وقت نفس وجوب کا سبب نہیں ہے

وقت برائے ذبح اضحیہ میں مکان اضحیہ ہی کا اعتبار ہے

از: مفتی رشید احمد فریدی

 

                قابل احترام لائق تکریم حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ آنجناب بعافیت ہوں گے۔

مسئلہ قربانی سے متعلق نئے موقف کا علم ہونے پر بندہ نے تحقیق کے لئے کتب ذیل کا مطالعہ کیا : بدائع الصنائع، مجمع الانہر، ملتقی الابحر، الدرالمنتقی، ہدایہ، بنایہ، عنایہ، فتح القدیر، تکملہ فتح، کنز الدقائق، فتح المعین حاشیہ شرح کنز، شرح وقایہ، عمدة الرعایہ، شرح نقایہ، السعایہ، نورالانوار، حسامی، نامی حاشیہ حسامی، تقریر وتحبیر وغیرہ (اور الفقہ علی مذاہب الاربعہ) حاصل مطالعہ اور تفتیش کے خلاصہ کو ”قربانی کے نفس وجوب اور وجوب اداء وشرط اداء - اور - مکان اضحیہ کے اعتبار کی تحقیق“ کے نام سے مقالہ کی شکل میں مرتب کرکے اہل علم کی خدمت میں روانہ کیا۔ چند ہفتوں کے بعد نئے موقف کی تائید میں سہارنپور سے ایک تحریر آئی اور کراچی پاکستان سے ان کے سابق فتویٰ کا خلاصہ آیا اِن دونوں کے اجمالی جواب کے بعد ایک دوسرا مختصر اور اہم مقالہ ”سبب اور محل وجوب کی تدقیق“ تیار کرکے مفتیان کرام کی خدمت میں بھیجا۔

                ان تحریرات میں فقہی صریح دلائل کی بنیاد پر راقم کو یقین تھا بلکہ ہے کہ ذی علم علماء جب عمیق اور وسیع نظر سے مطالعہ فرمائیں گے تو ضرور حقیقت آشکارہ ہوجائے گی اس لئے خیال تھا کہ آنے والی عید الاضحی (۱۴۲۶ھ) سے پہلے پہلے حسب سابق تعامل کے مطابق کوئی تحریر یا فتویٰ کسی بڑے صاحب قلم کی طرف سے ظاہر ہوجائے گا تاکہ عامة المسلمین بلکہ عام علماء کی تشویش ختم ہوجائے۔ رمضان المبارک ۱۴۲۶ھ کی تعطیل کے بعد نئے موقف کے مخالف نتائج کو واضح اور مرتب کرنے لگا پھر مراد آباد کے فتویٰ پر اصول کی روشنی میں تحقیقی نظر ڈالی تو کئی تسامحات سامنے آئے جو تحریر میں لائے گئے۔ بایں ہمہ تذبذب دور نہ ہوا اور خطاء و ذہول کا پردہ چاک نہ ہوا تو ایک تیسری تحریر ”وقت نفس وجوب کا سبب نہیں ہے الخ“ مفصل و مبرہن تیار کی گئی۔ اب یہ سب تحریریں بھی اہل علم کی خدمت میں بھیجی جارہی ہیں جن سے نئے موقف کے خدوخال اور حقیقت حال سے کما حقہ واقف ہوجائیں گے مذکورہ بالا تمام تحریرات میں تاریخ تالیف و ترتیب بھی درج ہے۔

                اہل علم سے بصد ادب عرض ہے کہ بندہ یقینا کم علم و بے مایہ ہے، ناچیز کے پاس ہے ہی کیا کہ سراونچا کیا جائے اور جھولی میں جو کچھ ہے وہ اساتذہ کرام کی دی ہوئی علمی بھیک ہے فللّٰہ الحمد علی ذلک۔ پس فقیر بے نوا علمائے ربانی میں کسی ایک کے مقام و مرتبہ کے پاسنگ بھی نہیں ہوسکتا بلکہ ان کی خاک پا کی ہمسری بھی نصیب ہوجائے تو زہے سعادت۔ میں نہ علمائے حق کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں نہ اُن سے مِراء و جدال مطمحِ نظر ہے نہ اپنی تحریروں سے سمعہ و شہرت کا طالب اور نہ کسی پر فوقیت جتانا چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان خصالِ ذمیمہ سے میری اور میری ذریت کی حفاظت فرمائے اور تاحیات صراط مستقیم پر گامزن رکھے، آمین۔ علمائے کبار تو اپنے اپنے مقام پر علم کے پہاڑ اور فیض کے سمندر، اور ناچیز ذرئہ بے وقار وقطرئہ بے مقدار ہے چہ نسبت خاک را بعالم پاک۔ مگر اس علو مرتبت اور رفعت شان کے باوجود بہرحال وہ انسان ہیں اور انسان خطاء ولغزش سے بری نہیں ہے ۔

                پس راقم آثم اپنی علمی بے بضاعتی کے باوجود کتب فقہ کے اصولی و فقہی صریح دلائل کے پیش نظر پورے یقین اور وثوق کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اِس مسئلہ خاص میں ہمارے علماء سے ذہول ہورہا ہے اور فتاویٰ اسی پر متفرع ہیں۔ بندہ النُصح لائمة المسلمین (الحدیث) کی بنیاد پر لوجہ اللہ علمائے وقت کی خدمت میں موٴدّبانہ عرِض پرداز ہے کہ مسئلہ قربانی میں نئے اختلاف کا سبب وقت سے نفس وجوب مراد لینا ہے۔ وقت کا سبب وجوب ہونا بالکل مسلّم مگر اصولاً وجوب کی دو قسمیں نہ ہوتیں، اور وقت کو فقہاء سبب وجوب اداء قرار نہ دئے ہوتے، اور سببیتِ وقت میں انتقال نہ پایا جاتا تو بلاشبہ کراچی و مرادآباد وغیرہ کا فتویٰ علی الرأس والعین۔

                لہٰذا کاتب الحروف اہل علم سے درخواست کرتا ہے کہ بندہ کی تمام تحریرات کو وسیع اور گہری نظر سے مطالعہ فرمائیں پھر اپنے تأثر سے آگاہ فرمائیں اور ان تحریرات میں کہیں بھی علمی و قلمی فروگذاشت ہو اس سے ناچیز کو ضرور مطلع فرمائیں گے میں آپ کا ممنون و شکرگذار ہوں گا۔ فقط                                          رشید احمد فریدی

------------------------------------------------------------------

          نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم        امابعد:

                فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق عام مشائخ احناف کے نزدیک وجوب کی دو قسمیں ہیں: (۱) ایک اصل وجوب (نفس وجوب) (۲) وجوبِ اداء۔ مقصود بالذات چونکہ اداء ہے نہ کہ نفس وجوب اس لئے وجوبِ اداء مطلوب ہوا مگر اصل وجوب غیر معتبر بھی نہیں ہے۔ شریعت نے مختلف مواقع میں نفس وجوب (اصل وجوب) کا اعتبار کیا ہے۔ پھر یہ نفس وجوب تو اداء سے منفک (علیحدہ) اور مقدم ہوتا ہے اور وجوبِ ادا، اداء سے متصل اوراس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وجوبِ ادا ء وقت سے متعلق اور وابستہ رہتا ہے۔ وقت پر نفس وجوب کا مدار نہیں ہے۔ کیونکہ وقت کی تخصیص و تحدید اداء کیلئے کی گئی ہے نہ کہ نفس وجوب کیلئے۔ (مقالہ اولیٰ،ص:۲۰۱) حسامی، بدائع تقریر وتجیر وغیرہا۔

                (۱) عبادات میں نفس وجوب کا مدار ایسے چند امور پر ہے جو مکلف کی صفات ہیں اسلام، عقل، بلوغ، اقامت، حریت، غناء (مالک نصاب ہونا) اور استطاعتِ زاد وراحلہ اِن امور کے پائے جانے پر علی حسب اختلاف العبادة مکلف کے ذمہ اعمال کا وجوب ہوتا ہے یہ وجوب من جانب اللہ ہے۔ یہی نفس وجوب ہے یا اسے مکلف ہونا کہتے ہیں اِن امور کو حضرات فقہاء عموماً شرائط وجوب سے یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ حج کا مکلف ہونے یعنی حج کے نفس وجوب کیلئے فقط بیت اللہ کا وجود کافی نہیں ہے جس کو فقہاء نے سبب قرار دیا ہے بلکہ وَلِلّٰہِ عَلی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً (قرآن پاک) مستطیع یعنی زاد و راحلہ پر قادر ہونا شرط ہے یہ استطاعت وقدرت مکلف ہی کی صفت ہے۔ اور عبادت مالیہ میں علاوہ شرائط تکلیف کے حر اور مالک نصاب ہونا بھی شرط ہے۔ اور بعض چیزوں کا وجوب من جانب العبد ہوتا ہے یعنی بندہ کے اختیار میں ہے جیسے دم قِران، دم تمتع اور اشیاء منذورہ خواہ وہ قربت بدنی ہو یا مالی اِس وجوب کا مدار بھی صفاتِ مکلف پر ہے یعنی قارن، متمتع ہونا یا ناذر ہونا فقہاء کرام اُسے سبب سے تعبیر کرتے ہیں۔ (مقالہٴ ثانیہ،ص:۱)

                قربانی بالاتفاق مالی عبادت ہے اس لئے قدرت علی المال تمام ائمہ مجتہدین کے نزدیک ضروری ہے ائمہ ثلثہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد کے نزدیک قربانی سنت موٴکدہ ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے پس عاجز پر بالاتفاق قربانی نہیں ہے۔ البتہ قدرت کی حد میں تفصیل ہے۔

                تنقسم شروط الاضحیة الی قسمین شروط سنیتہا وشروط صحتہا فاما سنیتہا فلا تسن للعاجز عنہا وفی حد القدرة تفصیل المذاہب

                الحنفیة قالوا القادر علیہا ہو الذی یملک مائتی درہم الحنابلة قالوا: القادر علیہا ہو الذی یمکنہ الحصول علی ثمنہا ولو بالدَین اذا کان یقدر علی وفاء دَینہ المالکیة قالوا: القادر علیہا ہو الذی لایحتاج الی ثمنہا لامر ضروری فی عامہ فاذا احتاج الی ثمنہا فی عامہ فلا تسن الشافعیة قالوا: القادر علیہا ہو الذی یملک ثمنہا زائدًا عن حاجتہ وحاجة من یعول یوم العید وایام التشریق (الفقہ علی مذاہب الاربعة ج۱)

                احناف کے نزدیک قربانی کے وجوب (نفس وجوب) میں بنیادی شرط غناء ہے۔ لان العبادة المالیة متوقفة علی المال (عمدة الرعایہ ج:۳، ص:۳۸) اذا الغناء یوجب الاحسان وہو یحصل بالنصاب (نورالانوار،ص:۲۷۴) لان الغناء یوجب المواساة (حسامی،ص:۱۲۲) وشرائطہا الاسلام الیسار الذی یتعلق بہ صدقة الفطر․․․ (موسر) لان العبادة لاتجب الا علی القادر وہو الغنی دون الفقیر (مجمع الانہر،ج:۴، ص:۱۶۶) اذ لا نِزَاع لاحد فی ان علة وجوب الاضحیة علی الموسر ہی القدرة علی النصاب (تکلمہ فتح القدیر،ج:۹، ص:۵۰۷) غرض یہ کہ قدرت علی النصاب مع دیگرامور کے مدارِ (اصل) وجوب ہے خواہ آپ اسے علت کہیں یا شرط یا لغةً سبب کہہ لیں بہرحال ”قدرت“ مکلف کی صفت ہے پس اِن صفات (شرائط وجوب) سے جو وجوب متحقق ہورہا ہے وہ نفس وجوب ہے یعنی وجوب فی الذمہ چنانچہ بدائع میں ہے لان الموسر تجب علیہ الاضحیة فی ذمتہ اور اس کا محل ذاتِ مکلف ہے یہ نہ وقت پر موقوف ہے نہ وقت کے ساتھ مقید ہے۔ امور مذکورہ بالا (صفات) کے شرائط وجوب ہونے کے دلائل کتب فقہ ہدایہ، بدائع وغیرہ میں مطالعہ فرمائیں۔

                اب اُس واجب فی الذمہ کی ادائیگی جو درحقیقت امر الٰہی سے واجب ہے عقلاً ہمہ وقت ہونی چاہئے تھی مگر تیسیراً علی الناس ایام مخصوصہ اور اوقات متعینہ میں اداء کو کافی مان کر زمان مخصوص کی آمد کو خطاب الٰہی کے متوجہ ہونے کی علامت اورادائیگی تک پہنچنے کا ذریعہ اور سبب قرار دیاگیا لان الخطاب یتوجہ بعدہ (ہدایہ) کوقت الصلاة المکتوبة لہا فانہ سبب محض علامة علی الوجوب (تقریر وتحبیر،ج:۲، ص:۱۵۵) اور وقت مکلف کی صفت نہیں ہے ہاں اداء (فعل) کیلئے وقت و زمان کا ہونا ضروری ہے کہ فعل بغیر زمان کے نہیں پایا جاتا اس لئے وقت مخصوص کی آمد سے جو وجوب متحقق ہوتا ہے اس کا اصل تعلق اداء سے ہے اسی لئے اس کو وجوبِ اداء کہتے ہیں اوراداء کا جو محل ہوگا اس کے حق میں بواسطہٴ اداء وقت کا اعتبار کیا جائیگا چنانچہ نماز، روزہ میں محل اداء خود ذاتِ مکلف ہے اور زکوٰة و قربانی میں محل اداء مال، جانور ہے۔ پس نفس وجوب اور وجوبِ اداء دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ وجوبِ اداء وقت پر موقوف ہے اس سے قبل نہیں ہوتا ہے۔ ان دونوں میں بیّن فرق ملاحظہ فرمائیے (مزید مقالہٴ اولی،ص:۱ دیکھئے)

                ونصاب الزکوة قبل مضی الحول ․․․ فانہ علةٌ اسمًا لانہ وضع لوجوب الزکوة ویضاف الیہ الوجوب بلاواسطة ومعنًی لانہ موٴثر فی وجوب الزکوة اذ الغناء یوجب الاحسان وہو یحصل بالنصاب لا حکما لتأخر وجوب الاداء الی حولان الحول (نورالانوار ص:۲۷۴) وکذا فی حسامی ص:۱۲۲ وعبادة فیہا معنی الموٴنة کصدقة الفطر فانہا فی اصلہا عبادة ملحقة بالزکوٰة ولہذا شرط لہا الغناء (نورالانوار)

                حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمة اللہ علیہ نے بہت محقق اور عمدہ طریقہ سے سمجھایا ہے :

                الاصل فی ہذا ان المال النامی سببٌ لوجوب الزکوة والحول شرط لوجوب الاداء فاذا وجد السبب یصح الاداء مع انہ لم یجب (شرح وقایہ)

                قولہ الاصل فی ہذا حاصلہ ان ہہنا امرین احدہما نفس الوجوب وہو کون الشیء فی الذمة وکونہا غیر فارغ عنہا الا بالاداء او بالابراء وثانیہما وجوب الاداء وسبب نفس الوجوب ہو المال النامی بالقیود المذکورة سابقا فاذا وجد ذلک اشتغلت ذمة المالک بالزکوة ووجبت علیہ و وجوب الاداء انما یتحقق بحولان الحول فصحة الاداء متفرعة علی وجوب ذلک الشیء فی نفسہ فاذا وجد سبب الوجوب صح الاداء وان لم یجب بعد بخلاف مالم یکن عندہ نصاب مطلقا فانہا لم تجب علیہ فلا یصح اداء ہا مقدمًا قولہ مع انہ لم یجب الحاصل ان تحقق سبب الوجوب یجب الشیء فی الذمة فاذا وجد المال النصاب وجبت فی الذمة وتعلقت بالزکوة واما وجوب الاداء الموقوف علی مطابعة الشارع فہو انما یتحقق بعد حولان الحول (عمدة الرعایہ،ج:۱، ص:۲۲۸)

                فقہ واصول فقہ کے اِن حوالوں سے واضح ہوگیا کہ وجوبِ اداء وقت مخصوص ومعین کی آمد پر ثابت ہوتا ہے اور نفس وجوب کا تعلق ملک نصاب سے ہے اوریہ مسلّم ہے کہ قربانی مالی عبادت ہے زکوٰة و صدقة الفطر کی طرح اسی لئے تینوں عبادتوں میں مالک نصاب ہونا شرط ہے اورنصاب کا حوائج اصلیہ سے فارغ ہونا بھی ضروری ہے اور زکوة میں مال نامی ہونا بھی شرط ہے پس جو کوئی مسلمان آزاد نصاب کے بقدر مال نامی کا مالک ہواور وہ حوائج اصلیہ سے فارغ ہو تو اب مالی تینوں عبادتوں کا مکلف ہوگیا یعنی تینوں عبادت کا نفس وجوب ذمہ میں آگیا پھر زکوٰة میں سال بھر کا گذرنا۔ صدقہ الفطر میں صبح یوم الفطر کا پانا اور قربانی میں ایام نحر کا ہونا یہ سب وجوب اداء کے لئے شرط ہے اس سے پہلے وجوب نہیں ہوتا یعنی اس کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی ہے ۔ چنانچہ شرعاً غنی ہونے کی وجہ سے اس کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں ہے اگر کسی نے دیدیا تو اس کا صدقہ اداء نہیں ہوگا۔ یہ حکم نفس وجوب پر ہی عائد ہوتا ہے ۔ لہٰذا مکلف ہونا تینوں عبادتوں میں شرعی غناء پر موقوف ہے اور وقت پر اس کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔

                (۲) عبادتِ غیر موقتہ یعنی جس کی اداء مقید بالوقت نہیں ہے۔ جیسے زکوة وصدقة الفطر ان میں وجوب اداء حولانِ حول سے یا صبح یوم الفطر کے پانے سے ہوتا ہے اس سے قبل نہیں اسی طرح عبادتِ موقتہ (نماز، روزہ اور قربانی) میں بھی وجوب اداء وقت پر موقوف ہے چنانچہ فقہاء نے وقت کو سبب وجوب قرار دیا ہے اور سببیت میں کوئی اختلاف نہیں ہے وسببہا الوقت وہو ایام النحر لان السبب انما یعرف بنسبة الحکم الیہ ․․․ ولا نزاع فی سببیّة ذلک ومما یدل علی سببیة الوقت امتناع التقدیم علیہ کامتناع الصلاة علیہ (نہایہ ۱۱/۳) لیکن وجوب خواہ اسے مشترک لفظی کہہ لیں جس کے دو معنی ہیں یا کلی جس کے دو جزئی ہیں یا مطلق کہہ لیجئے جسکے دو فرد ہیں ایک نفس وجوب (اصل وجوب) دوسرا وجوبِ اداء اصولی وفقہی صراحت کے مطابق سببیتِ وقت میں اس سے مراد سبب وجوب اداء ہے کیونکہ وقت سے اداء کا تعلق ہے نفس وجوب کا نہیں۔ دلیل نمبر(۱) کے تحت ملاحظہ فرماچکے ہیں مزید صریح دلائل مطالعہ فرمائیں۔

                و وجہ ذلک ما تقرر فی علم الاصول من ان وجوبَ الاداء فی الموقتات التی یفضل الوقت عن ادائہا کالصلاة ونحوہا انما یثبت آخر الوقت اذہنا یتوجہ الخطاب حقیقة لان فی ذلک الآن یأثم بالترک لاقبلہ حتی اذا مات فی الوقت لا شیء علیہ والاضحیة من ہاتیک الموقتات فتسقط بہلاک المال قبل مضی وقتہا ولا تسقط بہلاکہ بعد مضی وقتہا لتقرر سبب وجوب ادائہا (تکملہ فتح القدیر ۹/۵۰۸) وقد یجامع الشرط السبب مع اختلاف النسبة کوقت الصلاة فانہ شرط بالنسبة الی الاداء وسبب بالنسبة الی وجوب الاداء (تقریر وحبیر ۲/۱۰۲)

                پس جب وقت وجوب اداء کا سبب ہوا تووقت سے ثابت ہونے والے وجوب کا اصلاً اداء سے تعلق ہوا اور پھر محل اداء سے متعلق ہوگا وہہنا الواجب فی الوقت اراقة الدم ․․․ لان الوجوب تتعلق بالاراقة ․․․ ولانہا قربة تتعلق بالمال․ (بدائع) چنانچہ نماز، روزہ میں اِس وجوب کا تعلق ذاتِ مکلف سے ہے اور وہی محل اداء ہے اس لئے مکلف کے حق میں وقت کی ابتداء وانتہاء کا اعتبار کیا جائے گا اور قربانی میں اضحیہ کے حق میں اعتبار ہوگا کیونکہ وہی محل اداء (ذبح) ہے یہ بات عقلاً و فقہا ً بالکل قطعی ہے۔ پس قربانی کا جانور جہاں ذبح کیا جانا ہے خواہ ذبح کرنے والا خود من علیہ الاضحیہ ہو یا اس کا وکیل و نائب ہو ذبح اضحیہ کیلئے وقت کااعتبار ضروری ہے۔

                (۳) واجبات موقتہ (نماز، روزہ اورقربانی) میں باتفاق جمیع الفقہاء وقت شرطِ اداء یعنی شرط صحة اداء ہے وکل موقّت فالوقت شرط لادائہ لانہ لا یتحقق بدونہ (تقریر و تحبیر ۲/۱۷۵) الوقت شرط لادائہا علی ما عرف فی اصول الفقہ (فتح القدیر ۹/۵۰۷) اور یہ صرف احناف ہی کے نزدیک نہیں بلکہ دیگر ائمہ مجتہدین کے نزدیک بھی مثلاً یہی قربانی جو ائمہ ثلثہ کے نزدیک سنت موٴکدہ ہے ان کے نزدیک بھی وقت شرط اداء ہے۔

                واما شروط صحتہا فمنہا السلامة من العیوب ․․․ ومنہا الوقت المخصوص فلا تصح اذا فعلت قبلہ او بعدہ وفی بیانہ تفصیل المذاہب

                الحنفیة قالوا: یدخل وقت الاضحیة عند طلوع فجر یوم النحر وہو یوم العید ویستمر الی قبیل غروب الیوم الثالث وہذا لایختلف فی ذاتہ بالنسبة لمن یضحی فی المصر او یضحی فی القریة و لکن یشترط فی صحتہا للمصری ان یکون الذبح بعد صلاة العید

          المالکیة قالوا : یبتدیٴ وقت الاضحیة لغیر الامام فی الیوم الاول بعد تمام ذبح الامام ویبتدیٴ وقتہا لِلْاِمام بعد الفراغ من خطبتہ بعد صلاة العید او مضی زمن قدر ذبح الامام اضحیتہ ان لم یذبح الامام ویستمر وقتہا لآخر الیوم الثالث لیوم العید ویفوت بغروبہ

          الحنابلة قالوا: یبتدیٴ وقت ذبح الاضحیة من یوم العید بعد صلاة العید فیصح الذبح بعدالصلاة وقبل الخطبة ولکن الافضل ان یکون بعد الصلاة والخطبة ․․․ واذا کان فی جہة لا یصلی فیہا العید کالبادیة واہل الخیام ممن لا عید علیہم فان وقت الاضحیة یبتدیٴ فیہا بمضی زمن قدر صلاة العید ․․․ وآخر وقت ذبح الاضحیة الیوم الثانی من ایام التشریق فایام النحر عندہم ثلثة یوم العید ویومان بعدہ

          الشافعیة قالوا: یدخل وقت ذبح الاضحیة بعد مضی قدر رکعتین وخطبتین بعد طلوع الشمس یوم عید النحر واِن لم ترتفع الشمس قدر رمح ولکن الافضل تاخیرہ الی مضی ذلک من ارتفاعہا ویستمر الی آخر ایام التشریق الثلثة (الفقہ علی مذاہب الاربعہ ۱/۷۲۱)

                پس ائمہ اربعہ کے نزدیک مطلق قربانی (یعنی واجب، سنت،نفل سب) کیلئے وقت شرطِ اداء ہے۔ البتہ احناف کے نزدیک چونکہ قربانی کی ایک قسم واجب ہے اوریہی وقت اس کا سبب وجوب ہے لہٰذا اب وقت دو حیثیتوں (شرط اداء، سبب وجوب اداء) کا جامع ہوا ان الوقت سبب لوجوبہا وشرط لادائہا (فتح القدیر ۹/۵۰۶) فان قلت جعلتَ الوقت سببًا فکیف یکون شرطاً قلتُ ہو سبب للوجوب وشرط للاداء (عنایة علی ہامش الفتح ۱/۲۱۶) اور وقد یجامع الشرطُ السببَ مع اختلاف النسبة کوقت الصلاة فانہ شرط بالنسبة الی الاداء وسبب بالنسبة الی وجوب الاداء (تقریر) یعنی وقت شرط اداء تو ہے ہی اب اگر قربانی واجب ہے جس کی مقدار غیر واجب (سنت و نفل) قربانیوں کے مقابلہ قلیل ہے تو شرط کے ساتھ سببیت بھی مجتمع ہوگی اسی لئے قد یجامع تقلیل کا صیغہ لیکر آئے۔ اور ․․․ لاتجوز قبل دخول الوقت لان الوقت کما ہو شرط الوجوب فہو شرط جواز اقامة الواجب کوقت الصلاة (بدائع ۵/۷۳) صاحب بدائع نے بجائے سبب الوجوب کے شرط الوجوب کا لفظ استعمال کیا ہے اس کی وجہ مقالہٴ اولی،ص:۷ پر درج ہے: اور المعتبر مکان الاضحیة کا ضابطہ (اسی وقت بحیثیت) شرط اداء کے حق میں ہے۔

                (۴) وقت سبب وجوب ہے اور سبب وقت میں فقہاء کے نزدیک انتقال پایاجاتا ہے یعنی وقت مخصوص کا وہ جزء جو اداء سے متصل ہے اسے سبب قرار دیتے ہیں اگر اوّل وقت میں اداء کا وجود ہوتو وہی سبب کہلائے گا ورنہ سببیت منتقل ہوگی اپنے مابعد کی طرف حتیٰ کہ وقت اخیر میں فعل واجب کا وجود ہوا تو اسے سبب کہیں گے ورنہ وقت نکل جانے کے بعد پورے وقت کو قضاء کے حق میں سبب قرار دیتے ہیں اوراسی انتقالِ سببیت کی وجہ سے وقت کے جس حصہ میں اداء پائی جائے گی اُس وقت کی صفت عارضی کا اثر وجوب میں ظاہر ہوگا کہ وقت صحیح کی وجہ سے وجوب کامل اور وقت فاسد کی وجہ سے وجوب ناقص مرتب ہوگا ذیل میں صاحب عنایہ شرح ہدایہ کے کلام کو غور سے مطالعہ فرمائیں اور حسامی،ص:۳۳ وغیرہ کتب میں بھی یہ مضمون دیکھا جائے۔

                وقد تقدم ان سبب الصلاة اوقاتہا لکن لایمکن ان یکون کل الوقت سببًا لانہ لو کان کلُّہ سببا لوقع الاداء بعدہ لوجوب تقدم السبب بجمیع اجزائہ علی المسبب فلایکون اداءً ولیس دلیل یدل علی قدر معین منہ کالربع والخمس اوغیرہما فوجب ان یجعل بعض منہ سببًا واقل ما یصلح لذلک الجزء الذی لا یتجزأ والجزء السابق لعدم ما یزاحمہ اولیٰ فان اتصل بہ الاداء تعین لحصول المقصود وہو الاداء وان لم یتصل ینتقل الی الجزء الذی یلیہ ثم وثم الی ان یضیق الوقت ولَمْ یَتَقَرَّرْ علی الجزء الماضی لانہ لو تقرر کانت الصلاة فی آخر الوقت قضاء ولیس کذلک لما سنذکر فکان الجزء الذی یلی الاداء ہو السبب او الجزء المضیق او کل الوقت ان لم یقع الاداء فیہ لان الانتقال من الکل الی الجزء کان لضرورة وقوع الاداء خارج الوقت علی تقدیر سببیة الکل وقد زالت فیعود کل الوقت سببًا ثم الجزء الذی یتعین سببًا تعتبر صفتہ من الصحة والفساد فان کان صحیحًا بان لایکون موصوفًا بالکراہة ولا منسوبًا الی الشیطان کالظہر وجب السبب کاملاً فلا یتأدّی ناقصًا وان کان فاسدا ای ناقصًا بان یکون منسوبا الی الشیطان کالعصر یَسْتَأنِفُ وقت الاصرار وجب الفرض فیہ ناقصاً فیجوز ان یتادی ناقصًا لانہ اداہ کما وجب بخلاف غیرہا من الصلوات الواجبہ باسباب کاملة فانہا لا تقضی فی ہذہ الاوقات لان ما وجب کاملاً لایتأدی ناقصًا وقد ذکرنا ذلک فی الانوار والتقریر مستوفی بعون اللّٰہ وتائیدہ (عنایة شرح الہدایہ فی ہامش فتح القدیر ۱/۲۳۴)

                کیا نفس وجوب جومتعلق بذمة المکلف ہوتا ہے اس میں بھی انتقال پایا جاتا ہے اور کیا نفس وجوب میں بھی وجوب کامل اور وجوب قاصر کافرق ہے اوراداء وقت میں نہ پائے جانے کی صورت میں کیا پورے وقت کو نفس وجوب کا سبب قرار دیں گے؟ اوراگر وقت کے جزء اوّل ہی کو بالتعیین سبب کہتے ہیں تو دوسرے وقت میں وہ عمل (مامور بہ کی ادائیگی) اداء کہلائے گا یا قضاء؟ وغیرہ سوالات پیدا ہوں گے۔

                یہی حال یعنی انتقالِ سببیت قربانی کے وقت وجوب میں بھی ہے والاصل ان ما وجب فی جزء من الوقت غیر عین یتعین الجزء الذی ادی فیہ الوجوب أوْ آخر الوقت کما فی الصلاة وہو الصحیح من الاقاویل علی ما عرف فی اصول الفقہ (بدائع) ․․․ لما ذکرنا ان الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاة قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاة علیہ کذا ہہنا (بدائع ۵/۶۵)

                اورنفس وجوب تو اداء سے منفک (جدا) مقدم ہی رہتا ہے اور نہ ہی اس میں انتقال ہے پس لامحالہ وقت نفس وجوب کا سبب نہیں ہے۔ لہٰذا وقت کو نفس وجوب کا سبب مان کر اس پر حکم (فتویٰ) کی بناء رکھنا صحیح نہیں ہے۔

                (۵) وقت اگر نفس وجوب کا سبب ہوتا تو اہل بلغاریہ جیسے لوگوں کے حق میں جن کو عشاء کا وقت قطعاً نہیں ملتا ہے فقہائے کرام کا نہ اختلاف ہوتا اور نہ ہی قضائے عشاء کے وہ قائل ہوتے حالانکہ صحیح و راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق عشاء کی قضاء واجب ہے معلوم ہوا کہ وہ عشاء بلکہ وتر کے بھی مکلف ہیں وفاقدُ وقتیہما مکلفٌ بہما (درمختار) تو باوجود وقت مخصوص یعنی سبب وجوب نہ پائے جانے کے نماز کا مکلف ہونا دلیل ہے کہ وقت پر نفس وجوب کا مدار نہیں ہے اور جس پر تکلیف شرعی موقوف ہے وہ اسلام، عقل، بلوغ، حریت، ملکیت وغیرہ امور ہیں۔ ہاں وقت جس کا سبب ہے یعنی وجوب اداء کا سو اس کے نہ پائے جانے کی وجہ سے کوئی بھی فقیہ اہل بلغاریہ کے حق میں اداء کے وجوب کا قائل نہیں ہے۔ الاداء فرض الوقت ولم یقل بہ احد اذ لایبقی وقت العشاء بعد طلوع الفجر اجماعًا وایضا فان من جملہ بلادہم ما یطلع فیہا الفجر کما غربت الشمس کما فی الزیلعی فلم یوجد وقت قبل الفجر یمکن فیہ الاداء (شامی ۲/۱۹ مطبوعہ بیروت) دیکھئے مقالہ ثانیہ،ص:۴۔

تنبیہ

                اگر خیال کیا جائے کہ عرف میں تو وقت سے ہونے والے وجوب کو ہی نفس وجوب کہتے ہیں اور بعض فقہاء کی عبارت سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے جیسے وسبب وجوبہا اوقاتہا والامر طلب اداء مَاوجب فی الذمة بسبب الوقت (عنایة) تو بات درحقیقت یہ ہے کہ وقت کی آمد سے نماز، روزہ میں جس فعل معین (یعنی ارکان مخصوصہ، امساک مخصوص) کا وجوب ہورہا ہے اس کا صدور اور وقوع خود مکلف کی ذات سے ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں نیابت جائز نہیں ہے۔ الاصل ان الوجوب اذا تعلق بفعل معین انہ لا یقوم غیرہ مقامہ کما فی الصلاة والصوم وغیرہا (بدائع ۵/۶۶) لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے کہ وقت کی آمد سے مکلف کے ذمہ وجوب آرہا ہے مگریہ ادائے واجب کا وجوب ہے نفس وجوب نہیں ہے۔ اور ادائے واجب ہی شرعاً مقصود ہے اور نفس وجوب اُسی اداء کے لئے مطلوب ہے اس لئے عرف میں وجوب اداء کو ”نفس وجوب“ یا محض ”وجوب“ سے ذکر کرتے ہیں لیکن اصولاً واصطلاحاً دونوں میں فرق ہے۔ فافہم وتدبر۔ یعنی نفس وجوب (ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا) یہ متعلق بالمکلف ہے کیونکہ باعتبار صفاتِ مکلف ہے۔ اور وجوب بسبب الوقت (یعنی تفریغ الذمہ عن الواجب) متعلق بالاداء ہے اور بواسطہ اداء محل اداء کی صفت ہوسکتی ہے جو عبادت مالی، زکوة و قربانی میں مال اور جانور کی صفت اوراس سے متعلق ہے اور عبادت بدنی نماز، روزہ میں وجوب بسبب الوقت محل اداء (مکلف) سے متعلق ہے پس نماز روزہ میں دونوں وجوب کا محل ایک ہی ہے اور زکوة و قربانی میں دونوں کا محل بھی الگ الگ ہے۔ (دیکھئے مقالہٴ ثانیہ ،ص:۳) بہرحال وقت نفس وجوب کا سبب نہیں ہے وقت سے نفس وجوب مراد لینے میں قطعاً ذہول ہورہا ہے۔

                (۶) ”وقت کو سبب نفس وجوب ماننے کے مخالف نتائج“ مضمون کے تحت سات نتائج ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے ہر ایک مستقل دلیل ہے کہ وقت نفس وجوب کا سبب نہیں ہے ورنہ یہ منفی نتائج مرتب نہ ہوتے۔ ان میں نمبر (۳) کی کچھ تفصیل یہ ہے ۔ سنئے

                خیرالقرون سے اب تک ۱۲/۱۳ / سوسال میں امت مسلمہ سلف و خلف، متقدمین ومتأخرین، اکابر علماء اصاغر صلحاء اوراولیاء محققین کے علاوہ بے شمار عوام مسلمین نے جتنی قربانیاں کی ہیں ان میں بہت سی قربانیاں من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے قبل از وقت (بلکہ بعد از وقت بھی) کی گئی ہوں گی وہ سب نئے فتاویٰ کے اعتبار سے ضائع اور رائیگاں ہوئیں نہ ہی واجب ادا ہوا اور نہ ہی ثواب ملا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ متواتر عمل کی خاص مثال کہ اللہ کے بعض بندے دنیا کے مختلف خطوں میں حرم و اہل حرم کی عظمت و محبت میں حجاج کی معرفت قربانی کا جانور یا اس کی رقم حرم بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی طرف سے دسویں ذی الحجہ کو قربانی کی جائے یا حاجی کے ساتھ اس کی ہدی میں حصہ دار ہوجائے اور یوم النحر کو حاجی جب اپنی ہدی (قران یا تمتع یا افراد) کا جانور ذبح کرے تو ساتھ ہی دوسرے شریک کی قربانی بھی ادا ہوجائے جبکہ رویت ہلال کی بناء پر ایک دن کا اور شمسی تقویم کے حساب سے صبح صادق وغیرہ اوقات میں فرق دوسرے علاقوں کے مقابلہ میں یقینی اور قطعی ہے۔ اس تعامل کی یہ دو بنیادیں ہوں گی:

                (۱) ایک تو یہی اراقة الدم (ذبح، نحر) قربت غیر معقولہ ہے اورایسی عبادت شرع میں جس طرح وارد ہو اس کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ چنانچہ شریعت نے اضحیہ (قربانی) اور دم قران و تمتع کی ادائیگی کیلئے زمان کو خاص ومتعین کردیا ہے اور عقلاً ذبح کیلئے کہ وہ فعل ہے زمان کا ہونا ضروری بھی ہے پس عقل ونقل دونوں کے مطابق ذبح اضحیہ وہدی میں وقت کا اعتبار ضروری ہوا اس لئے مکان ذبح اضحیہ و ہدی کے حق میں ایام نحر شرط ہے۔

                (۲) دوسری بنیاد اس قربت کی ادائیگی کیلئے محل ذبح بَدَنہ (بڑے جانور) میں شرکت کی اجازت اور جہت قربت کا عموم اور وسعت ہے۔

                ولو ارادوا القربة الاضحیة او غیرہا من القرب اجزاہم سواء کانت القربة واجبة او تطوعاً او وجبت علی البعض دون البعض وسواء اتفقت جہات القربة او اختلفت بان اراد بعضہم الاضحیة وبعضہم جزاء الصید وبعضہم ہدی الاحصار و بعضہم کفارة شیء اصابہ فی احرامہ و بعضہم ہدی التطوع وبعضہم دم المتعة والقِران - وہذا قول اصحابنا الثلثہ (بدائع ۵/۷۱) حتیٰ کہ اس میں عقیقہ کی بھی اجازت ہے۔

                پس اگر کسی بدنہ (اونٹ، گائے) میں سات الگ الگ شرکاء ہوں جیسا اوپر مذکور ہوا اور صاحب اضحیہ مثلاً ہند میں ہے جہاں یوم النحر عموماً ایک دن بعد ہوتا ہے اور قارن و متمتع نے حرم میں دسویں تاریخ کو ہدی ذبح کی تو چونکہ اضحیہ اور دم قران و تمتع و افراد کے ذبح کے لئے ایام نحر کا ہونا ضروری ہے اوراس کا ہی اعتبار ہے لہٰذا فقہاء کرام کی صراحت کے مطابق قربانی اور قران و تمتع وغیرہ کا دم بھی صحیح ہوگا اورمُحصَر کا اپنے احرام سے نکلنا درست ہوگیا اور کفارہ بھی ادا ہوگیا رہا نفس وجوب تو وہ ایام نحر سے قبل ہی موجود ہے۔ یعنی غناء، احرام قران و تمتع، احصار، قتل صید اور جنایت کی وجہ سے وجوب ثابت ہوچکا ہے اور یہ امور کسی وقت کے ساتھ مقید نہیں ہیں۔

                اب اگر نفس وجوب وقت سے مان کر کہا جائے کہ ہندوستانی غنی کی قربانی مکہ میں یوم النحر کو درست نہیں ہے تو صورت مذکورہ بالا میں کسی کا واجب اداء نہ ہوا کیونکہ (اراقة الدم) یعنی فعل ذبح فعل واحد ہے اس لئے ایک حصہ بھی غلط ہوا تو ذبح قربت (عبادت) ہی نہیں بنا نہ قربانی ہوئی نہ حاجی کا دمِ شکر ادا ہوا نہ جزاء و کفارہ ادا ہوا اور نہ ہی محصر کا دم صحیح ہوا تو اس کا احرام سے نکلنا بھی درست نہیں ہوگا۔ اور اتنی صدیوں میں کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے۔

                وقت سے نفس وجوب ماننے سے صدیوں کا تعامل غلط ثابت ہوگا اور مفاسد کثیرہ پیش آئیں گے ۔

                (۷) جو مسلمان شرعاً غنی ہو اور غنی وہ ہے جو حوائج اصلیہ اور دین سے فاضل نصاب کا مالک ہو وہ مالی عبادتوں کا مکلف ہونے کے سواء تمام فقہاء لکھتے ہیں کہ وہ مستحق زکوٰة نہیں ہے اس کے لیے نہ زکوٰة و صدقہ لینا جائز ہے اور نہ ہی کسی نے اس کو دیا ہو تواس کی زکوة ادا ہوگی اِس حکم میں اولاد صغار بھی غنی باپ کے تابع ہے غنی شرعی کا یہ حکم عام ہے کسی زمان کے ساتھ مخصوص و محدود نہیں ہے اگر مالک نصاب ہونے کے باوجود شریعت اس کو غنی نہیں مانتی اور وقت مخصوص ہی میں غنی تسلیم کرتی بالفاظ دیگر وقت سے نفس وجوب ثابت ہوتا جیسا کہ نئے فتاویٰ کا مبنیٰ ہے تو اوقات مخصوصہ میں وہ غنی مستحق زکوٰة نہ رہتا اور وقت گذر جانے کے بعد مستحق ہوجاتا۔ (دیکھئے ہدایہ وغیرہا من الکتب)

                بالفرض اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ وقت نفس وجوب کا سبب ہے جیسا کہ اس وقت سمجھا جارہا ہے تو بندہ پورے یقین کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ ماضی کے فقہاء ضرور ذکر فرماتے۔ اتنی اہم اور بنیادی چیز کو ہرگز ترک نہ فرماتے۔ فانہم اَعْمَقُہُمْ علمًا ․

                مذکورہ عقلی و نقلی دلائل اصولی و فقہی صریح عبارتوں سے بخوبی واضح ہوگیا کہ وقت وجوب اداء کا سبب ہے نفس وجوب کا نہیں اور سببیت وقت میں انتقال پایا جاتا ہے اس لئے وقت مخصوص میں جب بھی اداء (مثلاً قربانی) ہوگی سبب وجوب کے بعد ہی ہوگی اس سے قبل نہیں ہوسکتی کیونکہ سبب تو وقت کا وہ جزء سابق ہے جو اداء سے متصل ہے۔ پس اس مسئلہ خاص میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی و متّعَنا بعلومہ وفیوضہ کی مفتی عمر فاروق ڈیسائی صاحب (لندن) کے فتویٰ کی تائید ”․․․․جبکہ زیر بحث مسئلہ میں قربانی قبل سبب الوجوب واقع ہورہی ہے․․․․“ میں تسامح ہے۔

                حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص قربانی کا مکلف ہے اور وہ وہی ہے جو زکوٰة و صدقة الفطر کا بھی مکلف ہے اور زکوٰة وصدقہ کا نفس وجوب مالک نصاب پرآتا ہے اور قربانی کے وجوب کے لئے مقیم ہونا بھی شرط ہے لہٰذا مسلم آزاد مقیم مالک نصاب شخص کی قربانی چاہے خود ذبح کرے یا دوسرا وکیل اور وکیل چاہے من علیہ الاضحیہ کے مقام میں ہو یا دور علاقہ میں جیسے آج کل افریقہ، برطانیہ، امریکہ، پنامہ، باربڈوز،آسٹریلیا یا سعودی وغیرہ ملکوں کے مالداروں کی قربانی ہندوستان، پاکستان، افغانستان ، بنگلہ دیش وغیرہ ملکوں میں یااس کے برعکس بلکہ ملک میں ایک صوبہ والوں کی قربانی دوسرے صوبہ میں حتیٰ کہ صوبہ میں ایک ضلع والوں کی قربانی دوسرے ضلع میں شہر میں نماز عید کے بعد (کہ نماز عید الاضحی کی ادائیگی شہر میں ذبح کیلئے شرط ہے) اور جہاں شرعاً نماز عید نہیں ہوتی ہے خواہ دیہات ہو یا جنگل صبح صادق کے فوراً بعد بالکل صحیح اور درست ہے۔ کیونکہ وقت کا اعتبار مکان ذبح اضحیہ کے حق میں کیا جاتا ہے۔ (تفصیل کیلئے مقالہ ثانیہ کا مطالعہ کیا جائے)

                وانما یعتبر فی ہذا مکان الشاة لامکان من علیہ ہکذا ذکر محمد فی النوادر وقال انما انظر الی محل الذبح ولا انظر الی موضع المذبوح عنہ وہکذا روی الحسن عن ابی یوسف یعتبر المکان الذی یکون فیہ الذبح ولا یعتبر المکان الذی یکون فیہ المذبوح عنہ وانما کان کذلک لان الذبح ہو القربة فیعتبر مکان فعلہا لامکان المفعول عنہ (بدائع ۵/۷۳)

                اور من علیہ الاضحیہ کے حق میں شرائط وجوب کا اعتبار کیا جائے گا۔ وقت وجوب اداء کا من علیہ الاضحیہ کے حق میں (اگر وہ ذابح نہیں ہے) ہونا ضروری نہیں ہے نفس وجوب کافی ہے۔ ہاں قربانی ذبح کرنے والے کے حق میں ایام نحر شرط ہے واول وقتہا ای اول وقت تضحیة الاضحیة (بعد فجر النحر) مجمع الانہر ۴/۱۶۹، لایجوز لاحد ان یضحّی قبل طلوع الفجر الثانی من الیوم الاوّل من ایام النحر بدائع ۵/۷۳

                پس مفتی اعظم گجرات فقیہ النفس حضرت اقدس مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری نوراللہ مرقدہ کا فتویٰ اس زیر بحث مسئلہ میں فقہ واصول فقہ کی روشنی میں بالکل صحیح ہے قطعاً اس میں کوئی تسامح نہیں ہے۔

                اور مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی دامت برکاتہم کا وہ فتویٰ جو ندائے شاہی کے فتویٰ شائع ہونے کے بعد دیاگیا ہے وہ یہ ہے۔ قربانی جہاں کی جاتی ہے اس کا اعتبار ہوتا ہے لہٰذا ہندوستان میں قربانی ہوگی تو اسی ملک کی تاریخ ۱۰/۱۱/۱۲/ ذی الحجہ کا اعتبار ہوگا اور انہی تاریخوں میں قربانی کی جائے گی افریقہ، لندن وغیرہ ملکوں کا اعتبار نہ ہوگا۔ (بلکہ اندرون ملک بھی جہاں جانور ذبح کیا جارہا ہے وہاں کا وقت ابتداء و انتہاء معتبرہوگا) یہی صحیح ہے اسی کو تسلیم کرنا چاہئے اور یہی تعامل چلا آرہا ہے جو فقہ واصول فقہ کی تصریحات کے مطابق برحق ہے اسی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔اسی میں امت کیلئے یسر وسہولت ہے۔ ان اللّٰہ یریدبکم الیسر ولا یرید بکم العسر (قرآن پاک)

فقط           واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم

وما علینا الا البلاغ

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1، جلد: 91 ‏، ذی الحجہ 1427 ہجری مطابق جنوری 2007ء