قرآنی مدّات زکوٰة کی معنویت واہمیت

از: اختر امام عادل قاسمی‏، مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف

 

زکوة اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم حصہ ہے، جس سے مملکت کی بڑی تعداد اور انسانیت کا بڑا طبقہ مستفید ہوتا ہے، مملکت کے مالی واجبات اور دیگر اقتصادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اسلام کے پاس ایک مکمل معاشی نظام موجود ہے، اور جب تک کسی سوسائٹی میں پوری طرح وہ معاشی نظام رائج نہ ہو اس وقت تک نہ اسلامی اقتصادیات کی معنویت سمجھ میں آسکتی ہے اور نہ سوسائٹی کی تمام ضرورتوں کی تکمیل ہوسکتی ہے۔

اسلامی بیت المال کی مالی مدات

قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو اسلامی مملکت کی آمدات کو بالعموم چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے: یعنی اسلامی بیت المال میں چار قسم کی مالی آمدات جمع ہوتی ہیں:

(۱)    خمس: (الف) خمس غنائم: یعنی جنگ کے مواقع پر دشمنوں سے حاصل شدہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ، چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں، اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔

(ب) خمس معادن: یعنی مختلف قسم کے کانوں سے نکلنے والی اشیاء کا پانچواں حصہ۔

(ج)  خمس رکاز: یعنی زمین سے دریافت شدہ کسی قدیم خزانہ کا پانچواں حصہ۔

(۲)   صدقات: اس میں مسلمانوں کی زکوٰة صدقہٴ فطر اور زمینی پیداوار کا عشر وغیرہ سب داخل ہیں۔

(۳)   خراج اور مال فئی: اس میں غیرمسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ تمام اموال داخل ہیں، جو غیرمسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔

(۴)   ضوائع: اس میں لاوارث مال، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ داخل ہیں۔

ان چاروں مدات کے لئے الگ الگ مصارف مقرر کئے گئے ہیں، مگر فقراء و مساکین کا حق سب میں رکھا گیا ہے۔

پہلی مد یعنی خمس غنائم کے مصارف سورئہ انفال میں بیان کئے گئے ہیں، دوسری مد صدقات کے مصارف کا بیان سورئہ توبہ میں آیا ہے، تیسری مد مال فئی وغیرہ کا ذکر سورئہ ”حشر“ میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اسلامی حکومت کی اکثر انتظامی ضروریات (فوجی اخراجات، حکومت کے ملازمین کی تنخواہیں، تعمیری و ترقیاتی منصوبے وغیرہ) اسی مد سے پوری کی جاتی ہیں۔ چوتھی مد یعنی لاوارث مال رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور خلفائے راشدین کے تعامل کی روشنی میں معذوروں، محتاجوں، اور لاوارث بچوں کے لئے مخصوص ہے۔ (رد المحتار کتاب الزکوٰة، خطب فی بیان بیوت المال و مصارفہا: ۳/۲۵۵، ۲۵۶)

اگر ہم مذکورہ بالا مدات میں کسی مد کو دوسرے مدات کے مصارف میں خرچ کرنے لگیں، اور شریعت اسلامیہ نے مالی مدات اور ان کے مصارف کے درمیان جو خط امتیاز کھینچا ہے، اس کا لحاظ نہ کرکے مصارف کو خلط ملط کردیں، تو یہ ہماری بدترین غلطی ہوگی۔

اسلام نے ایک مکمل معاشی نظام کے لحاظ سے بیت المال کاایک وسیع تصور دیاہے اور ہرمد کے لیے جدا گانہ تقاضے مقرر کیے ہیں۔ اگر کسی سوسائٹی میں اسلامی بیت المال کا وسیع نظام قائم نہ ہو، یا اس نظام کا صرف ایک جزو رائج ہو اوراس کی وجہ سے بہت سے بظاہر ضروری مصارف بیت المال کی امداد سے محروم ہوجاتے ہوں، اور ان تک مسلمانوں کی رقم نہ پہنچ پاتی ہو تو یہ ہماری ناقص سوسائٹی کا قصور ہے، اسلام کے نظام بیت المال کا نہیں۔

زکوٰة اسلام کے معاشی نظام کا ایک حصہ

زکوٰة اسلام کے اسی معاشی نظام کا ایک حصہ ہے، زکوٰة سے حاصل ہونے والی آمدنی اسلامی بیت المال میں کافی اہمیت رکھتی ہے، مگر جس طرح اس کے حاصل ہونے کے لئے اسلام نے بہت سی بنیادی ہدایات دی ہیں، اسی طرح اس کے خرچ کرنے کے لئے بھی کچھ اصول اور مصارف مقرر کئے ہیں۔

زکوٰة کے مصارف

قرآن مجید میں زکوٰة کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں:

انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیہا والموٴلفة قلوبہم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللّٰہ وابن السبیل فریضةً من اللّٰہ واللّٰہ علیم حکیم (سورئہ توبہ: ۶۰)

ترجمہ: ”فرض زکوٰة صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات کی وصولی پر مقرر ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا منظور ہے، اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں صرف کیا جائے اور قرضداروں کے قرضہ ادا کرنے میں، اور جہادوالوں کے سامان میں اور مسافروں کی امداد میں، یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے، اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔“

خدا کی طرف سے یہ تقسیم ایسی قطعی اور واضح ہے کہ اس میں کسی ترمیم و تبدیل کی گنجائش نہیں ہے، ایک مرتبہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور مدّ ذکوٰة سے مدد کا طالب ہوا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ آیت کریمہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

ان اللّٰہ تعالیٰ لم یرض بحکم نبی ولا غیرہ فی الصدقات حتی حکم فیہا ہو فجزّأہا ثمانیة فان کنت من تلک الاجزاء اعطیتک حقک (ابوداؤد،ج:۲،ص:۲۸۱، مختصرالسنن، ج:۲،ص:۲۳۱ دارالمعرفة)

ترجمہ: ”صدقات کی تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا غیر نبی کے حوالہ نہیں کیا؛ بلکہ خود ہی اس کے آٹھ مصرف متعین فرمادئیے اگر تم ان آٹھ میں داخل ہو تو تمہیں دے سکتا ہوں۔“

مدات زکوٰة کی اہمیت و معنویت

قرآن کے مقرر کردہ یہ آٹھ مدات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان کے اندر انسانی زندگی کی بہت سی انفرادی اور اجتماعی ضروریات آگئی ہیں، علامہ ابن تیمیہ نے ان مدات کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مدات میں بنیادی طور پر دو باتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(۱)    ایک یہ کہ مسلمانوں کی ضروریات کی تکمیل۔

(۲)   اسلام کی نصرت و تقویت۔

فقراء ومساکین، عاملین زکوٰة، غلامی یا قرض میں مبتلا شخص یا مسافر کی امداد میں عام مسلمانوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے، اور مجاہدین اور موٴلفة القلوب کی مالی اعانت میں اسلام کی نصرت و استحکام کا پہلو پیش نظر ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ،ج:۲۵،ص:۴۰)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مدات زکوٰة کی معنویت کا تجزیہ اس طرح کیا ہے:

(۱)    مملکت اور انسانی زندگی کی ضروریات اور مسائل تو بیشمار ہیں، مگر بنیادی طور پر انسان کو اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے تین قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے:

(۱)    شخصی ضروریات: فقراء ومساکین، مسافر، اور مقروض میں انہی ضروریات کا احاطہ کیاگیا ہے۔

(۲)   مسلمانوں کی اجتماعی حفاظت کا مسئلہ، اس ذیل میں مجاہدین اور عاملین آتے ہیں۔

(۳)   حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کا مسئلہ اس ذیل میں موٴلفة القلوب اور جرمانہ کی بعض شکلیں آتی ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ۲/۴۵ مطبوعہ رشیدیہ دہلی)

حضرت علامہ انورشاہ کشمیری نے ”فقراور سفر“ کو تمام مدات کا خلاصہ قرار دیا ہے۔ (العرف الشذی علی الترمذی،ج:۱،ص:۱۴۲)

قرآنی مدات میں کسی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے

اگر ہم ان مدات پر الگ الگ نظر ڈالیں تو ان کی معنویت اور بھی اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔

آیت کریمہ میں زکوٰة کے لئے آٹھ مدات بیان کئے گئے ہیں،اور کلمہٴ حصر ”انّما“ اور احادیث کی روشنی میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ان مدات میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے، یہ تو ممکن ہے کہ کسی مقام پر یہ تمام مدات بیک وقت موجود نہ ہوں، ایسے حالات میں جمہور فقہاء کے نزدیک زکوٰة تمام مدات تک پہنچانا ضروری نہیں ہے بلکہ مذکورہ مدات میں سے جو بھی بآسانی دستیاب ہوجائے اپنی زکوٰة اس میں صرف کردینا درست ہے، یہ رائے حنفیہ، مالکیہ، حنابلہ، حضرت سفیان ثوری اور امام ابوعبید کی ہے۔ صحابہ کرام میں حضرت عمربن الخطاب اور حضرت ابن عباس کی بھی یہی رائے ہے۔ (المغنی۲/۶۸۸،۶۷۰، فتح القدیر ۲/۱۸، الشرح الکبیر وحاشیہ الدسوقی ۱/۴۹۸)

البتہ حضرت امام شافعی کے نزدیک موجود تمام مدات تک زکوٰة پہنچانا ضروری ہے اوراگر یہ تمام مدات موجود نہ ہوں تو کم از کم تین مدات کو بہرحال اپنی زکوٰة برابر برابر پہنچانا لازمی ہے۔ (المجموع ۶/۱۸۵،۱۸۶، شرح المنہاج وحاشیة القلیوبی وغیرہ ۳/۲۰۱،۲۰۲، الموسوعة الفقہیہ ۲۳/۳۳۰)

اس کے بعد ہم ان مدات پرایک نظر ڈالتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔

فقراء ومساکین

فقراء ومساکین زکوٰة کے سبب سے اہم ترین مصرف ہیں، اور زکوٰة و صدقات کا نظام بڑی حد تک غربت و مسکنت ہی کے خاتمہ کے لئے جاری کیاگیا ہے، اسی لئے اس نظام سے سب سے زیادہ فقراء ومساکین کو استفادہ کا موقعہ دیاگیا ، گوبیت المال کے تمام ہی مدات میں فقراء ومساکین کا حصہ ہے، مگر صدقات کاشعبہ خاص طور پر اسی طبقہ کے لئے ہے، اور کہنا چاہئے کہ یہ ”شعبہٴ فقراء و مساکین“ ہے،اگرچہ کہ اس میں بعض دیگر طبقات کے افراد بھی شامل ہیں، جو اپنے مجموعی حالات کے لحاظ سے زمرئہ مساکین میں شامل نہیں ہیں، لیکن حنفیہ کے بقول شعبہٴ زکوٰة سے ان کے لئے بھی امداد کی فراہمی اسی وقت ممکن ہے جبکہ وہ اپنے حالات کے سبب اس کے واقعی ضرورت مند ہوں، اس سے صرف ”عاملین زکوٰة“ کا استثناء ہے کہ ذاتی زندگی میں خوشحال ہونے کے باوجود مدّ زکوٰة سے بقدر خدمت ان کو دینا جائز ہے۔ (فتح القدیر ۲/۱۶، رد المحتار ۳/۲۶۱)

فقیر اور مسکین کا فرق

فقراء اور مساکین کی اصطلاحی تعریف میں جزوی طور پر تھوڑا اختلاف ہے، اور اسی اختلاف سے یہ اختلاف بھی نکلا ہے کہ ان دونوں میں زیادہ ضرورت مند کون ہے؟

(۱)    حنفیہ کے نزدیک فقیر اس کو کہتے ہیں، جس کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو، مالک نصاب شخص اصطلاح میں غنی شمار ہوگا، اوراس کے لئے زکوٰة لینا یا اس کو زکوٰة دینا جائز نہ ہوگا ۔ البتہ اگر کسی کے پاس ناقص نصاب ہو مگر اس کی ضروریات بھی اسی کے بقدر ہوں، تو وہ فقیر ہے، اس کے لئے زکوٰة لینا درست ہوگا، اور اگر ضروریات اتنی نہ ہوں تو اگرچہ کہ وہ اصطلاحی فقیر ہے مگر اسکے لئے زکوٰة لینا درست نہ ہوگا۔ (فتح القدیر،ج:۲،ص:۱۵)

* مالکیہ کے نزدیک جس شخص کے پاس ایک سال کے بقدر غذائی اشیاء موجود نہ ہوں وہ فقیر ہے۔

* اور حنفیہ ومالکیہ کے نزدیک مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ اور لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کے لئے مجبور ہو۔ (فتح القدیر۲/۱۵، الدسوقی ۱/۴۹۳)

* شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی مال نہ ہو اور نہ ضرورت کے موافق کمائی ہو، اور مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی آدھی یا آدھی سے زیادہ ضروریات کی کفالت کرسکتی ہو۔ (حوالہٴ بالا)

دسوقی نے بعض علماء کا قول نقل کیا ہے کہ فقیر ومسکین مصداق کے لحاظ سے ایک ہی ہیں، یعنی جو سال بھر کے لائق غذائی اشیاء کا مالک نہ ہو وہ فقیر ہے، خواہ اس کے پاس تھوڑا بہت مال ہو یا نہ ہو۔ (دسوقی ۱/۴۹۲)

* یہیں سے فقہاء کے درمیان یہ اختلاف بھی پیداہوا ہے کہ فقیر اور مسکین میں زیادہ ضرورت مند کون ہے؟

شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ فقیر زیادہ حاجت مند ہے، جبکہ حنفیہ اور مالکیہ کی رائے میں مسکین زیادہ جات مند ہے، دونوں طبقے کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں: مثلاً شافعیہ اورحنابلہ نے سورئہ کہف کی اس آیت سے استدلال کیا ہے:

اما السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر (کہف:۷۹)

ترجمہ: ”بہرحال کشتی چند مسکینوں کی تھی، جو سمندر میں محنت ومزدوری کرتے تھے۔“

اس سے ظاہرہوتا ہے کہ مسکین کچھ نہ کچھ مالیت کا مالک ہوتا ہے، علاوہ ازیں لغوی طور پر ”فقیر“ فقر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ریڑھ کی بعض ہڈیوں کا چٹخ جانا، یعنی فقیر وہ ہے کہ معاشی طور پر جس کی کمر ٹوٹ گئی ہو، جبکہ ”مسکین“ ”سکن“ سے ماخوذ ہے، سکون حالت اطمینان کی علامت ہے۔

حنفیہ اور مالکیہ نے ایک دوسری آیت سے استدلال کیا ہے:

او مسکینًا ذا متربة (سورة البلد:۱۶)

ترجمہ: ”یا خاک آلود مسکین کو“

”خاک آلود“ اس شخص کو کہتے ہیں جو شدت بھوک کی بنا پر زمین پر اوندھے منھ گرپڑا ہو، نیز مسکین ”سکون“ سے ماخوذ ہے، سکون حرکت کی ضد ہے یعنی ”حالت انجماد“ یعنی اس قدر کمزور کہ ہلنے تک کی سکت نہ ہو۔ (المغنی۶/۴۲۰، فتح القدیر۲/۱۵،۱۶، الدسوقی علی الشرح الکبیر ۱/۴۹۲، المحلّی علی المنہاج ۳/۱۹۶، الموسوعة الفقیہ الکویت ۲۳/۳۱۲)

امام فخرالدین رازی (۵۴۴-۶۰۶ھ) نے تفسیر کبیر میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے، اور دونوں فریق کے دلائل کا احاطہ کیاہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر کبیر۸/۶۲تا۶۷ مطبوعہ قاہرہ)

مگر زیر بحث مسئلے میں اس اختلاف سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا،اس اختلاف کا اثر زیادہ سے زیادہ وصیت کے باب میں ظاہرہوسکتا ہے، مثلاً کسی نے فقیر کے لئے دوہزار(۲۰۰۰) روپے کی اور مسکین کے لئے پانچ سو(۵۰۰) روپے کی وصیت کی تو حضرت امام شافعی کے نقطئہ نظر کے مطابق سب سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دوہزار روپے دئیے جائیں گے، اور حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک کم ضرورت والے شخص کو دو ہزار روپے ملیں گے۔ (تفسیر الکبیر۸/۶۳)

* صحت مند فقیر یا مسکین جو محنت مزدوری کرکے کفاف حاصل کرسکتا ہو، وہ فقیر کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟

شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا شخص اس زمرہ میں داخل نہیں ہے اس کو زکوٰة دینا درست نہیں اور نہ اس کے لئے زکوٰة لینا جائز ہے، اگر اس کا حال جانتے ہوئے اس کو دیدیا جائے تو زکوٰة ادا نہ ہوگی۔ (المغنی ۶/۴۲۳، المحلّی علی المنہاج ۳/۱۹۶، المجموع ۶/۱۹۰)

اس لئے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”لاحظ فیہا لغنی ولا لقوی مکتسب“ (ابوداؤد۲/۲۸۵)

ترجمہ: ”زکوٰة میں کسی مالدار اور مضبوط کمانے والے شخص کا کوئی حصہ نہیں ہے“۔

ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:

لا تحل الصدقة لغنی ولا لذی مرة سویٍّ (ابن ماجہ ۱/۵۸۹ بروایت حضرت ابوہریرہ)

ترجمہ: ”زکوٰة کسی مالدار یا مضبوط طاقتور کے لئے جائز نہیں“

اس کے بالمقابل حنفیہ اور مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ ”جس کو فقیر صورت دیکھو اس کو فقیر گمان کرو“ اس لئے کہ فقر ومسکنت، اورحاجت و ضرورت ایک مخفی چیز ہے۔ اس پر ظاہری حالت ہی کو دلیل بنایا جاسکتا ہے اور ظاہری حالت یہ ہے کہ وہ نصاب کے بقدر مال کا مالک نہیں ہے۔ (فتح القدیر۲/۲۸، الدسوقی ۱/۴۹۴)

ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰة کی تقسیم فرمارہے تھے، دو آدمی زکوٰة کا مطالبہ لے کر آئے، جو جسمانی طور پر کافی مضبوط تھے، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پرایک نگاہ ڈالی اور ارشاد فرمایا:

انہ لاحق لکما فیہ وان شئتما اعطیتکما (ابوداؤد۲/۲۸۱)

ترجمہ: ”تم دونوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، پھر بھی چاہتے ہو تو میں تم دونوں کو دے دوں گا۔“

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو مانگنے کا تو حق نہیں ہے لیکن اگر زکوٰة دیدی جائے تو اس کی گنجائش ہے، زکوٰة ادا ہوجائے گی۔

فقر ومسکنت کا ثبوت

کسی مستورالحال شخص کے لئے فقر ومسکنت کا ثبوت محض اس کے دعویٴ فقر سے ہوجائے گا۔ اس سے قسم لینے کی ضرورت نہیں ہے، جیساکہ مذکورہ بالا حدیث میں سرور دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سائلین کے سوال پر یقین فرماکر ارشاد فرمایا: ”اگر تم دونوں چاہو تو میں دے دوں گا“ البتہ اگر کسی کا جھوٹ ظاہر ہوجائے تو محض اس کے دعویٰ پر اسکو فقیر نہیں مانا جائے گا، اوراس کو زکوٰة دینا درست نہ ہوگا۔

یا کوئی شخص اپنی ظاہری حالت کے خلاف دعویٰ کرے مثلاً کوئی صاحب عیال ہونے کا دعویٰ کرے یا وہ خوش پوش و خوش حال شخص مانا جاتا تھا اور اب دعویٰ کرے کہ میرا سب کچھ ختم ہوچکا ہے، میں فقیر ہوچکا ہوں تو ان حالات میں دعویٰ کی تصدیق کے لئے تحقیق حال ضروری ہے۔ (المغنی۲/۶۶۳، ۶/۴۲۳، الانصاف ۳/۲۴۵، المجموع ۶/۱۹۵، الموسوعہ ۲۳/۳۱۸)

* یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی فقیر یا مسکین کو زکوٰة سے کس حد تک دینا درست ہے؟

جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ زکوة سے کسی فقیر ومسکین کو اس حد تک دیا جاسکتا ہے جو اس کے سال بھر کی ضروریات کے لئے کافی ہوجائے، اس سے زیادہ دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے کہ آئندہ سال پھر تقسیم زکوٰة کے موقعہ پر اس کو اس میں سے حصہ ملے گا۔

شافعیہ کا ایک قول یہ ہے کہ کسی فقیر ومسکین کی مدد اس حد تک کی جانی چاہئے کہ وہ سطح غربت سے بلند ہوکر مالداری کی حد میں داخل ہوجائے، اورہمیشہ کے لئے وہ پستی کی اس حالت سے نجات پاجائے، اگر وہ شخص کسی صنعت وحرفت سے وابستہ ہو تو اس کے لئے وہ آلات اور مشینیں خرید کر حوالہ کی جائیں جن سے وہ اپنے پیشہ پر کھڑا ہوسکے، اور خودکفیل بن سکے۔

جبکہ حنفیہ کسی فقیر کی صرف اس حد تک امداد کی اجازت دیتے ہیں جس سے فقر ومسکنت کا اطلاق اس پر باقی رہے، اس سے زیادہ دینا مکروہ ہے، اس لئے کہ اگر زکوٰة دیتے ہی وہ مالدار قرار پائے تو یہ قلب معکوس ہوجائے گا، البتہ اگر وہ مقروض ہو یا اس پر اہل وعیال کی یا دوسری مالی ذمہ داریاں ہوں تو زائد دینا بھی بلاکراہت جائز ہوگا۔ (فتح القدیر والعنایة۲/۲۸، شرح منتہی الارادات والانصاف۳/۲۲۸، المغنی۶/۶۶۵، الدسوقی ۱/۴۹۴، المجموع ۶/۱۹۴)

عاملین زکوٰة

عاملین زکوٰة سے مراد اسلامی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کارکنان ہیں جو زکوٰة کی وصولی کے سلسلے میں مامور ہوں، خواہ وہ فیلڈ ورکر ہوں یا آفس کے ملازمین۔

حنفیہ کے نزدیک تمام مدات زکوٰة میں یہ واحد مد ہے جس میں فقر واحتیاج کی شرط نہیں ہے، یعنی یہ ملازمین اور کارکنان ذاتی زندگی میں خوشحال اور مالدار بھی ہوں تب بھی زکوٰة سے اپنی محنت کے بقدر حصہ پانے کے مستحق ہوں گے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”زکوٰة کسی مالدار کے لئے جائز نہیں سوائے چند اشخاص کے جن میں ایک عامل بھی ہے“۔ (ابن ماجہ ۱/۵۹۰ مطبوعہ الحلبی بروایت حضرت ابوسعید الخدری)

اس لئے کہ عامل زکوٰة کو زکوٰة کی مد سے جو کچھ ملتا ہے وہ بطور اجرت اور معاوضہٴ عمل ملتا ہے، اور اجرت اجیر کا حق ہے خواہ اجیر شخصی طور پر کتنا ہی خوشحال اور صاحب مال ہو، البتہ حنفیہ کے نزدیک عامل کی اجرت اگر اس کی جمع کردہ زکوٰة کے نصف سے زیادہ بنتی ہو تو نصف سے زائد اجرت اس کو نہیں ملے گی۔ (فتح القدیر۲/۱۶)

شافعیہ اور حنابلہ کی رائے میں عامل سے وقت یا عمل کی تعیین کے ساتھ باقاعدہ اجرت کا معاملہ بھی کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر اس کی اجرت جمع کردہ زکوٰة کی قیمت سے متجاوز ہوجائے تو بقیہ اجرت زکوٰة کے بجائے بیت المال سے ادا کی جائے گی۔ (المجموع ۶/۱۶۸-۱۸۷، المنہاج وشرحہ حاشیة القلیوبی ۳/۱۹۶،۴۲۶)

دراصل زکوٰة وصول کرنے کی ذمہ داری امیر وقت کی ہے، مگر ظاہر ہے کہ امیر تنہا اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرسکتا، اس لئے کارکن بحال کئے جاتے ہیں اور ضابطہ کے مطابق ملازمین کو متعلقہ شعبہ کی آمدنی سے تنخواہ ادا کی جاتی ہے قرآن نے اس مصرف کو بیان کرنے کے لئے جو تعبیر اختیار کی ہے اسی سے اس کے استحقاق کی نوعیت بھی سمجھ میں آتی ہے، ”والعاملین علیہا“ یعنی اس طبقہ کو شعبہ زکوٰة سے جو کچھ ملے گا وہ ان کے عمل کی بنیاد پر ملے گا۔

۴- موٴلفة القلوب

موٴلفة القلوب سے ضعیف الایمان مسلمانوں کا طبقہ مراد ہے، جس کی دلجوئی اسلام پر اس کو جمانے اور قبول اسلام کی بنا پر پیش آنے والی پریشانیوں سے نجات دلانے کے لئے شعبہٴ زکوٰة سے اس کی مدد کی جاتی ہے اوراس طرح زکوٰة سے دوہرا نفع حاصل کیاجاتاہے، ایک طرف مستحق تک زکوٰة بھی پہنچتی ہے اور دوسری طرف اسلام کو افرادی قوت بھی حاصل ہوتی ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں باقاعدہ اس کا نظام قائم تھا اوراس سے مستفید ہونے والے افراد کی ایک فہرست تھی، امام رازی نے پندرہ اشخاص کا نام دیا ہے، جن کو حنین کے دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا تھا۔

(۱) ابوسفیان (۲) اقرع بن حابس (۳) عتبہ بن حصن (۴) حویطب بن عبدالعزی (۵) سہیل بن عمرو (۶) حارث بن ہشام (۷) سہیل بن عمرو الجہنی (۸) ابوالسنابیل (۹) حکیم بن حزام (۱۰) مالک بن عوف (۱۱) صفوان بن امیہ (۱۲) عبدالرحمن بن یربوع (۱۳) الجد بن قیس (۱۴) عمروبن مرداس (۱۵) العلاء بن الحارث۔ (تفسیر کبیر ۸/۶۸)

علامہ قرطبی نے احکام القرآن (۸/۱۱۴) میں، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر (۲/۳۴۹) میں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری (۴/۲۳۴) میں اور دیگر مفسرین اور موٴرخین نے بھی اس ذیل کے متعدد لوگوں کا ذکر کیا ہے۔

موٴلفة القلوب کی قسمیں

علماء نے لکھا ہے کہ عہد نبوی میں موٴلفة القلوب کی چھ قسمیں تھیں۔ دو قسموں کا تعلق غیرمسلموں سے تھا:

(۱)    ایسے غیرمسلم جن سے خیر کی امید ہو۔          (۲)         اورایسے غیرمسلم جن کے شر کا خوف ہو۔

اور چار قسموں کا تعلق مسلمانوں سے تھا:

(۱)    ضعیف الایمان مسلمان جن کو ایمان پر جمنے کے لئے مدد دی جاتی تھی۔

(۲)   بعض نومسلموں کی اس لئے امداد کی جاتی تاکہ دوسرے غیرمسلموں کو اسلام کی طرف آنے کی رغبت پیدا ہو۔

(۳)   سرحد پر رہنے والے بعض مسلمانوں کی امداد کی جاتی تاکہ موقع پر وہ اسلامی لشکروں کا تعاون کریں۔

(۴)   بعض مسلمانوں کی امداد اس لئے کی جاتی کہ مقامی قبائل سے صدقات کی وصولی میں اسلامی کارکنوں کی مدد کریں۔ (المغنی ۶/۴۲۷،۴۲۹، القلیوبی علی شرح المنہاج ۳/۱۹۶،۱۹۸، الاحکام السلطانیہ ۱۲۲، الدسوقی ۱/۴۹۵)

موٴلفة القلوب کے سلسلے میں دوباتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں:

(۱)    آیا موٴلفة القلوب میں غیرمسلم بھی داخل ہیں؟اور کیا زکوٰة غیرمسلم کو بھی دی جاسکتی ہے؟

(۲)   دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ موٴلفة القلوب کو زکوٰة دینے کا حکم باقی ہے یا منسوخ ہوچکا ہے؟

غیرمسلموں کو زکوٰة نہیں دی جائے گی

(۱) جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مشہور بات وہی ہے کہ عہد نبوی میں غیرمسلموں کو بھی تالیف قلب کے لئے زکوٰة سے حصہ دیاجاتا تھا، مگر علماء محققین کی رائے اس کے خلاف ہے، محققین کے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ عہدنبوی میں بھی زکوٰة صرف مسلمانوں کو دی جاتی تھی، غیرمسلموں کو زکوٰة سے نہیں بلکہ بیت المال کے دیگر مدات سے دیاجاتا تھا۔ امام رازی، علامہ قرطبی، قاضی ثناء اللہ پانی پتی اور علماء متأخرین میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب وغیرہ نے اس موضوع پر تفصیلی کلام کیاہے، اور ثابت کیا ہے کہ جن غیرمسلموں کا ذکر اس ذیل میں ملتا ہے ان کا زکوٰة سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

رازی لکھتے ہیں:

ہذہ العطایا انما کانت یوم حنین ولاتعلق لہا بالصدقات (تفسیر کبیر۸/۶۸)

ترجمہ: ”یہ عطایا حنین کے موقعہ پر دئیے گئے، مگر ان کا زکوٰة سے کوئی تعلق نہیں تھا۔“

قرطبی لکھتے ہیں:

وبالجملة فکلہم موٴمن ولم یکن فیہم کافر (۸/۱۱۴)

ترجمہ: ”خلاصہ یہ کہ یہ سب مومن تھے ان میں کوئی غیرمسلم نہیں تھا“۔

قاضی ثناء اللہ لکھتے ہیں:

لم یثبت ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعطٰی احدًا من الکفار للایلاف شیئًا من الزکوة (تفسیر مظہری۴/۲۳۴)

ترجمہ: یعنی یہ بات کسی روایت سے ثابت نہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غیرمسلم کو مال زکوٰة سے اس کی دلجوئی کے لئے حصہ دیا ہو“۔

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں:

”اس کی تائید تفسیر کشاف کی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مصارف صدقات کا بیان یہاں ان کفار ومنافقین کے جواب میں آیا ہے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات کے بارے میں اعتراض کیا کرتے تھے، کہ ہم کو صدقات نہیں دیتے، اس آیت میں مصارف صدقات کی تفصیل بیان فرمانے سے مقصد یہ ہے کہ ان کو بتلایا جائے کہ کافر کا حق مال صدقات میں نہیں ہے“۔

اگر موٴلفة القلوب میں کافر بھی داخل ہوں تو اس جواب کی ضرورت نہ تھی (پھر تفسیر مظہری کے حوالے سے لکھتے ہیں) امام بیہقی، ابن سیدالناس اور امام ابن کثیر وغیرہم سب نے یہی قرار دیا ہے کہ یہ عطا مال زکوٰة سے نہیں بلکہ خمس غنیمت سے تھی ۔ (معارف القرآن ۴/۴۰۲)

اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ موٴلفة القلوب میں غیرمسلم شامل نہیں تھے اور عہد نبوت میں بھی زکوة صرف ان نومسلموں کو دی جاتی تھی جن کی دلجوئی مقصود ہوتی تھی۔

کیا موٴلفة القلوب کا حکم باقی ہے؟

(۲) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ موٴلفة القلوب کا حکم باقی ہے یا منسوخ ہوچکا ہے؟ حنفیہ کے نزدیک چونکہ عامل کو چھوڑ کر تمام اصناف زکوٰة میں فقر واحتیاج کی شرط ہے، اس لحاظ سے موٴلفة القلوب کو منسوخ ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر اس سے مراد مالدار مسلمان ہیں تو ظاہر ہے کہ زکوٰة کی روح اور مزاج کے لحاظ سے ایسے مسلمانوں کو زکوٰة دئیے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے اس لئے کہ زکوٰة کا تمام نظام ضرورت مند مسلمانوں کے لئے ہے اور غالباً اسی معنی میں حنفیہ کی طرف سے نسخ کی نسبت کی جاتی ہے۔ ائمہ اربعہ میں تنہا امام احمد بن حنبل ہی ہیں کہ جو موٴلفة القلوب کی مذکورہ بالا چھ قسموں میں سے ہر قسم کو آج تک باقی مانتے ہیں، خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم اور مالدار ہو یا غریب، ان کے علاوہ باقی تمام ائمہ مذکورہ چھ قسموں میں سے کسی نہ کسی قسم کو ضرور منسوخ مانتے ہیں، امام شافعی کے نزدیک ان چھ قسموں میں سے آخری دو قسمیں اب بھی باقی ہیں اور باقی چار قسموں کے بارے میں ان کے یہاں دونوں طرح کے قول ملتے ہیں۔ (تفسیر قرطبی۸/۱۱۵)

حضرت امام ابوحنیفہ اورامام مالک تمام قسموں کو منسوخ مانتے ہیں (تفسیر قرطبی ۸/۱۱۵) مگر الموسوعة الفقہیہ میں حضرت امام مالک کا قول معتمد یہ نقل کیاگیاہے کہ ان کے نزدیک موٴلفة القلوب منسوخ نہیں ہے۔ (الموسوعة ۲۳/۳۱۸، الدسوقی ۱/۴۹۵)

البتہ اوپر موٴلفة القلوب کی جو حقیقت ذکر کی گئی ہے اس کی روشنی میں بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی اس کو منسوخ ماننے کی ضرورت نہیں ہے، علماء متأخرین میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی تحریر اس سلسلے میں کافی بصیرت افروز ہے:

”محققین، محدثین، اور فقہاء کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مولفة القلوب کا حصہ کسی کافر کو کسی وقت بھی نہیں دیاگیا، نہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور نہ خلفاء راشدین کے زمانہ میں اور جن غیرمسلموں کو دینا ثابت ہے، وہ صدقات وزکوٰة سے نہیں؛ بلکہ خمس غنیمت سے دیاگیا، جس سے ہر حاجتمند مسلم اور غیرمسلم کو دیا جاسکتا ہے، تو موٴلفة القلوب صرف مسلم رہ گئے اور ان میں جو فقراء ہیں، ان کا حصہ بدستور باقی ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس صورت میں رہ گیا کہ یہ لوگ غنی صاحب نصاب ہوں، تو امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک چونکہ تمام مصارف زکوٰة میں فقر و حاجتمندی شرط نہیں ہے، اس لئے وہ موٴلفة القلوب میں ایسے لوگوں کو بھی داخل کرتے ہیں جو غنی اور صاحب نصاب ہوں، امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک عاملین صدقہ کے علاوہ باقی تمام مصارف میں فقرا و حاجتمندی شرط ہے، اسلئے موٴلفة القلوب کا حصہ بھی ان کو اسی شرط کے ساتھ دیا جائے گا کہ وہ فقیر و حاجتمند ہوں، جیسے غارمین اور رقاب، ابن سبیل وغیرہ سب میں اسی شرط کے ساتھ ان کو زکوٰة دی جاتی ہے کہ وہ اس جگہ حاجتمند ہوں، گو وہ اپنے مقام میں مالدار ہوں، اس تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولفة القلوب کا حصہ ائمہ اربعہ کے نزدیک منسوخ نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بعض حضرات نے فقراء و مساکین کے علاوہ کسی دوسرے مصرف کو فقر وحاجتمندی کے ساتھ مشروط نہیں کیا، اور بعض نے یہ شرط کی ہے جن حضرات نے یہ شرط رکھی ہے وہ موٴلفة القلوب میں بھی صرف انہی لوگوں کو دیتے ہیں جو حاجتمند اور غریب ہوں۔ بہرحال یہ حصہ قائم اور باقی ہے۔ (تفسیر مظہری، تفسیر معارف القرآن،ج:۴،ص:۴۰۴)

مدات کے ذکر میں قرآن کا اسلوب بیان

قرآن کریم نے زکوة کے آٹھ مدات میں پہلے کے چار مدات کو حرف جار ”ل“ سے بیان کیا ہے للفقراء والمساکین الخ اور آخری چار مدات کو حرف ”فی“ کے ذریعہ ”وفی الرقاب الخ“

”زمخشری نے کشاف میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ یہ آخری چار مصرف بہ نسبت پہلے چار سے زیادہ مستحق ہیں۔ کیونکہ حرف ”فی“ ظرفیت کے لئے بولا جاتا ہے جس کی وجہ سے معنی یہ پیدا ہوتے ہیں کہ صدقات کو ان لوگوں کے اندر رکھ دینا چاہئے اور ان کے زیادہ مستحق ہونے کی وجہ ان کا زیادہ ضرورت مند ہونا ہے کیونکہ جو شخص کسی کا غلام ہو وہ عام فقراء کے بہ نسبت زیادہ تکلیف میں ہے۔ اسی طرح جو کسی کاقرض دار ہو اور قرض خواہ اس کے سرپر سوار ہو وہ عام غرباء و فقراء سے زیادہ تنگی میں ہوگا۔ (معارف القرآن۴/۴۰۴)

مگر میرے نزدیک اس سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ قرآن نے مدات زکوٰة کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے: ”ل“ کے ذریعہ جن چار مدات کا بیان کیا ہے، ان میں شخصیتیں بذات خود مقصود ہیں اور ذاتی طور پر وہ زکوٰة پانے کے مستحق ہیں اور فی کے ذریعہ جن چار مدات کا بیان ہے ان میں شخصیتوں کو زکوة انکی شخصی حیثیت میں نہیں بلکہ ان کو درپیش ضروریات کی بنا پر دی جائیگی، اور یہ ضرورتیں دائمی نہیں ہیں بلکہ وقتی ہیں، پھرختم ہوجائیں گی، آقاء سے غلام کا معاملہٴ کتابت ہو یا قرضوں کا بوجھ، مسافرت کی بے سروسامانی ہو یا میدان جہاد کی ضروریات ان میں سے کوئی ضرورت دائمی نہیں ہے؛ بلکہ سب وقتی حاجتیں ہیں، تو دراصل قرآن نے اس تقسیم کے ذریعہ اسی فرق کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک قسم میں شخصیت پیش نظر ہے تو دوسری میں ضرورت، ضرورت ختم ہوتے ہی یہ مستحق زکوٰة باقی نہیں رہیں گے۔

تملیک کا مسئلہ

رہا یہ مسئلہ کہ تملیک ضروری ہے یا نہیں؟ تو یہ بات خود لفظ ”ایتاء“ سے ظاہر ہے، بغیر ”تملیک“ ایتاء کی تکمیل ناممکن ہے۔

قرآن مجید میں جہاں زکوٰة کی ادائیگی کا حکم آیا ہے وہاں ”آتوا الزکاة“ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے اور کسی بھی مسئلہ میں اعتبار اس تعبیر کا ہوگا جو حکم کے وقت اختیار کی گئی ہو، سورئہ توبہ کی آیت ۶۰ (انما الصدقات الخ) میں زکوٰة کے مصارف کا بیان ہے زکوٰة کے حکم کا نہیں۔ اس لئے مصارف کے ذیل میں اختیار کردہ اسلوب مدات کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے، ادائیگی کی نوعیت کو نہیں، قرآن کریم نے دو طرح کا اسلوب بیان اختیار کرکے مدات کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، ایک میں شخصیت کو اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے میں ضروریات کی جہتوں کو، ایک میں دائمی مستحقین کو بیان کیاگیا ہے تو دوسرے میں عارضی مستحقین کو، ایک کی امداد ان کی ذاتی حیثیت کی بنا پرہے دوسرے کی ان کو درپیش اتفاقی حالات کی بنا پر۔

اس لئے تملیک کی بحث اصولی طور پر مصرف کے بیان میں نہیں آتی، اس بحث کا موقعہ وہ فرمان الٰہی ہے جہاں زکوٰة کی فرضیت کا حکم سنایاگیا ہے، اصل اس فرمان کے اسلوب اور لب ولہجہ کی اہمیت ہے اور اسی لب ولہجہ کی روشنی میں یہ طے ہوگا کہ زکوٰة کی ادائیگی میں کیا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے، آیا مستحقین کو مال زکوٰة کا بالکلیہ مالک بنادینا ضروری ہے یا بغیر مالک بنائے ان کے مفاد میں ازخود صرف کردینا کافی ہے؟

اس لحاظ سے غور کیجئے تو قرآن میں ”آتوا الزکاة“ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے اور حدیث میں امیروقت کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ

توخذ من اغنیائہم وترد علٰی فقرائہم (بخاری مع الفتح ۳/۲۶۱ مطبوعہ السلفیة)

مسلمانوں کو زکوٰة دینے کا حکم اور امیروقت کو زکوٰة لینے اور فقراء تک زکوة پہنچانے کا حکم ظاہر کرتا ہے کہ زکوٰة مال والوں کی ملک سے نکل کر مستحقین کی ملک میں داخل ہونا ضروری ہے۔

اسی لئے فقہاء حنفیہ اور شافعیہ نے ادائے زکوٰة میں تملیک کو ضروری قرار دیا ہے۔

۵- وفی الرقاب

نظام زکوة میں اس مد کے قیام کا مقصد دنیا سے غلامی کا خاتمہ تھا، غلامی میں پھنسے ہوئے لوگوں کی امداد اس نظام کے تحت کی جاتی تھی، ایسے غلام جن کے مالک طے شدہ مالی ادائیگی کے تحت ان کو آزاد کرنے پر رضامند ہوں ان کو عربوں کی اصطلاح میں مکاتب کہا جاتا تھا۔ ایسے غلاموں کو زکوٰة سے حصہ دیا جاتا تھا، تاکہ معاہدہ کے مطابق مالی ادائیگی کرکے اپنی گردن آزاد کرالیں، اس طرح اسلام نے شعبہٴ زکوٰة کو اعلیٰ انسانی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دی، اور اسلام کے انہی مساعی کی دین ہے کہ رفتہ رفتہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوا اورآج روئے زمین پر کہیں ”اصطلاحی غلامی“ کا نام و نشان نہیں ہے اس لئے اب اس مد پر گفتگو کرنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

۶- الغارمون (قرض کے بوجھ میں دبے کچلے لوگ)

جو لوگ کسی سبب سے مقروض ہوجاتے ہیں، فقہاء نے ان کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

(الف) وہ جو اپنی کسی ذاتی ضرورت کے سبب مقروض ہوجائے۔

ایسا شخص باتفاق فقہاء مستحق زکوٰة ہے مگر اس کے لئے چند شرطیں ہیں:

(۱)    مسلمان ہو۔

(۲)   آل رسول سے نہ ہو۔ (حنابلہ کے یہاں ایک قول یہ ملتا ہے کہ سید اگر مقروض ہو تو اس کو بھی زکوٰة دینا جائز ہے)

(۳)   مالکیہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ اس نے اس غرض سے قرض نہ لیا ہو کہ زکوٰة سے اس نام پر اسے حصہ مل سکے۔

(۴)   مالکیہ نے اس شرط کی بھی صراحت کی ہے کہ قرض صرف وہ معتبر ہے جس میں قیدوبند کی سزا مل سکتی ہو۔ اس لئے اس میں دَین کفارات اور دین زکوٰة داخل نہیں ہیں۔

(۵)   قرض کسی معصیت کے سبب نہ ہوا ہو، مثلاً شراب، جوا، یا بدکاری وغیرہ جیسی عادات بد کی بنا پر کوئی مقروض ہوجائے، البتہ توبہ کرلے تو زکوٰة دی جاسکتی ہے۔ شافعیہ نے فضول خرچی کو بھی معصیت ہی کے ذیل میں شمار کیا ہے۔ یہ شرط مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے لگائی ہے۔

(۶)   قرض فوری واجب الاداء ہو اس شرط کا ذکر شافعیہ کے یہاں ملتا ہے، اگر قرض فوری واجب الاداء نہ ہو بلکہ دین موٴجل ہو تو شافعیہ کے یہاں اس سلسلے میں ایک قول یہ ہے کہ اگر قرض کی ادائیگی اسی سال ضروری ہو تو اس سال کی زکوٰة سے مدد کی جائے گی، اور اگر اس سال ضروری نہ ہو تو اس سال کی زکوٰة سے حصہ نہیں ملے گا۔

(۷)   اپنے طور پر قرض کی ادائیگی پر قادر نہ ہو،اگر قرض کا کچھ حصہ ادا کرسکتا ہو تو صرف اسی قدر زکوٰة کا وہ مستحق ہوگا، جس سے کہ وہ بقیہ قرض ادا کرسکے۔ (المغنی۶/۴۳۲، فتح القدیر۲/۱۷، ابن عابدین ۲/۶۰، روضة الطالبین ۶/۳۱۸، الدسوقی ۱/۴۹۶،۴۹۷)

(ب) ایسا قرض جو مسلمانوں کے دومتحارب گروہوں، خاندانوں، فریقوں یا شخصوں کے درمیان مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ہوجائے۔

اس سلسلے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے، رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا صرف تین قسم کے اشخاص کے لئے جائز ہے، ان میں ایک وہ شخص ہے جو لوگوں کے درمیان صلح ومصالحت کے سلسلے میں زیربار ہوجائے۔ (الموسوعة الفقہیہ۲۳/۳۲۲)

حنفیہ کے نزدیک اس قسم کی انسانی خدمت انجام دینے والا شخص اگر مالدار ہو تو زکوٰة سے اس کو حصہ نہیں ملے گا، بلکہ اس قسم کے قرضوں کو وہ اپنے ذاتی مال سے ادا کرے گا، البتہ اگرمالدار نہ ہو تو زکوٰة سے اس کو ادائیگی قرض کے لئے امداد دی جائے گی۔ (فتح القدیر۲/۱۷)

شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک مالدار ہو یا غریب اس سلسلے میں ہونے والے قرضوں کی ادائیگی مال زکوٰة سے کی جائے گی، تاکہ اس عظیم انسانی خدمت کے لئے لوگ پیش پیش رہیں، فقر کی شرط لگانے پر بہت سے اچھے اچھے لوگوں کو بھی اس باب میںآ گے بڑھنے کی ہمت نہ ہوگی۔ (المغنی۶/۴۳۳، روضة الطالبین ۲/۳۱۸، المجموع ۶/۲۰۶، مغنی المحتاج ۳/۱۱۱)

مالکیہ کے یہاں اس سلسلے میں کوئی تصریح نہیں ملتی۔

(ج)  قرض کی تیسری قسم وہ ہے جو کسی کا جرمانہ یا ضمان ادا کرنے کے سبب ہوجائے، اس کو دین ضمان کہتے ہیں اس قسم کا ذکر صرف شافعیہ کے یہاں ملتا ہے، البتہ اس میں شافعیہ نے یہ قید لگائی ہے کہ ضامن اور مضمون، یعنی ضمان ادا کرنے والا شخص اور جس کا ضمان ادا کیا جانا ہو دونوں غریب اور تنگدست ہوں، ظاہر ہے کہ حنفیہ بھی اس باب میں ان کی تائید کریں گے۔(الموسوعة الفقہیہ ۲۳/۳۲۲)

* میت پر اگر قرض ہو تو جمہور کے نزدیک زکوٰة سے اس کی ادائیگی درست نہیں ہے، البتہ مالکیہ اس کی اجازت دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میت اس قسم کے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے اس لئے کہ اس کے قرض کی ادائیگی کا امکان کم ہے، شافعیہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ (روضة الطالبین ۲/۳۱۸، الزرقانی ۲/۱۷۸، المجموع ۶/۲۱۱، الموسوعة ۲۳/۳۲۳)

۷- فی سبیل اللہ

”فی سبیل اللہ“ کے لغوی معنی ہیں ”اللہ کے راستے میں“ مگریہاں لغوی معنی مراد نہیں ہے، یہ ایک خاص اصطلاح ہے، فقہاء کے یہاں اس کی تین صورتیں ملتی ہیں:

(۱)    رضاکار مجاہدین جو سرکاری ملازم نہ ہوں اوراسلامی حکومت سے ان کی تنخواہ مقرر نہ ہو؛ بلکہ محض رضائے الٰہی کے لئے جہاد پر آمادہ ہوں، ایسے مجاہدین کو باتفاق فقہاء زکوٰة دینا جائز ہے، تاکہ وہ زکوٰة کی رقم سے ہتھیار، سواری اورجنگی مصالح کی چیزیں حاصل کرسکیں۔

البتہ حنفیہ کے نزدیک شرط یہ ہے کہ وہ غریب ہوں اور بطور خود جنگی سامان حاصل نہ کرسکتے ہوں، دیگر فقہاء کے یہاں یہ شرط نہیں ہے، مالدار ہو یا غریب ہرمجاہد کے لئے زکوٰة سے جنگی اغراض کے لئے امداد لینا جائز ہے۔

اسی طرح تنخواہ دار مجاہدین کے لئے زکوٰة سے امداد لینا جائز نہیں۔ (رد المحتار ۲/۶۱، فتح القدیر ۲/۱۷، المغنی ۶/۴۳۶، الشرح الکبیر مع الدسوقی ۱/۴۹۷، المجموع ۶/۲۱۲،۲۱۳)

(۲)   جنگی مصالح کے لئے زکوٰة کا استعمال کرنا جس میں زکوٰة مجاہدین کے حوالہ نہ کی جائے۔ یہ صورت صرف مالکیہ کے نزدیک جائز ہے، دیگر فقہاء نے اس کی اجازت نہیں دی ہے، شافعیہ نے ایک صورت وقف کی نکالی ہے کہ زکوٰة سے جنگی سازوسامان خریدکر جہاد کے لئے وقف کردیا جائے، یعنی مجاہدین بعد از استعمال حکومت کو واپس کردیں یہ صورت ان کے نزدیک جائز ہے، حنابلہ اس کو بھی جائز نہیں کہتے۔

دراصل اس صورت میں تملیک نہیں پائی جاتی جو کہ بنیادی شرط ہے۔ اسی لئے مالکیہ کے علاوہ عام فقہاء نے اس کو جائز قرار نہیں دیا ہے۔ (الدسوقی والشرح الکبیر ۱/۴۹۷، المجموع ۶/۲۱۲،۲۱۳، المغنی ۶/۴۳۶،۴۳۷)

(۳)   ”حجاج کرام“: جمہور علماء (حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ) کی رائے میں حجاج کرام ”فی سبیل اللہ“ میں داخل نہیں اور حج کے اخراجات کے لئے ان کو زکوٰة دینا جائز نہیں، اس لئے کہ ”فی سبیل اللہ“ کتاب وسنت کی ایک مخصوص اصطلاح ہے اور اس سے مراد عام حالات میں صرف مجاہدین ہوتے ہیں۔

البتہ امام احمد کا ایک قول اور بعض حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ حج بھی ”فی سبیل اللہ“ میں داخل ہے، اور اس کے لئے زکوٰة استعمال کی جاسکتی ہے۔ (المغنی ۶/۷۳۸، المجموع ۶/۲۱۲، ردالمحتار۲/۶۷)

اس لئے کہ ایک روایت میں خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو ”فی سبیل اللہ“ قرار دیا ہے۔

فہَلاَّ خرجت علیہ فان الحج من سبیل اللّٰہ (ابوداؤد۲/۵۰۴، حاکم۱/۴۸۳،۴۸۴)

ترجمہ: ”تو اونٹ پر سوار ہوکر کیوں نہیں نکلی؟ حج بھی ”سبیل اللہ“ میں داخل ہے“۔

۸- ابن السبیل (مسافر)

مسافر کی دو قسمیں ہیں:

(۱) ایسا مسافر جو وطن سے باہر ہو اور وطن واپسی کے لئے اس کے پاس مال نہ ہو۔ ایسے مسافر کو باتفاق فقہاء زکوٰة دینا جائز ہے اتنی رقم کہ وہ اپنے گھر واپس ہوسکے، اس سے زیادہ دینا جائز نہیں، البتہ فقہاء نے ایسے مسافر کے لئے بعض شرطیں عائد کی ہیں:

۱- مسلمان ہو اور ہاشمی نہ ہو۔

۲- وطن واپسی کیلئے اس کے پاس کرایہ موجود نہ ہو، اگرچہ اس کے گھر میں مال موجود ہو۔

۳- مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ اس کا سفر برائے معصیت نہ ہو۔

۴- چوتھی شرط صرف مالکیہ نے لگائی ہے کہ کوئی قرض دینے والا بھی موجود نہ ہو یہ اس وقت جبکہ مسافر گھریلو طور پر مالدار ہوتاکہ اس قرض کی ادائیگی کرسکے۔

حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ جو شخص گھریلو طور پر مالدار ہو اس کے لئے زکوٰة لینے سے بہتر یہ ہے کہ اگر قرض ملنا ممکن ہو تو قرض لے لے اور وطن پہنچ کر قرض ادا کردے۔ (الفروع ۲/۶۲۵، روضة الطالبین ۲/۳۲۱، شامی۲/۶۱، الدسوقی ۱/۴۹۷،۴۹۸)

(۲)   دوسری قسم یہ ہے کہ ایک شخص سفر میں تو نہ ہو لیکن کسی ضرورت کے تحت سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو کیا زکوٰة سے اس کے لئے زاد سفر کا انتظام کیا جاسکتا ہے؟

جمہور علماء اس کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ اس شخص کا مال دوسرے مقام پر ہو اور خود اس کے پاس خرچ کے لئے مال موجود نہ ہو اور اسے مال کی سخت ضرورت ہوتو حنفیہ نے اس صورت کو ابن السبیل میں داخل کیا ہے۔ (ردالمحتار۲/۶۱،۶۲، الدسوقی ۱/۴۹۷، المجموع ۶/۲۱۵، روضة الطالبین۲/۳۲۱)

مدات کے درمیان ترتیب

یہ آٹھ مدات ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیاہے۔ زکوٰة دیتے وقت ان مدات کے درمیان ترتیب کیا ہوگی؟ اور ادائیگی کے وقت ان میں کس کو ترجیح حاصل ہوگی؟

شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک تمام مدات میں ”عامل زکوٰة“ کو اولیت حاصل ہے یعنی تقسیم کا آغاز عامل سے کیا جائے گا۔ اس لئے کہ نظام زکوٰة کا مدار اسی کی محنت پر ہے اور زکوٰة سے اسے جو کچھ ملتا ہے معاوضہٴ محنت کے طور پر ملتا ہے۔

حنفیہ اور مالکیہ واقعی حاجت کا لحاظ کرتے ہیں۔ چنانچہ حنفیہ کے نزدیک مقروض کو فقراء پر ترجیح حاصل ہوگی۔ حنفیہ اور دیگر فقہاء نے کچھ اور اسباب ترجیح کا بھی ذکر کیا ہے جو فقہ کی تفصیلی کتابوں میں موجود ہیں۔ (شامی۲/۶۱،۶۹، الشرح الکبیر۱/۴۹۸، المجموع۶/۱۸۷، المغنی۲/۶۸۹، الانصاف۳/۲۳۹)

قرآنی ترتیب کی حکمت

قرآن نے مدات زکوٰة کے بیان اوران کی ترتیب میں خاص حکمت کا لحاظ کیا ہے۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکرکیاگیا کہ قرآن نے مدات زکوٰة کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے ایک حصہ میں شخصیت کو اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے حصہ میں ضروریات کو، دونوں حصوں میں قرآن نے ترتیب میں ضرورت و استحقاق کے مدارج کا لحاظ کیا ہے۔ مثلاً پہلے حصے میں فقراء، مساکین، عاملین زکوٰة اور موٴلفة القلوب شامل ہیں۔ فقراء ومساکین ہی سے اصلاً یہ پورا شعبہٴ زکوٰة قائم ہے۔ البتہ فقر ایک فرد کی محتاجی کا نام ہے اور مسکنت ایک گھر کی محتاجی کا۔ یقینی بات ہے کہ گھر کی محتاجی کا درجہٴ حرارت فرد کی محتاجی سے زیادہ ہے۔

عاملین زکوٰة اصلاً اجیر ہوتے ہیں اوراجیرکی اجرت اور محنت کش کا معاوضہٴ محنت کسی کی بلامحنت امداد سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

موٴلفة القلوب میں ایسے افراد بھی داخل ہیں جو اسلام کی نشرواشاعت، اسلامی فوجوں کی نصرت ومعاونت کے علاوہ زکوٰة کی وصولی میں بھی مددگار ہوتے ہیں اوراس پر ان کوکوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ ایسے لوگوں کی دلجوئی کے لئے زکوٰة سے حصہ دیا جاتا ہے، تاکہ وہ مزید رغبت کے ساتھ اس میں دلچسپی لیں، اور بیت المال کا شعبہ صدقات زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوسکے ۔ اصولی طور پر بلامعاوضہ محنت کرنے والوں کی دلجوئی و حوصلہ افزائی بامعاوضہ محنت کنندگان کی محنت سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔

اس طرح دیکھئے تو قرآن نے چھوٹی ضرورت والے مصرف سے گفتگو کا آغاز کیا اور پھر درجہ بدرجہ زیادہ سے زیادہ مستحق اور قابل توجہ مدات کی طرف عروج کیا اور چوتھے مصرف پر بات پوری ہوگئی۔

اسی طرح مدات کے دوسرے حصے میں ترتیب ”فی الرقاب“ سے شروع ہوئی اور ابن السبیل پرجاکر ختم ہوگئی ہے۔

”فی الرقاب“ ایک مخصوص طبقہ کی ضرورت ہے۔ غلاموں کا طبقہ، جو آج مفقود ہے۔

”الغارمین“ مبتلائے قرض ہونا ایک عام انسانی ضرورت ہے کبھی بھی اورکوئی بھی شخص اس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

”فی سبیل اللہ“ کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے، وہ اس طرح کہ دین اورامت کا تحفظ اس سے وابستہ ہے، نیز اس میں اپنے وطن سے نکل کر سفر کی صعوبتیں اٹھانی پڑتی ہیں، ملکوں ملکوں اور جنگل جنگل کی خاک چھاننی پڑتی ہے، اپنے مقام پر رہ کر دس مصیبتیں برداشت کرنا آسان ہے کہ وہاں دلجوئی و تسلی کے ہزار سامان موجود ہوتے ہیں، مگر سفر میں دین کی خاطر تکلیفیں اٹھانا آسان بات نہیں ہے۔

ابن السبیل کا دائرہ اس سے بھی زیادہ عام ہے، کہ فی سبیل اللہ کے مسافر ایک مخصوص طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں، جبکہ ابن السبیل کے عموم میں ہر وہ مسافر داخل ہے، جو معصیت کے علاوہ کسی بھی غرض سے سفر کررہا ہو۔

اس طرح قرآن کریم نے چھوٹی سے چھوٹی، محدود سے محدود تر اور خاص سے خاص مصرف سے لے کر عام سے عام اور وسیع سے وسیع تر اغراض و مقاصد اور ضروریات کا احاطہ کیا ہے، اور چھوٹی سطح سے لے کر بڑی سطح تک اس کے دائرہ کو وسیع کیاگیا ہے۔

زکوٰة صرف بنیادی مسائل کا حل ہے

البتہ اس میں انسانی زندگی کی صرف بنیادی ضروریات اور مسائل کو پیش نظر رکھا گیا ہے جس پر زندگی کی بقا اور اس کے تشخص و امتیاز کا تحفظ موقوف ہے۔

اس نظام کے تحت انسانوں کے ترقیاتی منصوبوں اور اعلیٰ فلاحی چیزوں کو شامل نہیں کیاگیا ہے بلکہ ان کو بیت المال کے دوسرے مدات کے لئے چھوڑدیاگیا ہے نظام زکوٰة دراصل ”شعبہٴ غرباء“ ہے یعنی ایک عام انسان کو زندگی میں کن بنیادی ضرورتوں او رمسائل سے سابقہ پڑسکتا ہے، اس نظام کے تحت صرف ان کا حل ڈھونڈا گیا ہے ہم اگر ان مدات پر غور کریں گے تو یہ بات صاف طور پر محسوس ہوگی۔ مثلاً

”فقراء ومساکین“ تو اس نظام کی روح ہی ہیں اور تمامتر سرگرمیاں انسانیت کے اسی کمزور طبقہ کو مستحکم کرنے کے لئے جاری کی گئی ہیں۔ فقراء ومساکین کے بعد عاملین زکوٰة کا ذکر آیا ہے، ظاہر ہے نظام زکوٰة کا قیام انہی کی جدوجہد سے وابستہ ہے، اور زکوٰة کا سارا سرمایہ انہی کی محنتوں سے جمع ہوتا ہے، اس لئے ان کو بھی زکوٰة سے محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، کہ ان کے بغیر نہ زکوٰة کا سرمایہ فراہم ہوسکتاہے اور نہ یہ نظام جاری رہ سکتاہے۔

عاملین کے بعد ”موٴلفة القلوب“ کا ذکر ہے، یہ بھی ہمارے معاشرہ کا لازمی حصہ ہے، اگر کمزور دل اور ضعیف الخیال لوگوں کی مالی مدد نہ کی جائے تو اکثر وہ دشمنوں کی سازشوں اور فریب کاریوں کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اور اس طرح مسلمانوں کی افرادی قوت کمزور ہوسکتی ہے۔ افرادی قوت کو پختہ اور وسیع کرناایک مکمل معاشرہ کے لئے ضروری ہے، اس کے بغیر نہ اپنی حفاظت ہوسکتی ہے اور نہ دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

”موٴلفة القلوب“ کے بعد غلامی کے مسئلہ کو اہمیت دی گئی ہے اس لئے کہ انسان کی شخصی آزادی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ شخصی آزادی حاصل نہ ہو تو ذہن و فکر اور جہدوعمل کی آزادی بھی ممکن نہیں۔

”فی الرقاب“ کے بعد الغارمین کا تذکرہ ہے، قرض بھی ایک عام مجبوری اور اس کی ادائیگی ایک بنیادی ضرورت ہے، قرض کا بار ایک عام شخص کے لئے بدترین بوجھ ہے، جو ذہن وفکر اور محنت وعمل کی تمام تر صلاحیتوں کو معطل کرکے رکھ دیتا ہے۔

”الغارمین“ کے بعد ”فی سبیل اللہ“ کا ذکر ہے۔ جہاد دفاع دین کے لئے لازمی ضرورت ہے، جس قوم سے جہاد کی اسپرٹ رخصت ہوجاتی ہے، اس کی ساری آبرو بھی چلی جاتی ہے، قوم بے وزن ہوکر رہ جاتی ہے اور اندر کا ایمان بھی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔

”فی سبیل اللہ“ کے بعد آخری مد کے طور پر ”ابن السبیل“ کا بیان آیا ہے، سفر ایک عام انسانی ضرورت ہے، اس سے کسی کو چارئہ کار نہیں اور ایک عام انسان ہی سفر کی تکلیفوں کو جھیلتا ہے اوراس راہ کی بہت سی محرومیوں سے دوچار ہوتا ہے۔

زندگی خود ایک سفر ہے، جو سفر آخرت کے آغاز پر ختم ہونے والا ہے، اس طرح قرآن نے زکوٰة کے اس پورے سسٹم کو عام انسانی زندگی کی ضرورت اور مسائل سے ہم آہنگ کیا ہے۔ اس میں ملک و قوم یا انسانوں کے اعلیٰ طبقات کو اونچی ترقیات کا نہ تصور دیاگیا ہے اور نہ ان کی سطح کے مسائل ومشکلات کا حل اس سے وابستہ کیاگیا ہے۔

اس لئے آج جو لوگ اس نظام زکوٰة کے دائرہ کو وسیع کرنے کے آرزومند ہیں اور سرمایہٴ زکوٰة کو تعمیروترقی کے مختلف پروگراموں اور ملک وملت کے فلاحی منصوبوں میں لگانے کے خواہشمند ہیں، دراصل انھوں نے اس نظام کو سمجھا ہی نہیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 91 ‏، شعبان-رمضان 1428 ہجری مطابق ستمبر2007ء