوں نازل کیاہے۔ اس کے نازل کرنے کا مقصد خود قرآن کی زبان میں انسان کی ہدایت اور رہنمائی ہے۔ جب ہم قرآن مجید کی پہلی سورة سورئہ فاتحہ کھولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تعریف اس کی شفقت ورحمت کا ذکر کرنے کے بعد ہم اس کے سامنے درخواست پیش کرتے ہیں کہ:

اِہْدِنَا الْصِّرَاْطَ الْمُسْتَقِیْم

”پروردگار ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجئے“۔

سیدھے راستے کی طلب، ہدایت و رہنمائی کی درخواست جب بندے کی طرف سے ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی درخواست کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے اس کے سامنے کتابِ ہدایت قرآن مجید رکھ دیتے ہیں کہ لو یہ ہے وہ ہدایت جس کی تم نے درخواست کی ہے۔

معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا اصل مقصد یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اور حالات کی ہر کروٹ میں ہم اللہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتے رہیں اور اس کی رہبری میں زندگی کا سفر طے کرتے رہیں۔

اللہ کے رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ہمیں یہ وصیت فرمائی کہ تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں، جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دو چیزیں ہیں اللہ کی کتاب اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔

جس کتاب سے ہمیں رہبری حاصل کرنی ہے اس کتاب میں کیا لکھا ہے،اس کا پیغام کیاہے، اس کی دعوت کیاہے اور اس میں کیا کیا کمالات پوشیدہ ہیں، کیا اس کا معلوم ہونا ہمارے لئے ضروری نہیں․․․․؟

***

ایک بالکل اجنبی زبان جس سے ہمارا تہذیبی تعلق نہیں ہے مثال کے طور پر انگریزی زبان، جب اس زبان کی تعلیم دی جاتی ہے تو اس کا آغاز چھوٹے سے قاعدے سے ہوتا ہے جس کو A.B.C.D کا قاعدہ کہہ دیتے ہیں۔ حرفوں کی پہچان بھی کرائی جاتی ہے․․․ ان حرفوں سے لفظ بھی بنائے جاتے ہیں․․․ ان لفظوں کے معنی بھی بتائے جاتے ہیں․․․ ان کے ہجے بھی کرائے جاتے ہیں․․․ ان کا تلفظ بھی صحیح کرایا جاتا ہے․․․ اور ان حرفوں کو لکھایا بھی جاتا ہے۔

یہی طریقہ ہر زبان کے سیکھنے اور سکھانے کا ہوتا ہے۔

کیا قرآن مجید کی زبان اور قرآن مجید کی تعلیم اسی طرز پر ممکن نہیں․․․؟

اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بچہ نفسیاتی طورپر یہ محسوس کرے گا کہ یہ کتاب صرف پڑھنے ہی کی نہیں بلکہ سمجھنے کی بھی ہے۔

کم سے کم وہ قرآن پاک کے الفاظ کے ساتھ اس کے معنی سے بھی مانوس ہوجائے گا اور اگر مکتب کا پورا ماحول اسی انداز کا بنادیا جائے تو چند سال میں ہمارا بچہ قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو اچھا خاصا سمجھنے بھی لگے گا۔ بیشک وہ ابھی کوئی بہت بڑا مفسر قرآن نہیں بن پائے گا، اس کے لئے ایک وقت چاہئے، لیکن اس سے قرآن کو سمجھنے کا ذوق اور پھر بڑے ہوکر اس کے مطالعے کا شوق یقینا پیدا ہوجائے گا۔

ہمیں یقین ہے کہ طریقہٴ تعلیم کی تبدیلی سے ایک ذہنی اور فکری انقلاب لایا جاسکتا ہے اور اس سوچ کو بدلا جاسکتا ہے کہ قرآن صرف تلاوت کے لئے ہے اس کا سمجھنا ضروری نہیں۔

بیشک ہمارے مدارس ومکاتب میں قرآن مجید کے تلفظ پر کافی توجہ دی جانے لگی ہے اور اب شروع سے ہی بچوں کو باتجوید پڑھانے کا رواج کافی حد تک ہوگیاہے، اگر اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے معنی اور اس کے ساتھ تحریر پر بھی دھیان دیا جائے تو بڑا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

***

___________________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 93 ذیقعدہ 1430 ھ مطابق نومبر 2009ء