سری لنکا میں تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر چھ روزہ تربیتی کیمپ

ملکی سطح پر قادیانی فتنہ کے سد باب کی کامیاب کوشش ،دو سو سے زائد مندوب و علما ء کی شرکت

۸ تا ۱۷/ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ = ۲۶/اپریل تا ۵/مئی ۲۰۰۷ء

از: شاہ عالم گورکھپوری

 

سری لنکا کاشمار ان ممالک میں ہوتاہے جن میں ایک عرصہ سے قادیانی فتنہ اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے میں مصروف ہے۔ سری لنکا کے بعض علماء کے بقول ۱۹۱۶/ میں پہلی بار قادیانیت نے سری لنکا میں قدم رکھاتھالیکن مسلسل اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود اپنے ناپاک عزائم میں تاہنوز ناکام ہے۔ البتہ اِدھر دو تین سال کے عرصہ میں قادیانی تحریک کے بیرونی پرچارکوں نے ملکی فضا خراب کرنے میں کچھ زیادہ ہی تیزی پیدا کردی ہے۔ مسلسل مسلمان نوجوانوں کو ورغلانا، دین اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بے دین بنانا، اوراپنے لیٹریچر خفیہ طور پر مسلمانوں میں تقسیم کرنا اور تبلیغ کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ہیڈ کوارٹر قادیان اور لندن کے سیر کرانا وغیرہ ان کی ریشہ دوانیوں کو دیکھتے ہوئے جمعیة علماء سری لنکا نے پہلی بار اس فتنہ کے سدباب اورمسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لئے قدم اٹھایا اور ملکی سطح پر چھ روزہ تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا۔

سری لنکا چونکہ ہندوستان کا پڑوسی ملک ہے اس مناسبت سے جمعیة علماء سری لنکا نے تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر تربیتی کیمپ کے لیے کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند سے رابطہ کیا اوراس کے لیے باضابطہ صدر کل ہند مجلس کی خدمت میں درخواست لے کر ایک وفد بھیجا جن کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں: (۱) جناب شیخ ظریف احمد صاحب نائب صدر جمعیة علماء سری لنکا، (۲) مفتی محمد رضوی صاحب قاسمی استاذ مدرسہ الرشاد العربیہ گرانفاص،(۳) جناب مولانا مفتی مفاز قاسمی صاحب استاذ مدرسہ عربیہ کولمبو۔

صدر محترم کی منظوری کے بعد راقم السطور (شاہ عالم گورکھپوری) کا سفر طے ہوا اور پروگرام کے لیے مورخہ ۲۶/اپریل تا ۵/مئی۲۰۰۷/ کی تاریخیں طے پائیں۔

پروگرام کے مطابق ۲۶/اپریل ۲۰۰۷/ بروزجمعرات ۲/بجے کے قریب راقم السطور سری لنکا کے ایئرپورٹ پراترا جہاں استقبال کے لیے محترم شیخ ظریف صاحب نائب رئیس جمعیة علماء سری لنکا، مولانا محمد الیاس صاحب کاشفی نائب شیخ الحدیث مدرسہ الرشاد العربیہ گرانفاص، مولانا مفتی محمد رضوی القاسمی وغیرہ احباب موجود تھے، عصر کی نماز کا وقت قریب تھا نماز سے فراغت کے بعد مختصر سا قیام ایئرپورٹ سے قریب ہی شہر نگمبو میں طے تھا جہاں طعام وغیرہ کا بھی نظم تھا۔ راقم سطور سری لنکا میں پہلی بار جن کا مہمان ہوا وہ تھے جناب الحاج زومی صاحب صاحبزادہ سابق امیرجماعت تبلیغ سری لنکا، موصوف نے ماشاء اللہ پرتکلف ضیافت کا نظم کیا تھا فجزاہم اللہ خیراً۔ راقم سطور وطن سے پہلی بار باہر کسی دوسرے ملک میں تبلیغ ہی کے لئے نکلا تھا اور وہاں مسکن جو ملا وہ بھی تبلیغ کا، اس عملی اور قلبی ربط باہم سے ظاہر سی بات ہے کہ باہمی انسیت جو پیداہوگی وہ پرکیف ہوگی۔

نماز مغرب کے بعد شب کا قیام کولمبو شہر میں طے تھا وقت پر راقم سطور جناب شیخ رفقان صاحب کے مکان پرپہنچا جہاں محترم جناب شیخ مفتی محمد رضوی صدر جمعیة علماء سری لنکا و رکن مجلس شوریٰ تبلیغی جماعت سری لنکا سے ملاقات ہوئی موصوف ماشاء اللہ خلیق، جید الاستعداد عالم دین اور وسیع النظر بزرگ ہیں۔ طعام وغیرہ سے فراغت کے بعد آئندہ پروگرام سے متعلق مشورہ ہوا جس میں شیخ ظریف، شیخ رفقان کے علاوہ بہت سے احباب شریک تھے۔ اگلے دن جمعہ کی نماز شیخ رضوی کے ہمراہ ان کی مسجد میں ادا کی بعد نماز شیخ رفقان کے مکان پر ہی تامل ناڈو (انڈیا) کے ہی ایک مشہور عالم دین شیخ محمد خان الباقوی سے ملاقات ہوئی اور کچھ اپنے موضوع پر تبادلہ خیالات کیاگیا۔ موصوف ماشاء اللہ تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر ایک فکرمند عالم دین ہیں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا طریقہ کار اوراب تک کی مختصراً کارکردگی سن کر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا۔ اسی دن نماز مغرب کے بعد مدرسہ دینیہ پلّی ملا باندورائے کے لیے روانگی ہوئی، گاڑی میں سفر کے رفیق جناب شیخ ظریف اور مفتی مفاز احمدقاسمی صاحب تھے، تقریباً ایک گھنٹے میں سو کیلومیٹر کافاصلہ طے کرکے عشاء کے وقت ہم مدرسہ دینیہ میں تھے۔ جہاں اساتذہ و طلبہ کے ہمراہ مدرسہ کے مہتمم جناب شیخ محمد رمضان صاحب نے وفد کا استقبال کیا۔

تربیتی کیمپ کی پہلی نشست:

مشورہ کے مطابق پورے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرکے تربیتی پروگرام رکھے گئے تھے۔ چنانچہ مدرسہ دینیہ پاندورائے میں قرب و جوار کے تمام مدارس کے نمائندے جمع تھے، جن کی کل تعداد ۸۶ تھی۔

پروگرام کا آغاز حسب اعلان صبح ۸/بجے الحمدللہ مدرسہ کے ایک طالب علم کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا، جناب شیخ جعفر صاحب مہتمم مدرسہ بریرہ نسواں کا تعارفی اورابتدائی خطاب ہوا جو مقامی زبان میں تھا۔ موصوف نے پروگرام کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ سری لنکا کی تاریخ میں یہ الحمدللہ پہلا واقعہ ہے کہ ازہرہند دارالعلوم دیوبند نے ہماری سرپرستی کرکے ایک خاص موضوع پر علمی اعتبار سے ہمیں فیضیاب و سیراب ہونے کا موقع فراہم کیا ہے جس سے پورے ملک کے مسلمانوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اورارباب مدارس و طالبان علوم دینیہ کے لئے تو یہ بے بدل زریں موقع ہے کہ ہم اپنے گھر بیٹھے دارالعلوم دیوبند کے فیض سے بواسطہ جناب مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری فیضیاب ہورہے ہیں۔ اس موقع سے ہم جس قدر دارالعلوم دیوبند کے مشکور ہوں، کم ہے۔

موصوف نے ملک میں قادیانیت کے پھیلتے ہوئے جراثیم سے بھی حاضرین مندوبین کو باخبر کیا اوراس کے بھیانک اثرات و خطرات سے بھی واقف کرایا۔

موصوف کے تعارفی خطاب کے بعد راقم سطور کو دعوت دی گئی۔ راقم نے اس پہلی نشست میں تاریخی پہلو سے قادیانیت کا اس انداز میں تعارف کرایا کہ سامعین و حاضرین پر قادیانیت کا فتنہ ہونا اورایمان و عمل کے لئے مہلک ہونا روز روشن کی طرح واضح ہوگیا جس کی تفصیلات بذریعہ ٹیپ ریکارڈ نقل کرکے کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اس نشست میں ترجمان کے فرائض جناب شیخ محمدالیاس صاحب اورجناب مفتی مفاز صاحب نے ادا کیے۔ ان احباب کو اردواور مقامی زبان پر ماشاء اللہ عبور حاصل ہے۔

تربیتی پروگرام کی دوسری نشست ۴ تا ۶/بجے شام ہوئی اسی طرح تیسری نشست بعد نماز مغرب ۷ تا ۱۱/بجے شب میں ہوئی۔ نشست مکمل ہونے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ اگلے روز اتوار میں صبح ۷/بجے چوتھی نشست کا آغاز ہوا جس میں مرزاقادیانی کے عقائد و نظریات پر بحث کی گئی۔ یہ نشست ۱۲/بجے تک چلتی رہی بعدہ نماز ظہر و طعام وغیرہ سے فراغت کے بعد عصر سے لیکر مغرب ۷/بجے تک پانچویں نشست منعقد ہوئی جو ۱۲/بجے تک چلتی رہی۔ چھٹی نشست بعد نماز ظہر ساڑھے تین بجے سے شروع ہوئی جو ساڑھے پانچ بجے تک چلتی رہی اس نشست میں راقم سطور کے مختصر بیان کے بعد مقامی کبار علماء میں سے جناب مفتی محمد رضوی صاحب اور امیرجماعت وغیرہ کے بیانات ہوئے اور تمام مندوبین کو شرکت اور کتابوں کے سیٹ وغیرہ تقسیم کیے گئے، جس کو جامعہ دینیہ نے تیار کرائے تھے۔

چھٹی نشست میں مقامی علماء کرام نے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ صحیح معنوں میں اب تک قادیانی فتنہ کی خطرناکی و زہرناکی کو اس انداز میں نہیں سمجھا گیا تھاجیسا کہ اس تربیتی پروگرام سے سمجھا گیا ہے۔ مقررین نے تربیتی پروگرام کی افادیت کا اظہار کرتے ہوئے جمعیة علماء سری لنکا اور دارالعلوم دیوبند کا بھی شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی اس طرح کا پروگرام ضرور ہوگا، انشاء اللہ۔

۳۰/اپریل بروز دو شنبہ میں راقم سطور واپس شہر کولمبو پہنچا بلکہ اتوار اور دوشنبہ کی درمیانی رات میں ہی تقریباً دس بجے مدرسہ دارالرشاد (معروف بہ مرکز مدرسہ) میں پہنچ چکا تھا۔ جہاں صبح بعد نماز فجر جامعہ کے نائب مدیر جناب مولانا ابوالحسن ندوی مدظلہ اور مدیر جناب مولانا محمد سلطان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ترجمانی کے فرائض بذات خود مفتی محمد رضوی صاحب ادا فرمارہے تھے۔ ان اکابر کے سامنے بطور خاص تعلیم، تبلیغ اور فرقہائے باطلہ کا تعاقب وغیرہ موضوع سخن رہا کہ امت کی ہدایت و رہنمائی میں ان تینوں اجزاء کی برابر کی حصہ داری ہے تینوں بغیر ایک دوسرے کے ناقص اور ادھورے ہیں۔

اسی دن مرکز تبلیغ میں بھی بندہ نے حاضری دے کر اراکین شوریٰ اور اکابر سے ملاقات کی ماشاء اللہ مدرسہ اور مرکزکی جدید طرز کی عمارتیں خوبصورتی کی ایک مثال رکھتی ہیں ظاہری خوبصورتی سے کہیں بڑھ کر باطنی خوبصورتی یعنی تعلیم و تبلیغ کا عمدہ نظام اور حسین امتزاج یہاں پایا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ الحمدللہ پورے سری لنکا میں مساجد نمازیوں سے آباد ہیں اور بدھسٹ حکومت میں بھی مسلمان دیندار اور باعمل ہیں۔

ناشتہ سے فراغت کے بعد ساڑھے نوبجے شہر نگمبو میں پروگرام تھا جہاں قادیانیوں کا ہیڈ کوارٹر واقع ہے۔ کولمبو سے نگمبو کے سفر میں جناب مولانا مفتی محمد یوسف صاحب مولانا محمد الیاس صاحب، مفتی مفاز، مفتی محمد رضوی القاسمی وغیرہ احباب ہمراہ تھے۔ ۱۰ سے ایک بجے تک نگمبو کی جامع مسجد میں شاندار پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں راقم سطور نے تربیتی انداز کے بجائے عمومی انداز میں قادیانیت کی خطرناکی سے سامعین کو باخبر کرایا جس میں ترجمانی کے فرائض جناب مولانا محمدالیاس صاحب نے ادا کیے۔ سامعین کی تعداد تقریباً ایک سو سے زائد تھی۔

اسی دن عصر کی نماز کے بعد نگمبو سے کنڈی کے لیے روانگی ہوئی اور عشاء کے وقت ہم جناب الحاج محمد رفیق صاحب اورالحاج عبدالسلام صاحب کے مہمان ہوئے اس دوران ہمارے سفر کے رفیق جناب مفتی محمد مفاز صاحب قاسمی مولانا محمد رضوی قاسمی صاحب، شیخ فہمی اور جناب مفتی محمد فاہم صاحبان تھے۔

جامعہ ستاریہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت:

یکم مئی کا نصف دن آرام اور نصف آخر سری لنکا کے معروف و مشہور ادارہ جامعہ فتاحیہ کے لئے خاص تھا حسن اتفاق کہ جامعہ ستاریہ کا سالانہ اجلاس پہلے سے طے تھا اور ناچیز کا پروگرام بھی اس سے چند کیلومیٹر کے ہی فاصلے پر تھا اس وجہ سے منتظمین جامعہ بالخصوص جناب شیخ رزان صاحب اور مفتی محمد رضوی صاحب کے اصرار پر بندہ نے بھی اجلاس میں شرکت مناسب جانا چونکہ جامعہ کے اجلاس میں بھی ملک کے بہت سارے علماء و فضلاء شریک تھے جامعہ کے اجلاس میں شرکت سے پہلی بار ایساہوا کہ اس علاقہ میں دارالعلوم دیوبند کا تعارف عوام و خواص میں ہوا، راقم نے دارالعلوم کی تاریخ اور اس کے علمی و فقہی و مسلکی کارناموں پر روشنی ڈالی اس سے سری لنکا کے بہت سے معمر علماء نے پہلی بار براہ راست دارالعلوم کے کسی خادم کی زبانی دارالعلوم کا تعارف سنا اور خوش ہوئے۔ اس اجلاس میں بطور خاص شیخ رزان مہتمم جامعہ فتاحیہ، شیخ آگار محمد مہتمم جامعہ تنظیمیہ، شیخ صلاح الدین وغیرہ علماء سے ملاقات ہوئی اور موضوع سے متعلق تبادلہٴ خیالات کا موقع ملا۔

جامعہ دارالعلوم سبیل السلام اکوولا میں قیام

یکم مئی میں ہی بعد نماز ظہر جامعہ فتاحیہ کے اجلاس سے واپس ہوکر مدرسہ بریرہ نسواں میں کچھ وقفے کیلئے حاضری ہوئی، جامعہ کے مخلص منتظم جناب شیخ جعفر صاحب اوران کی محنتوں کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ ماشاء اللہ سری لنکا میں تعلیم نسواں کا بھی معقول نظم ہے اللّٰہم فزد فزد، نماز مغرب سے کچھ قبل دارالعلوم سبیل السلام پہنچے۔ اس ادارہ کے ذمہ دار دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل جناب مولانا محمد رئیس قاسمی صاحب ہیں، مولانا موصوف کے یہاں قیام اس لئے طے کیاگیا تھا تاکہ چند مخصوص علماء کے درمیان مرزا قادیانی کی تصنیفات کا علمی انداز میں بھرپور جائزہ لیا جائے۔ الحمدللہ بعد نماز مغرب ۷/بجے پروگرام شروع ہوا جو شب ۱۰/بجے تک جاری رہا۔ اس دوران مرزا کی تصنیفات بطور خاص روحانی خزائن میں شامل کتابوں میں مرزا قادیانی کے باطل عقائد و نظریات اور اسلام مخالف مواد کو راقم سطور نے موضوع سخن بنایا چونکہ مجمع صرف اہل علم کا تھا اس لئے ماشاء اللہ علماء حضرات نے پہلی بار ایسا ہوا کہ مرزائی عقائد ونظریات کو مرزا کی کتابوں میں بچشم خود دیکھ کر، پڑھ کر جانا اور سمجھا، شب کا قیام و طعام محترم جناب الحاج مختار احمد صاحب والد گرامی مولانا رئیس احمد قاسمی صاحب کے مکان پر ہوا موصوف نے پرتکلف ضیافت کا نظم کررکھا تھا۔ فجزاہم اللہ خیرا۔

دوروزہ تربیتی کیمپ جامعہ حلیمیہ ماتلا

۲/مئی بروز چہار شنبہ سے دو یوم کا تربیتی کیمپ سری لنکا کے پہاڑی علاقہ ماتلا میں طے تھا پروگرام کے مطابق الحمدللہ ۲/مئی بدھ کی صبح ۷/بجے ہم جامعہ حلیمیہ ماتلا میں ہمراہ شیخ محمد رئیس قاسمی و مفتی محمد رضوی القاسمی پہنچ چکے تھے۔ جہاں اس علاقہ کے تقریباً ایک سو علما جمع تھے۔ اعلان کے مطابق صبح ۸/بجے تربیتی کیمپ کی پہلی نشست کا آغاز ہوا تلاوت قرآن مجید کے بعد راقم سطور نے ساڑھے آٹھ سے دس بجے تک مرزائیت اور قادیانیت کے تاریخی پہلو پر روشنی ڈالی، پھر کچھ وقفہ کے بعد ۱۰/بجے سے دوسری نشست کا آغاز ہوا جس میں راقم سطور نے مرزائی عقائد ونظریات کے موضوع پر گفتگو کی یہ نشست ساڑھے بارہ بجے اپنے اختتام کو پہنچی۔

تیسری نشست نماز عصر کے بعد ۴/بجے سے نماز مغرب ۷ بجے تک اور چوتھی نشست بعد نماز مغرب ساڑھے سات بجے سے شب ۱۲/بجے تک چلتی رہی۔ اس نشست میں علاقہ کے معروف و مشہور معمر علماء جناب مولانا محمد صالح شیخ الحدیث جامعہ حلیمیہ و مہتمم صاحب جامعہ حلیمیہ مولانا محمد حنیف صاحب کے علاوہ اہل حدیث مکتب فکر کے ایک بڑے عالم جناب شیخ مبارک بھی اپنے رفقاء کے ہمراہ شریک پروگرام تھے۔

۳/مئی بروز جمعرات صبح ۷/بجے پانچویں نشست کاآغاز ہوا۔ ۹ سے ۱۰/بجے ایک گھنٹہ وقفہ کے بعداس پروگرام کی آخری اور چھٹی نشست کا آغازہوا جس میں راقم سطور کے مختصر بیان کے بعد مندوبین شرکاء کو سند شرکت سے نوازا گیا یہاں کل مندوبین کی تعداد ۹۰ تھی جب کہ دیگر مقامی و بیرونی شرکاء کی تعداد بھی پچاس تک تھی۔ دوپہر کا کھانا شیخ میزان صاحب کے گھر طے تھا، طعام سے فراغت کے بعد موصوف کی چائے فیکٹری المیزان کا سیر کیاگیا۔ موصوف ماشاء اللہ علم دوست اور نیک مخیر لوگوں میں سے ہیں آپ کا میزان گیسٹ ہاؤس ملک کے اعلیٰ رہائش گاہوں میں شمار ہوتا ہے ان پروگراموں سے فارغ ہوکر اب واپسی شروع ہوئی الحمدللہ اس سفر میں جتنے پروگرام تھے وہ سب بحسن وخوبی اپنے اختتام کو پہنچے واپس ہوتے ہوئے راستے میں جامعہ حقانیہ دس کمرہ میں نماز مغرب ادا کی گئی، جامعہ حقانیہ ماشاء اللہ پربہار پہاڑوں کی وادی میں واقع ہے، جامعہ کے مہتمم جناب مولانا محمد ظفیر صاحب اوراس کے منتظم اعلیٰ جناب مولانا محمد حنیفہ صاحب مدظلہ کے اصرار پر بعد نماز معرب تا عشاء طلبہ میں کچھ ناصحانہ باتیں ہوئی۔ یہاں ترجمانی کے فرائض جناب مولانا مفتی محمد رضوی القاسمی نے ادا کئے ۔ شب کا قیام جامعہ میں ہی ہوا جہاں جناب مولانا مفتی محمدیوسف صاحب فاضل بنوری ٹاؤن، جناب قاری اظہر صاحب مہاراشٹری، مولانا محمد علی مظاہری وغیرہم سے ملاقات ہوئی۔ ۴/مئی بروز جمعہ قبل نماز جمعہ مسلسل چار گھنٹہ کے سفر کے بعد ہم کولمبو مدرسہ الرشاد پہنچے، سخت بارش کی وجہ سے ہمارا نظام درہم برہم تھا، آج ہی دیوبند کی واپسی طے تھی لیکن بارش کی وجہ سے اگلے روز کی فلائٹ کا ٹکٹ لیاگیا۔ بعد نماز جمعہ مفتی محمد رضوی صاحب کے ہمراہ متعدد مقامات پر از راہ ملاقات و تفریح جانا ہوا۔ شب کا قیام مفتی رضوی صاحب کے حجرہ میں رہا۔ موصوف ماشاء اللہ ایک متبحر اور کتابوں کے باذوق علما ء میں سے ہیں۔ رات بھر موصوف کے کتب خانہ سے استفادہ کیا کئی ایک نایاب کتابیں بندہ کو یہاں دستیاب ہوئی۔ ۵/مئی کی صبح ۱۰/بجے ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر ایئرپورٹ کے لئے روانگی ہوئی ، نہایت خلوص و محبت کے ساتھ مفتی محمدیوسف صاحب، مولانا محمد الیاس صاحب، مفتی محمد رضوی صاحب وغیرہم نے ایئرپورٹ پر ساڑھے گیارہ بجے الوداع کہا اور راقم سطور براستہ مدراس شب ۱۲/بجے دہلی آپہنچا۔ دعاء ہے کہ اللہ رب العزت ان جملہ پروگراموں کو قبول فرماکر اپنی رضامندی کا ذریعہ اور ہمارے لیے باعث نجات بنائے پروگرام کے منتظمین کو اللہ تعالیٰ بے حد قبول فرمائے اور پروگرام کے نیک ثمرات مرتب فرماکر قادیانیوں کو صراط مستقیم سے نوازے۔ آمین

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء