تنِ حرم میں چھپادی ہے روح بت خانہ

از: سہیل اختر قاسمی

 

مرکزی مدرسہ بورڈ کیا درس نظامی کو سبوتاز اور دینی مدارس کی روح کو مجروح کرنے کی قانونی راہ نہیں؟ یہی سوال قابلِ تشریح ہے، اس بورڈ کی افادیت ومضرت پر مباحثہ زائد از ضرورت ہے البتہ صرف اس کی مضرت کی تعیین اوراس کے ضرر رساں پہلو کا انشراح ہی ایک ضروری امر ہے، دراصل مرکزی مدرسہ بورڈ اس لئے برا نہیں کہ اسے علمائدین ناپسند کرتے ہیں بلکہ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ اس سے دین کے مقتضیات کی اشاعت اور اسلامی فن و تعلیم کے فروغ پر قدغن لگے گی۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے دانشوروں نے ان علماء یا قلم کاروں کا مذاق اڑایا ہے جنھوں نے اپنی تحریر یا تقریر میں اس سنجیدہ مگر پرفریب تجویز کی مخالفت کی، اس پر مستزاد انھوں نے اس مخالفت کو ترقی سے نفرت اور جدیدیت سے شرمندگی سے تعبیر کیا ہے، کچھ نے ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“ کا تلخ نقد بھی کیا ہے، علاوہ ازیں وہ قلم بریدہ حضرات جن کا ستارہ آسمانِ صحافت میں ایک زمانے سے چراغاں ہے وہ بھی اس تجویز کی موافقت میں جائز وناجائز دلائل پیش کرنے سے غافل نہیں رہے۔

دراصل وہ تمام لوگ جو بلا دلیل مخالفت کررہے ہیں یا بلادلیل موافقت کررہے ہیں سب کے سب راہِ اعتدال سے دور ہیں، دراصل وہ نتیجہ درست ہے جو حالات کے صحیح تر تجزیہ، قانونی صورتِ حال کے منصفانہ مشاہدہ، ذمہ داریوں کی انجام دہی کے تجزیہ اور باریک نکتہ دانی کے بعد سامنے آتا ہے مگر افسوس ایسے نتائج کم ہی سامنے آتے ہیں۔

مرکزی مدرسہ بورڈ کو اعلیٰ عصری تعلیم کا عنوان، علمی ارتقاء کے حصول اور تعلیم و معاشی پسماندگی کے انسداد کا ذریعہ سمجھا جارہا ہے، خصوصاً یہ رائے رکھی جارہی ہے کہ دینی مدارس میں کمپیوٹر تعلیم اور انگلش ایجوکیشن مرکزی مدرسہ بورڈ کا اصلی ہدف ہے جو کہ تعلیمی پسماندگی اور ایک زمانے سے چلے آرہے معاشی زبوں حالی کے لئے اکسیر ہے۔

حالانکہ دینی مدارس میں اس ٹائپ کی ضروری اور مختصر تعلیم جو بہتر مواد ومضامین پر مشتمل ہو، اس کی نہ کوئی صاحب رائے مخالفت کرتا ہے اور نہ اسے کوئی ذمہ دار ناکارہ بتاتا ہے؛ بلکہ اکثر مدارس انتظامیہ (Madrasa Administration) کمزور فنڈ، متعین اوقات اور محدود شیڈول کے باوجود ایک اچھے انگلش ٹیچر کو بحال کرکے مبتدیات کی تعلیم فراہم کرانے کی کوشش کرتی ہے، جو کہ غیرمرتب ہونے کے باوجود اہم اور سود مند ہوتا ہے، اس کوشش سے ابتدائی قابلیت کا حصول آسان ہوتا ہے البتہ اس فن پر ماہرانہ عبور یا اس سے مکمل ربط ضبط کا نہ ہونا پریشان کن بھی نہیں، یہ نظام بالکل ان مسلم اسکولز (Schools) کے سسٹم سے ہم آہنگ ہے جہاں بنیاد عصری علوم ہے اور لاحقہ کے طور پر اسلامیات کی مختصر تعلیم ہوتی ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ اس نظام سے ان کے اندر عصری علوم کے عناصرِ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، البتہ دینی علوم سے صرف ہلکی پھلکی ہی مناسبت ہوپاتی ہے، مقصد تحریر یہ ہے کہ دینی مدارس میں جاری نصاب تعلیم میں عصری عناصر تعلیم کی آمیزش سے مشینی طور پر انقلاب و تغیر کا جو خواب دیکھاجارہا ہے وہ خوابِ خرگوش ہے، آخر ہم یہ کیوں نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ تخصصات کے شعبہ میں ہرفن مولیٰ ہونے کی تعبیر نہ ملتی ہے اورنہ اس کا امکان ہے، دراصل ہماری قوم کے بعض پڑھے لکھے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ۲ فیصد تعداد جو کہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی مستحکم ہوں وہی طبقہ امتِ اسلامیہ کی مسیحائی کرسکتا ہے، انہی کے ہاتھ میں مسلم امت کی ترقی کے ستارے ہیں، وہی قوم کی دیوارِ پسماندگی کو ڈھاسکتا ہے اوراسی کی قوت سے امت، طاقتِ گم شدہ حاصل کرسکتی ہے، اور ظاہر ہے یہ خیال غرورِ نفس اور سراسر دھوکہ ہے،اکثریت کو نظرانداز کرکے اقلیت کی اہمیت کارآمد نہیں ہوسکتی اور نہ اس کی لیاقت کام آسکتی ہے۔

علاوہ ازیں مرکزی مدرسہ بورڈ کا سایہ، آئندہ چل کر دینی مدارس کے لئے ”آتش فساں“ بن سکتا ہے، اس میں درج قانونی تحفظات کی اوقات اوراس کے کارآمد ہونے کی حیثیت، موجودہ لاقانونیت کی شکار ہمارے عدالتی نظام، حکومتی ساخت اور سماجی اسٹرکچر کے جائزہ کے بعد معلوم ہوسکتی ہے؛ دینی مدارس کا اسے قبول کرنے سے اباء کرنے اوراس کے خلاف احتجاج کرنے کی بنیادی وجہ، دینی مدارس کے مستقبل کا خطرہ میں پڑجانا ہے، اور یہ اندیشہ حقیقت کا وہ دوسرا پہلو ہے جسے ہم سچ (True) کہیں تو بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈ ایک ایسا زہر ہلاہل ہے، جو بصورت مشروب دیدہ زیب اور خوشنما ہے؛ اور بصورت نتیجہ زہر ہلاہل ہے، مرکزی حکومت کی یہ مسلسل اور پیہم کوشش ہے کہ کسی طرح دینی مدارس اس زہر کو نوش کرلینے پر آمادہ ہوجائیں، لیکن بھلا ہو ان جامعات اور علماء کا جو حکومت کے ناپاک عزائم کے سامنے سدّ راہ بنے بیٹھے ہیں، علماء کی اسی کوشش اور مجاہدہ کی بناء پر ان ناپاک سازشوں پر قدغن لگ رہی ہے، یہ نکتہ خیال میں رہے کہ یہ مخالفت مقدور بھر جدید نظام تعلیم کی شمولیت اور ارتقاء کے انکار پر مشتمل نہیں ہے بلکہ بھارت میں قانونی وحکومتی صورت حال روایتی استخفاف اور قانون کے عدم استحکام کی بناء پر مستقبل میں اس طرح کے امکانات وخطرات ہیں کہ مرکزی حکومت اپنا پینترا بدلے اس ضمن میں خود مختار ریاستوں کے مداخلت کرنے کا اندیشہ زیادہ خطرناک ہے اور یقینا وہ مداخلت دینی مدارس کے ظاہروباطن کو نقصان پہنچائے گی، گویا دینی مدارس کی مخالفت اس معنی پر مشتمل نہیں کہ ایک نئی آواز اور جدید نظریہ کی بلادلیل مخالفت ہو؛ بلکہ اس لئے ہے کہ دین وشریعت کے ادارے اپنی ڈگر سے نہ ہٹیں اور ان اسلامی قلعوں کے مقاصد پر آنچ نہ آئے، اس کے برعکس موجودہ قانونی حالات اس واقعے کی غمازی کررہی ہیں کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام اپنے مقصدی تناظر میں؛ مدارس کے ان منصوبوں کو خاک میں ملانے کی تگ ودو ہے جس میں ظاہری سطح پر بغرض ریا، خلوص و اپنائیت کا مظاہرہ کیاگیا ہے لیکن حالات یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امت کو میٹھی چھری سے ذبح کرنے کی سازش ہے۔

یہ خوش آئند ہے کہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند نے اس مخالفت کو تحریک کی شکل دیدی ہے، اس نے گزشتہ دو سال قبل رابطہ مدارس عربیہ کے زیرسایہ ایک عظیم الشان اجلاس منعقد کی تھی جس کے عناوین میں مرکزی بورڈ کی مخالفت؛ سرفہرست تھی، مادرعلمی کا یہ بروقت اور صحیح بلکہ قائدانہ اقدام تھا، اس کے باوجود فقط یہ کوشش کافی نہیں بلکہ اس نکتہ پر بھی غور کرنا چاہئے ملک میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے مدارس؛ جو فنڈ اور ضرورت کی مار جھیل رہے ہیں، وہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز کے ہمنوا ہیں اوراس میں شمولیت کے لئے پر تول رہے ہیں اس حوالے سے مادر علمی کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی تعفن زدہ تابوت پر آخری کیل ٹھونکی جاسکے۔

علاوہ ازیں راقم کو ان دانشوران پر بے پناہ افسوس آتا ہے جو مرکزی مدرسہ بورڈ کے موافقت میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے کے درپے ہیں، آخر وہ کیوں نہیں سمجھتے مذہبی قدریں انتہائی حسّاس اور آبگینہ کی طرح ہوتی ہیں، دینی مدارس خالص مذہبی اقدار کی محافظت پر مامور ہیں، لہٰذا ان میں تغیر کچھ سوچ سمجھ کر ہی ہوگا، یونہی ایک ہنگامہ اور شور اسے بدلنے پر مجبور نہیں کرسکتا، آخر اہل مدارس بھی تو اپنا برا بھلا سوچ سکتے ہیں یا وہ اتنی سی سمجھ سے بھی کورے ہیں؟ لہٰذا ہمارے مسلم دانشوروں کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے، اور مدارس کی جانب سے پیش کردہ احساسات کا احترام کرنا چاہئے، کیونکہ یہی وہ مٹھی بھر طبقہ ہے جو مکمّل خلوص اور برداشت سے کاردین انجام دے رہا ہے،اور ہر طرح کے باد صرصر کا تحمّل کررہا ہے، ان کے ساتھ ہمارا رویہ انتہائی محترم اور رحمدلانہ ہونا چاہئے، ہمارا یہی رویہ ان کو مزید جدوجہد کے لئے مہمیز کرے گا، لہٰذا ضروری یہ ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی مخالفت میں اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے اہل مدارس کی ہمنوائی کی جائے۔

اس موقع سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دانشور عالمِ دین کا وہ شبہ رقم کردیا جائے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے اور فیصلہ لینے کی دعوت دیتا ہے، ”ہمیں مرکزی مدرسہ بورڈ سے اختلاف ہے، مدرسہ بورڈ بعض صوبوں میں موجود ہے اور اس کا ایکٹ بھی میری نگاہ میں ہے ان بورڈوں کے جواثرات سامنے آئے اور جو تجربات ہوئے وہ بہت تلخ ہیں، لیکن اگر مرکزی مدرسہ بورڈ کے ایکٹ پر گفتگو کی بات ہے، تو پہلے سوچ لیجئے کہ ہمارے وطنِ عزیز میں ”قانون“ کی حکمرانی کس قدر ہے؟ کیا ایکٹ کے مطابق کام ہوتا ہے؟ کیا قانون کے مطابق عمل ہوتا ہے، سچائی یہ ہے کہ ”قانونی حق“ بھی لاقانونی سہاروں کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔

الغرض اس تحریر سے یہ نتیجہ جھلکتا ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈ جو ابھی صرف جزوی ہدایت کی بات کررہا ہے، وہ آئندہ ایام میں مکمل سیادت و قیادت بھی کرسکتا ہے، اور شاید ملکی حالات، سیاسی فریب کاریاں، مذہبی تفریق کی موجودہ صورتِ حال، اعلیٰ ترین صوبائی و ریاستی تعصبات قطعی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مدارس کی کشتیوں کو مرکزی مدرسہ بورڈ کے بھنور کی نذر کردی جائے، یہ یقینا چراغِ علم نبوت کیلئے بادِ صرصر ہے جو ان ہزاروں چراغوں کی لووں کو بجھاسکتی ہے، جس کی روشنی میں اسلام زندہ ہے، اور پھیل رہا ہے۔

***

________________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 12 ، جلد: 93 ذى الحجه 1430 هـ مطابق دسمبر 2009ء