تین ماسونی اصطلاحات

(آزادی، مساوات،اتحاد ادیان)

اور اس کی فتنہ سامانیاں

از: حذیفہ وستانوی

 

ماسونیت دراصل ایک خفیہ یہودی تحریک ہے جس نے دنیا کی تخریب کاری میں اہم ترین رول ادا کیا ہے۔ ہم یہاں دورِ حاضر کے الحاد کے لیے اس تحریک کے ایک منصوبے کو بیان کرنا چاہیں گے، جو چند صدیوں پیشتر مذکورہ تحریک نے بنائے تھے۔

آزادی، اتحاد ادیان، مساوات: ۱۷۱۷/ میں ماسونیوں نے برطانیہ میں ایک عظیم کانفرنس کا انعقاد کیا تھاجس میں انھوں نے ، آزادی، اتحاد ادیان اور مساوات تینوں خوشنما اصطلاحات وضع کیں اور پوری دنیا کو اس پر متفق کرنے کی کوشش کرنے کااعلان کیا، دراصل یہی دورِ حاضر کے الحاد اور بے دینی کی اساس اور بنیاد ثابت ہوئیں اسلئے کہ ان کا مقصد اس سے بڑا ہلاکت خیز تھا۔

آزادی کا ماسونی مفہوم: اس یہودی ماسونی تحریک نے آزادی کے نام پر دنیا میں ایسا عظیم فساد برپا کیا کہ (الامان والحفیظ) اس لیے کہ آزادی سے اس کی مراد مذہب اور دین سے آزادی یعنی انسان نفسانی خواہشات کا غلام بن کر رہ جائے اور مذہب کے تمام مطالبات کو پس پشت ڈال دے، اس کے لئے ان ائمہ ضلال اور شیطانی چیلوں نے ڈارون کے نظریہٴ ارتقاء کو محقق مدلل (اپنے گمان وزعم کے مطابق) ثابت کرنے کے لئے کھڑا کیا، اس نے دنیا کے سامنے اپنی تحقیق اس انداز میں پیش کی: ”میں پانچ سال تک خشکی اور تری میں زندگی کے آثار اور اس کے مبدأ کے بارے میں جستجو کرتا رہا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ دنیا کے پھیلاؤ میں ”عمل ارتقاء“ کارفرما ہے“۔ حالاں کہ حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں، محض ایک دھوکہ اور فریب ہے،اس کے پس پردہ، اللہ کے وجود، خالقیت ومالکیت کا انکارلازم آتا ہے، جو انسان کو دہریت اور لادینیت کی طرف دھکیل دیتا ہے، اسلام تو اولِ یوم ہی سے اس کومسترد کرچکا تھا، مگر ۱۹۵۲/ میں سائنس نے بھی اس نظریہ کے مسترد کردیا جیسا کہ مورس بوکائے نے فرعون کے لاش کی دریافت ہونے کے بعداس پر ہونے والی تحقیقات کے بعد ثابت کیا ہے کہ ہزاروں سال پرانے اس انسان میں بندر یا ارتقاء کی تائید کرے، ایسی کوئی چیز نہیں ہاتھ لگی؛ بلکہ اس کی تردید لازم آتی ہے، جیسا کہ ترکی محقق ہارون یحییٰ نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے، تعجب ہے کہ بہت سے نام نہاد مسلمان بھی ”نظریہٴ ارتقاء“ تسلیم ہی کرنے پر نہیں بلکہ اس کی تردید کی تردید کرنے پر تلے ہوئے ہیں،اور ۱۹۷۲/ میں D.N.A. منظر عام پر آنے کے بعد کلیتہً اس نظریہ کی مکمل تردید ہوچکی ہے، مگر پھر بھی دنیا بھر کے اسکولی نصاب میں سے اس کو ہٹایا نہیں گیا کیونکہ اس صورت میں مذہب کی ضرورت لازمی ہوجائے گی، لہٰذا قصداً ایسا نہیں کیاگیا۔

اس انیسویں صدی میں فرائد کو ”نظریہٴ جنسیت“ لے کرکھڑا کیا،اور مارتھیس کو ”نظریہٴ آبادی“ لے کر کھڑا کیا، کارل مارکس کو ”اشتراکیت“ لے کر کھڑا کیا؛ غرضیکہ بے شمار ایسے دھوکہ باز، عیار، مفسد، ضال و مضل فلسفیوں کو الحاد اور بے دینی عام کرنے کیلئے کھڑا کیا، جنھوں نے دنیا کو شرارت کی معراج پر لاکھڑا کردیا، یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ۱۷۱۷/ یعنی خطرہ ہی خطرہ کی ماسونی مذہب مذکورہ کانفرنس کے بعد ہی یہ تمام تحریکیں وجود میں آئیں، اس کا مطلب یہی ہوا کہ یہ وجود میں آئی نہیں لائی گئی،اور زیادہ تعجب کن امر یہ ہے کہ تمام فلاسفر انگریز اور یہودی تھے، تو معلوم ہوا کہ ایک منظم سازش اور پلان کے تحت، یہ کام ہوا ہے، اللہ ہماری ہرطرح کے فتنے سے حفاظت فرمائے۔

مساوات کا نعرہ اوراس کاتباہ کاریاں: مساوات مردوزن کے نعرے کی بازگشت بھی اسی ماسونی کانفرنس سے ہوئی اور پھر دنیا میں اس نے کیا کہرام مچایا وہ عیاں ہے، عورتوں کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے مارکیٹ میں لاکھڑا کردیا، زناکاری کے لائسنس دئیے جانے لگے اوراس کو پیشہ سے تعبیر کیاگیا، اور اب تو کارل گرل کا کاروبار دنیا میں ایک نمبر پر ہے،اس عظیم فتنے نے ایسا کہرام مچایا کہ بیان سے باہر ہے، ساری انسانیت کو لپیٹ میں لے لیا،اور ام الفتن کی حیثیت اختیار کرلی۔ ”آزادیٴ نسواں“، ”حقوق نسواں“، ”یومِ عاشقاں“ کے نام پر، عورت کی عفت اورپاکدامنی کو تار تار کردیا، اس کی عزت سے کھلواڑ کیاگیا اور کیا جارہا ہے، اس کے تقدس کو پامال کیاگیااور کیا جارہاہے، اب عورت محفوظ نہیں رہی، آئے دن اخبارات میں رپورٹیں اور خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ عورت کو ہوس کا شکار بناکر قتل کیا، اس کی عصمت دری کی گئی، یہ سب اسی مردود اصطلاح کا نتیجہ ہے۔

اتحادِ ادیان اوراس کی فتنہ سامانیاں: اتحاد ادیان کے نام پر دنیا میں حق و باطل کے فرق و امتیاز کو ختم کیا جارہا ہے، اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، ”اِیشور، اللہ، گوڈ“ سب ایک ہی ہے، صرف اہلِ ادیان کے یہاں ناموں میں فرق ہے، حالاں کہ ایسا نہیں، کیوں کہ مسلمان کے نزدیک اللہ کی تعریف ہے، اللہ وہ ہستی ہے جو تمام صفات کمال کی حامل اور تمام صفات رذیلہ وذمیمہ سے مبرہ و پاک صاف ہے، وہی خالق مطلق، رازق مطلق، مالک حقیقی، متصرف عالم، ابدی و ازلی، حیّ وقیوم، نہ وہ معطل ہے نہ محتاج، نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، وہی قہار وجبار، وہ بڑے وسیع علم کا مالک، اس پر نہ تھکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی اکتاہٹ، وہ قادرِ مطلق ہے وہ اکیلا ہے، نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اولاد، نہ وہ کسی سے جنا ہے اور نہ اس سے کوئی جنا، کائنات میں کوئی اس کا ہم سر و شریک نہیں، وہی معبود برحق ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی اطاعت کا حقدار ہے، وہ کائنات کے ذرے ذرے کا پیداکرنے والا اور اس کو حسن تدبیر کے ساتھ پروان چڑھانے والا ہے، وہی تعریف و حمد کے لائق ہے، وہی موت و حیات کا مالک ہے۔

غرضیکہ اسلام کا تصور اس باب میں واضح ہے۔ دوسری جانب دیگر مذاہب میں شرک جائز ہے، جائز نہیں بلکہ اصل اساس و بنیاد ہے؛ بلکہ جوہری اساس ہے، لہٰذا یہ کہنا سراسر بے بنیاد ہے کہ صرف اللہ کی ذات کے بارے میں مذاہب کا اختلاف، لفظی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے یہاں جو اللہ کی ذات جل جلالہ کا تصور ہے، بالکل اس کے برخلاف عیسائیت، یہودیت اور دنیا کے دیگر مذاہب میں ہے، لہٰذا مسلمان، کبھی بھی اس کا مجاز نہیں کہ وہ اتحاد ادیان یا تقریب مذاہب پر ایمان لے آئے، اور اگر وہ ایسا کرگذرے، تب تو بہ مسلمان ہی نہیں رہا۔

یہ تھی اتحادِ ادیان کی فتنہ سامانیاں جو مسلمان کو روح ایمانی ہی سے محروم کرکے رکھ دیتی ہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے، اور ایمان کی محبت و عظمت سے ہمارے قلوب کو معمور فرمادے، آمین یارب العالمین!

خلاصہٴ کلام یہ کہ ماسونیت نے مختلف انداز اور اہداف سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دنیا میں فکری انارکی کے باب میں بڑا اہم رول ادا کیا، اور کرتی جارہی ہے، قادیانیت، بہائیت، شیوعیت، اشتراکیت، صہیونیت، گوہرشاہیت، یہ اسی کے آلہٴ کار ہیں۔ ضرورت ہے ہم مسلمانوں کو چوکنا رہنے کی، ورنہ کیا سے کیا ہوسکتاہے۔ لہٰذا مسلمانوں سے گذارش ہے کہ وہ ”اتحاد ادیان“، ”آزادی“، ”مساوات“، ”حقوق انسان“، ”حقوق نسواں“ وغیرہ اصطلاحات مذعومہ کے فریب میں نہ آئیں۔ ان اصطلاحات کی حقیقت کو قرآن بیان کرتاہے:

﴿ زخرت القول غرورا﴾ یہ چکنے چپڑے خوش نما الفاظ محض دھوکہ ہے، اللہ ہماری پوری پوری حفاظت فرمائے۔ آمین!

___________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 92 ‏، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء