کمیونزم کی شکست کے بعد اسلام دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے

(مسزمارگریٹ تھیچر بحوالہ کلدیپ نیر) ۱۸/۷/۲۰۰۷ء

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی

۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

۹/۱۱ کے بعد سے یوں تو دنیا میں کچھ مخصوص مقامات میں وقفہ سے اسلام مسلم دشمنی کا بونڈر اٹھتا ہے۔ ان میں سے بیشتر معاملات میںآ خر میں کچھ نہیں ملتا۔ آسٹریلیا میں ڈاکٹر حنیف کی گرفتاری کو لے کر ہمارے ملکی پریس، نام نہاد دانشوران وطن پرستی کے ٹھیکیداران نے جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑاس نکالی اور جس تنظیم اور ہمہ جہتی حملہ کا شکار امت مسلمہ کو بنایا وہ ہر انصاف پسند اورانسان دوست کے لئے باعث تشویش ہے۔ ابھی جبکہ آسٹریلیا میں خود کوئی بات طے نہیں ہوپائی تھی ہمارے یہاں ساری چیزیں طے کردی گئی تھیں۔ ڈاکٹر حنیف کے دادا، ماں، باپ ہر ایک کا شجرہ بتادیا گیا اور گھر کی فوٹو کے ساتھ ”دہشت کا گڑھ“ جیسے ٹائٹل لگائے گئے اور ملّت کی ہر فکر اور متحرک تنظیم کو مختصر حوالوں سے ملامت زدہ بنایا گیا وہابی، تبلیغی، سلفی، جماعت اسلامی اور ڈاکٹر ذاکرنائک کی دعوتی تنظیم آئی، آر، ایف سبھی کو نشانہ پر لیاگیا۔ اس سے پہلے کے واقعات کی آڑ میں دیوبند، مدارس وغیرہ کو شکار کرلیاگیا تھا اِس قسط میں بقیہ ماندہ کو بھی شکار بنایاگیا۔ اور سب نے مل کر میڈیا ٹرائیل کیا۔ اسی دوران کے کچھ اور قتل وغارت گری اور ظلم و تشدد کے کچھ بین الاقوامی اور ملکی واقعات کو ملکی میڈیا اور دیش بھکتی کے ٹھیکیداروں نے اس طرح ہائی لائٹ نہیں کیا جس میں الزام مسلمانوں کے سر نہیں آتا تھا۔ مثلاً: اُسی روز ہندوستان میں ماؤوادیوں نے رائے پور کے دانتے واڑہ ضلع کے جنگل میں سیکورٹی دستوں پر حملہ کرکے سی․ آر․ پی ایف کے اسسٹنٹ کمانڈنٹ وجے کمار سمیت کئی پولیس افسر اور ۲۴ جوان ہلاک کردئیے۔ ۴۱ پولیس اہلکار لاپتہ تھے جن میں سے کچھ بعد میں واپس آگئے تھے۔ دوسرے واقعہ میں تقریباً اُسی دن بڑودہ کی ایم․ ایس یونی ورسٹی کے آرٹ ڈپارٹمنٹ کے ذمہ دار کے ساتھ ایک تقریب کے دوران ہندوتشدد پسندوں نے خوب مارپیٹ کی۔ اگر کچھ خاتون واکر اُن کی مدد نہ کرتیں تو اُن کا بچنا بھی محال تھا۔ بین الاقوامی منظرنامہ میں انہیں دنوں طبی پیشہ سے تعلق رکھنے والے یوروپی حیوانوں کی حیوانیت کی خبر آئی جس میں بتایاگیا کہ ۱۹۹۰/ کی دہائی میں لیبیا کے بن غازی شہر کے اسپتال میں اِن درندہ صفت بلغاریائی نرسوں نے ۴۲۶ لیبیائی بچوں کو دانستہ ایڈس کے وائرس انجکشن کے ذریعہ متاثر کیا تھا۔ جس میں سے بہت سے بچوں کی بعد میں موت ہوگئی تھی۔ اس مقدمہ میں پانچوں یوروپی نرسوں کو موت کی سزا لیبیا کی سپریم کورٹ نے بحال کردی تھی۔ اور اپیلوں کو خارج کردیا تھا۔ اس کے بعد انسانیت کے ہمدرد ”روشن خیال“ ”سیکولر“ فرانسیسی صدر سارکوڈی نے لیبیا کا دورہ کیا ان کے ساتھ دنیا کے سب سے ”مہذب“ ممالک کے مجموعہ ”یورپین یونین“ کے بیرونی معاملات کے کمشنر بنیٹا فریرو والڈنر بھی تھے اور اِن مجرم درندہ نرسوں کو ہوائی جہاز میں بٹھاکر بلغاریہ لے آئے۔ بدلہ میں لیبیا کے ”دہشت گرد“ مسلمان بچوں کی قیمت کے طور پر میڈیکل مدد اور کروڑوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کے آرڈر دے دئیے گئے۔ ( راشٹریہ سہارا ۲۱/۷/۲۰۰۷/ اور ٹائمس آف انڈیا ۲۵/۷/۲۰۰۷/)

۱۴/۷/۲۰۰۷/ کو خبر آئی کہ ۱۳/۷/۲۰۰۷/ کو واشنگٹن میں امریکی سینیٹ (Senate) کے افتتاح کے موقع پر اس بار روایتی طورپر عیسائی عقیدہ کے مطابق نہیں بلکہ ہندو عقیدہ کے مطابق دعاء ہوگی اس کام کے لئے ہندو پجاری راجن زید کو خصوصی طور سے بلایاگیا۔ وہ جیسے ہی ڈائس پر پہنچے عیسائی انتہا پسندوں نے جس کا تعلق مذہبی جماعت Save - America سے تھا راجن زید کے خلاف نعرہ لگائے۔ اور چلائے کہ ”یہ جھوٹی عبادت (دعاء) ہے“ اور یہ کہ ”لارڈ جیمس معاف کرے کہ ہم نے بدعقیدہ لوگوں سے دعاء کرائی“ وہ چلاتے رہے یہ قابل نفرت ہے ۔اور یہ کہ ”کوئی خدا نہیں مگر مسیح“ اور ”ایک ہی خدا سچا ہے۔“ وغیرہ۔ (ٹائمس آف انڈیا ۱۴/۷/۲۰۰۷/)

ہندونیپالی القاعدہ:

۲۱/۶/۲۰۰۷/ کو اِسی اخبار نے خبر لگائی ”ہندو قاعدہ نے نیپال میں خودکش بمباروں کو تربیت دی“ خبر میں بتایاگیا کہ ایک سابق نیپالی ہندو پولیس افسر نے ”نیپال ڈیفنس آرمی“ کے نام سے گروپ تشکیل دیا ہے۔ اس افسر نے اپنا نام پریورتن ifjorZau بتایاہے اور بتایا ہے کہ ہمارے ساتھ ۱۲۰۰ مسلح لوگ ہیں جنہیں ہر طرح کے گولہ بارود بنانے اور استعمال کرنے کی تربیت ہے۔ اور میرے اکثر ساتھی سابقہ ماؤ وادی ہیں اس لئے ہماری تربیت پوری ہے۔ ہمیں پوری دنیا کے ہندؤں سے مدد مل رہی ہے۔ ہمارے تربیتی مراکز ہند- نیپال سرحد پر واقع ہیں جہاں ہم تربیت دیتے ہیں۔ ہمیں کمیونسٹوں، مسلمانوں اور عیسائیوں سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں ہندوستان سے گولہ بارود بنانے کا سامان ملتاہے۔ ہم نے پانچ خودکش بمباروں کو تربیت دے دی ہے جو ہر جگہ جاسکتے ہیں یہاں تک کہ موجودہ حکومت کے صدر مقام ”سنگھ دربار“ تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ (ٹائمس آف انڈیا ۲۱/۶/۲۰۰۷/)

۲۷/۷/۲۰۰۷/ کی خبر ہے کہ ہندوستانی بیرونی خفیہ ایجنسی ”را“ کے سابق افسر اعلیٰ اور کیبنٹ سکریٹریٹ میں ایڈیشنل سکریٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہونے والے بی رمن نے اپنی آنے والی کتاب "The Kaoboys of RAW - Down the memory lane" میں لکھا ہے کہ ۱۹۷۱/ میں رچرڈ نکسن امریکی صدر اور پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان نے مل کر ہندوستانی پنجاب میں علیحدگی پسندگی کو سکھوں میں پھیلانے کی سازش رچی تھی۔ اس میں امریکہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مشترکہ طورپر حصہ لیاتھا۔ اس تحریک کو ایک دہائی تک پنجاب میں خوب عروج ہوا اور ۱۹۸۴/ میں شریمتی اندرا گاندھی کے قتل کے ساتھ ہی یہ تحریک ختم ہونا شروع ہوگئی۔ اِس تحریک میں برطانیہ کی سرزمین کا بھی استعمال کیاگیاتھا۔

۴/۸/۲۰۰۷/ کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات میں امریکی صدارت کے لئے ممکنہ ری پبلکن امیدوار ٹام ٹین کریڈو کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ ”ان کے خیالات میں دہشت گرد امریکہ پر حملہ کرسکتے ہیں اور امریکہ کو پیشگی کارروائی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پیشگی کارروائی کے طور پر بہتر راستہ یہ ہوگا کہ اسلامی مقامات مقدسہ پر حملہ کی جوابی دھمکی دے دی جائے۔ اورحملے کی صورت میں جوابی کارروائی بھی کی جائے“۔ ٹام کریڈو ۲۰۰۵/ میں بھی اس طرح کے (شیطانی) خیالات کا اظہار کرچکا ہے۔ (ہندوستان ایکسپریس ۴/۸/۲۰۰۷/)

کیا یعقوب قریشی نے وٹیلیکن پر حملہ کرنے کو کہا تھا؟۔ مگر میڈیا یعقوب قریشی کے پیچھے پڑگیا اور عدالت میں بھی مقدمہ درج ہے مگر ٹام ٹین کریڈو کے خلاف غلام ہندوستانی میڈیا چپ رہا۔

۱۵/۸/۲۰۰۷/ کی خبر میں بتایاگیا ہے کہ شیوسینا کے فسادیوں نے ۱۴/۸/۲۰۰۷/ کو انگریزی میگزین ”آؤٹ لک“ میں ایک مضمون کے مشمولات سے مشتعل ہوکر اس کے ممبئی آفس پر جم کر توڑ پھوڑ کی۔مگر کوئی پولیس کارروائی وغیرہ کی اطلاع نہیں ہے۔ 15/8/07. ToI

اس کے علاوہ کہاں تک یاد دلایا جائے جوکہ اعدائے اسلام کی دشمنانہ اور منافقانہ رویّہ کو ظاہر کرسکے۔ ماضی قریب میں بین الاقوامی منظرنامہ میں برطانیہ میں مقیم سابق K.G.B افسر الیگزینڈر لجوینینکو (Litvinenko) کے تابکار مادہ کے ذریعہ قتل کو جو کہ روسی سرکار کی ایماء پر کرایاگیا پر وہ تبصرہ نہیں ہوئے جو اسی طرح کے معاملات میں مسلمانوں پر ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ۱۳/۳ اور ۷/۷ کے جرائم پر بڑی بحث ہوتی ہے مگر ۱۲/۶ اور ممبئی فسادات اور کوئمبٹور فسادات میں ہسپتالوں تک میں مسلمانوں کے قتل عام اور ری کرشنا کمیشن پرحکومتوں کی بے عملی اور اِن جرائم کے مرتکبین، ان کے حمایتی پولیس اور افسران و سیاستدانوں کے رول پر کوئی بحث نہیں ہوتی۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر ان کے آمدنی کے ذرائع پر اُن کے بیرونی روابط پر کوئی گفتگو اور بحث ہمارے پریس اور میڈیا میں نہیں ہوتی۔ اِس سارے میڈیا ٹرائیل کے دوران جس میں بڑے بڑے نام نہاد دفاعی امور کے ماہرین دراصل ہتھیار لابی کے ایجنٹ اور مشہور مسلم دشمن شخصیات نے حصہ لیااس بحث میں موٹے طور پر دنیا میں تمام شر و فساد فی الارض کے لئے اسلام اور مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیاگیا اور اُس میں بھی ”وہابی اسلام“ اور ”بنیاد پرست اسلام“ کو ذمہ دار بتایاگیا۔ اور اس حوالہ سے اپنی اپنی قابلیت کے مطابق علماء سلف و خلف سب کو نشانہ پر لیاگیا بطور خاص امام ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، محمد بن عبدالوہاب، سید ابوالاعلیٰ مودودی، سید قطب شہید کو ہدف ملامت بنایاگیا۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اس معاملہ میں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جب ہمارا ملک ۱۸۵۷/ کی ۱۵۰ ویں سالگرہ منارہا تھا اور ”بغاوت“ اور ”مسلح جدوجہد“ کی بحث میں الجھاہوا تھا مگر یہ منانے والے اِس بات کو دانستہ بھول رہے ہیں کہ اُس وقت بھی وقت کے ظالموں اور فرعونوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ”وہابی“ ہی بتایا تھااور ان کی پہچان وہی بتائی تھی جو آج کا فرعون بش بلیئر اور ان کے خوشامدی بتارہے ہیں داڑھی، لمبا کرتہ، اونچا پائجامہ بتارہے ہیں۔ اس وقت بھی آج کی طرح ہی عناصر انگریز ظالموں سے ”سر“ اور ”رائے بہادر“ کے خطاب لے رہے تھے جیسے آج نوبل ، بوکر Booker ، نائٹ ہڈ اور ”لارڈ“ کے خطاب لے رہے ہیں۔ اس وقت ”وہابی“ کہلائے جانے والے پھانسیوں پر چڑھائے گئے اور آزادی کے بعد بھی انہیں پیچھے دھکیلاگیا۔ آج ایک بار پھر وہی ڈرامہ ملکی اور بین الاقوامی پس منظر میں ہوبہو دہرایا جارہا ہے۔ اس بحث کے ضمن میں کچھ نکات پر سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اگر ”وہابی“ اور ”سلفی“ اسلام ہی مسئلہ کی وجہ ہے تو دنیا بھر میں پچھلے تین سو سالوں میں جو ظلم، لوٹ مار، قتل وغارت گری یورپین اور امریکی اقوام نے مچائی ہے وہ کس کے کھاتہ میں جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ سے لے کر سید قطب تک سب نے اپنے ملک اور دین کی حفاظت کی جنگ لڑی ہے کسی دوسرے ملک پر اپنی مرضی تھوپنے کے لئے حملہ نہیں کیا۔ تاتاریوں، انگریزوں، فرانسیسیوں، ڈچ اور سوویت روس کو عراق، شام، ہندوستان، لیبیا، مصر وغیرہ جانے کی کیاضرورت تھی؟ حملہ آور یہ یورپین طاقتیں تھیں یاابن تیمیہ، عبدالوہاب اور شاہ ولی اللہ اور سید قطب رحمہم اللہ علیہ تھے۔ دوسرا اہم نکتہ ”طاقت“ یا ”تشدد“ یا ”جہاد“ کا بہت اچھالا جارہا ہے ”جہادی لٹریچر“ ”جہادی ذہنیت“ کے حوالہ سے ہر ایک کو مجرم بنادیاگیا ہے۔ دنیا کاہر انصاف پسند یہ جاننا چاہتا ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں اور اپنے ممالک میں مچائی جارہی لوٹ اور کھسوٹ کے خلاف کیا صرف اہل اسلام نے ہی طاقت کا سہارا لیا ہے؟ کیا مہابھارت، کروکشیتر، جارج واشنگٹن، ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سب میں طاقت کا استعمال نہیں کیاگیا تھا؟ کیا پہلی، دوسری جنگ عظیم کے کروڑوں انسانوں کے قتل کے لئے بھی ”وہابی“ ”جہادی“ ہی ذمہ دار تھے؟ عجیب تماشہ ہے کہ ایک طرف ہم آزادی کی ۱۵۰ ویں سالگرہ منارہے ہیں دوسری طرف انہیں طاقتوں کے حمایتی بن رہے ہیں جو ہماری غلامی کے ذمہ دار رہے ہیں۔ اورآج بھی وہ ہمیں دراصل آلہٴ کار ہی بنانا چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم بن رہے ہیں یا نہیں؟ دنیا کی انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قبائلی دور سے لے کر آج تک ہر قوم نے اپنی حفاظت کے لئے ”طاقت“ کا استعمال کیا ہے۔ یہ عجیب تماشہ ہے کہ جو یورپ اپنی حفاظت کے لئے دوش تا کمر زرہ میں ڈوبا ہوا ہے (صرف امریکہ کا دفاعی بجٹ تقریباً ۴۵۰ ارب ڈالر کا ہے جو کل دنیا کے مجموعی دفاعی بجٹ تقریباً ۸۵۰ ارب ڈالر کا نصف ہے) وہ مسلم ممالک یا سعودی عرب کو دنیا میں کشمکش کے لئے کیسے ذمہ دار گردان سکتا ہے؟ کیا آج یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا کی ہتھیاروں کی تجارت ان پانچ بڑوں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، فرانس اور روس کے ہاتھ میں ہے۔ ایرک فرام نے اپنی کتاب The Anatomy of Human Destructivenes میں لکھاہے کہ یوروپ نے۱۴۸۰سے ۱۹۴۰ کے درمیان آپس میں ۲۶۵۹ جنگیں لڑی ہیں۔P.No. (245)

اگر نشہ کی عادت اور افیون سے چھٹکارا پانے کے لئے امریکہ ہزاروں کلومیٹر دور افغانستان کی افیم کی کاشت پر پابندی لگاسکتا ہے۔ اور ”جہادی ذہنیت“ سے روکنے کے لئے صوبہ سرحد، ہند نیپال سرحد، سعودی عرب، مصر کے مدارس بند کرانے یا ان کے نصاب تبدیل کراسکتا ہے تو دنیا یہ مطالبہ کرنے میں کیوں حق بجانب نہیں ہے کہ ”جہاد“ کو عملی شکل دینے کے لئے درکار گولہ بارود، میزائل اور کیمیکل کی یوروپی اور امریکی فیکٹریاں بند کرادی جائیں؟ جس دلیل سے افیم کی کاشت پر پابندی سے یوروپ نشہ سے بچ سکتا ہے اسی طرح ہتھیار کی صنعت پر پابندی سے دنیا تشدد، اور ”جہاد“ سے نجات پاسکتی ہے۔ جدید دور کی تاریخ ہم دیکھیں تو پائیں گے کہ مسلمانوں نے بشمول ہمارے وطن ہندوستان کے کہیں بھی پہلے مرحلہ میں ہی ہتھیار یا طاقت کی بات نہیں کی۔ اسرائیل کے بنے ہوئے عرصہ گذرا مگر اصل جہاد تو ۱۹۶۴/ کے غاصبانہ قبضہ کے بعد ہی ہوا ہاں عالمی برادری کو یہ ضرور بتانا ہوگا کہ اس نے ۲۵۰ سے زائد قرار دادیں اس قبضہ کے خلاف پاس کرائیں مگر اس پر عراق اور افغانستان کی طرح ایک سال میں ”مشرقی تیمور “ کی طرح ایک سال سے بھی کم عرصہ میں کیوں عمل درآمد نہیں کرایا؟ کہا جارہا ہے کہ مسلمان ”ڈائیلاگ“ مکالمہ اور مذاکرہ نہیں کرتے حالانکہ شاید یہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ مگر کیا دھونس، اور ”داداگیری“ کے سایہ میں مذاکرات ممکن ہیں؟ آپ کہیں یروشلم اور بیت المقدس پر بات نہیں ہوگی وہ تو ہمارے ہیں باقی بات کرلو۔ رام مندر تو مسجد کی جگہ ہی بنے گا باقی مذاکرات کرلو۔ شری کرشنا کمیشن پر عمل کرنے سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگا باقی مذاکرات کرلو۔ امریکی افواج خلیج اور عراق پر مسلط رہیں گی باقی مذاکرات کرلو۔ بے حیائی، اختلاط مرد و زن، ہم جنسی، زنا، سود، جوا، شراب کی ہماری تہذیب کو نہ اپنائیں تو ڈائیلاگ مخالف بتایا جائے۔ مگر سرسے اسکاف اتروادیں، بے حیائی اور سود، شراب خوری پر مجبور کریں تو ڈائیلاگ کے حامی بتائے جائیں توحید اور دین خالص کی تبلیغ کرنے والے N.G.O کو دہشت گرد بتائیں مگر شرک اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے والی N.G.O پر شکنجہ کساجائے تو مذاکرات اور رواداری کا مخالف بتایاجائے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسلام تبلیغی دین ہے وہ دعوت، مذاکرہ، مکالمہ کے ذریعہ پھیلاہے وہ مکالمہ کے مخالفت کیسے کرسکتا ہے؟ ماضی میں اس نے کہاں مذاکرہ اور مباحثہ سے جی چرایا ہے۔ اور وہ اس سے منھ کیوں موڑے گا جبکہ دلیل کی طاقت اس کے ساتھ ہے قرآن کی دلیل اور آیات اُس کے ساتھ ہیں تو مقابلہ سے کیوں بھاگے گا؟ اصل میں مکالمہ کی بات کرنے والے خود مکالمہ سے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حقانیت پر مطمئن نہیں ہیں اور مسلمانوں کے اپنے دین و عقائد پراطمینان کو ”بنیاد پرستی“ ”انتہا پسندی“ کا لیبل لگاکر مقابلہ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ ورنہ جتنا وقت آج میڈیا اور حکومتیں اسلام کے ساتھ تصادم میں لگارہی ہیں اتنا وقت میڈیا میں کھلے دل و دماغ سے مباحثہ پر کیوں نہیں لگاتیں؟

ایک بہت بڑا الزام مسلمانوں کے بظاہر ہمدردوں کی جانب سے یہ لگایا جارہا ہے کہ مسلمان قیادت ”انتہا پسندوں“ ”دہشت گردوں“ کے خلاف کچھ نہیں کررہی ہے۔ دراصل یہ الزام اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دوسرے کے دروازہ پر ڈالنے جیساہی ہے جو یہ الزام مسلمانوں پر لگارہے ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ خود ان کا اپنا ایجنڈہ کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ سب دنیا میں اپنا ورلڈ آرڈر یا تہذیب کو سیکولرزم ، جمہوریت، حقوق نسواں، آزادی، خوشحالی کے نام پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے؟ اب اگر مسلم قوم اپنی دلائل کی بنیاد پر اس ایجنڈہ کو خلاف انسانیت سمجھتی ہے کیونکہ اس میں عدل، انصاف ،مساوات، برائیوں پر پکڑ اور بھلائیوں کا پھیلاؤ شامل نہیں ہے اور وہ اس کے بالمقابل انہیں نکات پر مبنی اپنا ایجنڈہ دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے تو طاقت، مکر، سازش اور مکر فریب کے سہارے کیوں دبایاجارہاہے؟۔ دونوں ایجنڈہ پر مکالمہ کیوں نہیں ہوتا؟ ”دہشت گردی“ کے نام پر جاری تشدد سے متعلق تمام اہم شخصیات اور تنظیمیں کیا کسی نہ کسی وقت ”دہشت گردی“ کا رونا رونے والوں کے منظورِ نظر نہیں رہی ہیں؟ اسامہ، طالبان، LTTE، فتح مجاہدین افغانستان، ISI، حماس، اخوان سب کی سب ایک وقت یا دوسرے وقت روس کی یا امریکہ کی یااسرائیل کی یا فرانس کی حمایت یافتہ نہیں تھیں؟ پھر ہندوستان میں بھی آج جو ”اسلامی دہشت گردی“ کے نام سے ہونا بتایا جارہا ہے کیا اس میں مسلم قیادت کی شہ شامل ہے یا ہمارے ان عیار ہتھیاروں کے تاجر دوست ممالک کا ہاتھ ہے؟ ”راء“ کے سابق چیف بی رمن نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ رچرڈ نکسن اور یحییٰ نے مل کر ہندوستانی پنجاب میں ISI-CIA سے سکھ دہشت گردی کی آگ برطانیہ کی مدد سے لگائی تھی۔(27/7/07 ToI) اگر ان دہشت کا کاروبار کرنے والے ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے ہیں تو یہ ایسا ورلڈ آرڈر کیوں بننے دیں گے جس میں امن ہو عدل ہو انصاف ہو غرضیکہ ہتھیاروں کی ضرورت ہی نہ ہو۔ابھی جو کچھ CIA نے ۲۵ سال گذرنے کے بعد اپنی سیاہ کرتوتوں کو Declassify کرکے منظر عام پر لائے ہیں اس کے بعد بھی کیا شبہ رہ جاتا ہے کہ دنیا بھر میں کھلے عام یا خفیہ طریقہ سے قتل، ظلم، تشدد، نفرت کاکاروبار مختلف خوبصورت ناموں سے یہی خون آشام بھیڑئیے چلارہے ہیں۔اور خون دوسروں کے منھ پر لگارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خون صاف کرکے اپنی بے گناہی ثابت کرو۔ اگر مسلم قیادت تشدد کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہی ہے تو حکومتیں کیا کم ذمہ دار ہیں؟ ماؤوادیوں کا تشدد، نارتھ ایسٹ کا تشدد، ہندو تملوں کی دہشت، اسپین کے عیسائیوں کی دہشت، سوڈان کے عیسائیوں اور نائیجیریا کے عیسائیوں کا تشدد اور دہشت کیا یہ سب مسلم قیادت کی وجہ سے رونما ہورہے ہیں؟ مسلم قیادت ملکی اور بین الاقوامی طور پر موثر ہوتی اور وہ اپنے ہم ایمان لوگوں پر ہورہے مظالم کا مداوا کرسکتی تو تشدد کیسے پھیلتا؟ اگریہ قیادت اور سیکولر حکومتیں فرقہ وارانہ فسادات، تفریق اور تعصب ، قبلہ اول سے یہودیوں کے غاصبانہ قبضہ اور بش کی آڑ میں عیسائی تنگ نظر مذہبی جنونیوں کے ایجنڈہ پر لگام لگاپاتیں تو یہ تشدد نہیں ہوتا۔ جو کہ بے بسی، ذلت اور ناانصافی کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے۔کیونکہ اس سے پہلے یہ تشدد نہیں تھا۔ آپ خود مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ڈھاتے ہیں اُن کی بستیوں کو جلاتے ہیں ان کی عورتوں کو ننگاکرکے عصمت دری کرتے ہیں اس کی ویڈیو فلمیں بناکر بانٹتے ہیں۔ ہندوتو کے علمبردار الیکشن جیتنے کے لئے نفرت آمیز کیسٹ تیار کراتے ہیں اور تقسیم کرتے ہیں اور سرکاریں چپ ہیں۔ اسی جھوٹ اور ظلم کا اثر سب پر پڑتاہے۔ ہندومسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں مسلمان اپنے آپ کو مظلوم، بے آواز سمجھتے ہیں تو مسلم قیادت کے پاس یہ سیکولر دنیا دینے کے لئے کیا چھوڑتی ہیں جسے دکھاکر وہ ان کی مایوسی اور غصہ کو دور کریں؟۔

اس بحث کے دوران سب سے خطرناک بات یہ آئی کہ ہندوستان کی حکومت اور برسراقتدار گروہ کی بڑی اکثریت مغرب کی اسلام دشمن جنگ کو ہندوستان لانا چاہتی ہے۔ ”راء“ کے سابق اعلیٰ افسر نے جو کہ کیبنٹ سکریٹریٹ میں ایڈیشنل سکریٹری بھی رہ چکے ہیں نے TOI کی ۹/۷/۲۰۰۷/ کی اشاعت میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ہندوستان میں امریکی اور اسرائیلی شہریوں یا ان کے مفادات پر حملہ کرنے سے پہلے القاعدہ برانڈ انتہاپسندوں کو پہچان کر ختم کردے۔ امریکہ اسرائیل، یوروپ کی اسلام دشمن جنگ کو مسلمان قیادت ہندوستان لارہی ہے یا وہ گروہ جو موساد اورایف بی آئی کے دفاتر ہندوستان میں کھلوارہا ہے؟۔ اگر ہندوستان کی حکومت اپنی تربیت یافتہ افواج اور ”را“ جیسے حساس اداروں کے تمام ہی لوگوں پر قابو نہیں رکھ سکتی اوران میں سے بہت سے لوگ ملک دشمنی کرتے پکڑے جاتے ہیں جیساکہ ”را“ کے ایک سابقہ اعلیٰ افسر راجندر سنگھ کی امریکہ کے لئے غداری کا معاملہ اور وارم روم کیک کا معاملہ بھی سامنے ہے تو ۲۵ کروڑ کی ملت اسلامیہ کے اکا دکا افراد کے معاملات پر ساری قوم اور دین اسلام کو مطعون کرنا خود ایک بڑا ظلم ہے۔آخری بات یہ ہے کہ اسلام دنیا کی سلامتی اور امن کے لئے ناگزیر ہے۔ اسلام کے خلاف جنگ انسانیت کے خلاف جنگ ہے۔ دنیا کو یہ سمجھانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء