مصلح کے بھیس میں مفسد ملکی اور عالمی ”پروہت“

از:         ڈاکٹر ایم، اجمل فاروقی ‏، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

آج کی دنیا میں سب سے زیادہ ہنگامہ امن اور سکون کی کمیابی پرہے۔ مگر یہ مسئلہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواء کی کے مصداق روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہے یا معالج ٹھیک نہیں ہے یا معالج کی نیت ٹھیک نہیں ہے؟ معاملہ کیا ہے؟

ملکی اور بین الاقوامی منظرنامہ میں گذشتہ دنوں دو بڑے اہم واقعات ہوئے:

۱- یمن کی راجدھانی صنعاء سے خبر آئی کہ یمن نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تعلق رکھنے والے ایک دہشت گرد گروپ کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔ یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے بتایا کہ ۲/۱۰/۲۰۰۸/ کو گرفتار کیے گئے مجرمین کے تعلقات اسرائیلی انٹلیجنس سروس کے ساتھ ہیں اوراُس کوجلد عدالتی کارروائی کے لیے پیش کردیا جائیگا۔ یمنی صدر کا اشارہ راجدھانی صنعاء میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ میں ملوث افراد کو حراست میں لیے جانے کی طرف تھا، ستمبر ماہ کی ۱۷/تاریخ کو ہونے والے اس حملہ میں ۱۸ افراد مارے گئے تھے۔ (راشٹریہ سہارا، اردو ۸/۱۰/۲۰۰۸/)

یہ خبر جتنی اہم تھی اتنی ہی مستعدی کے ساتھ اسرائیل حامی میڈیا کے ذریعہ دبادی گئی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک مسلم ملک میں اسرائیلی ایجنٹ مسلم نوجوانوں کو استعمال کرکے اپنے سب سے قریبی مددگار، ہمدرد اور سرپرست امریکہ کے سفارت خانہ پرحملہ کیوں کرواتا ہے؟ کچھ فوری وجوہات ہوں گی مگر ایک مستقل وجہ امریکی عوام اور حکومت میں مسلم دشمنی کی Booster doses مقوی خوراک و قفہ وقفہ سے دینا ہے تاکہ وہ اسرائیل عرب تنازعہ کو منصفانہ طورپر سلجھانے کی سوچیں بھی نہیں۔ یہیں پر یہودی عیّاری ومکاّری سے بھی سبق لینا چاہیے کہ وہ دنیا بھر میں کتنا اثر ونفوذ رکھتے ہیں اور کتنا منظم طریقہ پر مکاّرانہ چالیں چلتے ہیں۔ کیونکہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی صیہونیوں کا ہی قبضہ ہے اس لئے وہ بھی اتنی اہم خبر کو دباگئے۔

اس کی جڑواں خبر ہمارے ملک سے آج کل دن رات موضوع بحث ہے وہ ہے مختلف انسانیت دشمن بم دھماکوں میں یہودیوں کے نسل برداروں کی تنظیم کی براہِ راست اور بالواسطہ شمولیت کی ہے۔ آج حالات کی چاہے جو مجبوری رہی ہو مگر مظلوموں کا لہو قاتلوں کے ہاتھ سے ٹپکتا دکھایاجانے لگا ہے تو عقلیں حیران ہیں اور حواس ماؤف ہیں کہ کیسے کیسے پاکباز سادھو، سنت، دیش بھگت، مٹھ، مہنت بے گناہوں کے خون کی ہولی بھی کھیلتے رہے اورمعصوموں اور بے گناہ نوجوانوں کو قتل وغارت گری میں ملوث کراکر ان کو اور اہل خاندان کو عذاب میں بھی مبتلا کیے رہے۔ اور اپنے آپ دہشت گردی کے خلاف بند اور ہڑتالیں بھی کرواتے رہے۔ جس نسل پرست، نفرت کی پرچارک تنظیم کی سرپرستی میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے اس کا یہ کھیل نیا نہیں ہے۔ مشہور تاریخ داں امریش مشرا Amrish Mishra اور سبھاش کاتاڈے نے لکھا ہے کہ سنگھ پریوار کا یہ کردار نیا نہیں ہے۔ آئی . سی . ایس افسر راجیشور دیال ہوم سکریٹری آف یوپی کی ۱۹۹۶/ میں شائع شدہ کتاب ”اے لائف آف آور ٹائمس“ A Life of our times ”جب فرقہ وارانہ تناؤ اپنے عروج پر تھا تو ویسٹرن رینج کے D.I.G. بی. بی. ایل جیٹلی رازدارانہ طورپر میرے گھر آئے۔ ان کے ساتھ ان کے دو افسران بھی تھے جو اپنے ساتھ دو اسٹیل کے بڑے ٹرنک بھی لائے تھے۔ اُن بکسوں میں اُن سارے منصوبوں کے دستاویزی ثبوت موجود تھے جس کی بنیادپر اس صوبہ میں مجرمانہ کارروائیاں انجام دینے کی سازش رچی گئی تھی۔ اُن بکسوں میں پوری مہارت اورپیشہ وارانہ صلاحیت کے ساتھ تیار کیاگیا ہر شہر کا بلیوپرنٹ موجود تھا جس میں اس بڑے خطہ کے مسلم علاقوں اورآبادیوں کی وضاحت کے ساتھ نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اُس میں مختلف علاقوں تک پہنچنے اور ان علاقوں میں مجرمانہ افعال کو انجام دینے کے بارے میں تفصیلی ہدایات درج تھیں۔ میں ان ثبوتوں کو لے کر وزیراعلی گووند بلبھ پنت کے پاس گیا وہاں جیٹلی نے بند کمرے میں تمام دستاویزی ثبوت اور رپورٹ پیش کی۔ آر. ایس. ایس آفس پر بروقت مارے گئے چھاپوں کے نتیجہ میں ہی یہ سنگین سازش منظر عام پر آئی۔ اور اس کا پلاٹ تنظیم کے سپریمو کی نگرانی میں اور ان کی ہدایت پر تیار کیاگیاتھا۔ جیٹلی اور میں نے اصل مجرم گول والکر کی فوری گرفتاری کے لیے دباؤ بنایاجو کہ اُس وقت علاقہ میں ہی موجود تھے مگر پنت نے اسے کابینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا، کانگریس کے اندرآرایس ایس سے ہمدردی رکھنے والے کافی لوگ موجود تھے۔ خود قانون ساز کونسل کے سربراہ آتما گووند کھیر آرایس ایس کے ہمدرد تھے اور ان کے بیٹے بھی آر ایس ایس کے ممبر تھے۔ گول والکر کو گرفتار کرنے کے بجائے ایک خط ان کو بھیجا گیا تھا جس میں حاصل کردہ ان ثبوتوں کی بنیاد پر اُن سے صفائی مانگی گئی تھی۔ جیسا کہ متوقع تھا گول والکر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اس کے بعد پولیس مختلف علاقوں میں چھاپہ مارتی رہی۔ (امریش مشرا ، راشٹریہ سہارا، ۲/۱۱/۲۰۰۸/)

اس کے علاوہ Alexnon Tunzdmann نے اپنی تصنیف "The Indian summer, Secret history of the end of an empire" میں اگست، ستمبر، اکتوبر ۱۹۴۷/ میں فرقہ وارانہ فسادات کی قلعی کھولتے ہوئے لکھا ہے ”یہ فسادات نہیں بلکہ آر. ایس ایس کے ذریعہ ریٹائرڈ فوجی افسروں و عملے کے ذریعے ساز باز کرکے نومولود ہندوستانی ریاست کے سیکولر کردار کے خلاف ایک بغاوت و شورش تھی۔ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل دونوں ہی اس سازش سے واقف تھے۔ نہرو نے اس وقت سردار پٹیل کو وارننگ دی تھی کہ وہ اس بارے میں فوری فیصلہ کریں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ تبھی پٹیل نے فوج کو مسلمانوں کے خلاف اُس بغاوت و شورش کو جس میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا تھا کچلنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ (ایضاً)

آج جبکہ ایک بار پھر اس نسل پرست تنظیم کی شیطانی سازشوں کو دنیا دیکھ، سن رہی ہے تو ایسا تاثر دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ شاید یہ چند دنوں پہلے کی بات ہے اور شاید یہ نام نہاد مسلم دہشت گردی کا رد عمل ہے اور دراصل یہ تنظیم ہندوستان کی سچی خیرخواہ ہے۔ بس یہ تو چند ایک لوگ ہیں جو مسلح افواج میں پکڑے گئے ہیں ورنہ زیادہ تر فوج بالکل غیر جانبدار اور سیکولر ہے۔ مگر اوپر کی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سیدھا سادھا اور آسان نہیں ہے۔ اس نسل پرست گروہ کے ارادہ ہمیشہ سے پوری ملکی انتظامیہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے تھے اسی لیے انھوں نے ۱۹۳۴/ میں ہی مہاراشٹر بھونسلے اسکول کی بنیاد رکھی۔ تب سے آج تک وہاں سے پڑھے ہوئے لاکھوں طلباء کے ذہنوں کو زہرآلود کرکے مسلم دشمنی بھری گئی۔ اس کا اہم نعرہ ”ہندوؤں میں ملٹری ذہن پیداکرنا اور ملٹری کو ہندو بنانا ہے“ اوراسی کے تحت وہ مستقل عمل پیرا ہے۔ A.T.S مہاراشٹر کی حالیہ تفتیش کے افشاء کے بعد سے صرف ایک خطرناک سازش کو شائع ہونے دیاگیا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ حکومت کو اس کا علم نہ ہو۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھنے والے ۱۹۱۸/ سے ہی منظم پلان کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ اوپر کے دونوں مستند حوالہ اس پر گواہ ہیں۔ آر ایس ایس ایک تنظیم نہیں ہے ایک ذہنیت ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ اپنی ۷۰ سالہ محنت اور انتھک جدوجہد کے بعد انتظامیہ کا کوئی بھی رکن اس کی گرفت سے باہر نہیں ہے صرف درجات کا فرق ہوسکتا ہے۔ عدلیہ اور مسلح افواج سب سے حساس اور کلیدی ادارہ ہیں مگر وہاں بھی جو حال ہے اس کی علامت وقفہ وقفہ سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل پروہت ایک واحد کیس ہے یا برفانی تودہ کا اوپر سرا ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لئے آج سے ۱۵ سال پہلے ۱۷/اپریل ۱۹۹۸/ کے آؤٹ لک (Out look) کی اشاعت کی مندرجہ ذیل اقتباسات پر غور کرنا ضروری ہے:

 ”ہندوتو کے لئے ہندوستانی افواج کے اعلی ترین افسروں میں ہمدردی اُس سے بہت زیادہ ہے جتنا سوچا جاتا ہے۔ اسکے شواہد موجود ہیں کہ فوج کی بے داغ و بہترین وردی کے نیچے زعفرانی کچھا موجود ملتا ہے۔ اگرایسا ہی چلتا رہا تو جلدہی وہ وقت آئیگا کہ نوکر شاہی کی طرح فوج بھی سیاست زدہ ہوجائیگی اور ہر سیاسی تبدیلی کے ساتھ فوج کے جنرل بھی بدلے جائیں گے۔ (سابق سربراہ بحریہ ایڈمرل جے. جی. نادکرتی)

فوج پر اثر انداز ہونے کے لیے آر ایس ایس نے بھرتی کے خواہش مند طلباء کی مددکے مراکز کے ساتھ ساتھ خود اپنی ذیلی تنظیموں کی نگرانی میں چلنے والے ملٹری اسکول بھی کھلوائے ہیں۔ مہاراشٹر میں خود آرایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں ایک ملٹری اسکول چلایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر کے ۳۲ میں سے ۱۴ اضلاع میں ملٹری اسکول قائم کئے جاچکے ہیں۔ پونہ میں صرف خواتین کے لئے اسکول قائم کیاگیا ہے۔ رانی لکشمی بائی مولنچھی سینک شالا کے کمانڈنٹ کرنل آنند گھوکھلے کا کہنا ہے کہ ”ہم نے اپنے کورس میں N.D.A. اور R.S.S. کے ملٹری اسکول ’پرہار‘ کو دھیان میں رکھا ہے۔ طلبہ یہاں گنپتی پوجا، دیوالی، نوراتری مناتے ہیں سلوک پڑھتے ہیں اور گیتا کا جاپ کرتے ہیں مگر اس میں فرقہ واریت نہیں ہے۔ ۳۰ لاکھ سے زائد سبکدوش فوجیوں کی مجبوریوں اور مسائل کا استحصال کرتے ہوئے ان کے ”پورواسینک پریشد“ کاقیام بابری مسجد کی شہادت کے بعد ۱۹۹۳/ میں یوپی میں ہی ہوا۔ اب تک (۱۹۹۸/)اس کے ۱۲ سے زائد ریاستوں میں شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔ P.S.S.P کے جنرل سکریٹری رنگ کمانڈر کے ایل ناگپال کہتے ہیں کہ سابقہ فوجیوں کی خدمات کو استعمال کرنے کا بہترین طریقہ نوجوانوں کی آر. ایس ایس اورملٹری اسکولوں میں تربیت کرنا ہے۔ ان تمام کوششوں کے درمیان میں ہی یہ خبر بھی سامنے رہے کہ صرف ۱۹۹۸/ میں ہی ۲۵ ریٹائرڈ جنرلوں نے باقاعدہ B.J.P میں شمولیت اختیار کی“ (اس کے علاوہ B.J.P کے عاملہ کے اجلاس میں فوج کے سربراہان کی شمولیت، پونہ کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کی تقریب میں جنرل وی. پی. ملک کا ڈائس پر بال ٹھاکرے کے ساتھ موجود ہونا کس بات کی طرف رہنمائی کررہے ہیں؟) (آؤٹ لک ۲۷/اپریل ۱۹۹۸/)

گرفتار شدہ مبینہ ہندو دہشت گردوں سے پوچھ تاچھ سے انکشاف ہوا کہ انھوں نے صرف ایک بار میں ۵۱- نوجوانوں کو دہشت گردی کے طریقہ سکھائے۔ یہ بھی قبول کیا گیا کہ صرف احمد آباد کے ایک آشرم میں ہی اب تک ۵۰۰ سے زائد ہندو نوجوانوں کو دہشت گردی کی تعلیم دی گئی (انڈین ایکسپریس ۱۵/۱۱/۲۰۰۸/، راشٹریہ سہارا)

تو یہ کہنا ایک طرح سے شترمرغی رویّہ اپنانے جیساہوگا کہ یہ حالیہ دنوں میں پیدا ہوئی نام نہاد مسلم دہشت گردی کا یہ ردِّ عمل ہے، جبکہ ۱۹۹۸/ کا حال اوپر بیان ہوچکا اورآر ایس ایس کے تأسیسی سربراہ گول والکر کی سازش پر سے پردہ I.C.S. افسر راجیشور دیال پہلے ہی پردہ اٹھاچکے ہیں۔ اور ۱۹۴۷/ میں اس تنظیم کے رول پر اور ان کے ساتھ اس وقت کے فوجی افسروں کے رول پر (ریٹائرڈ) Alexnon Tunzelmann نے اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ (امریش مشرا ، راشٹریہ سہارا ۲/۱۱/۲۰۰۸/)

ابھی تک پکڑے گئے موجود اور سابقہ فوجی افسران کی پوچھ تاچھ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ فوج کے ہربازو میں اس طرح کی ذہنیت سرایت کرگئی ہے۔ کرنل پروہت تو خصوصاً ملٹری خفیہ معلومات کے اہم شعبہ سے وابستہ تھا۔

۲۰۰۳/ میں ممبئی سے ۶۵ کلومیٹر دور امرناتھ میں مہاراشٹر ملٹری فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے ٹریننگ کیمپ منظم کیا۔ جس کا سربراہ کرنل جینت چتلے تھا۔ اسی موقع پر ہندو نوجوانوں کو کمانڈو اور خودکش بمبار بننے کی تربیت دی گئی۔ اس تقریب میں لیفٹیننٹ جنرل پریم ناتھ ہون مہمان خصوصی تھے۔ جو ریٹائر ہونے سے قبل پوری ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ بعد میں یہ شیوشینا کے آرمی ویلفیر سیل کے چیف بنے تھے۔ کرنل جینت چتلے کا تعلق بھی پونے سے ہے۔ اسے ۲۰۰۳/ میں گرفتار کیاگیاتھا۔ بعد میں ان کے خلاف پولیس کارروائی نرم کردی گئی۔ یہاں تک کہ وزیراعلیٰ ولاس راؤ دیش مکھ نے کرنل چتلے اور ان کی ملٹری فاؤنڈیشن کو کلین چٹ دے دی۔ لیکن مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں کرنل چتلے کے ہی تربیت یافتہ فوجی افسر کرنل پروہت کے حراست میں لیے جانے سے ۲۰۰۳/ میں حکومت مہاراشٹر کی چشم پوشی اور غفلت آمیز رویہ پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔“ (سعید حمید راشٹریہ سہارا، ۳/۱۱/۲۰۰۸/)

یمن اور پونے کے درمیان بہت ساری باتیں مشترک ہیں ۱۳/۱۱/۲۰۰۸/ کو بی بی سی ہندی نے صبح 6.30 کی نشریات میں بتایا کہ کرنل پروہت نے بتایا کہ اس نے مسلم نوجوانوں کو بھی اسی طرح کی مدد کی ہے۔ یہودی خفیہ ایجنسی مسلمان نوجوانوں کے ذریعہ اپنے ہی دوست ملک کے آفس پر حملہ کرواتی ہے اورہمارے یہاں بھی ایساہی سازشی روپ دیکھاجارہا ہے۔ ایسا کیوں؟؟

***

---------------------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 01-12 ، جلد: 92-93 ذى الحجة 1429 ھ – محرم 1430 ھ مطابق دسمبر 2008ء – جنورى 2009ء