حرفِ آغاز

ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ حکومت کا رویہ

حبیب الرحمن اعظمی

 

دیوانوں کا چاک گریباں، کل بھی تھا اور ․․․

ہمارا ملک ہندوستان دستوری حیثیت سے ایک جمہوری ملک ہے، جس کا دستور وآئین تمام شہریوں کے مساوی حقوق پرمبنی ہے دستور کی رو سے ملک کی قومی حکومتیں اس کی ذمہ دار اور پابند ہیں کہ وہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق بالخصوص مذہب، زبان، تہذیبی وسماجی اقدار وغیرہ کا تحفظ کریں۔

لیکن ملک میںآ باد اقلیتوں خاص طور پر سب سے بڑی اقلیت مسلم طبقہ کو ابتداء سے یہ شکایت چلی آرہی ہے کہ ان کے حقوق کے سلسلہ میں ملکی حکومتیں نہ صرف سردمہری کا معاملہ کرتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ کھلا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور جان بوجھ کر انھیں زندگی کے ہرشعبہ میں پیچھے دھکیلنے کی غیرمنصفانہ اور ناروا کوششیں کی جاتی ہیں، جبکہ ملک کی حکومتیں اس شکایت کو خلاف واقعہ کہہ کر رد کرتی رہی ہیں، اقلیتوں کی جانب سے اورحکومتوں کی طرف سے رد وانکار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا اسی پس منظر میں موجودہ حکومت نے اس شکایت کی اصلیت اور سچائی معلوم کرنے کی غرض سے سابق جسٹس راجندر سچر کی صدارت وسرکردگی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد یہ ظاہر کیاگیا کہ اگرمعلومات وتحقیقات سے یہ شکایتیں ثابت ہوگئیں تو ان کا مداویٰ کیا جائے گا۔

۹/مارچ ۲۰۰۵/ کو اس کمیٹی کے سلسلہ میں وزیراعظم کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیاگیا، اور کمیٹی کو پابند کیاگیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی کیفیات اور صورتِ حال پر مبنی رپورٹ تیار کرکے حکومت کو پیش کرے۔

کمیٹی نے ۱۷/نومبر ۲۰۰۶/ کو اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دی، سچر کمیٹی نے درج ذیل امور کو اپنی تحقیقات اور رپورٹ کا موضوع مقرر کیا تھا:

۱-     کن بلاکوں، ضلعوں، علاقوں اور ریاستوں میں مسلم اقلیت کی آبادی اچھی خاصی ہے۔

۲-    مختلف اضلاع، علاقے اور صوبہ جات میں ان کی معاشی سرگرمیوں کی کیفیت کیا ہے، اور کس طرح گذر بسر کرتے ہیں۔

۳-    ملک کے دیگر باشندوں کے بالمقابل ان کی معاشی حالت کیسی ہے؟

۴-    ان کی معاشی وسماجی سطح، نیز شرح خواندگی، شرح اموات خواتین بوقت زچگی، کمسن بچوں کی شرح اموات، ان باتوں میں دیگر ملکی لوگوں کے مقابلے میں ان کی حالت وکیفیت کیاہے؟

۵-    پبلک اور پرائیویٹ سیکٹروں کی ملازمتوں میں ان کا تناسب کیاہے؟ کیا یہ تناسب مختلف ریاستوں میں الگ الگ ہے؟ کیا یہ تناسب آبادی کی شرح کے مطابق نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تواس کا سبب کیا ہے؟

۶-     ریاست مہاراشٹر کی او،بی،سی آبادی میں مسلم سماج کا او،بی ،سی میں حصہ کس قدر ہے؟ کیا مسلم او،بی،سی کو مرکزی و ریاستی او،بی،سی کمیشن میں شامل کیاگیا ہے؟ (جس کا مقصد مرکزی وصوبائی سطح پر انھیں ریزرویشن سہولیات دینا ہے) مسلم او،بی،سی کا پبلک سیکٹر میں مرکزی وصوبائی سطح پر مختلف سالوں میں کتنا حصہ رہا ہے؟ تعلیم، حفظان صحت، بلدیہ کے ذریعہ سہولیات، بینک کریڈٹ بذریعہ حکومت، وبذریعہ نجی سیکٹر۔ ان امور میں دیگر باشندگان کے مقابلے میں مسلم سماج کا معیار وموازنہ کیاہے؟ بس اسٹاپ، ہسپتال وغیرہ مسلم آبادی والے علاقوں میں ریاستی سطح پر مہیا ومیسر ہیں یا نہیں؟

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس رپورٹ سے اقلیتوں کی شکایتوں کی نہ صرف حرف بہ حرف تصدیق ہوتی ہے؛ بلکہ اس رپورٹ سے مسلم اقلیت کی حالت زار کا جو نقشہ ابھرکر سامنے آیا ہے وہ ان شکایتوں سے بدرجہا زائد ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ کا ایک ایک پیراگراف بآواز بلند شہادت دے رہا ہے کہ ملک کی اس سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ غیرمعمولی امتیاز برتا گیا ہے اور جان بوجھ کر زندگی کی شاہراہ ترقی سے اسے دور رکھنے کی ہمہ گیر مذموم کوشش کی گئی ہے، مسلم اقلیت کی زبوں حالی کی اس داستان الم سے غالباً متاثر ہوکر ہمارے نرم دل (مگر حکومت اور پارٹی کی پالیسیوں کے حصار میں گھِرے) وزیر اعظم نے یہ اعلان کیاتھا کہ مسلم اقلیت اس کی مستحق ہے کہ اس کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں خصوصی رعایت کی جائے جس سے یہ توقع ہوچلی تھی کہ سچر کمیٹی کی سفارشات اوراس کی رپورٹ سے حاصل معلومات کی بنیاد پر ملک کی اس سب سے بڑی اقلیت کے دستوری وقانونی حقوق سے اسے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا جائے گا اوراس کی راہ سے تعصب، فرقہ پرستی اور ظلم وزیادتی کی حائل رکاوٹیں دور کیے جانے کی موٴثر منصفانہ اقدامات کئے جائیں گے؛ مگر حکومت کے اب تک کے رویہ سے یہی ظاہر ہورہا ہے دیگر کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپورٹوں کا جو حشر ہوا ہے سچرکمیٹی کی رپورٹ کا بھی وحی حشر ہوگا۔ اے بسا آرزو کی خاک شدہ

سچرکمیٹی کی رپورٹ آئے ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے؛ مگر حکومت دم سادھے بیٹھی ہے، اور اس سلسلے میں اسکی جانب سے کوئی ایسا سنجیدہ اقدام دیکھنے میں نہیں آرہا ہے جس سے نصف صدی سے دبی کچلی اقلیت راحت کا سانس لے سکے، ان حالات میں کانگریس پارٹی کی گذشتہ سے پیوستہ ہفتہ منعقدہ ورکنگ کمیٹی کی وہ تجویز جس میں مسلم اقلیت کے سلسلے میں حکومت کے اقدامات کی تعریف و تحسین کی گئی ہے نہ صرف قابل حیرت ہے بلکہ زخم پر نمک چھڑکنے کے مرادف ہے۔

ملک کی اس سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ حکومت کا موجودہ رویہ اور ملک کی سب سے قدیم ، عظیم سیکولر سیاسی پارٹی کانگریس کی جانب سے اس کی تحسین و ستائش، اس بات کا صاف اشارہ ہے کہ مسلم اقلیت حکومت اور سیاسی پارٹیوں سے اب تک کی اپنی توقع اور امید کو ختم کرلے، یہاں سے اسے کچھ ملنے والا نہیں ہے، اور خوداعتمادی کے ساتھ آپ اپنی خدمت کرو کے اصول پر اپنی جدوجہد کو تیزکردیں، یہ ایک خوش آیند صورت حال ہے کہ ہزار رکاوٹوں اور ظلم وتشدد کے بے پناہ طوفانوں میں گھِری قوم مسلم آزادی کے بعد سے گھسٹتے ہی سہی زندگی کے میدان میں آگے بڑھی ہے، ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے، ہم انشاء اللہ آگے ہی بڑھیں گے، ظلم وناانصافی کی یہ خلیج کچھ دشواریاں تو پیدا کرسکتی ہیں؛ مگر ہمارے راستے کو روک نہیں سکتی۔ ”ہمت مرداں مددخدا“

جوانو یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے                 $            چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 91 ‏،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء