کیاہندوعرب دوستی ”مسلم تشٹی کرن“ ہے؟

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

                ۱۳/نومبر ۲۰۰۶/ کونئی دہلی میں منعقدہ ہند، عرب تعلقات: ترقی میں ”پارٹنرشپ“ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے مرکزی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بتایا کہ اس وقت ۳۵ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی عرب ملکوں میں کام کررہے ہیں جو سالانہ ۲۴/ارب ڈالر اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ ان ممالک کو ہندوستان سے جانے والے سامان کی مالیت سالانہ ۱۷/ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ (راشٹریہ سہارا ۔ ۱۴/۱۱/۲۰۰۶/)

                اس کے علاوہ وزیر موصوف نے عرب اور ہندوستان کے درمیان روایتی، قدیم مذہبی، تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ عرب نے دنیا کو ایک عظیم تہذیبی سرمایہ دیا ہے اور ہندوستان بھی اس سے مستفید ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہر کس و ناکس سمجھ سکتا ہے کہ یہ اعداد و شمار پوری طرح مادّی لحاظ سے بھی ہمارے ملک کے حق میں ہیں۔ ہمارے غریب مزدور، کسان، کم ہنرمند افراد، ہنرمند افراد ۳۵ لاکھ کی تعداد میں وہاں رہ رہے ہیں تو یقینا ان سے ہندوستان کے کیرالہ سے لے کر آسام اور کشمیر و گڑھوال تک کروڑوں خاندان اور وہ بھی غریب خاندان عزت کی زندگی گذار پارہے ہیں۔ انھوں نے مفلوک الحالی اور بھکمری کے عذاب کے بعد خوشحالی اور شکم سیری کی نعمتوں کا مزہ پایا ہے۔ اس موقع پر خاص بات جس پر دھیان دیا جانا ضروری ہے وہ یہ کہ امریکہ، یوروپ اور دیگر ممالک میں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت مال دار افراد کے لئے ہی روزگار میسر ہے جب کہ عام غریب اوران پڑھ انسان کو روٹی روزی انہیں عرب ممالک میں میسر ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکمراں طبقہ کی اکثریت چونکہ نسل پرستی کے فلسفہ کو ہی مذہب سمجھتی ہے اس لئے وہ اسلام اور مسلمانوں سے جڑی ہر چیز اور ایشو کو مشکوک اور زیادہ سادہ الفاظ میں دیش بھکتی کے خلاف ثابت کرنے پر اتارو رہتی ہیں۔ ہندوعرب دوستی کو بھی ایک طرح سے مسلمانوں کی خوشامد ”تشٹی کرن“ کے زمرہ میں رکھ کر باقاعدہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ عربوں سے جڑی ہر خبر کو سیاہ عینک چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر وہیں پرنسل پرست اور غاصب ریاست اسرائیل کے بڑے سے بڑے عیب اورجرم کو شیرمادر کی طرح ہضم کرلیا جاتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی سیاح راجستھان، گوا اور اترانچل وغیرہ میں آتے ہیں اور انتہائی فحش اور عریاں حرکتیں و مناظر پیش کرتے ہیں نشہ آور ادویہ کے استعمال خصوصاً گانجہ کے تو اتنے عادی ہیں کہ وہاں کی حکومت کو رشی کیش (اترانچل) میں ایک عمارت کرایہ پر لے کر خصوصاً اسرائیلی مذہبی شخصیات کو بلایا جارہا ہے تاکہ وہ انہیں ان فحش حرکات سے روکیں۔ راجستھان سے اُن کی بے حیائی اور عریانی کے مظاہر پر بہت ہنگامہ ہوچکا ہے۔ وہ واقعہ بھی بہت پرانا نہیں ہے کہ ایک اسرائیلی خاتون نے برہنہ ہوکر مندر میں شادی کی اور بازار میں بھی گھومی اور اس پر مقامی عدالت میں مقدمہ بھی چلا۔ مگر ہمارے نسل پرست میڈیا نے اس کو وہ رنگ اور کوریج نہیں دیا جو وہ کسی اکا دکا عرب کی عیاشیوں کو دیتے ہیں۔ ہمارے حکومت کے وزراء اور مسلم دشمن سیاستداں تو ہر سال میں کئی بار وہاں ”کھیتی باڑی کے گر“ سیکھنے جاتے ہیں۔ گجرات میں تو پوری اسمبلی کو سرکاری خرچ پر اسرائیل لے جانے کی ریاستی سرکار کی دعوت ہے۔ مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے بڑے مرکزی وزیر اور سابق وزیر دفاع بھی وہاں کئی بار زراعت کے گر سیکھنے وہاں جاتے رہے ہیں۔ اوریہی وہ ریاستیں ہیں جہاں فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ بہت سنگین ہوتا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ تعلقات پر بھی منفی اثر ہورہا ہے۔

                سپریم کورٹ آف انڈیا کے معزز ایڈوکیٹ ڈاکٹر نفیس احمد صدیقی ایڈوکیٹ نے بجا طور پر اپنے ایک حالیہ خط میں سوال اٹھایا ہے کہ ہندوستان میں بہت سی بیرونی خفیہ ایجنسیوں کو کام کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے کیاوہ ہندوستان میں سیکورٹی کے سنگین حالات پیدا کرنے کے لئے سازشیں نہیں رچ سکتیں؟ ہندوستان میں سیکورٹی کے حالات خراب ہونے کا سیدھا فائدہ ان ممالک کو ہی پہنچتا ہے جو ہندوستان کو اسلحہ کی سپلائی کرتے ہیں۔ اور ان ممالک میں امریکہ، روس، اوراسرائیل ہی تین ایسے ملک ہیں۔ اسلحہ کی صنعت ان تینوں ممالک بلکہ دیگر یوروپی ممالک خصوصاً برطانیہ اور فرانس وغیرہ کیلئے بھی بہت اہم ہیں۔ اور اسلحہ کی تجارت میں جتنا بڑا کمیشن ہتھیار خریدنے والے ممالک کو ملتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بوفورس کی مثال تو پرانی ہے حال کے دنوں میں ہر اک میزائیل میں کمیشن کے مسئلہ پرہمارے یہاں بہت ہنگامہ ہوا ہے جانچ چل رہی ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ کمیشن دیاگیا اور باوجود موجودہ صدر جمہوریہ کی عدم سفارش کے یہ میزائیل خریدے گئے۔ اربوں ڈالر کے سامان کی کمیشن بھی کروڑوں ڈالروں میں توہوتی ہی ہوگی۔ ۱۲/ دسمبر کو پارلیمنٹ کی کمیٹی نے انکشاف کیا کہ بارودی سرنگیں صاف کرنے کے لئے منگائی گئی (ہنگامی خریداری کی بنیاد پر) مشینوں کی خریداری میں ملک کو ایک ارب روپیہ کا چپت لگا۔ مگر یہ دیش دروہ نہیں ہے؟

                اسرائیل کی ایک تاریخ رہی رہے سازشوں اور قتل و غارت گری کی اور تاریخ میں اس کی تمام مثالیں موجود ہیں کہ وہ دشمن سے کس طرح سے عیارانہ جنگ کرتے ہیں اور مفاد کے حصول میں کس طرح آگے جاسکتے ہیں؟

                (۱) ۸/اکتوبر ۲۰۰۳/ کو ایجنسیوں کے حوالہ سے خبر شائع ہوئی کہ ۱۹۹۹-۱۹۹۸/ میں انسداد دہشت گردی کاآپریشن اسرائیلی اینٹلی جنس کے تعاون سے FBI کے آفس سے جاری کیاگیا۔ یہ چال اس وقت چلی گئی جب بل کلنٹن اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے لئے ثالثی کی کوشش کررہے تھے۔ اس وقت کی اٹارنی جنرل جینیٹ رفیو نے اسے تسلیم کیاتھا۔ FBI نے پہلی بار اس سازش کو تسلیم کیالیکن وہ کبھی بھی عدالت نہیں پہنچی۔ اس آپریشن کے دوران اسرائیل اور FBI نے ہزاروں ڈالرحماس کے لیڈروں کو بھیجے تاکہ وہ اِس سے اسلحہ خریدکر کچھ بھی کارروائی کریں اور نتیجتاً کلنٹن کی ثالثی کی کوشش ناکام ہوجائے۔ ایری زونا کے ایک تاجر ہیری ایلن نے گواہی دی کہ FBI کے Kenneth Welliams کینتھ ولیمس نے کہا کہ وہ یہ رقم حماس کی کسی شخصیت کو پہنچائے۔ کلنٹن کے مشیر ینیٹر برجر نے کہا کہ وہائٹ ہاؤس کو ان حرکتوں کے بارے میں لاعلم رکھا گیا۔ یہ ساری معلومات عدالتی ریکارڈ اور گواہوں کے بیانات سے ماخوذ ہیں جو کہ واشنگٹن سے ایجنسیوں کے حوالہ سے ۸/اکتوبر ۲۰۰۳/ کو شائع ہوا۔

                (۲) ۲۴/ جنوری ۲۰۰۶/ کو واشنگٹن سے ہی خبر ہے کہ ”امریکہ نے دہشت گرد تنظیم الفتح کو ۲۰ لاکھ ڈالر دئیے۔ نیویارک ٹائمس نے مشرقی یروشلم کے تعینات امریکی تجارتی سفارت خانہ کے مکالا سوئیر بلہم کے حوالے سے بتایا کہ اس پوری رقم کا استعمال حماس کو شکست دینے کے لئے کیا جائے گا۔ ایک دوسرے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ U.S.A.I.D بظاہر فلاحی تنظیم فلسطین میں مختلف پروگراموں میں ۲۰ لاکھ ڈالر خرچ کررہی ہے۔ (شاہ ٹائمس ۲۴/۱۲/۲۰۰۶/)

                (۳) ۲۳/نومبر ۲۰۰۶/ کو لندن میں سابق کے، جی، بی کرنل الیگزینڈر لتوینینکو کو ریڈیو تابکاری مادہ پلونیم ۲۱۰ کے ذریعے ہلاک کردیاگیا۔ کرنل موصوف نے اپنے انتقال سے پہلے ایک کتاب Blowing up Russia - Tenor from within میں اپنے سابق خفیہ ادارہ کی کالی کرتوتوں کے بارے میں بتایا کہ ۱۹۹۹/ میں ماسکو کی عمارتوں میں جو دھماکہ ہوئے تھے اور جس میں ۸۰۰ افراد ہلاک ہوئے تھے اور ۲۰۰۲/ میں ماسکو تھیٹر میں جو لوگوں کو یرغمال بنایا گیاتھا یہ دونوں حرکتیں روس کے ایجنٹوں نے کروائی تھیں۔ روس میں ہونے والے ان واقعات کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور چیچنیا کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز حاصل کرنا تھا۔ (راشٹریہ سہارا، ۱۴/۱۲/۲۰۰۶/)

                اسکالر فار نائن الیون ٹرتھ Scholars for 9/11 truth نام کی ویب سائٹ جو کہ ۷۰ ممتاز سائنسداں اوراعلیٰ پروفیسروں کی نگرانی میں چلتی ہے نے بتایا اِن حملوں کے پیچھے وہائٹ ہاؤس میں جنگ کے حامی تھے۔ جن کا مقصد افغانستان اور عراق کے خلاف جنگ اورمشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخیروں پر قبضہ کرنا تھا۔ اس گروپ کا استدلال ہے کہ جڑواں ٹاور دو طیاروں کے ٹکرانے سے مسمار نہیں ہوسکتے تھے۔ کیوں کہ طیارے کے تہول سے درجہ حرارت اتنا نہیں بڑھ سکتا تھا کہ اس سے فولاد پگھل جائے۔ اِن ٹاورز کو مسمار کرنے کے لئے دھماکہ کئے گئے تھے۔ ”المنار“ نیوز چینل نے واقعہ کے ۶ روز بعد اطلاع دی تھی کہ یہ یہودیوں کی کارستانی تھی ورنہ حملہ والے دن ۴ ہزار یہودی ایک ساتھ چھٹی پر کیسے تھے؟ (ایجنسیاں ۔ راشٹریہ سہارا، ۱۵/۹/۲۰۰۶/)

                ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو گجرات فسادات میں یہ خفیہ ہاتھ صاف طورپر نظر آتا ہے۔ فساد کے فوراً بعد کئی آزاد ذرائع نے بتایا کہ بلڈنگوں میں آگ لگانے کے لئے مخصوص دھماکہ خیز پاؤڈر استعمال کیاگیا تھا۔ پھریہ خبر تصدیق شدہ ہوگئی جب حکومت نے اعتراف کیا کہ ہمارے پاس یہ پاؤڈر تھا جو زلزلہ کے دوران لاشوں کو جلانے کے لئے اسرائیل سے آیاتھا۔ اور یہی پاؤڈر فسادات میں استعمال ہوا۔

                بابری مسجد انہدام سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنوٴ بنچ میں ایک رِٹ مسلم فورم برائے قومی یکجہتی کے صدراقبال قریشی نے دائرکی ہے ۔ جس میں انھوں نے وشوہندو پریشد کی رام مندر تحریک کے پیچھے غیرملکی سازش بتائی تھی۔ رٹ میں کہا گیا ہے کہ ۶/دسمبر ۱۹۹۲/ سے کچھ پہلے کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ یوپی کے نجی سکریٹری ہرپیندر مشرا کی قیادت میں اجودھیا، کاشی،متھرا کے خفیہ دورے کئے تھے جن کی خبر لگنے پر مرکزی سرکار کے محکمہ داخلہ نے آئی․ بی․ اور ”را“ کے ذرائع سے جانچ کرائی تھی۔ خصوصی بنچ نے یوپی کی صوبائی سرکار سے حلف نامہ داخل کرنے کو کہا جو داخل نہیں کیاگیا۔ بنچ نے مرکزی سرکار کے سینئرایڈوکیٹ این․ کے․ سیٹھ کو طلب کرکے رٹ پر ان کا موقف طلب کیا توانھوں نے مہلت مانگی۔اقبال قریشی نے اس رٹ کے تاروں کو گجرات فساد سے جوڑتے ہوئے کہا کہ وشوہندوپریشد کی ۱۷/ اکتوبر ۲۰۰۳/ کی سنکلپ سبھا کے دوران وشوہندو پریشد نے ۸ صوبوں سے آدی واسیوں کو بلوایا تھا۔ (راشٹریہ سہارا، ۷/۵/۲۰۰۵/)

                اس ضمن میں ۱۵/ دسمبر ۲۰۰۶/ کے فرنٹ لائن میں پرفل بدوائی کا یہ انکشاف بھی قابل غور ہے ”ہند۔ امریکی نیوکلیائی توانائی سمجھوتہ منظور کرانے میں U.S. India business council کا اہم رول تھا۔ جس میں امریکی نیوکلیائی اوراسلحہ تیار کرنے والی کمپنیوں کے نمائندہ اور Zionist American jeuish Commitee کے انتہائی با اثر لوگ شامل تھے۔ ہندوستان کو انکے اس احسان کی قیمت آگے چل کر چکانی ہوگی۔ (پرفل بدوائی۔ فرنٹ لائن ۱۵/۱۲/۲۰۰۶/)

                جو ممالک اسلحہ کا کاروبار کرتے ہیں ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ دنیا میں کسی بھی طریقہ سے بدامنی، خلفشار، تشدد پھیلے تاکہ عوام میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس ہو اور وہ حکومتوں سے تحفظ کا مطالبہ کریں اور حکومتیں تحفظ کے لئے بڑے پیمانہ پر نئے سے نیا اور قیمتی سے قیمتی اسلحہ خریدیں۔ اِس کے لئے وہ کیا کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں - وہ ہتھیاروں کی خریداری سے متعلق بڑے بڑے سودوں بوفورس، سب میرین، ہراک میزائیل وغیرہ سب سے ظاہر ہے۔ اربوں ڈالر کی خریداری کا کمیشن بھی کروڑوں ڈالر میں ہوتا ہی ہوگا۔ جس کی طرف اشارہ CBI کے سابق جوائنٹ ڈائریکٹر بی آر لال نے کیا ہے کہ ہندوستان کے سیاستدانوں، افسروں اور سرمایہ داروں کا بیرونی ممالک میں اتنی دولت جمع ہے جتنی ہندوستان کا ۳۵ سال کا بجٹ ہوتا ہے۔

 Who owns CBI - Naked Truth by B.R. Lall) (

                نانڈیر، پربھنی، اورنگ آباد میں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں سے دھماکہ خیز اشیاء،نقلی داڑھیاں، پٹھانی سوٹ وغیرہ کا برآمد ہونا اور کیس کی کما حقہ تحقیقات نہ ہونا کس طرف اشارہ کرتا ہے؟ عرب ممالک کے ساتھ امتیازی رویہ کی مثال جگہ جگہ موجود ہے۔ہوائی جہاز سے کرایہ عرب ممالک کا زیادہ ہے امریکہ اورانگلینڈکا کم ہے۔ جبکہ دوری امریکہ اورانگلینڈ کی زیادہ ہے۔ یہی معاملہ ٹیلی فون کال کا ہے۔ دوری کم ہونے کے باوجود وہاں کے کال ریٹ زیادہ ہیں امریکہ اور یوروپ کے کم ہیں۔ عرب ممالک بڑی مقدار میں ہندوستانی اشیاء خورد و نوش، کپڑے، زیورات وغیرہ خریدتے ہیں۔ یہاں پرلاکھوں عرب لوگ علاج کے لئے آتے ہیں اُس کا فائدہ بھی ہمارے ملک کے عوام کو ہی پہنچتا ہے۔ پھراصولی لحاظ سے دیکھیں تو فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اُن کا حق ہے۔ ۱۹۶۷/ میں اسرائیل نے حملہ کرکے مصر، شام، اردن، اور فلسطین کے بڑے علاقہ اور قبلہ اول بیت المقدس پر قبضہ کرلیا جس کے خلاف اقوام متحدہ کی ۲۸۰ قرار دادیں پاس ہوچکی ہیں۔ اس جارحانہ قبضہ کے خلاف آواز اٹھانا کیا ہمارا اخلاقی فریضہ نہیں ہے؟ اسرائیل سے ہمارے تعلقات کا موازنہ عرب ممالک سے تعلقات کریں تو اخلاقی، مالی، تہذیبی، سیاسی، خارجہ ضرورت کسی بھی لحاظ سے اسرائیل سے غیرمعمولی تعلقات ہندوستانی مفادات کے حق میں نہیں ہیں۔ ہتھیار تو کھلی منڈی میں ہر جگہ سے دستیاب ہیں۔ مگر اخلاقی پہلو بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔

                ہندوستان کے ہوشمند شہریوں کی عموماً اور مسلم قیادت کی خصوصاً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستان کو غیرمستحکم کرنے والی تمام قوتوں پر نظر رکھیں چاہے وہ جو بھی ہوں۔ ہندوستان میں بدامنی اورانتشار کا فائدہ مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوتا ہاں جنگ اور دہشت کا ماحول بننے سے ہتھیار فروخت کرنے والوں کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور روس ہندوستان کو سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرتے ہیں۔ ان کی ایجنسیوں کے ماضی کے کارنامے بہت بار میڈیا میں آچکے ہیں۔ ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نفیس صدیقی صاحب نے اس طرح پھر اشارہ کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام ملک دوست قوتوں کے ساتھ مل کر اِس سازش کے خلاف عوام کو مستقلاً آگاہ کیا جائے۔ جگہ جگہ اجلاس کرکے اِس مسئلہ پر عوامی بیداری لائی جائے۔ ہمارے ملک کو بدامنی، فساد اور دہشت گردی میں مبتلاکرکے اپنے اسلحہ کے کارخانہ چلانے والوں اوراپنے خارجہ پالیسی کے مفاد حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی سماج میں نفرت، قتل، لوٹ مار کا کھیل کھیلنے والوں کے خلاف پورے ملک میں شعور بیدار کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے خصوصاً مسلمانوں کیلئے کیونکہ سازشی طاقتیں انہیں کو نشانہ بناکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکتی ہیں۔ تمام محب وطن، انسانیت دوستوں پر لازم ہے کہ وہ متحدہ لائحہ عمل اختیار کرکے انسانیت کے دشمنوں کی مذموم کوششوں کو ناکام بنادیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 91 ‏، محرم 1428 ہجری مطابق فروری2007ء