ترتیبِ حدیث کا تدریجی ارتقاء

طبقات کتبِ حدیث - مراتب و احکام

از: مفتی شکیل منصور القاسمی‏، استاذِ حدیث و ادب عربی

مجمع عین المعارف للدّراسات الاسلامیہ، کنوّر، کیرالہ

 

                کتابتِ حدیث بلکہ مستقل کتاب کی تالیف کا سلسلہ حضور اکرم … کے عہدِ مبارک ہی میں شروع ہوچکاتھا، صحابہٴ کرام کی ایک بڑی جماعت کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے مختلف تعداد اور متعدد صورتوں میں احادیثِ طیبہ کو تحریری طور پر جمع کررکھا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا مرتب کردہ مجموعہٴ حدیث ”صادقہ“ اہلِ نظر کی نظر سے مخفی نہیں ہے، جو کم و بیش ایک ہزار حدیثوں پرمشتمل ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی، حضرت سمرة بن جندب اور حضرت جابر بن عبداللہ کے تحریری مجموعوں اور صحائف کا تذکرہ معتمد کتابوں میں موجود ہے ۔ نبی کریم … کی وفات کے بعد حضرت ابوہریرہ بہت سے صحائف لکھے۔ جن میں سے ایک صحیفہ ان کے ممتاز شاگرد ہمام بن منبّہ نے ”صحیفہ ہمام بن منبہ“ مرتب کیا، جس کا مستقل نسخہ آج بھی دستیاب ہے، نیز حضور … نے تحریری صورت میں جو کچھ بھی لکھوایا وہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ خاص طورپر وہ نوشتے جن میں کسی قسم کے احکام آپ … نے لکھوائے۔مثلاً عمرو بن حزم کے نام آپ … کا گرامی نامہ - حاصل یہ کہ کتبِ حدیث کی ترتیب و تدوین کا سلسلہ آپ … کی زندگی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ البتہ ابتداءِ اسلام میں جب کہ عام طورپر مسلمانوں کو قرآنِ کریم کے ساتھ خاص ممارست حاصل نہ ہوئی تھی،اور قرآن کے وجوہِ اعجاز اور حقائق ومعارف پر پوری طرح مطلع نہیں ہوئے،اور انہیں کلام اللہ اور کلام الرسول … میں فرق و امتیاز پر کامل دسترس حاصل نہیں تھی تو اندیشہٴ اختلاط کی بناء پر کتابتِ حدیث سے منع کردیاگیا تھا۔ لیکن بعد میں جب یہ اسباب مرتفع ہوگئے اوراس طرح کا کوئی خدشہ باقی نہیں رہا تو آپ … نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمادی،اور ”لاتکتبواعنّی“ کا سابقہ حکم منسوخ ہوگیا۔

                پھر تدوینِ حدیث کا یہ سلسلہ حضراتِ تابعین میں بھی جاری رہا، اور اکابرِ تابعین مثلاً حضرت سعید بن مسیب، شعبی، مجاہد، سعید بن جبیر، عطاء، قتادہ وغیرہم بھی کتابتِ حدیث میں پورے دم خم کے ساتھ مشغولِ کار رہے۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ ترتیب و تدوین کا یہ سلسلہ صرف انفرادی طورپر ہوتا رہا۔ اس کے لئے کوئی باقاعدہ منظم شکل نہیں تھی۔ حتی کہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں فتنوں کی کثرت کے پیش نظر ضیاعِ حدیث کا خطرہ شدید وقوی ہوگیا تو ۹۹ھ میں خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حدیثِ رسول … باضابطہ مرتب کرنے کے لئے سرکاری احکام نافذ کئے، چنانچہ والیِ مدینہ ابوبکر بن حزم کے علاوہ دیگر علماءِ دین نے بھی خلیفہٴ مذکور کے تعمیل و امتثالِ حکم میں ترتیبِ حدیث کا کام شروع کردیا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے امت مسلمہ کے ہاتھوں جو کتاب آئی وہ امام ابن شہاب زہری متوفی ۱۲۳ھ کی کتاب ہے، جس کو انھوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں تصنیف کی تھی۔ پھر ان کی اتباع میں مختلف شہروں کے بڑے بڑے جلیل القدر محدثین بھی تدوینِ حدیث کے مقدس کام میں مشغول ہوگئے۔ چنانچہ مکہ معظمہ میں ابن جریج متوفی ۱۵۰ھ، مدینہ منورہ میں امام دارالہجرت امام مالک بن انس متوفی ۱۷۹ھ اور محمد بن اسحاق متوفی ۱۵۱ھ صاحب المغازی، بصرہ میں ربیع بن صبیح متوفی ۱۶۰ھ، سعد بن ابی عروبة متوفی ۱۵۶ھ اور حماد بن سلمہ متوفی ۱۶۷ھ، کوفہ میں سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ، شام میں امام اوزاعی متوفی ۱۵۸ھ۔ یمن میں معمر متوفی ۱۵۳ھ۔ مصر میں لیث بن سعد متوفی ۱۷۵ھ۔ واسط میں ہشیم متوفی ۱۸۳ھ۔ رَی میں جریر بن عبدالحمید متوفی ۱۸۸ھ۔ خراسان میں عبداللہ بن مبارک متوفی ۱۸۱ھ جیسے جہاندیدہ وقت نے تدوین و ترتیب حدیث کے باب میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں وہ سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس سرسری تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی باقاعدہ تصنیف و تدوین پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کی ابتداء میں ہوئی۔ اور یہ سلسلہ دوسری صدی کے اواخر تک جاری رہا۔ تدوین و ترتیب حدیث کایہ پہلا دور تھا، اس دور کے مدوّنات میں سے ہم تک صرف ”موطا مام مالک“ پہنچی ہے۔ اس دور میں دو قسم کی تصنیفیں عمل میںآ ئیں۔ ایک قسم وہ ہے جس میں صحیح اسناد کا التزام نہیں کیاگیا، بلکہ جو حدیث پہنچی وہ درج کردی گئی۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں صحت کا التزام تو کیاگیا،مگر مرفوع ﴿وہ حدیث جس میں کوئی صحابی رسول اللہ … کے قول یا فعل کی خبر دے﴾ حدیث کے اندراج کا التزام نہیں رہا۔ بلکہ منقطع ﴿ وہ حدیث جس کی سند میں سے متعدد راوی مختلف مقامات سے حذف ہوں﴾، مرسل ﴿ وہ حدیث جس میں تابعی پہلے صحابی راوی کا ذکر نہ کرے﴾،آثارِ صحابہ حتی کہ مقطوع ﴿اقوالِ تابعین﴾ کو بھی مرفوع کے ساتھ مخلوط و ممزوج کردیاگیا۔ چنانچہ ابن جریج متوفی ۱۵۰ھ، ابن اسحاق متوفی ۱۵۱ھ، ربیع بن صبیح متوفی ۱۶۱ھ، سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ، امام اوزاعی متوفی ۱۵۶ھ، ابن مبارک متوفی ۱۸۱ھ وغیرہم تدوین حدیث کے سلسلہ میں جو بیش بہا خدمات انجام دئیے ہیں وہ سب اسی انداز کے تھے۔ اس دور میں چونکہ علماء وفقہاء کے نزدیک مرسل حدیث مستقل حجت تھی۔ اس لیے مرسل کو مرفوع سے علیحدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ بعد میں سب سے پہلے جب حضرت امام شافعی نے مرسل کی حجیت سے انکار کیا اور پھر ان کے دیکھا دیکھی عام محدثین میں بھی یہ خیال زور پکڑا تو اب اس کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ اب ایسی تصانیف عمل میں لائی جائیں جن میں یہ نقص نہ ہو، بلکہ حدیثِ مرفوع کو مراسیل و آثار سے بالکل ممیز کردیاجائے۔ اس زمانہ کے علماء نے اس ضرورت کے پیش نظر جدید طرز اور انتہائی نئے انداز پر تصانیف مرتب کرنا شروع کردی، اور تیسری صدی کی ابتداء سے تدوینِ حدیث کا یہ دوسرادور شروع ہوا۔ اس دور کی تصانیف میں احادیثِ مرفوعہ کو دوسری تمام چیزوں سے ممیز و ممحَص کردیاگیا،اور احادیث کو صحابہ کی ترتیب پر جمع کیا گیا، جس کی وجہ سے ”مسانید“ کی تالیف کی نوبت آئی۔ مسانید کی تالیف کے اس دور میں بھی بڑے بڑے علماء نے اپنا جوہرِ فن دکھایا۔ چنانچہ کوفہ میں عبداللہ بن موسی۔ بصرہ میں مسدّد بن مسرہداور مصر میں یعقوب بن شیبہ مالکی نے تو اتنا ضخیم مسند تیار کیاکہ اگر وہ پایہٴ تکمیل کو پہنچ جاتا تو تقریباً دوسو جلدوں کاذخیرہ تیار ہوجاتا۔ اسی طرح سمرقند میں حافظ حسن بن احمد بن محمد نے کئی مسانید لکھیں۔ امام ذہبی کا بیان ہے کہ انھوں نے اتنی بڑی کتاب لکھی تھی کہ جس میں ایک لاکھ بیس ہزار احادیث کا ذخیرہ تھا۔ اسی قبیل سے مسند الامام احمد بن حنبل بھی ہے۔ جس میں انھوں نے اپنی یادداشت سے سترہ لاکھ پچاس ہزار حدیثوں میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار احادیث منتخب کرکے جمع کردیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کی جانب بھی بعض مسانید منسوب ہیں، لیکن یہ ان کا تصنیف کردہ مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ان سے مروی احادیث کا مجموعہ ہے۔ ترتیب مسانید کے دور میں اتنی بلیغ کوششیں ہوئیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اُس دور کی تصانیف میں اس وقت صرف مسندِ احمد بن حنبل شائع اور دستیاب ہے۔ میری ناقص معلومات کی حد تک دوسرے مسانید کا صرف کتب تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے۔

                بہرحال اس دور کی تصانیف مرفوع اور غیر مرفوع حدیث سے علیحدہ اور ممتاز تو ہوگئیں لیکن محدثین کی نظر میں ایک نقص اب بھی باقی رہ گیاتھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور سقیم سب حدیثیں مخلوط تھیں، جس کی واضح نظیر مسند احمد ہے۔ یعنی اس دور کی تصانیف بھی ایسی نہیں تھی کہ آنکھ موند کے پورے اعتماد و وثوق کے ساتھ ان پر عمل کرلیاجائے اس لیے امت کیلئے ایک ایسی تصنیف کی ضرورت بہرحال باقی تھی کہ جس میں فقط احادیث مرفوع جمع کی جائیں اوراحادیث مرفوع کے ساتھ احادیث غیرمرفوعہ مخلوط نہ کئے جائیں جیساکہ دور اوّل کی تصانیف میں ہوا۔ نیز احادیث مرفوعہ کی تخریج میں صحت کاپورا التزام کیاجائے۔ اور صرف وہی حدیث مرفوع جمع کی جائیں جو اسنادی حیثیت سے بالکل بے غبار ہو۔ صحیح کے ساتھ غیر صحیح کو مخلوط نہ کیاجائے جیساکہ دور ثانی میں ہوا۔ تیسری صدی کے نصف میں تصنیف و تالیفِ حدیث کے اس طرز کا آغاز ہوا اور اس سے تالیف کتب حدیث کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو اس خدمت کیلئے قبول کیا۔ وہ اس جہد وسعی میں مصروف ہوئے، رحمتِ خداوندی ساتھ تھی۔ وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ ان کے گہربار نوکِ قلم سے ایسی بیش بہا کتاب امتِ مسلمہ کو ملی جو قیامت تک کیلئے بے نظیر رہے گی۔ ان کے بعد ان کی اتباع میں پھر امام مسلم نے ایک انوکھے طرز کی کتاب لکھی۔ ان دونوں کتابوں کو علماء نے ”صحیحین“ کے لقب سے یاد کیا۔ اور ساری امت ان دونوں کتابوں کے قبول و استناد پر متفق ہوگئیں۔ پھر ان ہی کے قریب قریب صحاح ستہ میں سے سنن ابوداؤد، ترمذی شریف، نسائی شریف، ابن ماجہ وغیرہ مفید کتابیں بھی مدون ہوئیں۔

طبقات کتب حدیث:

                احادیث کی جامع کتابوں کی مختلف مراتب ومنازل میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے صحت و قوت کے اعتبار سے کتب حدیث کے پانچ طبقات بتائے ہیں۔

                طبقہٴ اولی: وہ کتابیں ہیں جن کی جملہ احادیث حجت اور قابل استدلال ہیں بلکہ رتبہٴ صحت کو پہنچی ہوئی ہیں، جو حدیث قوی کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ اس طبقہ میں تقریباً وہ تمام کتابیں داخل ہیں جو اسمِ صحیح کے ساتھ موسوم ہیں۔ اور بعض ان کے علاوہ ہیں۔ جیسے صحیح امام بخاری، صحیح امام مسلم، موطا امام مالک، صحیح بن خزیمہ متوفی ۳۱۱ھ، صحیح بن حبان متوفی ۳۵۴ھ، صحیح ابی عوانہ الاسفراینی متوفی ۳۱۶ھ اور صحیح محمد بن عبدالواحد المقدسی الجنبلی ۶۳۴ھ وغیرہ۔

                طبقہٴ ثانیہ: وہ کتابیں ہیں جن کی احادیث اخذ و استدلال کے قابل ہیں، اگرچہ ساری حدیث صحت کے درجہ کو نہ پہنچی ہوں اور کسی حدیث کے حجت ہونے کے لئے اس کا رتبہٴ صحت کو پہنچا ضروری بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث حسن بھی حجت اور قابل استدلال ہے۔ اس طبقہ میں یہ کتابیں ہیں: ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی ۲۷۵ھ کی ”سنن ابی داؤد“۔ ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ۲۷۹ھ کی جامع (سنن ترمذی)۔ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی متوفی ۳۰۳ھ کی ”مجتبیٰ“ جس کو ”سنن صغری“ اور مطلق نسائی بھی کہتے ہیں۔ مسند احمد حنبل بھی اسی طبقہ میں ہے۔ اس لیے کہ اس میں جو بعض روایتیں ضعیف ہیں وہ حسن کے قریب ہیں۔

                طبقہٴ ثالثہ: ان کتابوں کا ہے جس میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، شاذ، منکر، خطاء، صواب، ثابت اور مقلوب سب قسم کی حدیث ملتی ہیں۔ اور ان کتابوں کو علماء کے درمیان زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل نہ ہوئی ہو۔ ان کتابوں کی بعض روایتیں قابل استدلال ملتی ہیں اور بعض ناقابل استدلال۔ جیسے سنن ابن ماجہ متوفی ۲۷۳ھ۔ مسند ابوداؤد طیالسی متوفی ۲۰۳ھ، مسند ابویعلی الموصلی متوفی ۳۰۷ھ، مسند البزار، مصنَّف عبدالرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ۲۱۱ھ، مصنف ابوبکر بن شیبہ متوفی ۲۳۵ھ، سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ۳۶۰ھ کی تینوں معاجم: المعجم الکبیر، (مطبوعہ) المعجم الصغیر (مطبوعہ) ”المعجم الوسیط“ (غیرمطبوعہ) احمد بن حسین بیہقی متوفی ۴۵۸ھ کی کتابیں: ”السنن الکبریٰ“، دس جلدوں میں۔ (مطبوعہ) ”السنن الصغری“ (ناپید ہے) ”الجامع المصنف فی شعب الایمان“ جو صرف شعب الایمان سے مشہور ہے (مطبوعہ ہے) سنن دار قطنی متوفی ۳۸۵ھ۔ ابونعیم کی ”الحلیہ“ ”تفسیر بن مردویہ“ اور ”الدرالمنثور“ وغیرہ۔ ان حضرات کا مقصد ان تمام روایتوں کو جمع کرنا ہے جو اُن کو مل جائیں، تلخیص و تہذیب،اور قابل عمل روایات کا انتخاب ان کا مقصد نہیں۔

                طبقہٴ رابعہ: ان کتابوں کا ہے جن کی ہر حدیث پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا بشرطیکہ وہ حدیث صرف اس کتاب میں ہو۔ اوپر کے طبقات کی کتب میں نہ ہو، جیسے شیرویہ بن شہردار متوفی ۵۰۹ھ کی کتاب ”فردوس الاخیار“ جس کااختصار ان کے صاحبزادے شہردار بن شیرویہ بن شہردار متوفی ۵۵۸ھ نے کیا ہے۔ جس کا نام مسند الدیلمی ہے ، جو مطبوعہ ہے۔ خطیب بغداد ابوبکر احمد بن علی متوفی ۴۶۳ھ کی کتابیں: تاریخ بغداد، الکفایة فی علم الروایة، (اصول حدیث میں) اقتضاء العلم والعمل، ”موضح اوہام الجمع والتفریق“ وغیرہ۔ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی ۴۰۳ھ کی کتابیں: ”حلیة الاولیاء“ ”طبقات الاصفیاء“ اور ”دلائل النبوة“ (مطبوعہ) وغیرہ۔ ابواسحاق جُوزجانی احمد بن عبداللہ محدث شام متوفی ۲۵۹ھ کی کتابیں: ”کتاب فی الجرح والتعدیل“، ”کتاب الضعفاء“ (غیرمطبوعہ) وغیرہ۔ حکیم ترمذی کی ”نوادر الاصول“ ابن عدی کی ”الکامل“ عقیلی کی ”کتاب الضعفاء“ ”تاریخ الخلفاء“ اور تاریخ ابن عساکر وغیرہ۔

                طبقہٴ خامسہ: موضوعات کی کتابوں کا ہے، جن میں صرف احادیث موضوعہ ہی ذکر کی جاتی ہیں۔ علماء محققین ، محدثین وناقدین نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں وہ صرف احادیثِ موضوعہ کو تلاش کرکے لائے ہیں تاکہ عام اہلِ علم ان سے باخبر ہوکر دھوکہ میںآ نے سے بچیں۔ چنانچہ علامہ ابن الجوزی کی ”الموضوعات الکبری“ اس سلسلہ کی مشہور کتاب ہے۔ اور جیسے امام سیوطی کی ”اللآلی المصنوعة فی الاحادیث الضعیفہ“ ملا علی قاری کی ”الموضوعات الکبری“ اور ”المصنوع فی معرفة الموضوع“ شیخ طاہر پٹنی کی ”تذکرة الموضوعات“ ابن عُراق کی ”تنزیہ الشریعة عن الاخبار الشنیعة“ علامہ شوکانی کی ”الفوائد المجموعة“ ابن ابی الدنیا متوفی ۲۸۱ھ کی کتاب ”کتاب ذم الدنیا“ ، علامہ قزوینی کی کتاب ”موضوعات المصابیح“ وغیرہ۔

                اوپر کی تفصیلات سے واضح ہے کہ صحاح ستہ میں سے صحیحین اور موطا امام مالک طبقہٴ اول میں داخل ہیں اور سنن ابن ماجہ طبقہ ثالث میں اور سنن ثلاثہ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی) طبقہ ثانیہ میں۔ صحاح ستہ میں کوئی کتاب طبقہٴ رابعہ میں نہیں ہے۔

صحاح ستہ کے مابین فرق مراتب اور تعداد حدیث

                جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ اصح السنة صحیح بخاری شریف ہے۔ اس کے بعد مسلم شریف کا درجہ ہے۔ پھر اس کے بعد ابوداؤد کا، پھر ترمذی کا، پھر نسائی کا، بعض علماء کے نزدیک نسائی کا درجہ ترمذی سے بھی اونچا ہے۔ سب سے آخر میں سنن ابن ماجہ کا درجہ ہے۔ متقدمین کے یہاں سنن ابن ماجہ اصول و امہات کتب میں شامل نہیں ہے۔ ان کے یہاں ”صحاح ستہ“ کی بجائے ”صحاح خمسہ“ ہے۔ یعنی بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ کو انھوں نے نہیں لیا۔ ابن ماجہ کو صحیح ستہ میں سب سے پہلے علامہ ابن طاہر مقدسی نے داخل کیاہے۔ بعض محدثین نے ابن ماجہ کی بجائے موطا امام مالک کو ”سادس ستہ“ قرار دیا۔ جیساکہ رزین بن معاویہ نے ”تجرید الصحاح“ میں۔ اور ابن الاثیر جزری نے ”جامع الاصول“ میں۔ ابن ماجہ کی جگہ موطا مالک کو لیا ہے۔ صحاہ ستہ کا یہ ”تعارفی نوٹ“ یقینا ناقص ہوگا جب تک کہ اس کے ساتھ ان کے موٴلفین کا ”سوانحی خاکہ“ سامنے نہ آئے، اس لئے قارئین کرام ایک نگاہ ادھر بھی ڈالتے چلئے۔

امام بخاری

                آپ کا اصل نام محمد بن اسماعیل البخاری ہے۔ ۱۳/ یا ۱۶/ شوال ۱۹۴ھ کو بخارہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ کم و بیش ایک ہزار شیوخ سے علم حدیث حاصل کئے۔ آپ نے بیشمار کتابیں لکھیں، جن میں ذیل کی کتابیں آپ کے ”انمٹ نقوش“ ہیں۔

                (۱) کتاب الجامع الصحیح، (۲) کتاب الادب المفرد، (۳) کتاب برّالوالدین، (۴) کتاب الہبہ، (۵) کتاب القراء ة خلف الامام، (۶) کتاب رفع الیدین فی الصلوٰة، (۷) کتاب خلق افعال العبد، (۸) کتاب التاریخ الکبیر، (۹) کتاب التاریخ الاوسط، (۱۰) کتاب التاریخ الصغیر،(۱۱) کتاب الجامع الکبیر، (۱۲) کتاب المسند الکبیر، (۱۳) کتاب التفسیر الکبیر، (۱۴) کتاب الاشربة، (۱۵) کتاب العلل، (۱۶) کتاب اسامی الصحابة، (۱۷) کتاب الوحدان، (۱۸) کتاب المبسوط، (۱۹) کتاب الکِنی، (۲۰) کتاب الفوائد۔

                ان کتابوں میں سب سے عظیم اور جلیل القدر تصنیف آپ کی ”جامع بخاری“ ہے، جس کو تمام دنیائے اسلام میں شہرت دوام حاصل ہے۔ آپ نے اپنی اس ”صحیح“ کا انتخاب چھ لاکھ احادیث سے فرمایاہے، اور اس کتاب میں صرف انہی حدیثوں کو جگہ دیتے ہیں جن کے رواة پر نقد و جرح اور عدل و ضبط کی حیثیت سے آپ کو شرح صدر اورکامل وثوق حاصل تھا۔ اس طرح یہ کتاب دنیائے اسلام میں اپنے نہج کی سب سے پہلی کتاب قرار پائی مکررات کے علاوہ آپ کی جامع کی حدیث کی تعداد ۲۶۰۲ ہے۔ اور اگر مکررات کو شامل کرلیاجائے تو اب یہ تعداد بڑھ کر ۷۳۹۷ ہوجائیں گی۔ (الحطة)

                بخاری کی سب سے بڑی کمائی ان کے تراجم میں ہے۔ تراجم میں لطیف اشارات، اور دقیق استنباط پائے جاتے ہیں، جس سے حضرت امام بخاری کی باریک بینی، بالغ نظری، اور اجتہادی شان ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری شریف کے تراجم حل کرنے کیلئے محدثین کو باقاعدہ اصول و ضوابط بنانے پڑے۔ سمرقند کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”خرتنک“ میں ۲۵۶ھ میں وفات ہوئی۔

امام مسلم:

                مسلم شریف کے مصنف مسلم بن الحجاج القشیری النیشاپوری ہیں: آپ کی ولادت ”نیشاپور“ میں ۲۰۴ھ کو ہوئی۔ آپ کا سب سے اہم اور عظیم کارنامہ ”جامع صحیح مسلم“ ہے۔ جو حسن ترتیب، جودت نظم، اور دقائق اسناد میں بخاری سے بھی اونچی ہے۔ ایک مضمون کی جملہ روایتوں کو بجمیع طرقہا یکجا، نہایت سلیقہ، اور عمدگی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ تاہم صحت و قوت میں بخاری شریف سے نیچے ہے۔ مکررات کے علاوہ کل حدیث چار ہزار اور مکررات کے ساتھ ۷۲۷۵ احادیث ہیں۔

امام ابوداؤد

                سنن ابی داؤد کے مصنف سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی ہیں۔ ۲۰۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی، پانچ لاکھ حدیثوں میں سے چارہزار آٹھ سو حدیثوں کاانتخاب کرکے اپنی سنن میں ذکر کیا۔ سنن ابی داؤد کی منجملہ دیگر خصوصیات کے سب سے اہم خصوصیت ”قال ابوداؤد“ ہے۔ اس لفظ سے امام ممدوح کاجو اختلاف رواة، یا اختلاف رواة فی الالفاظ کی طرف باریک ترین اشارہ ہوتا ہے اس کا سمجھنا ایک انتہائی اہم کام ہوتا ہے۔ اس سنن کے علاوہ آپ کی اور بھی دوسری تصانیف ہیں، جو درجِ ذیل ہیں:

                (۱) مراسیل ابی داؤد، یہ مختصر سا رسالہ ہے۔ جس میںآ پ مرسل روایات ذکر کرتے ہیں۔ یہ کتاب سنن ابی داؤد کے بعض نسخوں کے ساتھ بھی ملحق ہے۔

                (۲) الردّ علی القدریہ، (۳) الناسخ والمنسوخ، (۴) ماتفرد بہ اہل الامصار، (۵) فضائل الانصار، (۶) مسند مالک بن انس، (۷) المسائل، (دیکھئے تہذیب) لیکن آپ کی جملہ تصانیف میں ”سنن ابی داؤد“ سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔ ۲۷۵ھ میں بمقام بصرہ آپ کی وفات ہوئی۔

امام ترمذی

                جامع ترمذی کے مصنف محمد بن عیسیٰ الترمذی ہیں۔ ۲۰۹ھ میں بمقام ”ترمذ“ آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ نے حدیث پاک کی مستند و معتبر ترین کتاب ”جامع ترمذی“ لکھی۔ اس کتاب کے تین نام ہیں: (۱) جامع ترمذی:- جامع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں حدیث کے آٹھوں ابواب ﴿سیرت نبوی، آدابِ اسلامی، تفسیر، عقائد، احادیث فتن، علامات قیامت، احکام اور مناقب﴾ کی روایتیں موجود ہے۔ (۲) سنن ترمذی: سنن اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں احکام شرعیہ سے تعلق رکھنے والی حدیثیں یعنی مستدلاتِ فقہاء بیان کئے گئے ہیں۔ (۳) الجامع المعلّل: معلّل اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں ایسی احادیث کی اسناد پر بحث کی گئی ہے جن میں کوئی خرابی پائی جاتی ہے۔ اصل نام جامع ترمذی ہی ہے۔لیکن سنن ترمذی سے مشہور ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت روایات کی تخریج ہے۔ یعنی جب وہ کہتے ہیں کہ ”وفی الباب عن فلان“ تو جن روایتوں کا وہ حوالہ دیتے ہیں، ان کا مقام و مرتبہ جاننا اور ان کی تخریج کرنا بہت اہم کا م ہے۔

امام نسائی:

                سنن نسائی کے مصنف احمد بن شعیب النسائی ہیں۔ ولادت ۲۱۵ھ میں خراسان کے ایک شہر ”نساء“ میں ہوئی۔ آپ کی سنن کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے اس میں روایتوں پر جو نقد کیا ہے اس کے مقابل کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ مثلاً جب آپ فرماتے ہیں کہ ”ہذا الحدیث خطأ“ تو اس کا جاننا مشکل ہوتا ہے کہ اس کا مقابل ”صواب“ کیا ہے؟ اس کے علاوہ آپ کے تراجم بھی بڑے اہم اور باریک ہوتے ہیں۔ ۳۱۳ھ میںآ پ وفات پائے۔

امام ابن ماجہ

                سنن ابن ماجہ کے مصنف ابوعبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ ہے۔ ۲۰۹ھ میں آپ کی ولادت ہے۔ آپ نے جو سنن لکھی ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی نادر اور غریب حدیثیں موجود ہیں۔ اس میں بعض روایتیں ضعیف بھی ہیں۔ اسلئے متقدمین نے اس کو ”صحاح ستہ“ میں شامل نہیں کیا ہے۔ ۲۷/ رمضان ۳۷۳ھ بروز دوشنبہ آپ کی وفات ہوئی۔

پانچوں طبقات کی کتابوں کے احکام

                مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ: پہلے اور دوسرے طبقہ کی کتابوں پر محدثین کا اعتماد ہے،اور حضرات محدثین انہی دو کتابوں پر زیادہ قناعت کرتے ہیں۔ تیسرے طبقہ سے وہی لوگ برائے عمل روایات منتخب کرسکتے ہیں جو حاذق و ناقد ہیں۔ جن کو راویوں کے حالات اوراسانید کی خرابیاں معلوم ہیں اور اس طبقہ کی کتابوں سے کبھی شواہد و متابعات لئے جاتے ہیں۔ چوتھے طبقہ کی روایتوں میں مشغول ہونا، ان کو جمع کرنا، اور ان سے مسائل مستنبط کرنا متأخرین کا ایک طرح کا غلو اور تعمق ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ گمراہ لوگوں مثلاً روافض اور معتزلہ کو انہی کتابوں سے مواد ہاتھ آتا ہے۔ لہٰذا اس طبقہ کی کتابوں سے علمی معرکوں میں استمداد و استدلال درست نہیں ہے۔ پانچویں درجہ کی کتابوں کی روایات دراصل دین میں بڑا فتنہ ہے جس سے بچنا بیحد ضروری ہے۔“

                مذکورہ بالا تفاصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حدیث پاک کی مختلف کتابیں ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ مستند و معتبر صحاح ستہ ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر کتب حدیث بھی معتبر و قابل قدر ہیں۔ جن طبقات کی کتابوں کی روایتیں علماء کے یہاں مستند ومعتبر ہیں انہیں حدیث نہ سمجھنا جہالت و تحکم ہے، کیوں کہ تمام صحیح حدیثوں کا احصار صحیحین یا صحاح ستہ میں نہیں ہے۔ ان کے علاوہ بھی صحیح حدیثوں کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔

کتب حدیث کی تالیف کے مشہور طریقے

                پھر مختلف ادوار میں حدیث پاک کی جو کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب و تالیف کے طریقے بھی الگ اور جداگانہ تھے اور پھر ہر ایک قسم کی کتاب کا ایک مخصوص اصطلاحی نام ہے۔ تعمیم فائدہ کیلئے ہم تمام اقسام کی کتابوں کا مختصر تعارف پیش کردیتے ہیں۔

۱-            صحیح: فن اصولِ حدیث کا ایک خاص اصطلاحی نام ہے۔ یہ اس کتاب کو کہتے ہیں جس کا مصنف اس کا التزام کر رکھا ہواکہ وہ صرف اپنی کتاب میں صحیح، مرفوع اورمتصل السند حدیثیں ہی نقل کریں گے۔

۲-           جامع: یہ اس کتاب کو کہتے ہیں جس میںآ ٹھ ابواب کی حدیثیں درج کی گئی ہوں۔ (اوپر جامع ترمذی کے تعارف میںآ ٹھوں مضامین مذکور ہیں)۔

۳-          سنن: یہ وہ کتابیں ہیں جن میں احادیث رسول کو ابواب فقہیہ کی ترتیب پر جمع کیاگیا ہو جیسے سنن ثلاثہ، اور سنن دارقطنی وغیرہ۔

۴-          مسند: یہ وہ کتاب ہے جس میں ایک صحابی کی تمام مرویات ایک جگہ جمع کردی گئی ہوں چاہے وہ کسی بھی باب سے متعلق ہوں۔جیسے مسند احمد، مسند حمیدی وغیرہ۔

۵-           معجم: اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں محدث اپنے ایک شیخ کی تمام مرویات بیان کرکے دوسرے شیخ کی مرویات بیان کرے۔جیسے طبرانی کی معجم کبیر، معجم اوسط،معجم صغیر۔

۶-           مستدرک: یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی کتاب کی ایسی چھوٹی ہوئی حدیثوں کو ذکر کیاگیاہو جو اس کتاب کی شرط پر پوری اترتی ہوں ۔ جیسے مستدرک حاکم علی الصحیحین۔

۷-          مستخرج: وہ کتاب ہے جس میں کسی دوسری کتاب کی حدیثوں کو اپنی ایسی سند سے روایت کی جائے جس میں مصنف کا واسطہ نہ آئے۔جیسے مستخرج اسماعیلی علی البخاری۔

۸-          جزء: اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں ایک ہی مسئلہ کی تمام روایتیں جمع کردی گئی ہوں جیسے امام بخاری کی جزء القراء ة خلف الامام وغیرہ۔

۹-           افراد وغرائب: وہ کتاب ہے جس میں کسی ایک محدث کے تمام تفردات کو یکجا کردیاگیاہو، جیسے دارقطنی نے ایک کتاب میں امام مالک کے غرائب جمع کئے ہیں۔

۱۰-         تجرید: وہ کتاب ہے جس میں کسی کتاب کی سند یا مکررات کو حذف کرکے صرف صحابی کا نام لے کر احادیث لکھے گئے ہوں۔ جیسے زبیدی کی تجرید بخاری، اور قرطبی کی تجرید مسلم۔

۱۱-          تخریج: وہ کتاب ہے جس میں کسی دوسری کتاب کی بے حوالہ حدیثوں کی سند اور حوالہ جات درج کئے گئے ہوں۔جیسے زیلعی کی نصب الرایہ لتخریج احادیث الہدایہ۔

۱۲-         جمع: وہ کتاب ہے جس میں مختلف کتابوں کی احادیث بحذفِ السند جمع کردئیے گئے ہوں۔ جیسے ابن الاثیر کی جامع الاصول۔

۱۳-         اطراف: وہ کتاب ہے جس میں احادیث کے صرف اول حصہ ذکر کرکے اس کی تمام سندوں کو جمع کردیاگیا ہو۔ یا کتابوں کی تقیید کے ساتھ اسانید جمع کی گئی ہوں۔ جیسے امام مزّی کی تحفة الاشراف۔

۱۴-         فہارس: وہ کتاب کہلاتی ہیں جن میں کسی ایک یا متعدد کتابوں کی احادیث کی فہرست بنادی گئی ہو تاکہ حدیث کی تلاش آسان ہوسکے۔ جیسے مفتاح کنوزالسنة، اور المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث۔

۱۵-         اربعین: وہ کتاب ہے جس میں ایک موضوع یا مختلف موضوعات کی کم وبیش چالیس حدیثیں بیان کی گئی ہوں۔جیسے امام نووی کی مشہور کتاب ”الاربعین“۔

۱۶-         موضوعات: وہ کتابیں ہیں جن میں صرف موضوع احادیث یکجا کی گئی ہوں تاکہ لوگ دھوکہ میںآ نے سے بچیں۔ جیسے ملاعلی قاری کی الموضوعات الکبری، اور ”المصنوع فی الاحادیث الموضوع۔

۱۷-         کتب احادیث مشہورہ: وہ کتابیں ہیں جن میں عام طورپر مشہور اور زبان زد حدیثوں کی تحقیق کی جاتی ہے۔ جیسے علامہ سخاوی کی ”المقاصد الحسنة فی الاحادیث المشتہرة وغیرہ۔

۱۸-         غریب الحدیث: وہ کتابیں ہیں جن میں کلمات حدیث کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کئے جاتے ہیں، جیسے جزری کی ”النہایة فی غریب الحدیث“ اور طاہر پٹنی کی ”جمع بحارالانوار“

۱۹-         علل: وہ کتابیں ہیں جن میں متکلم فی السند روایتیں ذکر کی جاتی ہیں جیسے امام ترمذی کی ”کتاب العلل الکبیر“ اورابن ابی حاتم رازی کی ”الجرح والتعدیل“ وغیرہ۔

۲۰-        اذکار: وہ کتابیں ہیں جن میں آنحضور … سے منقول دعائیں اور اذکار جمع کئے گئے ہوں جیسے ابن الجزری کی ”الحصن الحصین“ اور نووی کی ”الاذکار“۔

۲۱-         زوائد: وہ کتابیں ہیں جن میں کسی کتاب کی صرف وہ حدیثیں لی جاتی ہیں جو کسی دوسری کتاب سے زائد ہیں۔ جیسے حافظ ابن حجر کی ”المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ“ اورجیسے علامہ نورالدین ہیثمی کی ”مجمع الزوائد و منبع الفوائد“ جس میں مسند احمد، مسند بزار، مسند ابی یعلی، معاجم ثلاثہ طبرانی کی وہ زائد حدیثیں یکجا ہیں جو صحاح ستہ میں نہیں ہیں۔

                ترتیب و تالیف کتب حدیث کے یہ مشہور طریقے تھے۔ اس کے علاوہ اور دوسرے طریقوں سے بھی کتابیں لکھی جاتی ہیں، لیکن وہ طریقے مشہور نہیں ہیں۔ واللہ اعلم

$ $ $

---------------------------------

دارالعلوم ، شماره : 8-9، جلد : 92 شعبان - رمضان 1429ھ مطابق اگست -ستمبر ۲۰۰۸ء