درویشی بھی عیاری، سلطانی بھی عیاری

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی ، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

جسٹس محترمہ گیتا متّل کے پابندی سے متعلق فیصلہ کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں ہوئے بم دھماکوں کے بعد طرح طرح کی قیاس آرائیاں میڈیا کی مرغوب غذا بن گئی ہے۔ ایک نسبتاً نیا پہلو زیر بحث لایاگیا ہے وہ مسلم غیرسرکاری اداروں کو ملنے والی مالی امداد کا ہے۔ بھارت سرکار کے اعداد وشمار کی روشنی میں اپنے اپنے انداز سے رنگ بھرے گئے ہیں۔ آغاز میں اس موضوع پر جاری کئے گئے اعداد وشمار اور سرکاری نقطئہ نظر پیش کرکے پھر اُس پر تنقیدی نظر ڈالی جائیگی۔ مختلف اخباروں میں الگ الگ انداز سے مسئلہ پر خیال آرائی کی گئی ہے۔ ہندی راشٹریہ سہارا کی سرخی سے ہی آپ مضمون کی زہرناکی کااندازہ لگاسکتے ہیں ”آتنک کی پونجی کی کنجی کہاں ہے؟ ہاتھ پاؤں مارتے خفیہ ایجنسیاں ہلکان“ ۲۲/ستمبر ۲۰۰۸/۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ۲۰۰۵-۲۰۰۴/ میں ۱۷۱۴۵ غیرسرکاری ادارہ کام کررہے تھے۔ جنھیں ۵۱۰۵ کروڑ روپیہ بیرونی ممالک سے وصول ہوئے تھے۔ یہ رقم ۱۹۹۲/ میں ۹ سو کروڑ روپیہ تھی۔ ملک میں ہر سال ۱۰ کروڑ روپیہ کی مدد حاصل کرنے والے ۵۹ غیرسرکاری ادارہ N.S.O ہیں۔ ان میں ایک بھی مسلمان ادارہ نہیں٪۸۰ عیسائی ہیں اور باقی ہندو ادارہ ہیں۔ ہندوستان میں ۱۵۲ ممالک پیسہ بھیج رہے ہیں جس میں صرف امریکہ کا حصہ ٪۳۴ یعنی ۱۶-ارب ۷۹ کروڑ روپیہ ہے۔ اٹلی ۳- ارب چار کروڑ، انگلینڈ ۶- ارب ۷۹ کروڑ روپیہ، ہالینڈ ۲-ارب ۳۷ کروڑ سالانہ بھیجے۔ سب سے زیادہ پیسہ دہلی، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر کو آرہا ہے۔ وزارت داخلہ اور محکمہ خزانہ یہ دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلم N.S.Oاور مدرسوں کو رقم کہاں سے مل رہی ہے؟ جواب ہے حوالہ کے ذریعہ۔ خبر پڑھتے ہی اقبال علیہ الرحمہ کا شعر ذہن میں آتا ہے کہ۔

’خدایا تیرے یہ سادہ دل بندہ کدھر جائیں             کہ درویشی بھی عیاری اور سلطانی بھی عیاری“

پیسہ آئے تو بُرے نہ آئے تو بھی برے۔ ہندوستان میں بڑے مدارس کی صف میں سب سے بڑا ادارہ غالباً دارالعلوم دیوبند ہے جس کا ۲۰۰۸/ کا سالانہ بجٹ محض ۱۱-کروڑ ۴۰ لاکھ کا ہے ایک دوسرا بڑا ادارہ جامعة الفلاح اعظم گڑھ ہے جہاں ۴۵۰۰ طلباء طالبات پڑھتے اور رہتے ہیں اس کی اپنی بسیں ہیں جس کا سالانہ خرچہ ۱۶ کروڑ روپیہ ہے۔ بقیہ مدارس ان سے چھوٹے ہی ہیں اب جب ان سب سے بڑے مدارس کا کل بجٹ اتنے کا ہی ہے جتنا کم سے کم مدد لانے والوں کا حساب رکھا گیا ہے یعنی ۱۰ کروڑ سے اوپر پیسہ لانے والے اداروں کا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ

۱- بیشتر مسلم ادارہ اتنے بڑے ہیں ہی نہیں کہ ان کا خرچ پچاسوں کروڑوں میں ہو۔

۲- یہ ادارہ اپنا تمام بجٹ ملکی ذرائع سے ہی حاصل کرلیتے ہیں۔

۳- بڑی تعداد میں مسلم اداروں کے ساتھ وقف جائیدادیں منسلک ہیں۔ صرف بقرعید میں حلال ہوئے جانوروں کی کھال ہی اربوں روپیہ کی ہوتی ہے۔

۴- ۱۹۹۰/ میں مسلم ادارہ ایکمیو کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی مسلمان سالانہ ۹-ارب روپیہ صرف زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امداد، عشر اور خمس کی شکل میں فصلوں کی زکوٰة بڑے پیمانہ پر ادا کی جاتی ہے۔

۵- ہر مسلمان پر عید کی نماز سے پہلے صدقة الفطر ادا کرنا ہے۔ ہندوستان میں مسلمان اگر پندرہ کروڑ بھی ہیں تو بھی تو صرف صدقة الفطر کی رقم ہی کتنے ارب روپیہ ہوگئی۔

۶- خرچ کی مد میں دیکھیں تو مسلم اداروں کے اخراجات دیگر اداروں کے مقابلہ میں ”نہ“ کے برابر ہوتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کی تنخواہ اور سہولیات کا مقابلہ کسی بھی سینٹ فلاں اور فلاں کے اساتذہ کی تنخواہ، الاؤنس، کوٹھی، کار سے کرکے دیکھ لیں تو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ باہر کے پیسہ کی ضرورت کیوں نہیں ہوتی؟

۷- یہ بات حکومت اور میڈیا شاید جان بوجھ کر چھپانا چاہتے ہیں کہ تمام مسلم ادارہ جب قائم کئے گئے تھے تو کسی بھی مسلم حکومت کے پاس اپنے خرچ کے لئے بھی پیسہ نہیں تھا۔ دارالعلوم اور دوسرے بڑے ادارہ اور جماعتیں اس وقت قائم ہوئی تھیں جب کالاسونا یعنی پٹرول دریافت بھی نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت ہندوستان کے مسلمان خود مالدار تھے۔ ہندوستانی اصحاب خیر مکّہ اور مدینہ میں مسافر خانہ بناتے تھے اور مدرسہ چلاتے تھے۔ ہندوستان کے مسلمان حجاج کرام کی ضیافت کے لئے امداد بھیجا کرتے تھے۔ یہی حال علی گڑھ اور دیگر اداروں کے قیام کا ہے۔ پھر ہندوستانی مسلمانوں کی بڑی تعداد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ اس پر ایمان رکھتی ہے کہ اصل سرمایہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ اسی نظریہ کے تحت وہ اپنی آخرت کے لئے اپنے والدین،اساتذہ، اعزہ واقرباء کے ثواب کے لئے خود بڑی مقدار میں رقمیں اداروں میں جمع کراتے ہیں۔ جس کی انہیں باقاعدہ رسیدات دی جاتی ہیں۔ اور حسابات مکمل رکھ کر آڈٹ کرائے جاتے ہیں۔ جن اداروں میں رقومات بیرونی ممالک کے اداروں سے آتی ہیں ظاہر ہے وہ دس کروڑ سالانہ سے کم ہوتی ہوں گی۔ اگر مسلم اداروں کا خرچ اتناکم ہے کہ وہ اپنے وسائل سے اسے پورا کرلیتے ہیں تو انہیں مدد لے کر سرکاری بندشوں اور معائنوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور مسلم ادارہ خصوصاً مدارس اس معاملہ میں کتنے حساس ہیں اس کا اندازہ خود حکومت ہند کو بھی ہے کہ جب یہ ادارہ حکومت ہند اور صوبائی حکومتوں کی امداد لینے سے ہی گھبراتے ہیں تو باہر والوں کی مدد لے کر دوطرفہ معائنوں اور حسابات کے چکر میں کیوں پڑیں گے؟

ایک اور حقیقت کی طرف بھی دھیان دلانا چاہوں گا کہ تقریباً ایک عشرہ پہلے کے مشہور جین حوالہ کانڈ میں بڑے بڑے دیش بھگتوں کے نام سامنے آئے تھے۔ حالات یہ تھے کہ کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈران کے نام سے لسٹ خالی نہیں تھی اس لئے سب چھوٹ گئے مگر کیا اس حوالہ ڈائری میں مسلم اداروں کے بھی نام تھے؟ اور آج ملک سے جو اربوں کھربوں روپیہ باہر کے بینکوں میں جمع ہورہاہے کیاوہ بھی مسلم اداروں کا ہے یا ان ”دیش بھگتوں“ کا ہے جو مدرسوں کی آمدنیوں کے ذرائع کھوج رہے ہیں؟ واضح رہے کہ CBIکے سابق جوائنٹ ڈائریکٹر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کا بیرونی ممالک میں اتنا سرمایہ ہے جو ہندوستان کے ۳۵-سال کے بجٹ کے برابر ہے۔ اور یہ تو تازہ خبر ہی ہے کہ جرمنی کی حکومت نے دنیا کے تمام ممالک کے پاس اطلاع بھجوائی کہ ان کے پاس ان بینکوں میں جمع رقوم کی تفاصیل لینا ہیں جو دنیا بھر کے مشکوک لوگوں کے ذریعہ بدنام ترین سوئس بینکوں میں جمع کرائی گئی ہیں۔ مگر کسی بھی ایشیائی ملک نے تاحال حکومت جرمنی سے رجوع نہیں کیا ہاں امریکہ اور یوروپ اور لاطینی امریکی ممالک نے ضرور رجوع کیاہے۔ خبر یہ ہے کہ کچھ لوگ سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی رٹ دائر کرکے حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ ہندوستان کے لوگوں کی فہرست منگانے کے لئے سرکاری سطح پر معلومات حاصل کرائے تب سب دیش بھگتوں کا کچا چٹھا کھل جائے گا کہ اپنی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کے اجلے دامن کیوں داغدار کئے جارہے تھے۔

__________________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 93 ذیقعدہ 1430 ھ مطابق نومبر 2009ء