قیام دارالعلوم دیوبند کا دینی وسیاسی پس منظر

 

از: پروفیسر بدرالدین الحافظ‏،  جامعہ نگر، نئی دہلی-۲۵

 

                ایشیا کی مایہٴ ناز دانش گاہ اور ہزاروں فیض یافتگان علوم اسلامیہ کی مادر علمی دارالعلوم دیوبند جس کو آج بجا طور پر ازہر الہند کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، کن حالات اور اسباب کی بنا پر وجود میں آئی اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں بہت دور تک تاریخ کی چھان بین کرنی ہوگی کیونکہ اس کی جڑیں ہندوستانی تاریخ کی کئی صدیوں میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔

                اس سلسلے میں بظاہر تو ۱۶۱۵/ میں انگلستان کے فرماں روا جیمز اوّل نے اپنے سفیر سرٹامس رو کو جہانگیر کے دربار میں بھیج کر تین سال کے لیے تجارتی مراعات حاصل کی تھی۔ جو تجارت کے بہانے ہندوستان میں عیسائیت کی جڑیں جمانے کا عیارانہ حربہ تھا       ع

سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

                مگر حقیقت میں مختلف ملکوں کی عیسائی مشنریز یہاں بہت پہلے سے سرگرم عمل تھیں اور کم فہم نادان عوام کو لالچ دے کر یا زبردستی مسیحیت میں داخل کرنے کا عمل جاری تھا۔ اس کے بعد شاہ جہاں کے عہد میں انگریزوں نے ہوگلی بنگال کے قریب کچھ دیہاتوں کو اپنی گرفت میں لے کر عیسائی تبلیغ کا کام زور وشور سے شروع کیا اور رفتہ رفتہ یہ تحریک شہری علاقوں میں پھیلنے لگی۔ یہاں تک کہ جو کمزور آدمی نظر آتا،اسے عیسائی بناکر انگلستان بھیج دیا جاتا۔ مرنے والوں کا مال ضبط کرلیا جاتا، نابالغ ہندو مسلمان یتیم بچوں کو عیسائی بناکر غلام بنالیاتھا۔

                ۱۶۹۳/ میں کچھ مسلمان حج کے لیے جارہے تھے، ان کو گرفتار کیا۔ جو مسلمان جہاز پر تھے، ان کو لوٹنے کے بعد برہنہ کیا۔ مستورات کی بے حرمتی کی جس کی وجہ سے شرم کی ماری بہت سی عورتیں ڈوب کر مرگئیں۔(۱) اس کے علاوہ عیسائی مذہب پھیلانے کے لیے پرتگیزیوں اور انگریزوں نے بڑے رکیک ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہوئے اپنی لڑکیوں کو بادشاہوں کے حرم میں پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ چنانچہ اکبر بادشاہ کی بیوی مریم زمانی، عالمگیر کی بیوی مسیح النساء، شاہ عالم کی بیوی مس ہنری، اور نصیرالدین حیدر شاہ کی بیوی مخدرہ عالیہ ہوئیں جنھوں نے عیسائی مذہب کی ترویج و ترقی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، مگر ان تمام کوششوں کے باوجود عام طور پر مسلمانوں نے اس کا اثر قبول نہیں کیا۔ سوائے گنے چنے چند کمزور لوگوں کے اوراس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں مسلمانوں کا معاشی اور مذہبی نظام کافی حد تک مستحکم تھا۔ لیکن جوں ہی بادشاہ عالمگیر کا وصال ہوا، یہاں سے مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہوتا چلاگیا۔ ذہنوں پر بے حسی، بے بسی طاری ہوگئی۔ پھر ۱۷۴۷/ میں مدراس پر انگریزوں کے قبضے نے حالات میں اورابتری پیدا کردی۔

                اب انگریزوں کا معمول بن گیا تھا کہ جس مقام پر قبضہ کرتے، وہاں برطانوی، امریکی اور جرمنی عیسائی مشنریوں کی ٹڈی دل فوج شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور محلوں میں پھیل جاتی اور مسیحی مذہب کی ہر ممکن طریقے سے تبلیغ کرتی۔ اسکول کھولے جاتے، اسپتال قائم کیے جاتے، طالب علموں اورمریضوں میں ہر طریقے سے نصرانیت کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی اور اسلام کی تہذیب و تحقیر کی بھرپور کوشش ہورہی تھی۔ اسی طرح ۱۸۹۱/ میں بشپ کالج کلکتہ میں قائم کیاگیا۔ اس کے ہر طالب علم کو یہ قسم کھانی پڑتی تھی کہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مشنری کے کاموں میں حصہ لے گا۔ اور یہی نہیں دوران تعلیم لڑکوں کو انجیل کے اقتباسات پڑھائے جاتے اوران سے سوال کیے جاتے کہ تمہارا خدا کون ہے؟ نجات دہندہ کون ہے؟ اس کا جواب عیسائی مذہب کے مطابق بتانے والے کو انعام دیاجاتا۔

                اسکولوں کالجوں کے علاوہ فوجیوں کو بھی اپنے مذہبی شعار اختیار نہ کرنے پر مجبور کیاجانے لگا۔ چنانچہ ۱۸۰۸/ میں پہلی بار مقام ویلور مدراس میں ایک کمانڈر ان چیف نے فوجی قوانین میں تین باتوں کا اضافہ کیا اورحکم دیا، فوجی اپنے ماتھے پر تلک نہ لگائیں، داڑھیاں منڈوائیں اوراپنی ہندوستانی وضع کی ٹوپیاں چھوڑ کر انگریزی ہیٹ استعمال کریں۔

                اس کے علاوہ عام محلوں سڑکوں اور بازاروں میں جو عیسائی مذہب کی تبلیغ کی جارہی تھی بعض کمزور مسلمانوں پر اس کا اثر ہونے لگا تھا جیساکہ عمادالدین پانی پتی مع اپنی اولاد کے عیسائی ہوگئے اور ان کے والد چراغ الدین، بھائی خیرالدین نے بھی اسلام کو خیرباد کہہ کر عیسائی مذہب قبول کرلیاتھا۔ اسی طرح صفدر علی بھی اسلام سے برگشتہ ہوکر عیسائی ہوگئے تھے۔

                مگر عیسائیوں کی ان تمام کوششوں کے باوجود جن لوگوں نے اپنی ذات مصالح کی بنا پر اس مذہب کو قبول کیا، ان کی تعداد بہت کم تھی، جس کا خود عیسائی مبلغ گارسان رتاسی اپنے ایک خطبہ میں ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہندوستان میں ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے جنھوں نے دین مسیح کو قبول کیا۔(۲) اوراس کے ساتھ وہ یہ بھی شکوہ کرتا ہے کہ یہ بات تو آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ ہندو لوگ اسلام میں شامل ہورہے ہیں لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی بعض عیسائی نہ معلوم کیوں اسلام قبول کرکے اور اپنی وضع قطع بدل کراسلام کی تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں۔(۳)

                غرض تبدیلیٴ مذہب کے واقعات اورعیسائیوں کی بھرپور کوششوں کے علاوہ یہاں مرہٹوں جاٹوں اور سکھوں کی مسلم مخالف جنگجویانہ سرگرمیوں نے بھی مسلمانوں کے لیے مشکلات میں اور اضافہ کردیاتھا جس کو دردمند قلوب بخوبی محسوس کررہے تھے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نجیب الدولہ کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں ”اگر غلبہ کفر معاذ اللہ اسی انداز پر رہا تو مسلمان اسلام فراموش کردیں گے اور تھوڑا ہی زمانہ گزرے گا کہ یہ مسلم قوم ایسی قوم بن جائے گی کہ اسلام اور غیراسلام میں تمیز نہ کرسکے گی“۔(۴)

                اس کے علاوہ ۱۷۴۲/ میں جب حضرت شاہ صاحب زیارت حرمین شریفین سے واپس تشریف لائے اور یہاں کے معاشرہ کا حال دیکھا تو تڑپ اٹھے کیونکہ اس دور میں حکمراں طبقہ اپنی رنگ رلیوں میں مست تھا۔ علماء وقت جو کچھ درس و تدریس کا کام کررہے تھے، وہ بھی دین کی روح سے کوسوں دور تھے اور عوام تو بے روک ٹوک شکم پروروں کے چکر میں افعال دین سمجھ کر بے دینی کے غلیظ تالابوں میں غوطہ زن تھے۔ ان مندرجہ بالا حالات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہندوستان میں دعوتِ دین اور تبلیغ اسلام کی صحیح کوشش کی کتنی اہم ضرورت تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو باصلاحیت علماء نے عیسائی مشنریز اور نصرانیت کے مبلغین پر قدغن لگانے اور بے دینی کے سیلاب کوروکنے کی بھرپور کوشش کی اور ان کے مقابلے میں سینہ سپر ہوگئے۔ چنانچہ ۱۸۴۴/ میں مولانا آل حسن نے رد نصاریٰ پر ایک کتاب استفسار شائع کی، جس میں پادری فنڈر کی کتاب میزان الحق کے اعتراضات کے جوابات بھی تھے۔

                اس کے بعد مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے رد نصاریٰ پر بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں تحریر فرمائیں جن میں اظہار الحق میزان الحق کا ایسا بھرپور اورمدلل جواب تھا جس کا اب تک توڑ نہ کیا جاسکا اورآج بھی اس کے تراجم مختلف ملکوں میں پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں۔

                اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگرہ میں پادری فنڈر کی کوٹھی پر اسلام کی حقانیت ثابت کرنے اور عیسائیت کی تکذیب کے لیے خود پہنچے اور اس کو مناظرہ کی دعوت دینے کی کوشش کی۔ اتفاقاً وہ اس وقت نہیں ملا تو بعد میں اپریل ۱۸۵۴/ میں ایک دو روزہ مناظرہ کا آگرہ میں اہتمام کیاگیا جس میں پادری فنڈر نے اعتراف کیا کہ انجیل مقدس میں تحریف ہوئی ہے۔اس تاریخی مناظرہ سے صرف ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ یہاں کی ہر قوم میں انگریزوں کے خلاف ایک بیداری پیدا ہوئی اوریہ مناظرہ ذہنی آمادگی پیدا کرنے کے لیے ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ مولانا رحمت اللہ کے حامیوں نے کس طرح عیسائیوں کی کوشش کا قلع قمع کیا اس کی تفصیلات مولانا امداد صابری مرحوم کی کتاب فرنگیوں کے جال میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پھراس سلسلے میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مشہور مناظرے، شاہجہانپور، روڑکی وغیرہ کی طرف اشارہ کافی ہے۔ جن کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے۔

                مختصراً یہاں پر یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دینی مدارس کے قیام کے اسباب میں انگریزوں کے مندرجہ ذیل عزائم بھی کار فرما تھے جیساکہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر مسٹرمکنگلیس نے آغاز ۱۸۵۷/ میں دارالعلوم میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ خداوند نے ہمیں یہ دن دکھایاہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیرنگیں ہے تاکہ عیسیٰ مسیح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنی تمام تر قوت پورے ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنا چاہیے اوراس میں کسی طرح کا تساہل نہ کرنا چاہیے۔(۵)

                پھر اس عزم وارادوں کی تکمیل کے لیے انگریزوں نے تبلیغ کے علاوہ جو تدابیر اختیار کیں ان میں مال ومنال چشم غزال نوکریوں کا لالچ جیسے ہرہتھکنڈے کو اختیار کیاگیاتھا۔ انگریزی اسکولوں میں مفت تعلیم اور غربت وافلاس میں ہرممکن اضافہ کرکے عیسائیوں کی جھولیوں میںآ نے کے لیے مجبور کرنا شامل تھا اور سب سے زیادہ یہ کہ علوم اسلامیہ کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی جیسا کہ شاہ عبدالرحیم کا قائم کردہ مشہور مدرسہ رحیمیہ مہندیان میں ختم کیاگیا۔

                پھر لارڈ میکالے نے صاف لفظوں میں کہہ ڈالا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان پیدا کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور دل و دماغ کے اعتبار سے انگلستانی۔(۶)

                ان تمام حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد جو ہم بارہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے اہل خاندان کی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو آپ نے رجوع الی القرآن کے مقصد سے آسان تفہیم کے لیے فتح الرحمن نامی فارسی ترجمہ کی خدمت انجام دی اور آپ کے صاحبزادوں میں حضرت شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں ایک عظیم تفسیر لکھنی شروع کی جو مکمل نہ ہوسکی اور اس تشنگی کا آج بھی اہل علم میں احساس پایا جاتا ہے۔ پھر ان کے بعد آپ کے برادران حضرت شاہ عبدالقادر وفات ۱۲۳۰ھ اور شاہ رفیع الدین وفات ۱۲۳۳ھ نے بامحاورہ اور تحت اللفظ ترجمے تحریر فرمائے جو بعد کے تفسیری کام کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے نصاب کے لیے آپ نے مختلف علوم وفنون پر کتابیں مدون فرمائیں جو آئندہ مدارس کے لیے ایک مشعل ہدایت ثابت ہوئیں۔

                اس کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی حالات سے بھی یہ لوگ بے حد فکرمند تھے۔ چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز وفات ۱۲۳۹ھ نے انگریزوں کی دین مخالف تحریکات کو دیکھتے ہوئے جب یہ سنا کہ مغلوں کی لڑکھڑاتی سلطنت کے شہنشاہ شاہ عالم کی حکومت اب دہلی کے پالم علاقہ تک محدود رہ گئی ہے تو ۱۸۰۳/ میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا، جس نے ایک طرف مسلمانوں کے حوصلے بلند کردیے اور حریت وطن کی خاطر سینہ سپر ہوجانے کا جذبہ عطا کیا۔ دوسری طرف انگریز حکومت اس فتوے سے لرزہ برانداز ہوگئی، کیونکہ وہ ولی اللّٰہی خاندان کے فتوے کی اہمیت سے بخوبی واقف تھی۔(۷)

                اس کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ اوران کے ہمنوا علماء کرام نے ایک انقلابی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کے تیسرے امام حضرت شاہ عبدالغنی اورآپ کی وفات کے بعد چوتھے امام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (وفات ۱۳۱۷ھ ۱۸۹۹/)(۸) مقرر ہوئے۔ نیز آپ کے شرکا میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (وفات ۸/۶/۱۳۲۳ھ) اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی خاص طور پر شامل تھے۔ ان حضرات نے ایک طرف عملاً انگریز کے خلاف جہاد کا آغاز کیا جو بہمہ وجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوا۔ دوسری طرف حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی (وفات ۱۲۲۷ھ- ۱۸۸۰/) اور آپ کے رفقاء نے اپنی فراست ایمانی اور دیدہ بصیرت سے اندازہ لگایا تھا کہ ان نازک حالات میں اگر مسلمانوں کو قرآن وحدیث اور دیگر علوم اسلامیہ سے واقف کرانے کا کوئی معقول اورمستحکم بندوبست نہ کیاگیا تو سخت خطرہ ہے کہ مسلمان کہیں نصرانیت کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ بس انھیں خیالات کے پیش نظر مورخہ ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بمطابق ۱۸۶۷/ بروز جمعرات کو دیوبند کی مبارک سرزمین پر چھتہ کی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ہدایت کا یہ شجرطوبیٰ وجود میں آیا۔اس طرح ابتدا میں یہ مدرسہ عربی اور پھر دارالعلوم کے معروف نام سے موسوم ہوا۔

                اس کی مقبولیت کا اندازہ صرف ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۲۸۷ھ سے لے کر ۱۴۲۷ھ تک یعنی تقریباً ۱۴۴ سال میں ایک لاکھ پچھتّرہزار اٹھارہ فضلاء دارالعلوم سے فارغ ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ چکے ہیں۔(۹) اور دین مبین کی والہانہ خدمت کا فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبولیت سے نوازے اور دارالعلوم کا چشمہ فیضان تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کرتا رہے ۔ آمین۔

$ $ $

حوالہ جات

(۱)                   سوانح علماء دین دیوبند اوّل، ص:۳۸۲۔

(۲)                  تاریخ ہند۔ ذکاء اللہ (جلد اوّل) ص:۲۹۹۔ بحوالہ سوانح علماء دیوبند اوّل، ص:۳۸۸ تاریخ ہند۔

(۳)                 پروفیسر خلیق احمد نظامی۔ شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات،ص:۲۲-۲۳۔

(۴)                 حوالہ سابقہ

(۵)                 علماء حق اوران کے مجاہدانہ کارنامے، ص:۱۶ بحوالہ سوانح علماء دیوبند (جلد دوم) ص:۲۲۔

(۶)                  اخبار مدینہ، بجنور۔اشاعت ۲۸/جنوری ۳۶۔ بحوالہ سوانح علماء دیوبند (۲) ص:۲۵۔

(۷)                 فتاویٰ عزیزیہ جلد:۱، ص:۷۔ بحوالہ باغی ہندوستان ترجمہ: الثورة الہندیہ، ص:۲۰۸۔ الجمع الاسلامی مبارک پور ضلع اعظم گڑھ

(۸)                 ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷/ میں مسلمانوں کا حصہ، مرتبہ مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی۔۳ ، اشاعت جنوری ۲۰۰۸/۔

(۹)                  فیاض وفا، دارالعلوم دیوبند ۱۴۲۷ھ۔

$ $ $

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2‏، جلد: 92 ‏، صفرالمظفر 1429 ہجری مطابق فروری 2008ء