ہندوستان میں اقلیتوں کی داستان الم

از: محمد نعمان انور قاسمی ، متعلّم جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 

اس وقت ہمارے ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اوپر جو مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اس سے ہر شخص واقف ہے، ہمارے ملک کو آزاد ہوئے تقریباً باسٹھ (۶۲) سال ہوئے مگر آج بھی مسلمانوں کو آزادی کی فضاء میں سانس لینا مشکل ہورہا ہے، مسلمانوں کو آزادی کے بعد جتنے مصائب اور مشکلات کا سامنا ہوا اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا آزادی کی لڑائی میں ملک کے دیگر طبقوں سے زیادہ مسلمانوں نے اپنے جان ومال کی قربانی پیش کی۔ علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف بے شمار تحریکیں چلائیں۔ ۱۸۵۷ء سے کچھ قبل سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند شاہ عبدالعزیز رحمة الله عليه نے سب سے پہلے جہاد کافتویٰ دے کر انگریزوں کے خلاف پہل کی، ریشمی رومال تحریک بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ قیام دارالعلوم دیوبند اسی مقصد کے تحت ہوا تھا کہ ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کیا جائے جیسا کہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ اس مدرسہ کے قیام کا اصل مقصد اس ملک کو آزادی دلانا ہے لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے جس قلعہ سے آزادی کی صدا بلند ہوئی ہو اس کے اوپر دہشت گردی کا الزام تھوپا جائے اور اس کے پتلے نظر آتش کئے جائیں، یہ بات کسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کیلئے تکلیف دہ اور دل آزاری کا سبب ہے، آج بھی یہ مسلم ادارے ملکی پیمانے پر ایسے افراد پیدا کررہے ہیں جو قوم وملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں اورملک کے استحکام کیلئے اپنی پوری توانائیاں صرف کررہے ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کیلئے اس ملک کی زمین کو تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہندوستان کی فرقہ پرست طاقتوں نے بم دھماکہ کرائے ان بم دھماکوں میں انڈین مجاہدین جیسی فرضی تنظیم کا نام دے کر مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کی کوشش کی گئی اور سیکڑوں بے گناہ مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیاگیا اور انہیں طرح طرح کی ذہنی اور جسمانی اذیتوں میں مبتلا کیا جاتا رہا مگر تفتیشی ایجنسیوں نے بم دھماکہ کی جب تحقیقات کی تو پتا چلا کہ ان بم دھماکوں کے پیچھے سنگھ پریوار کا ہاتھ ہے۔ لائق ستائش ہیں اے ٹی ایس (اینٹی ٹیرسٹ اسکوارڈ) افسر ہیمنت کرکرے جیسے فرض شناس ایماندار افسر کہ انھوں نے حقیقت کے چہرے سے نقاب اٹھادیا۔ سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت اور دیا نند پانڈے جیسے شاطر دماغ لوگ سامنے آئے اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، لیکن اس جانباز مرد آہن اور ایماندار افسر کو ایک منظم منصوبہ بند سازش کے تحت بم دھماکے میں ہمیشہ کے لئے خاموش کردیاگیا، کیونکہ اس میں کچھ ایسے لوگوں کے نام بھی آنے والے تھے جو پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر یہ کھیل کھیل رہے تھے۔

پھر اس سے کچھ دن پہلے دہلی کے پٹلہ ہاؤس اوکھلا میں خلیل اللہ مسجد کے پاس مکان نمبر L-18 میں اعظم گڑھ کے دو ہونہار ساجد اور عاطف نامی دو طالب علموں کو فرضی انکاؤنٹر میں شہید کردیاگیا، جو جامعہ ملیہ میں بی ٹیک انجینئرنگ کا کورس کررہے تھے۔

گجرات فسادات سے آپ بخوبی واقف ہیں جہاں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا اور کتنی ماؤں بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئیں اور کتنی عورتیں بیوہ ہوگئیں اور کتنے بچے یتیم ہوگئے اسی کے بعد ناناوتی کمیشن قائم کیاگیا، چنانچہ اس کمیشن نے بلا تحقیق اس قاتل، دہشت گرد اور خونی کو کلین چٹ دے دیا اسی طرح میرٹھ کے ملیانا اورمرادآباد کے ہاشم پورہ میں بے شمار مسلمانوں کا ناحق خون بہایا گیا، آزادی کے بعد اتنا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی مسلمان مجبوری ولاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ سب اسی لئے کیا جارہا ہے کہ تاکہ یہاں کے مسلمانوں کو معاشی و تعلیمی اعتبار سے کبھی اپنے پیر پر کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے مرکزی وزیرتعلیم نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ مسلمان جامعہ ملیہ کو اپنا اقلیتی ادارہ سمجھنا بھول جائیں حالانکہ جامعہ ملیہ ایک خالص اقلیتی یونیورسٹی ہے اس کا قیام مولانا محمودحسن اور ڈاکٹر مختار انصاری اور ان جیسے دیگر مسلم قائدین نے ۱۹۱۹ء کے آس پاس کیاتھا، یہ مسلم دشمنی کی ایک کھلی ہوئی مثال ہے۔ ابھی کچھ دنوں سے مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی بات زیر بحث ہے مرکزی مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے حکومت کی نیت صاف معلوم نہیں ہوتی واقعی اگرحکومت مسلمانوں کو تئیں بڑی مخلص اور نیک ارادہ رکھتی ہے تو جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کا کیا مطلب ہے؟

جہاں مسلمانوں کے ۹۵ فیصد بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اس کی حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے کتنے بچے ایسے ہیں جو یونیورسٹیوں میں داخلہ کے خواہشمند ہیں انہیں داخلہ ملنا مشکل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے تعلیمی حق سے دست بردار ہوجاتے ہیں اور بہت سے غریب نادار بچوں کو غربت وافلاس کے بنیاد پر اپنا تعلیمی سفر منقطع کرنا پڑتا ہے اور بہت سے مسلم بچے تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس ڈگریوں کا انبار ہے لیکن ان کو کوئی ملازمت نہیں مل پارہی ہے۔

تو کیا حکومت کو ان اداروں کے بارے میں زیادہ فکر کرنی چاہئے جہاں اتنے سارے بچے ہیں جہاں مسائل کا انبار ہے یاان مدارس کی جہاں صرف ۴ فیصد بچے پڑھتے ہیں، اگر حکومت کو مسلمانوں سے اتنی ہمدردی ہے تو کچھ ایسی یونیورسٹیز، میڈیکل کالجز، انجینئرنگ کالجز اورآئی آئی ٹی کے ادارے قائم کرے جہاں آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو ریزرویشن ملے اور ان تمام بنیادی ضروریات کھانے سے لے کر تعلیمی فیس تک کا بندوبست ہو اور عصری علوم کی تحصیل سے فارغ اقلیتوں کے طلبہ کو خصوصیت سے مناسب ملازمتوں کا بندوبست کرے۔

ان حالات سے نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے تئیں مخلص نہیں ہے بلکہ حکومت کا مقصد مسلمانوں کو اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکار بنانا ہے تاکہ ہندوستانی مسلمان کبھی اپنے پیر پر نہ کھڑا ہوسکے اور در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرے۔

لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جس ملک کی اتنی بڑی اقلیت کا جان ومال عزت وآبرو غیرمحفوظ ہو اور انہیں ہمیشہ دبانے کی کوشش کی جاتی رہے وہ ملک کبھی اُبھرنہیں سکتا۔

آخر میں ہم مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہم اسلام کے نام لیوا ہیں اس لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ سارے مسائل کا حل اللہ کی اتاری ہوئی کتاب میں ہے اس لئے ہمیں قرآن اور شریعت کے دائرے میں رہ کر تمام مسائل کا حل تلاش کرنا ہے، مسلمان اس دنیا پر سیکڑوں سال تک قیادت کرتے رہے لیکن جب کامیابی کی تلاش دین کے دائرے سے ہٹ کر ہوئی تو مسلمان ہرمیدان میں پسپا اور ذلیل ہوگیا اور اس کو ہر جگہ مات ہوئی۔

اسی کے ساتھ ہم مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے بالخصوص ملک وملت کے رہنماؤں کو اس معاملے میں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

وملا علینا الاّ البلاغ

_______________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 12 ، جلد: 93 ذى الحجه 1430 هـ مطابق دسمبر 2009ء