حرفِ آغاز

متحدہ قومیت کی اہمیت

حبیب الرحمن اعظمی

 

سیاسی بول چال میں جب کبھی ”اقلیت“ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ ریاضی کے عام حسابی قاعدے کے مطابق انسانی افراد کی ہرایسی تعداد جو ایک دوسری تعداد سے کم ہو لازمی طور پر ”اقلیت“ ہوتی ہے اور اسے اپنی حفاظت کی طرف سے مضطرب ہونا چاہئے، بلکہ اس سے مقصود ایک ایسی کمزور جماعت ہوتی ہے جو تعداد اور صلاحیت، دونوں اعتباروں سے اپنے کو اس قابل نہیں پاتی کہ ایک بڑے اور طاقتور گروہ کے ساتھ رہ کر اپنی حفاظت کیلئے خود اپنے اوپر اعتماد کرسکے، اس حیثیت کے تصور کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ ایک گروہ کی تعداد کی نسبت دوسرے گروہ سے کم ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ بجائے خود کم ہو اور اتنی کم ہو کہ اس سے اپنی حفاظت کی توقع نہ کی جاسکے، ساتھ ہی اس میں تعداد (Number) کے ساتھ نوعیت (Kin) کا سوال بھی کام کرتا ہے، فرض کیجئے ایک ملک میں دو گروہ موجود ہیں ایک کی تعداد ایک کروڑ ہے دوسرے کی دو کروڑ ہے، اب اگرچہ ایک کروڑ دو کروڑ کا نصف ہوگا اور اس لئے دو کروڑ سے کم ہوگا، مگر سیاسی نقطئہ خیال سے ضروری نہ ہوگا کہ صرف اس نسبتی فرق کی بنا پر ہم اسے ایک اقلیت فرض کرکے اس کی کمزور ہستی کا اعتراف کرلیں اس طرح کی اقلیت ہونے کیلئے تعداد کے نسبتی فرق کے ساتھ دوسرے عوامل (Factor)کی موجودگی بھی ضروری ہے۔

اب ذرا غور کیجئے کہ اس لحاظ سے ہندوستان میں مسلمانوں کی حقیقی حیثیت کیا ہے؟ آپ کو دیرتک غور کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، آپ صرف ایک ہی نگاہ میں معلوم کرلیں گے کہ آپ کے سامنے ایک عظیم گروہ اپنی اتنی بڑی اور پھیلی ہوئی تعداد کے ساتھ سراٹھائے کھڑا ہے کہ اس کی نسبت ”اقلیت“ کی کمزوریوں کا گمان بھی کرنا اپنی نگاہ کو صریح دھوکہ دینا ہے اس کی مجموعی تعداد ملک میں اٹھارہ، بیس کروڑ سے کم نہیں ہے۔ وہ ملک کی دوسری جماعتوں کی طرح معاشرتی اور نسلی تقسیموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے، اسلامی زندگی کی مساوات اور برادرانہ یک جہتی کے مضبوط رشتے نے اسے معاشرتی تفرقوں کی کمزوریوں سے بہت حدتک محفوظ رکھا ہے، بلاشبہ یہ تعداد ملک کی پوری آبادی میں ایک چوتھائی سے زیادہ نسبت نہیں رکھتی، لیکن سوال تعداد کی نسبت کا نہیں ہے خود تعداد اور اس کی نوعیت کا ہے کیا انسانی مواد کی اتنی عظیم مقدار کے لئے اس طرح کے اندیشوں کی کوئی جائز وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ ایک آزادجمہوری ہندوستان میں اپنے حقوق ومفاد کی خودنگہداشت نہیں کرسکے گی؟

چنانچہ مولاناآزاد نے اس حقیقت کو ان لفظوں میں واضح کیا ہے:

”میں مسلمان ہوں، اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کی تیرہ سوبرس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں، میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں، بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے؛ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی وہ اس راہ میں میری راہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں، میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کاہیکل ادھورا رہ جاتا ہے میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر حامل (Factor) ہوں میں اپنے اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا۔

ہندوستان کے لئے قدرت کا یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے، ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی اور پھر ایک کے بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔ اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کیلئے جگہ نکالی، ان ہی قافلوں میں ایک آخری قافلہ ہم پیروانِ اسلام کا بھی تھا، یہ بھی پچھلے قافلوں کے نشانِ راہ پر چلتا ہوا یہاں پہنچا اور ہمیشہ کے لئے بس گیا، یہ دنیا کی ”مختلف قوموں اور تہذیبوں کے دھاروں کا ملان تھا یہ گنگا اور جمنا کے دھاروں کی طرح پہلے ایک دوسرے سے الگ الگ بہتے رہے، لیکن پھر جیسا کہ قدرت کا اٹل قانون ہے دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا، ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا جس دن یہ واقعہ ظہور میں آیا اس دن سے قدرت کے مخفی ہاتھوں نے پرانے ہندوستان کی جگہ ایک نئے ہندوستان کے ڈھالنے کا کام شروع کردیا۔

ہم اپنے ساتھ اپنا ذخیرہ لائے تھے، یہ سرزمین بھی اپنے ذخیروں سے مالامال تھی ہم نے اپنی دولت اس کے حوالے کردی اور اس نے اپنے خزانوں کے دروازے ہم پر کھول دئیے ہم نے اسے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز دے دی جس کی اسے سب سے زیادہ احتیاج تھی، ہم نے اسے جمہوریت اور انسانی مساوات کا پیام پہنچادیا۔

تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس واقعے پر گذرچکی ہیں، اب اسلام اس سرزمین پر ویسا ہی دعویٰ رکھتا ہے جیسا دعویٰ ہندومذہب کا ہے اگر ہندو مذہب کئی ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس کے باشندوں کا مذہب چلا آتا ہے۔

ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک (ملی جلی) تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھردیا ہے، ہماری زبانیں ہماری شاعری، ہمارا ادب، ہماری معاشرت، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم ورواج ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ گئی ہو، ہماری بولیاں الگ الگ تھیں مگر ہم ایک ہی زبان بولنے لگ گئے، ہمارے رسم و رواج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے مگر انھوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کرلیا، ہمارا پُرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا، یہ تمام مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے، جب ہماری یہ ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی، ہم میں اگر ایسے ہندو دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائیں، تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں۔

***

___________________________

دارالعلوم ، شماره : 7 ، جلد : 92  رجب 1429 ھ مطابق جولائی 2008ء