عالمی، غذائی، توانائی، ماحولیاتی بحران کا

مجرم اکبر- امریکہ

                  از:        ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

عالمی انسانی برادری گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے اناج، خوردنی تیل اور پٹرول و گیس کی بڑھتی قیمتوں کے بحران سے دوچار ہے اس پر سے دھیرے دھیرے پردہ اٹھ رہا ہے۔ جب جارج بش نے یہ کہا کہ ”ہندوستانیوں کے زیادہ کھانے کی وجہ سے موجودہ عالمی غذائی بحران پیدا ہواہے اور ان کے وزیر نے کہا کہ بھارت اور چین کی بڑھتی توانائی کی ضرورتوں نے دراصل دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں آگ لگائی ہے۔ امریکی حکومت اوران کے بھاڑے کے میڈیا نے دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا کیا۔ اور خصوصاً تیل کے معاملہ میں انھوں نے اپنے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم Opec کے حوالہ سے سعودی عرب، ایران وغیرہ پر بھی نشانہ سادھ کر انہیں مجرم بنانے کی کوشش کی۔ مگر جھوٹ کبھی بھی چھپایا نہیں جاسکتا ہے اور جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کی مصداق یکے بعد دیگرے گذشتہ ایک ماہ میں خود حکومت امریکہ کی سرکاری تحقیقات اور انکشافات میں مانا گیا ہے کہ غذائی بحران، تیل کا بحران اور ماحولیات کا بحران آپس میں مربوط بھی ہے اور اِن تمام بحرانوں کے لئے سب سے بڑی ذمہ داری خود جارج بش کی انتظامیہ کی ہے۔ کہا یہ جاتا رہا ہے کہ بھارت اور چین کی صنعتی ترقی کے نتیجہ میں تیل کے دام بڑھ رہے ہیں جبکہ سپلائی بڑھ نہیں رہی ہے۔ اس کے جواب میں سعودی وزیر برائے پٹرولیم مسٹر نعیمی نے اور خود شاہ عبداللہ نے کہا کہ عالمی بازار میں ضرورت کے مطابق تیل موجود ہے مگر اس مارکیٹ میں سٹہ بازی ہورہی ہے جس کی وجہ سے داموں میں بڑھوتری ہے۔ امریکی انتظامیہ اس بات کو مانتی نہیں تھی وہ کہتی تھی کہ نہیں اِس سٹہ بازی کا داموں کی بڑھوتری پر اثر زیادہ سے زیادہ 3% ہے بقیہ کے لئے بھارت اور چین اور رسد کی کمی کے لئے Opec ذمہ دار ہے۔

146ڈالر فی بیرل پٹرول کے لئے سٹہ بازی ذمہ دار

خام تیل کی قیمتوں میں پچھلے دس سالوں 1998 سے 2008تک 18بیرل ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 146 ڈالر فی بیرل کا اچھال آیا۔ صرف پچھلے ڈیڑھ سالوں میں قیمتوں میں 133% کا اضافہ ہوا۔ امریکی کانگریس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھارت اور چین کی بڑھتی کھپت کی وجہ سے نہیں بلکہ پٹرولیم کی تجارت میں سٹہ بازی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ سٹہ بازی کے بازار میں بہت بڑی مقدار میں سرمایہ کاری ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت کا کم ہونا ہے ایسے میں بڑے مالیاتی ادارہ نفع کمانے کے لئے آگے کی تاریخوں میں آج کی قیمت پر بڑے بڑے سودے کررہے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری مارچ 2003 میں 13 ارب ڈالر کی تھی جو 2008کے مارچ میں بڑھ کر 260ارب ڈالر ہوگئی۔ 2003میں اس طرح کے پیشگی سودوں کی تعداد چار لاکھ تھی جو 2008 میں بڑھ کر تقریباً 30 لاکھ ہوگئی۔ فنڈ مینجمنٹ کے امریکی ماہر مائیکل ماٹر نے ذیلی کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ سٹہ بازوں کے ذریعہ لمبی مدت کی سٹہ بازی کے سودوں کے ذریعہ تقریباً 847 ملین بیرل پٹرول خریدا گیا ہے۔ جو کہ چین کی پانچ سالہ 2003-2006 مانگ میں اضافہ کے لگ بھگ برابر (847ملین بیرل) ہے۔ یعنی چین کی مانگ میں جتنا 5 سالوں میں اضافہ ہوا ہے اتنا تیل امریکی سرمایہ کاروں نے پہلے ہی خرید کر رکھ لیاہے۔ اب جب اتنی بڑی مقدار میں تیل منڈی سے ہٹ گیا اور مزید تیل مستقل خریدا ہی جارہا ہے تو اتنی پیداوار کہاں سے ہوگی۔ یہی بات Opec کے وزراء اور دبی زبان میں شاہ عبداللہ نے بھی کہی کہ مانگ میں زیادتی یا سپلائی میں کمی کے علاوہ دیگر عوامل کی وجہ سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں،مگر یہ سٹہ باز اتنے طاقت ور ہیں کہ حکومت اور میڈیا سب ان کے قبضہ میں ہیں وہ عوام میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ تیل کی قیمتوں میں بڑھوتری کی وجہ Opec کے بیشتر مسلم ممالک سعودی عرب، عراق، ایران کی وجہ سے دام بڑھ رہے ہیں۔ اور تیل کے دام بڑھوا رہے ہیں تو دنیا بھر میں خوراک اور خوردنی تیل وغیرہ ہر چیز مہنگی ہورہی ہے۔ مطلب یہ کہ اپنی کالی کرتوتوں کو دوسروں کے سر منڈھ دیا صرف اپنے میڈیا کے طاقت کے ذریعہ۔

دوسرا جھوٹ

خوردنی اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کی بڑی وجہ اناجوں خصوصاً مکئی کے ذریعہ ایندھن پیدا کرنے سے ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ امریکہ و یوروپ میں اناجوں سے حیاتیاتی ایندھن Biofuel بنانے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ امریکی حکومت اِس پیشز اپنی عادت کے مطابق جھوٹ بول کر عالمی برادری کو گمراہ کرتی رہی کہ بھارت جیسے دیشوں میں کھپت زیادہ بڑھنے سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں مگر حال ہی میں عالمی بینک World Bank کے ماہر اقتصادیات مسٹر مشیل کی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ دنیا بھر میں اناجوں اور خوردنی تیلوں کی قیمتوں میں اضافہ کی 75%وجہ اناجوں (مکئی) سے ایندھن بنانے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ امریکی حکومت کا دعویٰ تھا کہ محض 3%تین فیصد ہی اثر پڑرہا ہے۔ اب امریکی جھوٹ کا اندازہ دنیا خود لگاسکتی ہے کہ وہ کتنا جھوٹا اور دغاباز ملک ہے کہ 75%اثر کو 3% اثر بتا کر بھارت جیسے غریب ملک پر الزام لگارہا ہے۔ اس رپورٹ کو ملکی مفادات میں دبادیا گیا ہے کیونکہ عالمی بینک کا صدر سابق امریکی وزیر ہی ہے۔ مسٹر مشیل نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہاہے کہ امریکہ اور یوروپ میں سبسڈی اور امپورٹ ڈیوٹی میں چھوٹ دے کر حیاتیاتی ایندھن کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اگر حیاتیاتی ایندھن کو اتنا فروغ نہ دیا جاتا تو قیمتوں میں اتنی بڑھوتری نہ ہوتی۔ (آزاد ہند کلکتہ 30/07/2008 ہندی ہندوستان 05/07/2008)

اسی مدہ پر برطانوی امدادی تنظیم آکسفام Oxfam کی تحقیق ہے کہ حیاتیاتی ایندھن کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی کی وجہ سے دنیا بھر میں 30ملین لوگ بھوک مری وغریبی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ امدادی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایندھن کی مانگ کی بڑھوتری سے لگاتار عالمی خوراک کی صورتِ حال سنگین ہورہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں تاریخ کا سب سے کم ذخیرہ موجود ہے۔ امیر ممالک نے پچھلے سال حیاتیاتی ایندھن پر 15 - ارب ڈالر خرچ کیا تھا کہ برازیل کے ایتھانول کی قیمت کو ٹکر دے کر اپنے حیاتیاتی ایندھن کی مارکیٹ بنائی جائے جبکہ برازیل کا ایندھن یقینا ماحول اور خوراک دونوں کے لئے کم نقصان دہ ہے۔ یورپین یونین نے اپنے لئے نشانہ مقرر کیا ہے کہ وہ 2020تک اپنے ایندھن کی ضروریات کا 10%حیاتیاتی ایندھن سے پورا کرے گا۔ اس کے علاوہ پام آئیل کے ذریعہ ایندھن بنانے سے بھی خوردنی تیل کی سپلائی اور ماحولیات پر فرق پڑا ہے۔ زمین کے استعمال کے بدلنے سے 2020تک 3.1ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ فاضل پیدا ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ رقبہ میں حیاتیاتی ایندھن کی کاشت کے لئے درکار اناج اور تیل پیدا کرنے سے دنیا بھر میں Carbon Sink کاربن غیرموثر والے قدرتی علاقہ جنگلات اور دلدل کم ہوجائیں گی۔ (رائٹر 26/06/2008)

خود امریکہ نے اپنے لئے یہ نشانہ مقرر کیا ہے کہ وہ 2015تک اپنی ضروریات کے لئے 15- ملین گیلن حیاتیاتی ایندھن پیدا کرے گا جس کے لئے اسے 163ملین میٹرک ٹن مکئی درکار ہوگی۔ اور اس کی وجہ سے یقینا بازار میں مکئی کم ہوگی۔ وہ لوگوں کی پیٹ کی آگ بجھانے کے بجائے امریکی یوروپی گاڑیوں کی ایندھن کی ٹنکیوں کا جہنم بھرنے کے کام آئے گی۔ امریکی اور بھارتی کسانوں کی زندگی (انسان بمقابلہ جانور) کا مقابلہ زرعی ماہر ڈاکٹر دیوندر شرما نے کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ عام ہندوستانی کسان 1.4ہیکٹر زندگی میں پورا گھر چلاتا ہے جبکہ امریکہ میں ایک گائے کے چارہ کے لئے 10ہیکٹر زمین مہیا ہے۔ (امر اجالا25/01/2002)

تیسرا جھوٹ تیسری رپورٹ

امریکی سپریم کورٹ کی 2007کی رولنگ کے تحت ایک رپورٹ Enviromental protection agency ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات کے سائنسدانوں نے تیار کرکے وہائٹ ہاؤس کو پیش کی ہے۔ یہ رپورٹ 149صفحات کی ہے۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ عوام کی صحت اورماحولیات کے درمیان سیدھا تعلق ہے۔ سائنسدانوں نے کہا گرم لو، جنگلاتی آگ، کہرا اور بیماریوں سے ہونے والی اموات اور ماحولیاتی حرارت کے بڑھنے میں سیدھا تعلق ہے۔ اور ماحولیاتی حرارت قدرتی وجوہات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی وجوہات انسانی حرکات ہیں۔ امریکی حکومت نے رپورٹ کو اس لئے دبادیا ہے تاکہ ماحول کو گرم کرنے کی ذمہ دار گرین ہاؤس گیس جو زیادہ تر ایندھن کے جلنے سے پیداہوتی ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی مانگ نہ اٹھے۔ ان کو کنٹرول کرنے سے امریکہ کی تیل کی صنعت سے جڑے بڑے سرمایہ داروں جو یا خود بڑے وزیر اور سیاستداں ہیں جیسے ڈک چینی اور رمسفیلڈ وغیرہ یا ان کمپنیوں میں اعلیٰ عہدہ دار رہ چکے ہیں کے مفادات پر ضرب نہ پڑے۔ عوام سیلاب اور دمہ اور آگ سے مرتی ہے تو مرے۔ دنیا بھر کے کروڑوں لوگ اناج کی کمیابی اور مہنگائی سے بھوکے پیٹ رہیں تو امریکہ اور یوروپ کو کیا مطلب؟ ویسے امریکی حکومت نے اس رپورٹ کو دبابھی دیا ہے اور اس کی سفارشات کو خارج بھی کردیا ہے۔ (26/06/2008 TOI بحوالہ رائٹر)

امریکیوں کی فضول خرچی اور اسراف کا وبال ساری دنیا کیوں بھگتے؟

پروفیسر موہن راؤ کے مطابق ایک عام ایشیائی شہری کے مقابلہ ایک امریکی زمین کے وسائل پر 30%زیادہ بوجھ ڈالتا ہے۔ جن لوگوں کی زندگی میں قدم قدم پر وسائل خصوصاً توانائی کی محتاج ہے وہی وسائل پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔ امریکہ میں دنیا کی کل آبادی کا 4.5%رہتا ہے مگر دنیا کے وسائل کا وہ 30%استعمال کرتے ہیں اس کے مقابلہ جنوبی ایشیا جو کہ کل دنیا کی آبادی کا 22.5%ہے اس کے حصہ میں صرف 02%وسائل آتے ہیں امریکہ میں دنیا کی تمام کاروں کا 1/4حصہ موجود ہے۔ دنیا میں بجلی، ایندھن، پٹرول اور کوئلہ کی کل کھپت کا 1/4حصہ تنہا امریکہ کرتا ہے۔ جو کہ 25%، 26%اور 27%ہے۔ ایک عام ہندوستانی کے مقابلہ عام امریکی 20گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔(The affluent society by J.K. Galbraith TOI 11/1/04)

اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے معاملہ کو دیکھیں ایک امریکی 19ہندوستانیوں اور 107بنگلہ دیشیوں کے برابر ماحول کو گرم کرنے والی گیسوں کا اخراج کرتا ہے۔ بھارت میں ایک آدمی سالانہ فی کس 325کلو گرام گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتا ہے اور امریکہ میں ایک امریکی سالانہ فی کس 5400کلو گرام خرچ کرتا ہے۔ (Indian Express 2/3/04)

خوراک کے معاملہ میں یہ بات بار بار آچکی ہے کہ ایک امریکی سالانہ 909 کلوگرام اناج استعمال کرتا ہے یوروپی یونین 552کلو گرام فی کس زیریں صحارا افریقہ 162کلو گرام اور بھارت میں 179کلو گرام ہوتا ہے۔

اناجوں کی مہنگائی کا فائدہ امریکی کمپنیوں نے اٹھایا

مونسانٹو Monsantoکمپنی کا فائدہ 2003میں 23ملین ڈالر کا نفع 2007میں 993ملین ڈالر ہوگیا۔ کارگل 1290 Cargill ملین ڈالر سے بڑھ کر 2343ملین ڈالر ہوگیا۔ (U.S) ADMکا 451ملین ڈالر سے بڑھ کر 2162ملین ڈالر ہوگیا۔ (U.S) Bunge کا 411ملین ڈالر 778ملین ڈالر نفع ہوا۔ اسی طرح کھاد بنانے والی امریکی، یوروپی کمپنیوں نے صرف 2007کے سال میں گذشتہ کے مقابلہ ایک ارب ڈالر اور 50کروڑ ڈالر سے زائد منافع کمائے۔ اور یہ سارا سرمایہ اور نفع ظاہر ہے بھارت جیسے غریب ممالک کے غریب عوام کا خون چوس کر ہی حاصل کیاگیا۔ اورانسانیت کے یہی مجرم دنیا بھر میں اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعہ انسانیت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور ہمارے حکمراں ان ظالموں سے معاہدہ کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپارہے ہیں۔ مگر عوام کب تک بیوقوف بنتی رہے گی؟؟

***

___________________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر - نومبر 2008ء