ذہانت، منزلِ حکمت کی جانب گامزن ہوجائے….!

از: عزیز بلگامی

 

” یقینا ۱)آسمانوں اور کرّہٴ ارض کی تخلیق میں اور ۲)گردشِ لیل و نہار میں اور ۳) بحر(کی موجوں ) میں(ڈولتی ہوئی محو سفر) کشتی میں، جوکرّہٴ ارض کے باشندوں کے لیے منفعت بخش ہے اور ۴)آسمان کی بلندیوں سے اللہ نے جس بارش کو نازل فرمایا،جس کے ذریعہ اُس نے زمین کو اس کے بے جان ہوجانے کے بعد(دوبارہ) زندگی دی اور ۵)زمین میں حرکت کرنے والے ہر نوع کے جانور پھیلادیے اور ۶)ہواؤں کے(تیز گامی یا سست گامی کے ساتھ چلنے،رُخ ) بدلنے میں اور ۷)آسمان اور زمین کے درمیان (بغیر کسی ستون کے معلق ہونے والے آب بردوش)بادلوں میں اور تابع ِ فرمان (بن کر ضرورت مند انسانیت کے لیے پانی کا ایک زبردست منبع )بن جا نے میں،(الغرض،مذکورہ بالا سات قسم کے عام تجربے کے اِن قدرتی مظاہر میں) اُن باشندگانِ زمین کے لیے یقینا نشانیاں(Signs اور Evidences) ہیں جوعقل رکھتے ہیں(منظق یا  Logicیا  Reasoningکی دولت سے مالا مال ہیں)۔“

قرآنِ حکیم کی دوسری سورة کی ایک سو چوسٹھویں آیت میں درج یہ سات بظاہر عام قسم کے مظاہرِقدرت ہیں۔ لیکن اِن میں ایک باشعور، صاحبِ عقل و دانش کے لیے غور و فکر کا بھرپور سامان موجود ہے :

ہم جانتے ہیں کہ انسانی دماغ بے شمار صلاحیتوں اور قابلیتوں کا مرکز ہوتا ہی۔ اشرف المخلوقات میں شمار اِنسان کے دماغ کو اس کے خالق نے ایک انتہائی بیش قیمت نعمت سے سرفراز کیا ہے جسے عرفِ عام میں ذہانت یا Intellect کہتے ہیں۔ ہرانسان کو اچھائی اور برائی،نیکی اور بدی، سیاہ اورسفید، سچ اور جھوٹ،حق اور باطل،اندھیرے اوراُجالے میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت بخشی گئی جس کی کرنیں اِسی دماغ سے پھوٹتی ہیں۔وہ انسان جو اپنی نظروں کے سامنے آراستہ منظر کی ہر روشن شئے پرغورو فکر کرتے رہتے ہیں،جنہیں حا لات کا تجزیہ کرکے اپنے لیے ایک لائحہ عمل یا line of Actionمتعین و مرتّب کرنے ، اِسے ایک رخ دینے اور اپنی تیز گامی یا سست گامی کے مابین ایک اعتدال بر قرار رکھنے کا سلیقہ ہوتا ہے۔ایسے انسانوں کو صاحبِ شعور، ذہین، Sensible یا Intelligent انسان کہا جاتا ہے۔ایک ذہین انسان میں سوچنے، سمجھنے، سیکھنے، حقائق تک پہنچنے اور حا لات کا تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔کسی بھی صورتحال کاپہلی مرتبہ کس طرح مقابلہ کیا جائے،ناخوشگوار یا خوشگوار حالات سے کیسے نمٹا جائے اوردوسری مرتبہ یہ پھر رونما ہوں توکس طرح اِن سے نمٹنے کے طریقہ کارمیں سدھاریا Improvement لایا جائے،کس طرح اپنے حو اس خمسہ کے استعمال کے ذریعہ بہتر سے بہترکی طرف بتدریج پیش قدمی کی جائے ، عمر کے اضافے کے ساتھ ساتھ برتاؤ،رویوں، تال میل اور جذب و انجذاب میں کس طرح مثبت تبدیلی لائی جائے ،یہ اور اس نوع کے مراحل ہر ذہین انسان کی زندگی میں رونما ہوتے ہیں، جن کے درمیان سے وہ گزرتاہی رہتاہے۔اِس میں کارفرما قوّتِ نافذہ دراصل اپنے لیے ایک بہتر مستقبل کی جستجو اور فکرمندی ہی ہوتی ہے۔عام طور سے ذہانت اور حکمت یا (Wisdom & Intelligence) کے درمیان پائے جانے والے نازک سے فرق کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔حکمت یاWisdom  ایک با شعور،ذہین اورایک معقول شخص کی ذہانت کی معراج ہے۔مستقبل کے لیے فکر مندی کی انتہا ہے۔ غور و فکر کے سلسلے میں اس کی عرق ریزیوں کا ثمرہے۔ یہ کتابِ ہدایت ہی ہے جو دونوں کے درمیان ایک لطیف فرق کی لکیر کھینچ دیتی ہے اور نہایت ہی خو بصورتی کے ساتھ متاثر کن انداز میں پیش کر تی ہے۔قرآ نُ ا لحکیم میں جہاں بھی”اولوالالباب“ کے الفاظ آئے ہیں ان سے” Wisdomیاحکمت کا استعمال کرنے والے“،” کُل ماجرہ سمجھنے والے “ اور” اپنی عقل کے دروازے کھلے رکھنے والے“ ،”ذہانت کی دولت سے مالامال لوگ“ ہی مراد لیے گئے ہیں۔

تاہم Wisdom کسی محدود یا مخصوص کیفیت کانام نہیں ہے۔یہ کسی کی نقالی یا Immitation کے ذریعہ پیدا کی جانے والی شے بھی نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک ذہین انسان میں حالات کی مناسبت و نزاکت سے اُبھرتی ہے۔ یہ انسان کے شب وروز،اس کے طرزِ زندگیLife Style،اِس کے رویہ، اِس کے ردّعمل کے انداز،اسکے کردار و گفتارسے منعکس ہوتی ہے۔ایک انسان اپنی ذہانت کے استعمال کے ساتھ جب اپنے رب کی کتاب سے اپنا رشتہ اُستوار اور مستحکم کر لیتا ہے توکتابِ ہدایت کی آیات اُس کے اندرون و بیرون میں تربیت کا ایک ایسا عملProcess جاری کر دیتی ہیں جس سے گزر کر انسان کی ایسی نکھری ہوئی شخصیت اُبھرتی ہے جو باکمال ہوتی ہے اور لازماً وہ اپنے اِرد گرد کے ماحول میں اُمید کی ایک کرن بن جاتی ہے۔اُس کے نکھار اور کمالات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اطراف میں بسنے والوں کے نفع کا سامان فراہم کرتی ہے اور وجہِ فیض یابی بن جاتی ہے۔اور یہی منزل حکمت کی منزل ہوتی ہے۔ ایسےintelligent اور باکما ل شخص کوجو حکمت کی منزل کو پا چکا ہوتا ہے،” خیر کثیر“ میسّر آجاتا ہے۔درحقیقت” خیر کثیر“ ایک ذہین آدمی ہی کی میراث ہوتی ہے۔ ظاہر ہے وہ اِس خیر کثیر کو مستحق بندگانِ خدا میں تقسیم کرنے سے کیسے رُک سکتا ہے!

 دوسری سورة کی دوسو اُنہترویں آیت اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے:”وہ(اللہ ہی ہے جو) نواز دیتا ہے حکمت،دانائی اورWisdom سے ،جسے وہ چاہتا ہے اور جس کسی کو حکمت و دانائی عطا کی گئی تواُسےIndeed خیر کثیر سے سرفراز کیا گیا اور(اِن حکمت و دانائی سے لبریز نوازشوں سے لوگ ) نصیحت نہیں حاصل کرتے بجز اُن کے جو اپنی عقل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ “

 حکمت و ذہانت اورعقلمندی ودانشمندی سے معمور اشخاص کے لیے کا ئنات کے ہر ذرے سے ایسے خاموش اِشارےSignals مہیا ہوتے ہیں جسے نادان اپنی نادانی کے باعث حاصل نہیں کرپاتے۔ اِن اشاروں سے ایک دانش مند خاموش رہنمائی اخذ کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ جس کتاب کی ہدایاتِ ربّانی کو اپنی زندگی کا رہنما بنا چکا ہوتا ہے، وہ کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں سے ہم آہنگ ہوتی ہے، کہیں کوئی ٹکراؤ نہیں، کہیں کوئی تضاد نہیں۔ چنانچہ وہ جب بھی اپنے خالق کی فراہم کردہ کتابِ ہدایت سے اپنے لیے احکامات کی روشنی حاصل کرے گا،اُس کی زندگی کے لیے ایک معتدل اوراحسن راہ متعین ہو جائیگی، ساری کائنات اُس کی ہمنوا بن جائیگی،اُس کی زندگی بھی فکری تضادات و نظری ٹکراؤ سے پاک ہوگی، اِس راہ پر گامزن ہو کر وہ اپنی مغفرت کی جستجو کرے گااور فی الواقع یہی اُس کی ذہانت،سمجھداری اورWisdom کی دلیل بھی ہوگی اور تقاضہ بھی۔

اِس سلسلے میں اُنچالیسویں سورة کی اٹھارھویں آ یت قابلِ توجہ ہے: ”جوبندگانِ خدا قولِ (دانائی و حکمت)کو توجہ سے سماعت کرتے ہیں، پھر احسن(اور جامع Discipline) کے ساتھ اِس کی اتباع کرتے ہیں،تو یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی لوگ ہیں جو اپنی عقل کے دروزے کھلے رکھتے ہیں۔ “

تجربہ کہتا ہے کہ جب ایک ذہین انسان کتابِ ہدایت سے رشتہ اُستوار کرلیتا ہے تواُس کی قابلیتوں اور صلاحیتوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے وہ انسانوں کے مجمع میں سب سے ممتاز شخصیت دکھائی دینے لگتا ہے،چاہے وہ بظاہر روایتی مذہبی آدمی کے حلیہ میں نظر نہ آتا ہو۔اِس لیے کہ وہ اپنی ذہانت کی حدود سے باہر نکل کر، کتاب اللہ کی برکت سے، حکمت کی حدود میں اپنے آپ کو داخل کر لیتا ہے۔حالات کوRespondکرتے ہوئے، ان کا تجزیہ کرتے وقت ،ان سے نتائج اخذ کرنے کے دوران، لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے وہ مسلسل حکمت ودانائی کی معیت و مدد سے مستفید ہونے لگتا ہے۔ اپنے مالک و خالق کی ناراضی اوراسکی گرفت کا حقیقی خوف اُسے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کامرانی سے ہم کنار کرتا ہے۔کیونکہ ربُّ العالمین کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس ذہین اورWise انسانوں کومستقلاً راہِ راست پر گامزن رکھتاہے۔اِن اصحاب کی خصوصیات کے بارے میں چوبیسویں سورة میں سینتیسویںآ یت میں ہمیں بڑی واضح تفصیل ملتی ہے: ”(ایسے ہی حاملینِ عزم و ارادہ اور ایسے ہی صاحبینِ ایمان) اشخاص ہوتے ہیں جنہیں نہ ان کی تجارت نہ( اُن کی خرید وفروخت اور) لین دین، ذکرِ اِلٰہی سے(اور اللہ کے Presence کے احساس سے)، اورنماز ( جیسی عبادتوں )کے قیام سے، اور زکوٰة ( جیسے اعمالِ تزکیہ یا Charitable Services) سے کبھی غافل کرنے والی ہیں اورقلوب اور آنکھوں کو تلپٹ کردینے والے (اُس غضب ناک )دن سے وہ ڈرتے(لرزتے زندگی گزارتے ) ہیں۔ “

دوسروں سے اُمیدیں وابستہ کرنے کے بجائے، اصحاب ِ حکمت و دانش ،نیکیاں اِکٹھی کرنے کے مواقع کو کبھی نہیں کھوتے۔ اپنے ہم نشینوں کی استعانت کے کسی موقع کو یا اپنے رب کی رضاکی کسیOpportunityکو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اِن مواقع کو وہ ایک ایسی چیک سمجھتے ہیں جسے فوراً Cashکرلیا جانا چاہیے۔حکمت و ذہانت کے حامل ایسے ہی نکو کار بندے، اپنی عبادتوں اور چیاریٹیز کے کارہائے سعادت کے ذریعہ اپنے رب کی قدردانی کے مستحق ہوں گے۔

آخرمیں ہم بخاری اور مسلم میں درج دو اہم احادیث پیش کرتے ہوئے اپنے مضمون کا اختتام کریں گے:

”وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْ دٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: لَا حَسَدَ اِلَّا فِیْ اِثْنَیْنِ ، رَجُل اَتَاہُ اللّٰہُ مَا لَا فَسَلَّطَہ عَلیٰ ہَلَکَتِہ فِی الْحَقِّ وَ رَجُل ٰاٰتَاہُ اللّٰہ الْحِکْمَةَ فَہُوَ یَقْضِیْ بِہَا وَ یُعَلِّمُہَا“(بخاری و مسلم)۔

ترجمہ: ”حضرت ابن مسعود رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: حسد (رشک)صرف دو آدمیوں کے سلسلے میں جائز ہے: ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا پھر اُسے حق کی راہ میں لٹانے کی توفیق بخشی، دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت عطا کی تو وہ اُس کے مطابق فیصلے کرتا ہے، اور (لوگوں کو) اِس کی تعلیم دیتا ہے۔“

ایک اور واقعہ بخاری میں ملتا ہے :

”وَعَنْ اِبْنِ عَباَّسٍ قَالَ: ضَمَّنِیَ النَّبِیُّ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم اِلیٰ صَدْرِہ فَقَالَ اَللّٰھمَّہ علِّمْہ الْحِکْمَةَ و فِیْ رَوَایَةٍ عَلِّمْہ الکِتاَبَ۔“(بخاری)

                ترجمہ: ”حضرت ابنِ عباس رضى الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا:خدایا،اس کو حکمت عطا فرما،ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:”اس کو کتاب (قرآن ) کا علم دے۔“ اِسی طرح ترمذی کی ایک روایت ہے کہ ابن عباس رضي الله تعالى عنه نے کہا:

 ”دَعَالِی رَسوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیہِ وَ سَلَّمَ اَنْ یُّو تِیَنِی اللّٰہُ الْحِکْمَةَ مَرَّتَیْنِ۔“

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے لیے دو مرتبہ دعا کی کہ خدا مجھے حکمت عطا فرمائے۔“

کہیں ایسا نہ ہو کہ گم ہو گمراہی کے رستوں پر

ذہانت، منزلِ حکمت کی جانب گامزن ہوجائے

                                                                                                                                                                                                                                (ع ب)

* * *

-------------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 01-12 ، جلد: 92-93 ذى الحجة 1429 ھ – محرم 1430 ھ مطابق دسمبر 2008ء – جنورى 2009ء