کیاحضرت عیسیٰ علیہ السلام حنفی ہوں گے؟

از: عمر فاروق لوہاروی (لندن)

 

امتِ محمدیہ کا اس بات پر اجماع ہے ، کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں باوصفِ نبوت تشریف لائیں گے، تو اپنی شریعت پر عمل نہیں کریں گے، بلکہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے۔ اور یہ مضمون کئی روایات میں نصّاً یا اشارتاً بیان ہوا ہے، ان روایات کی تخریج امام احمد، امام بزار، امام طبرانی، امام بیہقی، امام ابوحاتم ابن حبان بستی اور حافظ ابن العساکر جیسے حضرات محدثین رحمہم اللہ نے اپنی اپنی کتابوں میں کی ہے۔

اب سوال یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شریعتِ محمدیہ کا علم کس طرح ہوگا؟ کیا آپ ائمہ متبوعین میں سے کسی امام کی تقلید کریں گے، اور ان کے مسلک کے مطابق فیصلے کریں گے؟

اس سلسلے میں بعض حضرات حنفیہ کہتے ہیں، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں گے، فقہِ حنفی پر عمل کریں گے، اور اسی کے مطابق فیصلے فرمائیں گے۔

لیکن یہ قول بے بنیاد ہے۔ اوراس میں ایک جلیل القدر پیغمبر کی تنقیص ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خود اپنے بارے میں ایسے انداز سے مدح و منقبت بیان کرنے سے تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے، جس سے کسی دوسرے نبی کی تنقیص لازم آتی ہو، تو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب و محاسن بیان کرتے ہوئے ایسی مبالغہ آرائی کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے، جو کسی جلیل القدر نبی اور سول کی تنقیص کو مستلزم ہو؟ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کا علم وعمل اور فضل وکمال مسلَّم ہے، لیکن پیغمبر بالآخر پیغمبر ہے، اس لیے اس ناقابلِ انکار حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام علم و فضل میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے یقینا بڑھے ہوئے ہیں۔

علامہ محمد علاء الدین حصکفی رحمة اللہ علیہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد فقہِ حنفی کے مطابق فیصلے فرمائیں گے۔ چنانچہ حضرت موصوف حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مناقب بیان کرتے ہوئے ”الدرالمختار“ میں تحریر فرماتے ہیں:

وحسبک من مناقبہ اشتہار مذہبہ ما قال قولاً الاّ اخذ بہ امام من الائمة الأعلام وقد جعل اللّٰہ الحکم لاصحابہ وأتباعہ من زمنہ الٰی ہذہ الایام الٰی ان یحکم بمذہبہ عیسیٰ علیہ السلام (الدر المختار مع رد المحتار،ص: ۴۲، ج:۱)

”اے مخاطب! تجھے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب میں سے آپ کے مذہب کا مشہور ہونا کافی ہے۔ آپ نے جو بھی بات ارشاد فرمائی، اس کو (آپ کے اصحاب میں سے) ائمہ اعلام میں سے کسی نہ کسی امام نے اختیار کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اصحاب اور متبعین کیلئے آپ کے زمانے سے تادمِ ایں تحریر عہدئہ قضا کو مقرر فرمایا، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے مذہب کے مطابق فیصلے فرمائیں گے۔“

علامہ ابن عابدین شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وکأنہ اخذہ مما ذکرہ اہل الکشف ان مذہبہ آخر المذہب انقطاعاً․․․ لکن لا دلیل فی ذلک علٰی ان نبی اللّٰہ عیسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام یحکم بمذہب ابی حنیفة وان کان العلماء موجودین فی زمنہ فلا بد لہ من دلیل (رد المحتار علی الدر المختار،ص: ۴۲، ج:۱)

”گویا صاحب الدرالمختار نے اس مضمون کو اہلِ کشف کی اس بات سے مستنبط کیا ہے، کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب دیگر مذاہب کے مقابلے میں سب سے آخر میں ختم ہوگا․․․ لیکن اس میں اس امر پر کوئی دلیل نہیں ہے، کہ نبی اللہ عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق فیصلے فرمائیں گے، اگرچہ علماء ان کے زمانے میں موجود ہوں گے، پس اس امر کے اثبات کے لیے دلیل درکار ہے۔“

درحقیقت علامہ حصکفی رحمة اللہ علیہ نے قہستانی کے اتباع میں اس قول کو اختیار کیاہے۔ اور قہستانی کے متعلق علامہ عبدالحئی فرنگی محلی لکھنوی رحمة اللہ علیہ نے علامہ شامی رحمہ اللہ کی کتاب ”تنقیح الفتاویٰ الحامدیة“ کے حوالہ سے لکھا ہے:

والقہستانی کجارف سیل وحاطب لیل خصوصا واستفادہ الٰی کتب الزاہدی المعتزلی (مقدمہ عمدة الرعایہ، ص:۱۱)

”قہستانی سیلاب میں بہہ جانے والے اور اندھیرے میں لکڑی جمع کرنے والے ہیں، بالخصوص وہ جس وقت زاہد معتزلی کی کتابوں سے کسی بات کو لیتے ہیں۔“

ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

لقد صدق عصام الدین فی حق القہستانی انہ لم یکن من تلامذة شیخ الاسلام لا مِن اعالیہم ولا مِن ادانیہم انما کان دلاّل الکتب فی زمانہ ولا کان یعرف بالفقہ وغیرہ بین اقرانہ ویوٴیدہ انہ یجمع فی شرحہ ہذا بین الغث والسمین والصحیح والضعیف من غیر تحقیق وتدقیق فہو کحاطب لیل الجامع بین الرطب والیابس فی اللیل (مقدمہ عمدة الرعایہ، ص:۱۱ بحوالہ شم العوارض فی ذم الروافض)

”عصام الدین نے قہستانی کے متعلق بالکل درست فرمایا ہے، کہ وہ شیخ الاسلام (الہروی) کے نہ بڑے شاگردوں میں تھے نہ چھوٹے؛ بلکہ وہ اپنے وقت میں کتابوں کے ایجنٹ تھے، اور ان کی اپنے ہم عصر علماء کے درمیان علمِ فقہ یا کسی دوسرے علم میں شہرت نہ تھی۔ عصام الدین کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے، کہ قہستانی اس کتاب شرح مختصر الوقایہ (یعنی جامع الرموز) میں بے سوچے سمجھے غلط اور صحیح، بیکار اور درست ہر طرح کی باتیں جمع کرلیتے ہیں، وہ تو ایسے ہیں جیسے اندھیرے میں لکڑی چننے والا، جو خشک و تر میں تمیز نہیں کرپاتا ہے۔“

”انیس الجلساء“ کے حوالہ سے صاحبِ نبراس نے اس سلسلے کا ایک خُرافہ نقل کرکے اس کی زور دار تردید کی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:

تعجب خیز باتوں میں سے ایک بات وہ ہے، جو بعض منسوب الیٰ العلم نے ایک کتاب میں ذکر کی ہے، جس کا نام ”انیس الجلساء“ رکھا ہے، کہ حضرت خضر روزانہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس تشریف لے جاتے تھے، اور آپ سے علومِ شریعت حاصل کرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا پانچ سال کے بعد انتقال ہوگیا، تو حضرت خضر علیہ السلام امام صاحب کی قبر پر جانے لگے اورآپ سے علم حاصل کرنے لگے، یہاں تک کہ دوسرے پچیس سال میں مکمل علومِ شریعت کو حاصل کرلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کو حکم فرمایا ، کہ وہ امام ابوالقاسم قشیری کے پاس جائیں، اور امام ابوحنیفہ سے حاصل کردہ علوم ان کو سکھائیں۔ تو حضرت خضر نے تیس سال میں جو کچھ حاصل کیا تھا، وہ ان کو تیس سال میں سکھادیا۔ اس لیے قشیری علم و کرامات میں یگانہٴ روزگار ہوگئے۔ انھوں نے ایک ہزار کتابیں تصنیف کیں اور ان کو ایک صندوق میں رکھا،اور اپنے شاگرد کو حکم دیا، کہ وہ اس صندوق کو دریائے جیحوں میں ڈال دے۔ شاگرد نے تعمیلِ حکم کی۔ اس نے دیکھا کہ پانی شق ہوا، اوراس سے صندوق لینے کے لیے ایک ہات نمودار ہوا۔ شاگرد نے شیخ ابوالقاسم سے اس معمہ کے بارے میں دریافت کیا، تو انھوں نے فرمایا، کہ جب حضرت عیسیٰ بن مریم آسمان سے نزول فرمائیں گے، تو کُتبِ شریعتِ محمدیہ کو تلاش کریں گے اور انہیں نہیں پائیں گے، تو جبریل علیہ السلام حاضر ہوکر عرض کریں گے، کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیاہے، کہ آپ دریائے جیحوں پر تشریف لے جائیں اور وہاں دوگانہ ادا کرکے کہیں: کہ اے صندوق کے امین! میں عیسیٰ ہوں، مجھے صندوق دے دے۔ تو وہ صندوق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سپرد کردے گا، اور آپ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کریں گے۔ صاحب نبراس فرماتے ہیں کہ یہ بڑا بہتان ہے۔اور کوئی عقلمند آدمی اس بات میں شک نہیں کرے گا، کہ روح اللہ اور کلمة اللہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) مجتہدین سے کم درجہ نہیں ہوں گے۔“ (النبراس، ص:۲۸۰)

ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے ”المشرب الوردی فی مذہب المہدی“ میں جہاں اس بات کی تردید کی ہے، کہ حضرت مہدی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں گے، وہیں مذکورہ بالا بے بنیاد قصہ کی تردید کی ہے، اور لکھا ہے، کہ اس واقعہ کو نقل کرنا بھی جائز نہیں ہے،مگر یہ کہ اس کا ابطال و تردید مقصود ہو۔

پھر جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حنفی نہیں ہوں گے، اسی طرح شافعی، مالکی یا حنبلی مسلک کے پیروکار بھی نہ ہوں گے۔ گویا ائمہ متبوعین میں سے کسی امام کے مقلد نہیں ہوں گے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

کیف یظن بنبیّ انہ یقلد مذہبا من المذاہب، والعلماء یقولون: ان المجتہد لا یقلد مجتہدا، فاذا کان المجتہد من آحاد الامہ لا یقلد، فکیف یظن بالنبی انہ یقلد؟ (الحاوی للفتاویٰ، ص:۱۴۸، ج:۲)

”نبی کے بارے میں کیسے یہ گمان کیا جاسکتا ہے، کہ وہ مذاہب میں سے کسی مذہب کی تقلید کریں گے؛ حالاں کہ علماء فرماتے ہیں کہ ایک مجتہد کسی دوسرے مجتہد کی تقلید نہیں کرسکتا ہے۔ جب مجتہد جو امت کے افراد میں سے ایک فرد ہے، تقلید نہیں کرسکتا، تو پھر نبی کے متعلق کیسے یہ گمان کیا جاسکتا ہے، کہ وہ تقلید کریں گے؟“

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب مقلد نہیں ہوں گے، تو پھر آپ بعض علماء کے خیال میں مجتہد مطلق ہوں گے، جیسے حضرت مہدی مجتہد مطلق ہوں گے۔ لیکن امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اجتہاد ہی سے فیصلے فرمائیں گے، یہ متعین نہیں ہے۔ اس کے بعد موصوف نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے شریعتِ محمدیہ کے احکام کی معرفت کے ممکنہ چار طریقے تفصیل کے ساتھ ذکر فرمائے ہیں۔ مختصراً وہ چار طریقے حسب ذیل ہیں:

(۱)    ممکن ہے تمام انبیاء علیہ السلام کو اپنے اپنے زمانے میں وحیٴ الٰہی سے سابقہ اور لاحقہ تمام شریعتوں کا علم ہوتا ہو۔ چنانچہ احادیث و آثار میں وارد ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے کچھ مسائل ذکر فرمائے، جو اپنی شریعت سے الگ تھے۔ اور اسی طرح کی بات حضرت موسیٰ اور حضرت داؤد علیہما السلام کے لیے بھی واقع ہوئی ہے۔

(۲)   یہ بھی ممکن ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام احادیث کی مراجعت کے بغیر محض قرآن مجید کو دیکھ کر شریعت محمدیہ سے متعلق تمام احکام کو سمجھ لیں، جس طرح خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکام کو قرآن مجید سے سمجھا تھا۔ اس لیے کہ قرآن مجید جمیع احکامِ شرعیہ کو متضمن ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص فہم خداداد سے سمجھا، پھر احادیث میں اپنی امت کے لیے اس کی تشریح فرمائی۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہیں، اس لیے بعید نہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ بھی محض قرآن مجید سے احکامِ شرعیہ کو سمجھ لیں۔

(۳)   امام ابونصر تاج الدین سبکی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیاہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شمار باوصفِ نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہے، اور آپ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے زمرہ اور جماعت میں شامل ہیں، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں آپ کے ساتھ ایمان اور تصدیق کی حالت میں ملاقات ثابت ہے۔ اسی لیے حافظ ابوعبداللہ الذہبی رحمہ اللہ نے ”تجرید اسماء الصحابة“ میں لکھاہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی بھی ہیں اور صحابی بھی۔ اور صحابہٴ کرام میں سب سے آخر میں (نزول کے بعد) وفات پانے والے ہیں۔ اس اعتبار سے ممکن ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت آپ سے براہِ راست آپ کی شریعت کے احکام معلوم کیے ہوں۔

(۴)   حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد روحانی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کریں گے۔ اس لیے ممکن ہے، کہ آپ سے براہِ راست ضرورت کے احکامِ شریعت حاصل کریں۔ اس طرح آپ کو نہ اجتہاد کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ حفّاظِ حدیث میں سے کسی کی تقلید کی۔

ایک سائل کے سوال کے جواب میں امام سیوطی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا چار ممکنہ طریقے ذکر فرمائے، جن میں چوتھا طریق خود موصوف کی رائے تھی، اس کے بعد اس کی تائید کے طور پر تحریر فرمایا، کہ اس کی ایک مدت کے بعد میں ایک سوال پر مطلع ہوا،جو شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیاتھا۔ صورت سوال یہ تھی، کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”ینزل عیسیٰ بن مریم فی آخر الزمان حکمًا“ (حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آخری زمانے میں حاکم بن کر نزول فرمائیں گے) کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ کیا عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن عظیم اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے حافظ ہوں گے،یا اُس زمانہ کے علماء سے کتاب و سنت کو حاصل کریں گے اوران میں اجتہاد کریں گے؟ اس سلسلے میں کیا حکم ہے؟ تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے ان الفاظ سے جواب دیا اور انھیں کی تحریر سے میں نے نقل کیا کہ: لم ینقل لنا فی ذلک شيء صریح، والذی یلیق بمقام عیسیٰ علیہ السلام انہ یتلقی ذلک عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیحکم فی امتہ بما تلقاہ عنہ، لانہ فی الحقیقة خلیفة عنہ ۔ واللہ اعلم۔ (ترجمہ) ”اس سلسلہ میں ہمارے سامنے کوئی صریح چیز منقول نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے مقام کے شایان شان بات یہ ہے ، کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام کو حاصل کریں گے،اور آپ سے حاصل کردہ احکام کے مطابق امتِ محمدیہ میں فیصلے فرمائیں گے، اس لیے کہ آپ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے ۔ واللہ اعلم (الحاوی للفتاویٰ،ص: ۱۴۸ تا ص:۱۵۴ و ص: ۱۵۷، ج:۲)

راقم الحروف کہتاہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو احکامِ شریعت محمدیہ کا علم کس طرح ہوگا؟ اس کے متعلق ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: ویعلمہ الکتب والحکمة والتورٰة والانجیل“ (آل عمران:۴۸) (اوراللہ ان کو کتاب و حکمت اور توراة و انجیل کی تعلیم فرمادیں گے) اس میں ”الکتٰب“ سے قرآن مجید اور ”الحکمة“ سے سنت والی تفسیر مراد لی جائے، اور کہا جائے کہ اہتمامِ شان کے لیے توراة وانجیل سے کتاب وحکمت کو لفظاً مقدم کیاگیا ہے۔ گویا نزول کے بعد خود اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کتاب وسنت کی تعلیم فرمادیں گے۔ اور یہ بات اتنی قطعی ہے، کہ قرآن مجید میں دوسرے مقام پر توراة وانجیل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کتاب و حکمت کی تعلیم کو بھی فعل ماضی کے ساتھ ذکر کیاگیا۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے: ”واذ علّمتک الکتاب والحکمة والتوراة والانجیل“ (المائدہ: ۱۱۰) ( اور جب کہ میں نے تم کو کتاب و حکمت اور توراة و انجیل تعلیم کیں)۔

سطورِ بالا سے یہ بات واضح ہوگئی، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قُربِ قیامت میں نزول کے بعد شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے، یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے، لیکن قرآن وسنت میں اس بارے میں کوئی تصریح نہیں ہے، کہ آپ کو شریعتِ محمدیہ کا علم کس طرح ہوگا؟ اس سلسلے میں حضرات علماء کرام نے ائمہ متبوعین میں سے کسی امام کی تقلید کے علاوہ جو طریقے ذکر فرمائے ہیں، وہ سب بدرجہٴ امکان و احتمال ہیں، لہٰذا اس کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ائمہ متبوعین میں سے کسی امام کی تقلید کا، تو اس کے لیے جہاں نقل ندارد ہے، وہیں عقلِ صحیح بھی اس کو روا نہیں رکھتی ہے، کیونکہ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تنقیص لازم آتی ہے، لہٰذا کشف وغیرہ سے یہ ثابت نہیں کیاجاسکتا، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حنفی ہوں گے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے تو حضرت مہدی کے متعلق جنھوں نے لکھا ہے، کہ وہ حنفی ہوں گے، اس کو بھی ”غلو“ قرار دیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ کا پورا ملفوظ ہی نظرِ قارئین کردوں۔ ”ملفوظاتِ حکیم الامت“ میں ہے:

”ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! بعض لوگوں نے یہ مشہور کیا ہے، کہ امام مہدی نقشبندی ہوں گے (حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے) فرمایا کہ یہ تو میں نے نہیں سُنا؛ البتہ بعض حنفیوں نے لکھا ہے کہ وہ حنفی ہوں گے، مگر یہ غلو ہے۔ غالباً یہ ہوگا کہ امام مہدی کا اجتہاد امام صاحب کے اجتہاد پر منطبق ہوجائے گا۔ باتیں دعوے کی دل کو نہیں لگتیں، اس میں تو ایک گونہ اہانت ہے امام مہدی کی۔ ان کا طرز صحابہ کا سا ہوگا، وہ نہ نقشبندی ہوں گے نہ چشتی نہ حنفی۔ وہ تو دین کے ہر شعبہ میں خود مستقل شان رکھتے ہوں گے۔“ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۹۰، ج:۵، ملفوظ:۹۳)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام حضرت مہدی سے بلاشبہ بڑھاہوا ہے، اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حنفی کہنا یا لکھنا بدرجہٴ اولیٰ غلو ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مجتہد مطلق ماننے کی تقدیر پر بالفرض آپ کا کل یا اکثر اجتہادات حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے اجتہادات پر منطبق ہوجائے، تب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہرگز ہرگز حنفی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے بیانات و تحریرات میں اس طرح کی تعبیر استعمال کرنے سے کلی طور پر احتراز کرنا چاہیے۔ واللہ الموفق

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 91 ‏، جمادی الاولی 1428 ہجری مطابق جون2007ء