یار غار، لمحات زندگی

                                                                            از:  محبوب فروغ احمد قاسمی‏،استاذ حدیث مدرسہ حسینیہ کایم کلم کیرالا

 

اس فقید المثال شخصیت کی زندگی کو - جو اس آب گل میں رسول اللہ … سے صرف دو ڈھائی سال بعد آنکھیں کھولتی ہے، بچپن سے ہی یارانہ ہوجاتا ہے، فطرت کی سلامتی، وراستبازی کی وجہ سے تجارتی اسفار میں ساتھ رہتا ہے، اور جب نوزائیدہ اسلامی مملکت کی داغ بیل پڑتی ہے کہ وزیر معتمد، ومشیر خاص ثابت ہوتے ہیں- علامہ اقبال نے اس طرح سمیٹ کر رکھ دیاہے

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

(بانگ درا)

اول مسلمان:

جب کہ آپ کی عمر ۳۸ سال تھی، اسلام کا آفتاب طلوع ہوا، حضرت ابوبکر بغرض تجارت یمن کے سفر پر تھے، لوٹے ہی تھے کہ مکہ کاپورا گروہ : احباب، ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ، آپ کے گرد گھیرا ڈال دیا،اور نوزائیدہ دین اسلام کی اطلاع دی۔ نیز فراست ابوبکری، وتجربہ صدیقی سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ عبداللہ کے یتیم بیٹے محمد نے دعویٰ کیاہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں،اور ان پر حضرت جبرئیل وحی لے کر آتے ہیں، اس لیے لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں، اس فتنے کی روک تھام میں تمہاری اصابت رائے کی ضرورت ہے، اور اگر یہ فتنہ بعجلت تمام دبایا نہ گیا، تو آبائی اقدار کا تسلط ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔

ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دوست، تجارتی سفروں کے رفیق، اور آپ کی پاکیزہ سیرت واخلاق کے عینی شاہد تھے، اپنی دور اندیشی، ومعاملہ فہمی اور اصابت رائے کی قوت سے حقیقت تک پہنچ گئے، احباب سے فرصت پاکر درِ رسالت پر پہنچے، وحی و نبوت سے متعلق آپ کی زبان سے سنا، اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔(۱)

بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم آپ کے گھر تشریف لے گئے، اور اسلام کی پیش کش کی، حضرت ابوبکر نے بلا چوں و چرا مان لیا، اسی لیے حضور اکرم علیہ الصلاة والسلام کہا کرتے کہ:جس پر بھی اسلام پیش کیا، کچھ نہ کچھ تردد کا اظہار ضرور پایا، سوائے ابوبکر کہ اس نے بلاچوں وچرا قبول کرلیا۔(۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب پوچھاگیا تو انھوں نے حضرت حسان بن ثابت کے اس قصیدے کا حوالہ دیا، جس میں حضرت حسان نے حضرت ابوبکر کی شان میں کہا ہے:

اذا تذکّرت شَجْوًا من أخي ثقة               فاذکر أخاک أبا بکر بما فعلا

 والتالي الثاني المحمود فشہد                 وأول النّاس طرّاً صدق الرسلا

      والثانی اثنین في الغار المنیف وقد،          طاف العدو بہ اذ صعّد الجبلا(۳)

جب آپ کو کسی معتمد بھائی کی تکلیف یاد کرنی ہوتو حضرت ابوبکر کے کردار کو یاد کرلیجئے، جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے متصل ہیں، دوسرے ہیں، جن کی مشکلات میں موجودگی کی تعریف کی گئی ہے، تمام لوگوں میں سب سے اول انسان ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی تصدیق کی ہے، غار حرا میں دو میں کے دوسرے ہیں، اور جب پہاڑ پر چڑھائے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگایا۔

صدیق وعتیق:

اس فرد آہن میں کبھی جنبش نہیں آئی، ابتداء سے انتہاء تک ایسی ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا کہ کبھی تو صدیقیت کے خطاب سے نوازاگیا، تو کبھی عتیق من النار کا اعزاز بخشاگیا۔

اس سلسلے میں گرچہ آراء مختلف رہی ہیں کہ آیا عتیق وصدیق کا خطاب، آپ کے نام کا جزء کب بنا، لیکن صحیح بات تو یہی ہے کہ،یہ اسلامی دور کا اعزاز ہے، جس سے آپ نوازے گئے، ذیل میں ہم ایسی روایتیں ذکر کرتے ہیں جن سے ہمارے دعوے کو تقویت ملتی ہے۔

امام ترمذی نے حضرت عائشہ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر، حضور صلى الله عليه وسلم کے پاس تشریف لائے، تو حضور نے فرمایا: أنت عتیق اللّٰہ من النار فیومئذ سُمی عتیقاً کہ تم اللہ کی جانب سے جہنم کی آگ سے آزاد ہو، چنانچہ اسی دن سے ان کا نام عتیق پڑگیا۔(۴)

بزار اور طبرانی نے یہی روایت نقل کی ہے، اور اس میں حضرت عائشہ کے بجائے حضرت عبداللہ بن زبیر ہیں اور آخر میں اتنا اضافہ اور ہے : وکان قبل ذلک اسمہ عبد اللّٰہ بن عثمان، کہ اس سے پہلے وہ عبداللہ بن عثمان کے نام سے جانے جاتے تھے۔(۵)

اسی طرح واقعہ معراج کی جب اطلاع، قریش مکہ کو ہوئی تو فاتحانہ انداز میں مذاق اڑایا،اور سمجھا کہ محمد کو جھٹلانے کا یہ موقع خوب ہاتھ آیا، دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے، اور کہنے لگے؛ دیکھو! اب تمہارے دوست محمد (صلى الله عليه وسلم) نے نیا شوشہ چھوڑا ہے، کہتا ہے کہ راتوں رات بیت المقدس گیا، پھر وہاں سے آسمانی دنیا کا سیر کیا، رب سے مناجات ہوئی،اور پھر واپس بھی آگیا۔

حضرت ابوبکر نے صرف اتنا معلوم کیا کہ کیا واقعی انھوں نے یہی بات کہی ہے تو سب نے بیک زبان تصدیق کی تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ اگر وہ کہتے ہیں تو بالکل سچ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو معلوم ہوا تو آپ کو صدیق کا لقب دیا۔(۶)

طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کھاکر کہا کرتے تھے کہ ابوبکرکا نام صدیق،آسمان سے اترا ہے۔(۷)

ایں شہادت گہے الفت میں قدم رکھنا تھا

قبیلہٴ تیم جس سے آپ کا نسبی تعلق تھا، قریش میں کچھ زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ابھی تک یہ قبیلہ اسلام کی حلاوت سے آشنا نہ تھا، کہ وقت پرکچھ کام آسکے، نیز آپ کی جسمانی ساخت بھی حضرت عمروحمزہ رضی اللہ عنہما کی طرح مضبوط نہیں تھی کہ بچاؤ کیاجاسکے، لیکن ان سب کے باوجود، نئے دین کے دور رس تقاضوں کو صدیق کی ذات انگیز کیوں کرکرسکتی تھی، لہٰذا نہ دل میں مکہ کے سرداروں کا خوف آنے دیا جو سارے عرب میں محض اس لیے باعزت سمجھے جاتے تھے کہ بیت اللہ کے پیروہت اور متولی ہیں، اور نہ ان کے دشمنانہ رویوں اور نہ مخالفانہ طرز سے آپ کے پائے مبارک میں لغزش آئی، بلکہ اپنی زندگی کا اصل مشن ہی تبلیغ اسلام کو بنالیا، اور نئے دین کی اشاعت میں کسی قسم کا رخنہ آنے نہیں دیا، خواہ اس سلسلے میں انہیں کتنا کچھ بھی ستایاجاتا، لیکن آپ تھے کہ اسلام کی تبلیغ کیے جارہے تھے۔

ایک مرتبہ حضور صلى الله عليه وسلم بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں عقبہ بن ابی مُعَیط آگیا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کی گردن مبارک میں چادر کا گھیراڈال کر بل دینے لگا، حضرت ابوبکر کو جب معلوم ہوا تو دوڑے آئے، عقبہ کو پکڑ کر دھکا دیا،اور کہا کہ اے لوگو! کیا تم اس شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ یہ کہا ہے کہ اللہ ایک ہے۔(۸)

ایک اور موقع پر حضرت ابوبکر نے صحن حرم میں جہاں قریش کا مجمع تھا، علانیہ تبلیغ شروع کی، کافروں نے حضرت ابوبکر کو پکڑ لیا، اور بے تحاشا مارنا شروع کیا، عقبہ بن ربیعہ نے چہرے پر جوتے اتنے مارے کہ پہچانا نہیں جاتاتھا، جب قبیلہ تیم کو معلوم ہوا تو آکر چھڑایا، گھر لے گئے، لیکن حالت نازک ہوگئی جس پر قبیلہ کے لوگوں نے عتبہ کو دھمکی بھی دی، شام تک بے ہوشی ہورہی، جب ہوش آیا تو سب سے پہلے حضور کی خیریت معلوم کی، اور اس وقت تک چین نہیں آیا، جب تک کہ خود آکر حضور صلى الله عليه وسلم سے دار ارقم میں ملاقات نہ کرلی۔(۹)

کچھ سعید روحوں کا قبول اسلام

آپ کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں، بلکہ رفتہ رفتہ اسلام پھیلنے لگا، اورایسے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے جو بعد میں چل کر، ستون اسلام ثابت ہوئے، ان سب میں آپ کی بے لوث تبلیغ کا اثر تھا، ان سعید روحوں میں جنھوں نے آپ کی وجہ سے اسلام قبول کیا، ان میں ممتاز حضرات یہ ہیں:

(۱) خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (۲) حضرت عمر کے بعد چیف الیکشن حضرت عبدالرحمان بن عوف (۳) حضرت طلحہ بن عبید اللہ (۴) حضرت زبیر بن العوّام (۵) فاتح قادسیہ حضرت سعد بن ابی وقاص (۶) فاتح شام حضرت ابوعبیدہ بن الجراح۔(۱۰)

یہ سارے حضرات عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں اسلام لائے،اسی لیے اپنے وغیر سب نے اس کا اعتراف کیاہے کہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو ملکی معاشرے میں اہمیت و تقویت حاصل ہوئی، پھر حضرت حمزہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اسلام کی وجہ سے استحکام ہوا، محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:

وہ (مستشرقین) کہتے ہیں کہ جس ایمان کا مظاہرہ ابوبکر نے کیا، اور جس طرح انھوں نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے ہر قول و فعل کی تصدیق کی، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام یقینا خدا کی طرف سے ہے، کیوں کہ باطل مذہب، اور ایک جھوٹا شخص کبھی اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ایسا ایمان پیدا نہیں کرسکتاہے۔(۱۱)

اسلام کی خاطر مالی قربانی

روایتوں میں آتاہے کہ قبول اسلام کے وقت حضرت ابوبکر چالیس ہزار درہموں کے مالک تھے،لیکن ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار باقی رہ گئے تھے، انھیں انھوں نے راستہ کے خرچ کے لیے ساتھ رکھ لیاتھا، پورے پینتیس ہزار درہم ابوبکر نے اسلام کی راہ میں خرچ کیا۔ ان غلاموں و باندیوں کو آزاد کرایا جو پہلے سے ہی غلامیت کی وجہ سے نامساعد حالات سے دوچار تھے، قبول اسلام نے، ان کے کافر آقاؤں کو ظالم و جابر بنادیا، مگر یہ وہ نشہ تھا، جو اذیتوں کی ترشی کی وجہ سے اتر نہیں سکتا تھا، حضرت ابوبکر نے ان ظالموں کو منہ مانگی قیمتیں دے کر متعدد غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرایا۔(۱۲)

ان میں مشہور ومعروف: موٴذن رسول حضرت بلال حبشی، ان کی والدہ حمامہ، عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہ، حضرت زنیرہ، حضرت ام عبس، حضرت نہدیہ، اور ان کی صاحبزادی، اور بنی موٴمل کی لونڈی لبینہ، یا لبیبہ ہیں۔(۱۳)

پھر آزاد کرنے کے بعد کبھی احسان نہ جتلایا، ایک موقع پر حضرت بلال سے اذان دینے کے لیے کہا تو حضرت بلال نے برجستہ کہا کہ اے ابوبکر کیا تم مجھے اپنی خلافت کے زعم میں حکم دے رہے ہو، یا پھر وہ احسان جتلارہے ہو،جو تم نے خطیر رقم خرچ کرکے مجھے آزاد کرایاتھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں تو حضرت بلال نے درخواست ٹھکرادی۔

ابوقحافہ جو حضرت ابوبکر کے والد تھے اور اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے، کہا کرتے تھے کہ بیٹا! اگر ان کمزوروں کے بجائے، مضبوط جوانوں کو آزاد کرواتے تو وہ تمہارے لیے قوت بازو بنتے، اور تمہاری پشت پناہی کرتے، حضرت ابوبکر نے جواب دیا: ابا جان! میں تو وہ اجر چاہتاہوں جو اللہ کے یہاں ہے۔ قرآن نے بالکل درست کہا ہے۔(۱۴)

                وسیجنبہا الأتقی الذی یوٴتی مالہ یتزکی وما لأحد عندہ من نعمة تجزی، الا ابتغاء وجہ ربہ الأعلی ولسوف یرضی .

اور اس سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیزگار جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے، اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا اسے بدلہ دینا ہو، وہ تو اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے اور ضرور وہ اس سے خوش ہوگا۔

مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں

قریش مکہ کے مظالم، صرف غلاموں، اور لونڈیوں تک محدود نہیں رہے بلکہ دست درازیاں، آزاد مردوزن کو پریشان کررہی تھیں، آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر آنے والا وقت ایک نئی مصیبت کا پیغام ہواکرتا تھا، اللہ پاک نے ایسے موقع پر ہجرت حبشہ کا اشارہ دیا، اور مسلمان ایک صلح جو، نرم طبیعت بادشاہ نجاشی کی پناہ میں منتقل ہونے لگے، اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو اپنے جرأت ایمانی اور پراستقلال عزم وحوصلہ سے لیس ہوکر خدمت اسلام میں منہمک تھے، لیکن طرح طرح کی مصیبتوں سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کا عزم کرکے نکلے، ”بکر الغماد تک پہنچے تھے کہ ابن الدغنہ“ (جوکہ مکہ کا کافر اور بااثر ورسوخ باشندہ تھا) سے ملاقات ہوگئی، ابن الدغنہ، حضرت ابوبکر کی اصابت رائے، غم خواری خاص و عام سے واقف ہی نہیں متاثر تھا۔ پوچھنے لگا، ابوبکر! کہاں کا قصد ہے، حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا کہ میری قوم نے مجھے تکلیفیں پہنچائیں، یہاں تک کہ میرا شہر میرے لیے تنگ کردیا۔ اب اس شہر کو چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اس پر ابن الدغنہ اپنی امان میں لیا، اور کہا ابوبکر کاجیسا انسان اس شہر سے باہر نہیں جاسکتا، جومہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ غریبوں کے ساتھ خیرخواہی، مفلسوں و ناداروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، ابن الدغنہ ان کو واپس مکہ لایا۔ اور اپنی امان کا اعلان کردیا، لوگوں کی ملامت بھی کی۔

قوم اس بات پر راضی ہوئی کہ حضرت ابوبکر اپنے گھر میں ہی قرآن کی تلاوت کیا کریں گے، تاکہ قوم کے بچے اور عورتوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرسکیں۔

حضرت ابوبکر نے اپنے صحن ہی میں ایک جگہ تلاوت کے لیے مختص کرلی، لیکن آپ اس قدر رقیق القلب تھے کہ جب تلاوت فرماتے تو عورتیں اور بچے اپنی چھتوں پرچڑھ کر آپ کی تلاوت سنتے، جس سے وہ متأثر ہوتے جاتے تھے، قوم کویہ کیوں کر گوارا ہوسکتا تھا، فوراً ابن الدغنہ سے اس کی شکایت کی، ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ یاتو آپ میری امان میں رہیں یا تلاوت اس طرح نہ کریں، جس پر حضرت ابوبکر نے کہاکہ مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں ہے، مجھے میرے اللہ کی امان کافی ہے، ابن الدغنہ نے بھی اس نقص امان کا اعلان قوم میں کردیا، پھر وہی ابتلاء و آزمائش شروع ہوگئی جو برسوں سے چلی آرہی تھی، بلکہ اس میں اور بھی تشدد پیدا ہوتا چلاگیا۔(۱۵)

سفر ہجرت میں یار غار کی رفاقت

سن دس ہجری میں بیک وقت دو دو محسن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورابوطالب کے اٹھ جانے سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو جو غم ہونا تھا، وہ ہوا۔ اسی لیے یہ سال ”عام الحزن“ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں جانا جاتا ہے۔ پھر مزید طائف کے سفر میں جو ناروا سلوک، طائف والوں نے کیا، جس سے مکہ کے کفار اور بھی جری ہوگئے اورہر طرح سے ستانے ہی نہیں بلکہ ختم کرنے (نعوذ باللہ) کی ناپاک کوشش سے بھی گریز نہ کیا، لیکن اللہ پاک نے اس کا انتظام پہلے سے ہی کررکھاتھا۔ یثرب والوں نے اپنے یہاں آنے کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ ہر طرح کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی، چنانچہ محرم ۱۳ نبوی سے ہجرت شروع ہوئی، اور دو مہینے میں دو سو خاندان کے قریب یثرب پہنچ گئے۔ صرف کمزور قسم کے لوگ ہی بچے تھے۔ یا پھر دربار رسالت،اور خاندان رسالت کے لوگ مصلحتاً بچ گئے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت طلب کی تھی، لیکن ان کو یہ کہہ کر روک دیاگیا تھا کہ: ہوسکتا ہے کوئی اچھا ساتھی مل جائے، حضرت ابوبکر نے اشارہ سمجھ لیا تھا۔ اسلیے اسی وقت سے تیاریاں شروع کردی تھیں۔ دو اچھی سی سواریاں بھی خریدلی تھیں، اور خوب کھلاپلاکر فربہ بھی کرلیاتھا، بالآخر صفر کے اواخر میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کو بھی ہجرت کا حکم مل گیا، ادھر حضور صلى الله عليه وسلم کا معمول تھا کہ روز صبح وشام حضرت ابوبکر سے ملنے ان کے گھرتشریف لے جاتے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک روز خلاف معمول، سرپرکپڑا ڈالے ہوئے دوپہر میں تشریف لائے، اور تخلیہ میں حضرت ابوبکر سے اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ آج رات ہجرت کے لیے نکلنا ہے اور رفاقت تمہاری ہی رہے گی۔ حضرت ابوبکر تو اچھل پڑے، دوسری طرف دارالندوہ کے ابلیسی مشورے کی خبر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اشارئہ غیبی سے ہوچکی تھی۔ اس لیے حضرت علی کو آج رات بستر پر سونے کا حکم دیا اور تہائی رات کے بعد کفار کے مجمع پر جوگھیرا ڈالے، دررسالت کے ارد گرد اس لیے بیٹھے تھے کہ صبح ہوتے ہی اجتماعی حملہ کرکے ہمیشہ کے لیے اسلام کا قصہ تمام کردیا جائے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ان پر شاہت الوجوہ پڑھتے ہوئے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے باہر نکل گئے،اور حضرت ابوبکر کے گھرپہنچے، حضرت ابوبکر سراپا انتظار بیٹھے تھے، جلدی میں سامان تیار کیا، توشہ دان باندھنے کے لیے کچھ نہ ملا تو حضرت اسماء نے اپنا پٹکا چاک کرکے باندھا (اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے ذات النطاقین کے نام سے مشہور ہوگئیں) حضرت ابوبکر نے باقی ماندہ ۵ ہزار درہم لیے، عقبی کھڑکی سے دونوں رفیق نکلے، شہر سے تین چار میل دور غار ثور میں ایک دو روز کے لیے چھپ گئے، اس دوران حضرت ابوبکر کے صاحبزادے حضرت عبداللہ، قریش کی تمام نقل وحرکت پہنچاتے رہے، جواں سال صاحبزادی حضرت اسماء تمام خطرات کو انگیز کرکے کھانا پہنچایا کرتی، اور غلام عامر بن فہیرہ بکریوں کو چرانے اسی طرح لے آتے ضرورت کے مطابق دودھ وگوشت پلاتے اور کھلاتے، اس طرح حضرت ابوبکر کا پورا گھرانہ ہجرت کے عمل میں شریک رہا اورجونہ شریک رہا مثلاً عبدالرحمان بن ابی بکر (جو ابھی تک کفر کی گندگی میں ملوث تھے) انھوں نے بھی اس راز کو بالکل فاش نہ کیا۔

آنسو بہہ نکلے

یہ دونفری قافلہ، غارثور پر پہنچا، حضرت ابوبکر نے روایتوں کے مطابق آپ کو اپنے کندھے پر اٹھالیا تاکہ قدم مبارک کے نشان نہ آنے پائے مبادا قدم شناشی سے پکڑے جائیں۔ غار کے دہانے پر پہنچے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو تھوڑی دیر کے لیے وہیں پر روک دیا، خود اندر تشریف لے گئے، غار کو خوب اچھی طرح صاف کیا، کچھ سوراخ تھے، جس سے زہریلے جانور سے خطرہ تھا، ان سبھوں کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا، پھر حضور کو آواز دی، حضور اندر تشریف لے گئے۔ تین چار میل کا سفر وہ بھی پہاڑی سفر، بڑا دشوار گزار رہا۔ زانوئے صدیقی پر سر رکھ کر سوگئے۔ اتنے میں ایک سوراخ نظر آیا۔ حضرت ابوبکر نے اپنا انگوٹھا ہی اس پر رکھ دیا، ایک روایت کے مطابق کسی زہریلے سانپ نے آپ کو ڈس لیا، تکلیف کی شدت بڑھتی جارہی تھی، لیکن اس وقت، ماضی حال، مستقبل کی سب سے عظیم شخصیت آپ کے زانوپر سررکھے ہوئی تھی، حرکت کرنے کی بھی زحمت نہ کی، لیکن شدت کی تاب نہ لاکر، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اورآپ کے رخ انور پر اس کے بعض حصے گرے، جس سے آ پ کی آنکھ کھلی، حضرت ابوبکر کو آبدیدہ دیکھ کر وجہ دریافت کی۔ حضرت ابوبکر نے ساری تفصیلات بتائی، تو حضور صلى الله عليه وسلم نے لعاب دہن اس ڈسے ہوئے مقام پر لگادیا، جس سے تکلیف جاتی رہی۔

کھسیانی بلی کھمبا نوچے

ادھر بدبختوں کی جماعت نے، جب صبح کی، اور حضور صلى الله عليه وسلم کے بجائے، حضرت علی کو بستر رسالت سے بے دار ہوتے ہوئے دیکھا، تو دماغ ٹھکانے پر نہ رہا، جھلاہٹ کی حالت میں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیاجائے، کبھی تو حضرت علی سے سختی سے پوچھ رہے تھے، لیکن حضرت علی کیوں کر کچھ بتاسکتے تھے، جب یہاں سے مایوسی ہوئی تو سیدھا حضرت ابوبکر کے گھر پہنچے، وہاں بھی گھر کو خالی دیکھ کر یقین ہوگیا کہ یہ دونوں نکل چکے ہیں، حضرت اسماء سے پوچھا، جس پر حضرت اسماء نے لاعلمی کا اظہار کیا، تو بدبخت وبدباطن ابوجہل نے ایک ایسا طمانچہ مارا جس سے کان زخمی ہوگیا اور بالی دور گری، مگر حضرت اسماء نے کچھ نہیں بتایا۔

جب ہر طرح سے مایوسی رہی تو کفار نے اعلان کردیا کہ جو زندہ یا مردہ پکڑکر لائے گا اسے نقد سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔

غار ثور اور تلاشی مہم

کفار کی جانب سے تلاشی مہم جاری رہی، جوں جوں وقت گزرتا جارہاتھا۔ انعام کا حریص اور بھی شدت اختیار کرتا گیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ لوگ اسی کے لیے ادھار بیٹھے تھے، کھاڑیاں، جھاڑیاں، پہاڑیاں غرض کہ ہر جگہ چھان ماری، لیکن کہیں سراغ نہ لگا، ایک مرتبہ تو غار ثور کے منہ پر آگئے، قریب تھا کہ اگر وہ اندر کو جھانک لیتے تو یہ دونوں مقدس ہستیاں نظر آجاتیں، حضرت ابوبکر کو تشویش ہوئی اور تشویش ہونی ہی چاہیے، ان کو فکر اپنی جان کی نہیں بلکہ خلاصہٴ کائنات کی تھی، انھوں نے اپنی تشویش کا اظہار چپکے سے، حضور سے بھی کیا، حضور نے فرمایا کہ اے ابوبکر: لاتحزن ان اللّٰہ معنا غم کی حاجت نہیں ہے، اللہ کی معیت ہمارے لیے ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت ابوبکر پر گویا سکینت نازل ہوگئی۔ ایک بدبخت اندر گھسنے کا ارادہ بھی کررہا تھا، مگر بعض نشانیوں کو دیکھ کر خود بھی باز رہا، اور اوروں کو باز رکھا۔

قرآن پاک نے اسی واقعہ کو ”ثانی اثنین“ کے لفظ سے ذکر کیاہے، اور اس طرح حضرت ابوبکر کو دو میں کا دوسرا کہہ کر جاودانی عظمت و شرف سے سرفراز کیا ہے۔ جسے آج کروڑوں کی تعداد میں مسلمان تلاوت کرتے ہیں،اور وہیں پر ان اللّٰہ معنا کا حوالہ بھی پڑھتے ہیں۔ غارثور کے اسی واقعہ، اور رفاقت و جذبہٴ جاں نثاری کو اردو و فارسی میں ”یارغار“ کے لقب سے جانا جاتا ہے، جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انتہائی جاں نثار، اور مشکل وقت میں کام آنے والا دوست۔

غار ثور سے روانگی

تین دنوں تک غارثور میں قیام کرنے کے بعد، حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے اطلاع دی کہ اب سب تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔ تب حضرت ابوبکر نے پہلے سے تیار کی ہوئی دونوں سواریاں منگوائیں، ایک حضور کی خدمت میں پیش کی،اور ایک پر خود سوار ہوئے، ساتھ میں حضرت عبداللہ، و حضرت عامر بن فہیرہ کو لیا اور راستے کی رہنمائی کے لیے ایک کافر مگر قابل اعتماد شخص عبداللہ بن اریقط (ارقد) کو لیا اور مقدس و مختصر قافلہ مدینے کے لیے روانہ ہوا، راستہ بھر کی کیفیت عجیب رہی، جب بھی کسی خطرے کا احساس ہوا، جدھر سے ہوا ادھر ہی حضرت ابوبکر ہوجاتے ہیں کہ مبادا کوئی خطرہ لاحق ہوتو اس کا شکار اولاً ابوبکر ہوں، پورے ایک دن و رات سفر کرنے کے بعد یہ قافلہ ایک درخت کے سایے تلے رکا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی چادر، اس درخت کے نیچے بچھائی تاکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم استراحت فرماویں، خود نگہبانی میں لگے رہے۔ قریب ہی کچھ بکریاں چررہی تھیں، جاکر دودھ دوہا، پھر تیار کرکے حضور کے پاس لائے، تاکہ حضور نوش فرمالیں۔

آپ کے اس جذبہ جاں نثاری کو دیکھ، عبداللہ بن اریقط بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اس طرح یہ قافلہ تمام تر خطرات سے گزرتے ہوئے، یکم ربیع الاول ۱۳ نبوی، ۱۲/ستمبر ۶۲۲/ کو مدینہ کے مضافاتی محلات میں پہنچا۔

خادم و مخدوم میں فرق

اہل یثرب کو پتا چل چکاتھا، اس لیے سراپا انتظار بن کر چشم براہ تھے، لیکن ان میں اکثریت ان حضرات کی تھی، جنھوں نے حضور پرنور صلى الله عليه وسلم کو کبھی بھی نہ دیکھا تھا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی چادر حضور کے سرمبارک پر دراز کردی، تاکہ سایہ بھی ہوجائے، اور خادم و مخدوم میں فرق بھی ہوجائے۔ اس طرح حضرت ابوبکر کا پورا گھرانہ اس ہجرت میں شریک رہا، جو اسلام ومسلمانوں کے لیے ایک انقلاب آفریں اقدام تھا، جس سے مسلمانوں کی عظمت و تفوق پر مہر تصدیق ثبت ہوئی۔(۱۶)

مدنی زندگی

مقام سُنْح میں قیام

مدینہ پہنچ کر اولین ضرورت اس بات کی تھی کہ مہاجرین باشندگان مکہ، و انصار باشندگان یثرب کے مابین ارتباط کامل پیدا کی جائے، تاکہ ایک دوسرے میں ضم ہوکر، ایک صالح معاشرہ کی داغ بیل پڑسکے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مواخات کے ذریعے اس رشتہٴ باہمی کو استوار کیا، اور ایسا جذبہ باہم پیدا کیاکہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی مواخات قبیلہ خزرج کے ایک سرکردہ مسلمان سے ہوئی جس کا نام خارجہ بن زید بن زہیر یا زید بن خارجہ علی اختلاف القولین ہے۔ حضرت ابوبکر کے یہ مواخاتی بھائی، مدینہ کی مضافاتی بستی مقام ”سُنْح“ میں رہتے تھے، طبائع کی ہم رنگی اور دینی جذبے کا انجذاب اس طرح رنگ لایا کہ اس انصاری بھائی نے اپنی بیٹی کی شادی - جن کا نام یا تو حبیبہ تھا یا مُلَیکہ - حضرت ابوبکر سے کردی(۱۷) جن سے حضرت ام کلثوم پیداہوئی، حضرت ابوبکر نے اپنی رہائش وہیں مقام ”سُنح“ میں بنالی تھی، جب مسجد نبوی کے اردگرد کے پلاٹ مخصوص صحابہ میں تقسیم ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حصے میں بھی ایک پلاٹ آیا، جس میں حضرت نے مکان تعمیر کرواکر، مکہ کے اہل وعیال کو وہیں رکھا، لیکن خود حضرت کے وصال تک مقام ”سُنح“ میں مستقل قیام پذیر رہے، وصال نبوی کے بعد جب خلافت کی ذمہ داری آئی، اور مقام سنح میں رہ کر امور خلافت میں کوتاہی ہونے لگی تو پھر مدینہ مسجد نبوی والے مکان میں منتقل ہوگئے۔ البتہ ہفتہ میں جمعرات کو مقام ”سُنح“ جایا کرتے تھے۔

صالح معاشرہ کے قیام میں حضرت ابوبکر کا حصہ

مقام ”سُنح“ میں رہنے کے باوجود، حضور صلى الله عليه وسلم کے ہم دم ساتھ رہے،اور حضور صلى الله عليه وسلم کی توجہ جن اہم مسائل پر ہوتی ان میں برابر شریک رہے، بلکہ آپ ہی معتمد خاص اور وزیر خاص تھے، ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہیں اور وہ جبرئیل و میکائیل ہیں۔ اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہیں اور وہ ابوبکر وعمر ہیں۔(۱۸)

یہی وجہ ہے کہ وہ تجارت جوابوبکر مکہ میں کیاکرتے تھے، جس کی خاطر انھوں نے یمن و شام کا بھی سفر کیاتھا، مدینہ میں قدرے سکون پانے کے بعد شروع کردیا، لیکن کبھی باہر کاسفر نہ ہوسکا، اور جو تجارتی خوش حالی مکہ میں حاصل تھی، مدینہ میں بالکل نہ رہی، بلکہ معقول گزر بسر کے لیے کمالیاکرتے تھے، باقی اوقات صالح معاشرہ کے قیام واستحکام کے لیے حضور کے شانہ بشانہ رہتے، بلکہ ہمیشہ گوش برآواز رہتے کہ زبان نبوت سے کوئی حکم صادر ہو اور اس کی تعمیل میں لگ جایا جائے۔

قریش مکہ کی بوکھلاہٹ

قریش مکہ بھی پل پل کی خبر سے واقف تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے بچ نکلنے پر غم وغصہ سے باولے ہوتے جارہے تھے، اور جس روحانی، اخلاقی، ومعاشرتی نظام کے قیام سے خائف تھے۔ اب مدینہ کی سرزمین میں اس مبارک انقلاب کا آفتاب طلوع ہوچکاتھا، وہ دیکھ رہے تھے کہ مدینہ کے نئے وپرانے باشندے ایک دوسرے میں ایسا جذب ہوچکے ہیں کہ کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ انصار مدینہ نے ایثار کا ایسا جذبہ پیش کیا ہے کہ اپنا آدھا آدھاسرمایہ تک پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں۔ ان سب کے علاوہ ان کو سب سے زیادہ خطرہ شامی تجارت کو تھا، کیوں کہ ان کا یہ قافلہ مدینہ سے قریب ہی ہوکرگزرتا ہے، انہیں خطرہ تھا کہ اب مسلمان ان کے اس قافلہ کو روکیں گے، سامانوں کو لوٹیں گے۔ مردوں کو قیدی و غلام بنائیں گے، اسی بوکھلاہٹ میں وہ مسلسل دھمکیاں بھیجنے لگے کہ اے یہود مدینہ! اگر تم نے انہیں وہاں سے نہ نکالا، تو ہم ایک زبردست فوج لے کر آئیں گے، اور تم سب کو نیست و نابود کردیں گے۔(۱۹)

قریش مکہ کی چڑھائی، اور حضرت ابوبکر کی جرأت ایمانی

قریش نے ان دھمکیوں کے ساتھ، واقعتا تیاریاں بھی شروع کردی تھیں، اس کے لیے انھوں نے ایک فنڈ مخصوص کیاتھا، جس کے لیے انھوں نے ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں روانہ کیاتھا، تاکہ اس کے تمام منافع کو اس فنڈ میں جمع کیاجاسکے، ابوسفیان کا یہ قافلہ بھی خوب منافع حاصل کرکے واپس آرہا تھا، جس کوروکنے کے لیے، مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت نکلی تھی، لیکن یہ قافلہ بچ نکلا، قریش کو اس کی خوش خبری مل بھی چکی تھی، لیکن وہ ایک ہزار فوجی دستوں کے ساتھ چلے آرہے تھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تین سو اوپر صحابہ کو لیے ہوئے، جس میں صرف دو گھوڑے، ستر شتر سوار تھے، ۲/رمضان ۲ ہجری کو ان کے مقابلے کے لیے صف آرا ہوئے۔ ۱۷/رمضان المبارک کو قدسیوں کا یہ قافلہ بدر کے مقام پر خیمہ زن ہوا، یہ نہتے ضرور تھے، مگر دل مضبوط ومطمئن رکھتے تھے۔ انہیں ساز وسامان سے زیادہ اپنے اللہ پر بھروسہ تھا، جو لڑاکر یا تو غازی بناتا ہے یا گردن کٹواکر شہیدوں کی فہرست میں درج کرتا ہے۔ دونوں مقام عالی ہیں۔

صحابہ نے حضور کے لیے ایک ٹیلے پر عریش (سائبان) بنایا،اور اتفاق رائے سے حضرت ابوبکر کو حضور کا بارڈی گارڈ مقرر کیا، کس قدر نازک موقع تھا، دشمنوں کی تعداد کیل کانٹے سے لیس تھی، ہروقت حملے کا خطرہ ہی نہیں موت کا اندیشہ تھا، لیکن حضرت ابوبکر ہی غارثور کے مشکل مقام پر بھی دومیں کے دوسرے تھے۔ آج بدر کی پہلی لڑائی - جس نے کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی، اور مسلمانوں کا رعب سارے عالم پر بٹھادیا - میں بھی دو میں کے دوسرے تھے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حملے سے پہلے والی رات میں سراپا عجز و انکسار بن کر ہاتھ پھیلائے دعائیں کررہے تھے کہ باری تعالیٰ! یہ مٹھی بھر جماعت اگر آج فوت ہوگئی تو پھر اس روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا، الٰہی اپنا وعدئہ مدد پورا فرمائیے۔

روایتوں میں آتا ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے اس قدر الحاح و زاری کیا کہ کئی مرتبہ چادر مبارک بدن سے نیچے گرگئی، حضرت ابوبکر بار باراس کو کندھے پر ڈالتے رہے۔ آخر میں حضرت ابوبکر نے کہا کہ: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،اس قدر دعاء کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو فتح و نصرت کا وعدہ کیاہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔(۲۰)

حضرت ابوبکر کی اس گزارش میں ایسی کیفیت تھی کہ حضور نے وہیں پر دعاء ختم کردی اگلے روز جب صف بندی ہوئی تو حضرت ابوبکر کو میمنہ کا سردار مقرر کیا۔

بیٹے پر تلوار چلانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں

جنگ شروع ہونے سے پہلے دستور کے مطابق، کفار کی جانب سے حضرت ابوبکر کے صاحبزادے، عبدالرحمان بن ابی بکر - جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، نکلے اور مبازرت طلب کی، حضرت ابوبکر آگے بڑھے لیکن حضور صلى الله عليه وسلم نے اجازت نہیں دی، اور فرمایاکہ تلوار نیام میں رکھ لو۔

حضرت عبدالرحمن نے مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکر سے ذکر کیاکہ: ابا جان! غزوئہ بدر میں ایک مرتبہ آپ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے، لیکن میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ بیٹے اگر تو میری تلوار کی زد میں آگیا ہوتا تو میں تیری گردن اڑائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

اسیران قریش کو رہا کردیاجائے ترجمان نبوت کی رائے

اللہ پاک نے غزوئہ بدر کے ذریعے اسلام کو وہ شوکت دی کہ پھر کفر جرأت کے ساتھ سر نہ ابھار سکا۔ اس غزوہ میں جس بے جگری سے صحابہ کی قلیل تعداد نے لڑائی لڑی تھی، کہ اسیران قریش جن کی تعداد ۷۰ تھی، خوفزدہ تھے، انھوں نے حضرت عمر بن الخطاب کو اپنے ماموں عاص بن وائل کو قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ کو اپنے باپ پر تلوار چلاتے ہوئے اور حضرت ابوبکر کو اپنے بیٹے کے مقابلے میں مبازرت کے لیے اترتے دیکھا تھا۔ اس لیے انھیں یقین تھا کہ انھیں کیفر کردار تک پہنچاکر ہی دم لیاجائے گا، حضور صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور مشورہ کیا کہ کیا جائے، حضرت عمر تو اس پر مصر رہے کہ ان سب کو قتل کردیا جائے، مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبع ذات تھی، جو کہہ رہے تھے کہ آخر یہ بھی توہمارے ہی بھائی ہیں۔ یارسول اللہ ان کو رہا کیا جائے، ہوسکتا ہے اللہ پاک اسلام کی توفیق دے، خود حضور صلى الله عليه وسلم بھی انتقامی کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آخر حضرت ابوبکر ہی کے مشورے پر فیصلہ ہوا کہ جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ دس ناخواندہ مسلمان کو تعلیم دے کر رہا ہوں، اور جو خود ناخواندہ ہیں وہ فدیہ دے کر رہائی حاصل کرے۔(۲۱)

غزوئہ احد وحنین میں جواں مردی

یہ دو غزوے وہ ہیں جن میں ظاہری طور پر مسلمانوں کو اپنی بعض غلطی یا عجلت پسندی کی وجہ سے ہزیمت وقتی ہوئی، بالآخر بدحواسی ایسی پھیلی کہ نہ اپنا خیال رہا اور نہ ہی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا، لیکن ان دونوں غزووں میں ہم حضرت ابوبکر کو اس طرح پاتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذات مقدس سے چمٹے ہوئے ہیں کہ مبادا کفار کی یلغار سے رسول خدا کو زک نہ پہنچے۔

غزوہٴ احد کے موقع پر حضور صلى الله عليه وسلم ایک گڑھے میں گرگئے، تو سب سے پہلے اس گڑھے تک پہنچنے والے حضرت ابوبکر ہی تھے۔ جب احد سے کفار چلے گئے اور مسلمان زخموں سے چور چور تھے، کسی میں اٹھنے کی تاب نہ تھی، لیکن کفار کے تعاقب میں جانا ضروری سمجھا گیا، تو حضرت ابوبکر وزبیر وغیرہ ستر صحابہ نے حمراء الاسد تک ان کاتعاقب کیا، جس تعاقب کی وجہ سے امیر کفار ابوسفیان کو پلٹنے کا خیال بھی آیا تھا، مگر پلٹ نہ سکا۔(۲۲)

اسی طرح غزوہٴ حنین میں جب مسلمانوں کے قدم اولاً اکھڑ گئے تو جن حضرات نے ثبات قدمی اور انتہائی عزم و حوصلہ جواں کا ثبوت دیا ان میں حضرت ابوبکر کی ذات بھی تھی۔ طبقات ابن سعد میں ہے وثبت معہ یومئذ (یوم حنین) العباس بن عبدالمطلب، وعلی بن أبي طالب، والفضل بن عباس، وأبوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب، و ربیعة بن الحارث، وأبوبکر وعمر، وأسامة، وزید في اناس من اہل بیتہ وأصحابہ .(۲۳)

اور جب کفار حنین سے بھاگے، اور قلع طائف میں محصور ہوئے، تو ان کا تعاقب خود صلى الله عليه وسلم نے کیا اس میں بھی حضرت ابوبکر، حضور کے ساتھ رہے۔(۲۴)

صلح حدیبیہ میں عروہ کو ٹکا سا جواب

جب صلح حدیبیہ (۶ھ) جس کو قرآن پاک میں فتح مبین کہا گیا ہے۔ جس میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بناکر حضور نے مکہ بھیجا تھا لیکن ان کو اہل مکہ نے روک لیا تھا، اور اس طرح ان کی شہادت کی خبر پھیل گئی۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر، موت پر بیعت لی تھی؛ جسے بیعت رضوان کہا جاتاہے، اور قرآن نے ان تمام صحابہ کو جنھوں نے بیعت رضوان کیا، خوشنودی کی سرٹیفکیٹ دیا ہے، جب قریش کو یہ خبر پہنچی تو ان کے دماغ بھی ٹھکانے لگے، اور نامہ پیامی کرنے لگے، عروہ بن مسعود ثقفی جو ایک مدبر شخص تھے اور اب تک دامن اسلام سے وابستہ نہیں ہوئے تھے، کفار کی جانب سے شرائط صلح طے کرنے کے لیے آئے اور اپنی جنگی تیاریاں بڑھا چڑھا کر بیان کی تاکہ مسلمان دب کر صلح کریں، یا ان کا رعب مسلمانوں پر بیٹھ جائے۔ حضرت ابوبکر ساری بات بہت غور سے سن رہے تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور عروہ کو ٹکا سا جواب دیا ”امصص بظراللات“ کہ لات بت کی شرمگاہ چاٹ، کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی مدد چھوڑ دیں گے۔

عروہ نے پوچھا یہ کون ہے، حضور نے فرمایا کہ: ابوبکر، تو عروہ نے کہا کہ اگر ابوبکر کے احسانات مجھ پر نہ ہوتے تو میں اس کا جواب دیتا۔(۲۵)

حضور کی رکاب تھام لو

صلح حدیبیہ جو بظاہر دب کر ہوئی، صحابہ ہرگز تیار نہ تھے، لیکن حضور صلى الله عليه وسلم نے وحی الٰہی کی بنا پر یہ صلح کی تھی۔ حضرت عمر سے بھی نہ رہا گیا، آخر حضور سے سوال و جواب بھی کیا، جس کا زندگی بھر انہیں افسوس رہا۔ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کے پاس بھی جاکر عدم اطمینان کا اظہار کیا، لیکن ابوبکر تو نبوت کے رمز شناس تھے مقام صدیقیت پر فائز تھے، اور حضور کے ہر قول و فعل پر آمنّا وصَدّقنا کہنا اپنے لیے مایہٴ افتخار سمجھتے تھے، انھوں نے حضرت عمر سے کہا کہ عمر! حضور کی رکاب تھام لو، آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ اللہ کے حکم سے کیاہے، دین ومسلمانوں کے فائدے کے لیے کیا ہے۔(۲۶)

انہی کا یہاں آنا مناسب تھا

فتح مکہ کے موقع پرجس میں ہزاروں قدسیوں کا قافلہ، مکہ میں فاتحانہ داخل ہورہا تھا، حضور … کے ساتھ ابوبکر بھی ایک حصے کے علم بردار تھے، عام معافی کا دن تھا، کفار مکہ حضور صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے بے پایاں حسن سلوک کو دیکھ کر اسلام سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے،چنانچہ مسلمان ہونے کا تانتا بندھ گیا۔ عثمان ابوقحافہ جو حضرت ابوبکر کے والد ہوتے تھے، ابھی تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے، بینائی بھی جاتی رہی تھی، حضرت ابوبکر ان کو پکڑے ہوئے در رسالت میں پہنچے اور کلمہ پڑھانے کی درخواست کی، تو حضور نے فرمایاکہ ابوبکر! ان کو آنے کی کیا ضرورت تھی مجھے خبر کردیتے، میں ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ اور وہیں کلمہ پڑھوادیتا، لیکن حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ نہیں، اے اللہ کے رسول! انہی کا یہاں آنا مناسب تھا۔ ابوقحافہ مسلمان ہوئے اور حضرت عمر کی خلافت تک باحیات رہے۔(۲۷)

خدا و رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں

اس طرح اسلامی مملکت پھیلتی گئی، لیکن ۹ھ رجب میں، سرحد کے شمال کی جانب سے تشویش ناک خبریں موصول ہونے لگیں، کہ بازنطینی بادشاہ ہرقل، مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والا ہے، ادھر شدید گرمی، بلکہ ہوکا عالم ہے۔ صحابہ بے سروسامانی کے عالم میں ہیں۔ ابھی تو مختلف جنگوں سے فارغ ہوئے ہیں، جس میں جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے، ابھی سب سے زیادہ ضرورت تجارت و معیشت کی بحالی کی تھی، لیکن اسی عالم میں ایک منادی مسجد نبوی سے اعلان کرتا ہے کہ : لوگو! دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیارہوجاؤ، اور جو بھی نقد اثاثہ ہو جہادی فنڈ میں جمع کردو،لوگوں نے تمام ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ کر، اپنی اپنی بساط کے مطابق مال و اسباب جمع کرنے شروع کیے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فوج کے ایک ثلث کا پورا خرچ اپنے ذمے لیا، نیز ایک ہزار اونٹ ستر گھوڑے، اور ایک ہزار طلائی دینارنقد پیش کیے، حضرت عمر بن الخطاب کے پاس بھی اس موقع پر غیرمعمولی اسباب تھے، سب کا نصف لاکر حضور کی خدمت میں پیش کردیا، اور اس طرح ایک گونہ اطمینان محسوس کیا کہ آج اپنے ساتھیوں سے سبقت لے جائیں گے، لیکن دوسرے ایک نحیف و کمزور صحابی دور سے اپنے سارے سامان لادے ہوئے آرہے ہیں، حضور دریافت فرماتے ہیں کہ اہل وعیال کے لیے کتنا چھوڑا ہے، انتہائی سادگی سے فرماتے ہیں کہ اللہ و رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ وہ صحابی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے۔(۲۸)

علامہ اقبال نے اسی واقعہ کو اپنی موٴثر نظم میں اس طرح پرویا ہے۔

اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا                                  جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت                             ہرچیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار

ملک یمین ودرہم ودینار ورخت وجنس                           اسپ قمر، سم و شتر وقاطر وحمار

بولے حضور چاہیے فکر عیال بھی                                   کہنے لگا وہ عشق ومحبت کا راز دار

اے تجھ سے دیدئہ ومہ وانجم فروغ گیر                           اے تیری ذات باعث تکوین روزگار

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس                           صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

پہلا امیر حج

۹ہجری کو عام الوفود بھی کہا جاتا ہے،کیوں کہ اب اسلام کا غلغلہ ہوچکا ہے اور لوگوں کا ایک تانتا ہے، جو وفود کی شکل میں مدینہ آرہے ہیں۔ پھر دین اسلام سے روشناس ہوکر حلقہ اسلام سے وابستہ ہورہے ہیں۔ اسی سن میں حج فرض ہوا، تو حضور صلى الله عليه وسلم نے امیر حج کے لیے ابوبکر کا انتخاب کیا اور تین سو صحابہ پرامیر حج بناکر مکہ روانہ کیا۔ مسلمانوں نے آپ کی امارت میں آزادانہ طورپر مناسک حج ادا کیے۔(۲۹)

آنکھوں سے اشک رواں

پھر آئندہ سال ۱۰ ہجری میں اعلان عام ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بنفس نفیس حج کے لیے تشریف لے جارہے ہیں، اس لیے لوگوں کا ایک انبوہ بعض روایتوں کے مطابق ایک لاکھ سے زائد کا مجمع مکہ میں جمع ہوا(۳۰) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا یہ آخری حج تھا، اس لیے حجة الوداع کہا جاتا ہے۔ حضور نے اس موقع پر کئی وقیع خطبے دیے، جن میں دین تمام اہم اصولوں کو کھول کھول کر بیان کیے، اسی موقع پر الیوم اَکْمَلْتُ لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً، نازل ہوئی حضور نے لوگوں کو اس آیت کی خوش خبری دی، سب لوگ خوش بھی ہوئے، لیکن بندئہ ابوبکر تھا، جو پھوٹ پھوٹ کر روئے جارہا تھا، ساتھیوں کو تعجب بھی ہورہا تھا کہ ابھی تو اشک رواں کا کوئی موقع نہیں، لیکن وہ تو صدیقیت کے مقام پر فائز تھا۔ سمجھ رہا تھا کہ دین کی تکمیل کے بعد اب رسول صلى الله عليه وسلم کی اس دار فانی میں کیا ضرورت ہے۔ اب اللہ پاک اپنے پاس بلانے والا ہے۔

مرض وفات اور سترہ نماز کی امامت

جب دین کی تکمیل ہوگئی، تو نبی کا کام پورا ہوچکا ہے،کچھ اشارہ غیبی سے بھی اس طرف متنبہ کردیاگیا، اس لیے آپ نے بھی ساری تیاریاں مکمل کرلی، ۱۸ یا ۱۹/صفر کو جنت البقیع تشریف لے گئے، مدفونین کے لیے دیر تک دعائے مغفرت کی، واپسی پر طبیعت ناساز ہوگئی، ابتدائی دنوں میں آپ صلى الله عليه وسلم خود تشریف لاتے اور نماز پڑھاتے، لیکن جب نقاہت زیادہ ہوگئی، تو حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، ہر چند کہ حضرت ابوبکر رقیق القلب تھے ان سے رسول اللہ کی موجودگی میں کھڑا ہونا دشوار تھا۔ حضرت عائشہ وصفیہ رضی اللہ عنہا بھی مصر تھیں کہ حضرت عمر کو حکم دیا جائے، لیکن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے سختی سے حکم دیا کہ ابوبکر نماز پڑھائیں، اس طرح آپ کی زندگی میں ہی، رحلت سے قبل تک ۱۷ / نمازوں کی امامت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی۔(۳۱)

سب دریچے بند کردیے جائیں سوائے ایک دریچے کے

جیساکہ پہلے عرض کیاجاچکا ہے کہ مسجد نبوی کے اردگرد رہائشی پلاٹ سے حضرت ابوبکر کو بھی ایک حصہ ملا تھا، جس میں انھوں نے ایک مکان بنوایا تھا، اس کی ایک کھڑکی مسجد کی جانب کھلتی تھی۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے دوران مرض ایک روز افاقہ محسوس کیا تو مسجد تشریف لائے،اور منبر پر تشریف رکھ کر فرمانے لگے کہ اللہ پاک نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا کو اختیار کرے یا پھر آخرت کو ترجیح دے، چنانچہ اس بندئہ خدانے آخرت کو ترجیح دیا۔ یہ سن کر مجمع میں سے حضرت ابوبکر کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو ابلنے لگے، حضور نے فرمایاکہ: ابوبکر! صبر سے کام لو، پھر فرمایا کہ: سب دریچے بند کردئیے جائیں صرف ابوبکر کا دریچہ کھلا رہے گا، پھر حضرت ابوبکر کے احسانات حضور نے گنوائے۔(۳۲)

عمر بیٹھ جاؤ

حضرت ابوبکر کے ذمے ایک تو نماز کی امامت کی ذمہ داری آئی، دوسرے حضور صلى الله عليه وسلم کی علالت کی وجہ سے وہ اپنے گھر - جو مقام ”سُنْح“ میں تھا - نہ جاسکے، ایک روز صبح کی نماز کے بعد حضور سے اجازت لے کر ”سُنح“ چلے گئے، اتنے میں حضور کا وصال ہوگیا۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیلی، حضرت ابوبکر دوڑے ہوئے تشریف لائے، مسجد نبوی پہنچے تو دیکھا کہ صحابہ بدحواس ہیں، حضرت عمر ننگی تلوار لیے کھڑے ہیں، اور اعلان کررہے ہیں کہ جو کوئی کہے گا کہ محمد کی وفات ہوگئی ہے، اس کی گردن تن سے اڑادوں گا۔ حضرت ابوبکر اولاً حجرئہ مبارکہ میں تشریف لے گئے، رخ انور سے چادر ہٹائی، پیشانی کو بوسہ دیا اور طِبْتَ حیًا میتًا کہتے ہوئے باہر تشریف لائے۔ حضرت عمر ابھی تک لوگوں کو دھمکارہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے کہاکہ: عمر! بیٹھ جاؤ، حضرت نہ بیٹھے، بڑا ہی نازک وقت تھا، کسی کے حواس ٹھکانے نہ تھے۔ حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور تقریر شروع کی کہ: اے لوگو! تم میں سے جو لوگ محمد (صلى الله عليه وسلم) کی عبادت کیا کرتا تھا، وہ سن لے کہ محمد وفات پاچکے ہیں، اورجو کوئی اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا، تو اس کا معبود حی لایموت ہے۔ پھر آپ نے ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل اخیر تک پڑھی، مجمع یکایک چونک اٹھا، حضرت عمر میں سکت نہ رہی کہ کھڑے رہ سکیں، لڑکھڑاکر زمین پر گرگئے، اور اس طرح لوگوں کو یقین آگیا کہ حضور کا وصال ہوچکا ہے۔(۳۳)

یہ ہے یارغار کی زندگی کے لمحات، جس نے اسلام کے بعد سے لے کر، وفات نبوی تک کس جذبہ جانثاری و اولوالعزمی کا ثبوت پیش کیا۔ گویا کہ اپنی زندگی کی دھن ہی، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے وابستگی، وارفتگی کرلی تھی کہ لمحہ بھر کا فراق بھی کبھی گوارا نہ کرسکے۔

* * *

حواشی:

(۱)                   البدایہ والنہایہ: ۳/۲۸۔

(۲)                  سیرت ابن اسحاق بحوالہ البدایہ والنہایہ: ۳/۲۷۔

(۳)                 دیوان حسان بن ثابت شرح یوسف عید، ط: ۱۴۱۲ بیروت ، ص:۲۸۲، قافیة اللام، قصیدہ خیرالبریة۔

(۴)                 ترمذی:۲/۲۰۸۔

(۵)                 مجمع الزوائد:۹/۴۰۔

(۶)                  البدایہ والنہایہ:۳/۱۱۳۔

(۷)                 مجمع الزوائد:۹/۴۱۔

(۸)                 بخاری: ۱/۵۲۰۔

(۹)                  البدایہ والنہایہ:۳/۳۰۔

(۱۰)                تاریخ طبری:۲/۴۷۶، البدایہ والنہایہ:۳/۳۰۔

(۱۱)                 ابوبکر صدیق مترجم محمد احمد پانی پتی ص:۴۸ بحوالہ عشرہ مبشرہ اردو:۴۷۔

(۱۲)                طبقات ابن سعد:۳/۱۷۲۔

(۱۳)                البدایہ والنہایہ:۳/۵۸ سیرت محمد بن اسحاق اردو ترجمہ:۲۶۴۔

(۱۴)                سیرت محمد بن اسحاق اردو:۲۶۴۔

(۱۵)                البدایہ والنہایہ:۳/۹۴-۹۵۔

(۱۶)                دیکھئے تفصیلات، البدایہ والنہایہ :۳/۱۷۷-۱۹۶، تاریخ طبری:۲/۵۰۴-۵۰۸۔

(۱۷)                معجم البلدان:۳/۳۰۱۔

(۱۸)                ترمذی:۲/۲۰۹۔

(۱۹)                 عشرہ مبشرہ:۶۵۔

(۲۰)               بخاری شریف:۲/۵۶۴۔

(۲۱)                البدایہ والنہایہ:۳/۲۹۷۔

(۲۲)               بخاری شریف:۲/۵۸۴۔

(۲۳)               طبقات ابن سعد:۲/۱۵۱۔

(۲۴)               البدایہ والنہایہ:۴/۳۵۰۔

(۲۵)               البدایہ والنہایہ:۴/۱۶۶،۱۶۷۔

(۲۶)               مسلم:۲/۱۰۶۔

(۲۷)               سیرت حلبیہ اردو ترجمہ مولانا اسلم صاحب قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم (وقف) دیوبند:۳/۲۶۹۔

(۲۸)               ترمذی:۲/۲۰۸۔

(۲۹)                بخاری:۲/۶۲۶۔

(۳۰)               الاصابہ مقدمہ:۴۔

(۳۱)                بخاری:۱/۹۳-۹۵۔

(۳۲)               بخاری:۱/۵۱۶، ترمذی:۲/۲۰۷۔

(۳۳)              بخاری:۱/۵۱۸، ۲/۶۴۰۔

* * *

---------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 01-12 ، جلد: 92-93 ذى الحجة 1429 ھ – محرم 1430 ھ مطابق دسمبر 2008ء – جنورى 2009ء