سماجی انصاف، عدلیہ اور عوام

 

از:  حضرت مولانا محمد ولی رحمانی‏، سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی، مونگیر، بہار

 

                کسی بھی سماج میں اختلاف اور نزاع فطری بات ہے، ایسے معاملات کو حل کرنے کے لئے لوگ خاندان اور سماج کے تجربہ کار بزرگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کے فیصلہ کومانتے ہیں، یہ اختلاف ذرا بڑا ہو، تو اکثر وبیشتر حضرات خاندان اور سماج کے بزرگوں کے بجائے حکومت کی عدالتوں میں جاتے ہیں، صرف اس لئے کہ عدالتیں اپنے فیصلہ کو نافذ کرانے کے لئے پولیس کی طاقت اورحکومت کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اسی طاقت اور صلاحیت کے لئے قانون اسلامی کی اصطلاح میں قوت نافذہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہ قوت نافذہ یا پولیس کی طاقت اور حکومت کی صلاحیت ”فیصلہ“ کا حصہ نہیں ہے، فیصلہ کا مطلب ہے قانون کے مطابق حق اور سچ کا اظہار۔ کسی بھی معاملہ میں سچ کو جھوٹ سے الگ کرنا، دعویٰ اور دلیل کی مطابقت دیکھنا، شہادتوں کا جائزہ لینا، فیصلہ کرنے والے کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

                فیصلہ کرنے والوں کی فطری صلاحیت، علمی لیاقت اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی قوت یکساں نہیں ہوتی، جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے، فیصلہ کرنے والوں کی غیر جانبداری بھی مشتبہ ہوتی جارہی ہے، یہ غیرجانبداری فیصلہ کرنے والے کے لئے بہت اہم ضرورت اور بڑی قیمتی صفت ہے۔ اسلامی قانون کی زبان میں فیصلہ کرنے والے کے لئے ”عدالت“ کی شرط بھی ہے، جس کے دائرہ میں غیرجانبداری بھی آتی ہے۔ حکومت کی عدالتوں میں فیصلہ کرنے والوں کے لئے بھی یہ شرط موجود ہے،اور ججوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ وطن سے محبت اور قانون کے احترام کے جذبہ کے تحت غیر جانبدار رہیں گے، اور ایسا فیصلہ کریں گے، جو ان کی لیاقت، قابلیت اور شہادت کے لحاظ سے درست ہو۔ ان فیصلوں میں سچ کی حمایت اورحق کا اظہار ہوگا، غیر جانبداری اور دیانتداری ہر حال میں برقرار رہے گی۔

                اولاً فیصلے کرنے والوں کی فطری صلاحیت اور علمی لیاقت میں بڑا فرق و فاصلہ ہوتا ہے، دوسرے یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں عدالتوں کی غیرجانبداری اور شک و شبہ سے بالاتر دیانتداری پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں اور مختلف پہلوؤں سے ایسے سوالات سامنے آرہے ہیں جو ججوں کی ایمانداری پر پائی جانے والی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں، یہ آوازیں ابھی بلند نہیں ہیں، نہ کسی گروپ یا جماعت نے اس کو اپنے ایجنڈا کا حصہ بنایا ہے،جس کی وجہ احترام عدالت کا قانون (آرٹیکل ۲۱۵) کنٹمپٹ آف کورٹ (Contempt of Court) ہے، لیکن عدالتوں کے بارے میں دانشوروں کا ذہن بہت صاف نہیں ہے اور نہ ان کی ایمانداری اور غیرجانبداری پر بہت زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔

                یہ بہت ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل اور قابل احترام ججوں کے سامنے بھی یہ حقیقت رہی ہے، شاید اسی لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن کو یہ کہتے ہوئے ججوں کا دفاع کرنا پڑا کہ ”محض مٹھی بھر جج الزامات کے گھیرے میں ہیں، میرے خیال میں، اونچی عدالتوں کے جج صاحبان میں بڑے پیمانہ پر بھرسٹاچار پھیلا ہوا نہیں ہے۔“ چیف جسٹس محترم نے یہ بھی کہا کہ ”ججوں کو اپنی جائداد کی سالانہ تفصیل بتانا ضروری نہیں۔“

                واضح رہے کہ یہ سوال چیف جسٹس محترم سے اسی پس منظر میں کیاگیا تھا کہ جسٹس ایس پی بھروچا نے کہا تھا کہ ۲۰ فیصد جج بے ایمان (بھرسٹ) ہیں۔ اسی طرح ادارہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق ۶۳ فیصد دیس کے رہنے والوں نے عدلیہ کو بے ایمان (بھرسٹ) بتایا تھا۔ چیف جسٹس محترم نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایاکہ ”میری رائے ہے کہ موجودہ جسٹس حضرات میں بے ایمانوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں ہے، یقینی طور پر یہ اعداد و شمار مبالغہ آمیز ہیں۔“ (بحوالہ روزنامہ ”ہندوستان“ ہندی، دہلی ۵/۲/۲۰۰۷/)۔

                مختلف وجوہ کی بناء پر عدالتوں کے نظم کو مرحلہ وار بنایاگیا ہے اور مقامی عدالتوں کے بعد ضلع کی عدالتیں ہیں، پھر صوبہ کی عدالتیں، اور سب کے اوپر سپریم کورٹ ہے، یہ مرحلے اس لئے بھی بنائے گئے ہیں، تاکہ مدعی یا مدعاعلیہ کو ”انصاف ملنے میں“ کسی کمی کوتاہی کا احساس ہو، تو وہ عدالت بالا سے رجوع کرسکے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں انصاف بہت دیر سے ملا کرتاہے اورانصاف تک پہنچنے کے مرحلے بہت گراں ہوگئے ہیں، عدالتوں پر کاموں کا بوجھ روز بروز بڑھتا جارہا ہے ، اور وکلاء کی فیس بڑے شہروں میں رہنے اور مقدمہ کی پیروی کے لئے ہونے والے گرانبار اخراجات بعض دفعہ کمزور حقداروں کو حق سے دستبردار ہونے اور تھک کر گھر بیٹھ جانے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔

                عدالتوں میں وکیلوں کی فیس لاکھ دو لاکھ روپئے عام بات ہے، پھر وکلاء کی باہمی ملی جلی تدبیروں اور دیر سے فیصلہ کرانے کی تکنیک کی وجہ سے بھی فیصلوں میں بہت دیر لگ جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے کورٹ کا یہ بھی ریکارڈ ہے کہ ایک مقدمہ کا فیصلہ ۱۳۶ سال پر ہوا، جبکہ مدعی اور مدعاعلیہ کی کئی پشتیں ختم ہوگئیں،اس دوران ملک غلامی سے آزاد ہوا اور حکومتوں پر حکومتیں بدلتی رہیں، جج آتے اور جاتے رہے۔ فیصلہ ٹلتا رہا اور جب آخری فیصلہ ہوا تو ۱۳۶ سال گذرچکے تھے، حکومت اور عدالتوں کو بھی اس ”تاخیر“ کا پورا احساس ہے،اس لئے ہر سطح پر ججوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے، نئے نئے صوبے بنے تو ان کے ہائی کورٹ بھی نئے بنے۔ اس طرح عدلیہ کو چست درست بنانے اور جلد انصاف دلانے کا جذبہ اور عمل جاری ہے۔

                عدالتوں میں پھر بھی فیصلہ میں بڑا وقت لگ جاتاہے، میرے علم میں ایک پڑھے لکھے گھرانہ کا عائلی مقدمہ ہے، جن میں بیوی اور شوہر دونوں معیاری تعلیم یافتہ تھے اور شادی کورٹ سے رجسٹرڈ کرائی گئی تھی، دواولاد بھی ہوئی، مگر علیحدگی کی ضرورت پڑگئی، طلاق کا اختیار کورٹ کو تھا؛ معاملہ زیریں عدالت میں پہنچا تو بات علیحدگی سے زیادہ اسباب علیحدگی کی آگئی، پھر گھر کے قضیے عدالت میں بیان ہوئے اور اندرونی جھگڑوں نے عدالت میں رگڑے کی شکل لی اور ایسی بحثیں ہوئی، کہ اللہ کی پناہ۔ تقریباً تیرہ سال بعد نچلی عدالت سے فیصلہ ہوا تو معاملہ اوپر کی عدالت میں لے جایا گیا، پھر تاریخ پہ تاریخیں! آہ کو چاہئے ایک عمر اثر ہونے تک مجھ سے ملاقات ہوگئی تو صاحب معاملہ کہنے لگے کہ ”آپ کے یہاں اچھا ہے کہ طلاق دے کر چھٹکارا ہوجاتا ہے،یا خلع اور فسخ کی راہ بن جاتی ہے، میں ریٹائرڈ ہوجاؤں گا تب دوسری شادی کی نوبت آسکے گی۔“

                سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کاموں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ لاکھوں مقدمات برسوں سے فیصلہ کے انتظار میں ہیں اور چند سال پیشتر کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ان عدالتوں میں چھتیس لاکھ سے زیادہ مقدمات پنڈنگ ہیں، مقدمات کو جلد نبٹانے کے لئے مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس سے بڑھاکر، تیس کردی جائے، لیکن خود سپریم کورٹ میں جتنے مقدمات زیر سماعت یا زیر فیصلہ ہیں، ان کی مجموعی تعداد کے مقابلہ میں پانچ ججوں کے اضافہ سے کوئی بڑی تبدیلی نظر آنے والی نہیں ہے، یہ اضافی تعداد صرف سولہ سترہ فیصد مقدمات کے تصفیہ میں آسانی پیدا کرسکیں گے، اور فیصلہ کی رفتار سولہ سترہ فیصد بڑھے گی، جبکہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ کی رفتار کم از کم سو فیصد تیز کی جائے، تاکہ روزانہ جتنے مقدمات سپریم کورٹ میں آرہے ہیں، کم ازکم روز اتنے ہی مقدمات فیصل ہوتے رہیں، پھر بھی جومقدمات پنڈنگ ہیں ان کے فیصلہ کی راہ نکالنا سپریم کورٹ اورحکومت کی ذمہ داری ہے!

                یہ ساری حقیقتیں عدالتوں اور حکومتوں کی نگاہ میں ہیں، اسی لئے انصاف جلد دلانے کے لئے مختلف قسم اور درجوں کے کورٹ بنائے گئے ہیں، مختلف ڈپارنمنٹ کے اپیلیٹ کورٹ ہیں، محکمہ ٹیلی فون کا ڈپارٹمنٹل کورٹ ہے، بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے کنزیومر کورٹ ہے اور مرکز، صوبہ سے لے کر ضلع کی حد تک اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں، اس میں جوڈیشیل سروس کے علاوہ سماجی کارکن، قانون داں اور دانشور بھی فیصلہ کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں، چاہے انہیں قانون سے اچھی واقفیت ہو، یا نہیں۔! ہر ضلع میں لوک عدالت بنائی گئی ہے، اس میں جوڈیشیل سروس کا ایک نمائندہ ہوتاہے، اس عدالت کے ارکان میں وکیل کے علاوہ شوشل ورکر بھی ہوتے ہیں، جو قانون نہ جانتے ہوئے بھی فیصلہ میں شریک ہوتے ہیں، اس کورٹ میں زیادہ تر قرض اور زمین کے معاملات آتے ہیں۔

                اسی طرح فاسٹ ٹریک کورٹ کا نظم کیا گیا ہے، جسے ویوہار نیایالے (عملی عدالتیں) کہا جاتا ہے،اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ فیصلے جلد اور کم خرچ ہوں، فیملی کورٹس بھی بنائے گئے ہیں، جن کا دائرہ فیملی امور تک محدود ہے،اور اب پنچایتی راج نظام کے تحت ہر ایک سرپنچ کو مختصر ٹریننگ کے بعد فیصلہ کا اختیار دیا جاتا ہے، یہ سرپنچ فیملی معاملات کو بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں فیصلہ کیا کرتے ہیں، مکھیا اور وارڈ ممبر، سمیتی ممبر کی الیکشن کے نتیجہ میں ہر گاؤں ذہنی اعتبار سے الگ الگ شخصیتوں کے گرد گھومتا ہے، ان کے درمیان سرپنچ پر فیصلہ کی ذمہ داری دی گئی ہے، جو لازمی طور پر کسی ایک حلقہ اور گروپ سے وابستہ ہوتا ہے، جس کی تعلیمی صلاحیت کا کوئی معیار نہیں ہے، وہ کتنے صحیح اور غیرجانبدار فیصلے کرسکتا ہے؟اس پر کسی بھی رائے زنی کی ضرورت نہیں ہے!

                حکومت نے ان سارے سسٹم کو نافذ کیاہے، تاکہ دوسرے معاملات کے ساتھ ساتھ فیملی معاملات طے پائیں، حکومت نے فیملی معاملات کے فیصلہ کا اختیار ان لوگوں کو بھی دیا ہے،جس کا علم نہ ہونے کے برابر اور جن کی غیرجانبداری شک و شبہ کے دائرہ میں رہتی ہے پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ حکومت ہند نے ناگاقبائل سے جو معاہدہ کیا تھا، اس میں ان کے رواجی قوانین کو بڑی اہمیت دی گئی، یہ رواجی قوانین نہ مذہبی ہیں اور نہ لکھے ہوئے ہیں، اس معاہدہ کے تحت ناگا قبائل کے قوانین کو نہ پارلیمنٹ کے ذریعہ بدلا جاسکتا ہے اورنہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان پراثر انداز ہوسکتا ہے، ناگا قبائل کی پنچایت کا فیصلہ ناگاؤں کے لئے فائنل ہے اور معاہدہ کے تحت عدالتیں ان فیصلوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں کرسکتیں۔

                مختلف ذاتوں کی اپنی اپنی پنچایت ہے، جہاں ان کے معاملات کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس ذات سے تعلق رکھنے والے شادی بیاہ، تقسیم جائیداد، لین دین، مارپیٹ جیسے معاملات کے فیصلے اسی پنچایت میں ہوتے ہیں، اور سماجی تنظیم کے بل بوتے پر انہیں نافذ کیاجاتا ہے، ان میں خاص طورپر گوجر سماج، مینا سماج، ماڑواری سماج کی الگ الگ علاقوں میں پنچایتیں ہیں، جو فیصلہ کیا کرتی ہیں، اسی طرح دلت سماج میں علیحدہ علیحدہ ذاتوں کی علاقہ وار پنچایت کا عام رواج ہے، مختلف علاقوں میں آدی باسیوں کی بھی پنچایت موجود ہے،جو آدی باسی رواج اور روایت کے پیش نظر فیصلے کرتی ہے اور عام طور اسے جھگڑا توڑ کہا جاتا ہے۔

                وطن عزیز ہندوستان میں فیصلے کرنے اورانصاف پانے کے یہ بہت سے طریقے ہیں، جن میں بہت سارے سرکاری ہیں اور اچھی خاصی تعداد غیرسرکاری کی بھی ہے، یہ غیرسرکاری عدالتیں یا پنچایتیں بھی انصاف کرتی ہیں اور متعلق لوگ ان کے فیصلوں کو رضاکارانہ قبول کرتے ہیں، سرکاری عدالتیں نہیں سمجھتیں اور نہ حکومت یہ مانتی ہے کہ یہ پنچایتیں یا عدالتیں سرکاری عدالتوں کے متوازی ہیں، یا ان کی وجہ سے اسٹیٹ اندراسٹیٹ کی صورت پیدا ہورہی ہے، پورے ملک میں پھیلی چھوٹی چھوٹی پنچایتیں سرکاری عدالتوں کے بوجھ کو ہلکا اور کام کو آسان کرتی ہیں۔ پھر آربٹریشن ایکٹ Arbitration Act خود غیرسرکاری طریقہٴ فیصلہ کی ہمت افزائی کرتا ہے اور ثالثی کے ذریعہ آسانی کے ساتھ انصاف پانے کی راہ کو قانونی تحفظ دیتا ہے۔

                ان شکلوں کی موجودگی میں گھریلو امور کے حل اور عائلی اختلافات کو دور کرنے اور مسلمانوں میں شریعت کے مطابق فیصلہ پانے کے لئے دارالقضاء کے نظم کو قائم کرنا مفید ہے اور اسے پھیلانا سماجی برائی کو دور کرنے کا ذریعہ ہے اور نہ صرف آربٹریشن ایکٹ کے پیش نظر دارالقضاء کو ایک مفید سماجی سسٹم ماننا چاہئے؛ بلکہ حکومت کے طرز عمل ”آسان فیصلہ اور جلد فیصلہ“ کے زاویہ نظر سے اسے دیکھنا چاہئے۔ دارالقضاء کے قاضی شرعی علم، اصولِ شہادت اور رفع نزاع کے ماہر اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں، وہ دیانت اور عدالت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور تصفیہ کے کام کو خدا کی رضا اور باہمی جھگڑوں کو مٹانے کے جذبہ سے کیا کرتے ہیں۔

$ $ $

---------------------------------

دارالعلوم ، شماره : 4 ، جلد : 92 ربیع الثانی 1429ھ مطابق اپریل ۲۰۰۸ء