غیرمسلم ملکوں میں قیام و سکونت کی شرعی حیثیت

از: مولانا اختر امام عادل

 

موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد غیرمسلم ملکوں میںآ باد ہے، صرف ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صحیح اعداد و شمار کے مطابق قریب ۳۰/ کروڑ سے کم نہیں ہے، جو اس وقت دنیا کے کسی ایک ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

چین میں پندرہ کروڑ،متحدہ روس میں دو کروڑ، یورپ میں ایک کروڑ اسی لاکھ، امریکہ میں اسّی لاکھ مسلمان آباد ہیں، اسی طرح افریقی ملکوں مثلاً تنزانیا، اوگنڈا، کینیا اورجنوبی افریقہ اور ایشیائی ملکوں میں سنگاپور، سری لنکا، نیپال وغیرہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہے۔

غیرمسلم ملکوں کے مسائل میں شرعی طور پر سب سے پہلا سوال ان ملکوں میں قیام و سکونت کی شرعی حیثیت کااٹھتا ہے، کہ مسلمانوں کے لیئے غیراسلامی ملکوں میں قیام کرنا اور وہاں آباد ہونا شرعی طورپر کیسا ہے؟ مسلم ملکوں کے ان مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ کافی اہمیت کاحامل ہے،جو اپنا وطن چھوڑ کر غیرمسلم ملکوں میں منتقل ہوچکے ہیں، اور دوبارہ لوٹنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کیا اسلامی نظام چھوڑ کر غیراسلامی نظام میں پناہ ڈھونڈھنا اور مسلم حکمرانوں کے دائرہ اطاعت سے نکل کر غیرمسلم حکمرانوں کی بالادستی قبول کرنا جائز ہے؟

یہ سوال انتہائی قدیم ہے۔ ائمہ اربعہ کے دور میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے، البتہ حالات کے فرق سے اب مسئلہ کی وہ حساسیت باقی نہیں رہی، جو پہلے سمجھی جاتی تھی۔

مسئلہ کی دو بنیادیں:

اس مسئلہ کا حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے دو بنیادوں پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔

(۱) جس غیرمسلم ملک میں کوئی مسلمان قیام پذیر ہے یا قیام کرنا چاہتا ہے قانونی اور سیاسی طور پر ایک مومن کے لیے وہاں کی صورتِ حال کیا ہے؟ صورتِ حال کے فرق سے حکم میں فرق آئیگا۔

(۲)   وہاں قیام کا سبب اور محرک کیاہے؟ سبب کے اختلاف اورمحرکات کے فرق سے بھی حکم میں فرق پیدا ہوگا۔

غیرمسلم ملکوں کی قسمیں:

فقہاء نے سب سے زیادہ جس چیز کو اہمیت دی ہے، وہ پہلی بات ہے، فقہاء نے غیرمسلم ملکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، اور ان تینوں کے جداگانہ احکام بیان کیے ہیں، کتب فقہ میں اس سلسلے میں بڑی تفصیل ملتی ہے، ہم یہاں اس ذیل میں ہونے والی بحثوں کا صرف خلاصہ پیش کرتے ہیں:

(۱) پہلی قسم ان غیرممالک کی ہے جہاں بحیثیت مسلمان کسی شخص کا قیام سخت مشکل ہو، جہاں اپنے اور اپنی نسلوں کے دین و ایمان یاجان و مال یا عزت و آبرو کو شدید خطرات درپیش ہوں، دین و ایمان اور نسلوں کے تحفظ کی کوئی ضمانت وہاں موجود نہ ہو۔ مذہبی آزادی نہ ہو، دین پر قائم رہ کر وہاں رہنا ممکن نہ ہو، جو عہد اول میں ہجرت مدینہ سے قبل کی صورت حال تھی، ایسے ملکوں میں جانا یا وہاں قیام کرنا باتفاق فقہاء کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں؛ بلکہ جو لوگ وہاں پہلے سے آباد ہوں اور وہ کسی مسلم یا پرامن ملک کی طرف ہجرت کرنے کی قدرت رکھتے ہوں تو ان پر فرض ہے کہ وہاں سے ہجرت کرجائیں۔

(حوالہ کے لیے درج ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں: احکام القرآن للجصاص: ج۳، ص: ۲۲۸، مغنی المحتاج للشربینی، ج:۶، ص: ۵۴، الاُمُّ للشافعی، ج:۲، ص: ۱۶۹، الحاوی الکبیر للماوردی،ج:۱۸، ص: ۳۱۱، روضة الطالبین للنووی، ج:۷، ص: ۴۷۴، کشاف القناع للبہوتی، ج:۳، ص: ۴۳، الانصاف للمرادوی، ج:۴، ص: ۱۲۱، البحر الذخار لابن المرتضی، ج:۶، ص: ۲۶۶، نیل الاوطار للشوکانی ․․․․ شرح النیل وشفاء العلیل لاطفیش، ج:۷، ص: ۵۵۱، المحلی لابن حزم، ج:۱۱، ص: ۲۰۰، المدونة الکبری للامام مالک، ج:۵، ص: ۱۵۶۵، مقدمات ابن رشد مع المدونة الکبریٰ، ج:۹، ص: ۳۱۵۹)

البتہ شافعیہ نے اس حکم سے ان مسلمانوں کا استثناء کیاہے جن کے وہاں قیام میں مسلمانوں کی کوئی مصلحت مضمر ہو اور ذاتی طورپر وہ لوگ ایمان کی حفاظت کے ساتھ غیرمسلموں کی طرف سے پیش آنے والے خطرات اور اذیتوں کا مقابلہ کرسکتے ہوں، ایسے حضرات کے لیے مسلم ملکوں کے بجائے غیرمسلم ملکوں میں قیام کرنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہے۔(مغنی المحتاج للشربینی، ج۶ ص ۵۴، الحاوی للماوردی ج ۱۸ ص۱۱۱، تحفة المحتاج للہیثمی ج۴ ص ۲۱۱)

اس کا ماخذ دراصل یہ آیت کریمہ ہے:

ان الذین توفاہم الملائکة ظالمی انفسہم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللّٰہ واسعة فتہاجروا فیہا فاولئک ماواہم جہنم وسائت مصیرا (سورہٴ نساء: ۷۹)

ترجمہ: بے شک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کررکھا ہے (جب) فرشتہ قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے، وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتے کہیں گے کہ اللہ کی سرزمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ تو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے،اور وہ بری جگہ ہے۔“ (ترجمہ ماجدی)

اس آیت کریمہ میں ایسی سرزمین پراقامت اختیار کرنے کو ظلم اور بدترین گناہ قرار دیاگیا ہے جہاں انسان اپنے دین و ایمان کی حفاظت نہ کرسکے، بشرطیکہ انسان وہاں سے نکلنے اورکسی مناسب مقام پر قیام کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ (الکشاف للزمخشری ج۱ ص ۵۵۵)

پھر ایسے ملک میں جانے اور قیام کرنے کا کیا جوازہوسکتا ہے۔

(۲)   دوسری قسم ان غیراسلامی ممالک کی ہے، جہاں کھل کر دین پر عمل کرنے کی آزادی نہ ہو، مسلمان وہاں کمزور اقلیت کی زندگی گذاررہے ہوں، جہاں جان ومال اور عزت و آبرو پہ خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہوں، مگر مسلمانوں کے لیے کوئی دوسری جائے ہجرت نہ ہو، یا ہجرت کے اخراجات کے متحمل نہ ہوں، اوراس طرح وہ وہاں رہنے پر مجبور ہوں، ایسے مسلمانوں پر باتفاق فقہاء ہجرت واجب نہیں ہے۔ اور ان ملکوں میں اقامت ان کے لیے باعث گناہ نہیں ہے۔

(احکام القرآن للجصاص ج۳ ص ۲۲۸، فتح العلی المالک لوملیش ج۷ ص ۳۷۵-۳۷۶، مغنی المحتاج للشربینی ج۴ ص ۳۳۹، الحاوی الکبیر للماوردی ج۱۸ ص ۱۱۱، کشاف القناع للبہوتی ج۳ ص ۴۴، المحلی لابن حزم ج۱۱ ص ۲۰۰، البحرالزخار لابن المرتضی ج۶ ص ۴۶۹، شرح الازہار لابن المفتاح ج۴ ص ۵۷۵)

اس حکم کا ماخذ بھی مذکورہ بالا آیت کریمہ کا اگلا ٹکڑا ہے۔

الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان لایستطیعون حیلة ولایہتدون سبیلا فَأولئک عسی اللّٰہ ان یعفوعنہم وکان اللّٰہ عفوا غفورا (النساء: ۹۸-۹۹)

ترجمہ: بجز ان لوگوں کے جو مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے کمزور ہوں (کہ) نہ کوئی تدبیر ہی کرسکتے ہوں، اورنہ کوئی راہ پاتے ہوں، تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کردے گا اوراللہ تو ہے ہی بڑا معاف کرنے والا، بڑابخشنے والا۔ (ترجمہ ماجدی)

اس آیت میں کمزور اورمجبور لوگوں کو حکم ہجرت سے مستثنیٰ کیاگیاہے، مگر یہ حکم اس وقت ہے جب تک ان کے لیے ہجرت کی کوئی سبیل نہیں بن جاتی۔

(۳) تیسری قسم ان غیر اسلامی ممالک کی ہے، جہاں مسلمانوں کے لیے بحیثیت ایک اقلیت کوئی خطرہ نہ ہو، مذہبی آزادی حاصل ہو، اپنے یا اپنی نسلوں کے دین و ایمان کو مکمل تحفظ فراہم ہو، ایسے ملکوں میں اقامت اختیار کرنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتاہے۔

(۱) ایک رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایسے ملکوں میں جانا یا رہنا بھی جائز نہیں۔ اگر قدرت میسر ہو تو مقیم مسلمانوں کے لیے وہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے، یہ رائے فقہاء مالکیہ کی ہے،اور شافعیہ کا ایک قول بھی اسی کے مطابق ملتا ہے۔ (المدونة الکبری للامام مالک ج۵ ص ۱۵۶۵، مقدمات ابن رشد مع المدونة الکبری ج۹ ص ۳۱۵۹)

مالکیہ کے نزدیک علی الاطلاق غیراسلامی ملکوں میں قیام کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہاں دین پر عمل کرنے کی قدرت میسر ہو یا نہ ہو۔

(۲) دوسری رائے یہ ہے کہ ایسے ملکوں میں قیام کرنا درست ہے،اورمقیم مسلمانوں کے لیے وہاں سے ہجرت کرنا واجب نہیں،یہ رائے حنفیہ اورحنابلہ کی ہے، اور شافعیہ کا صحیح مسلک بھی یہی ہے۔ (احکام القرآن للجصاص ج۲ ص ۳۰۵، اعلاء السنن للتہانوی ج۱۲ ص ۳۶۱، کشاف القناع للبہوتی ج۳ ص ۴۴، فتاوی ابن تیمیہ ج۴ ص ۲۸۰، روضة الطالبین للنووی ج۷ ص ۴۷۴، مغنی المحتاج للشربینی ج۶ ص ۵۴)

قائلین عدم جواز کے دلائل:

 جو فقہاء ان ملکوں میں قیام کو جائز قرار نہیں دیتے ان کے پیش نظر درج ذیل بنیادیں ہیں: (۱) حضرت معاویہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لاتنقطع الہجرة حتی تنقطع التوبة ولاتنقطع التوبة حتی تطلع الشمس من مغربہا (ابوداوٴد کتاب الجہاد، باب فی الہجرة ہل انقطعت حدیث (۲۴۶۲) الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن جنبل ج۲۰ ص ۲۹۶)

ترجمہ: ہجرت اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک کہ توبہ کا دروازہ بند نہ ہو، اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔

حضرت عبداللہ السعدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لاتنقطع الہجرة ماقوتل الکفار وفی روایة، لا تنقطع الہجرة مادام العدو یقاتل (السنن الکبری للبیہقی، کتاب السیر باب الرخصة فی الاقامة بدارالشرک لمن لا یخاف الفتنة ج۹ ص ۱۸، الفتح الربانی لترتیب مسند امام احمد بن حنبل ج۲۰ ص ۲۹۵، نسائی، کتاب البیعة، باب ذکر الاختلاف فی انقطاع الہجرة، رقم ۴۱۸۳-۴۱۸۴)

ترجمہ: ہجرت اس وقت تک بند نہ ہوگی جب تک کفار سے جہاد کا سلسلہ جاری ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا عمل تاقیام قیامت جاری رہے گا، اور ظاہر ہے کہ اس حکم کے مخاطب غیراسلامی ملکوں کے مقیم مسلمان ہی ہیں، اس لیے ان تمام پر لازم ہے وہ کسی بھی غیراسلامی ملک میں اقامت اختیار نہ کریں،اور فریضہٴ ہجرت پر عمل کرتے ہوئے، غیر اسلامی ملکوں سے نقل مکانی کرلیں، اس سے قدرتی طور پر یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب غیراسلامی ملکوں میں مقیم مسلمانوں کو ان ملکوں کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جارہا ہے، تو مسلم ملکوں سے منتقل ہوکر وہاں جانے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟

ان روایات پر سند اوراستدلال دونوں لحاظ سے کلام کیاگیا ہے، حضرت معاویہ کی روایت سند کے اعتبار سے متکلم فیہ ہے۔

(عون المعبود لشمس الحق عظیم آبادی ج۷ ص ۱۵۶، نیل الاوطار للشوکانی ج۸ ص ۲۶)

اس روایت کی سند میں ابوہند البجلی ہیں ان کو ابن القطان نے مجہول قرار دیا ہے۔ (تہذیب التہذیب، ج:۱۰، ص: ۲۹۹)

ایک دوسرے راوی عبدالرحمن بن ابی عوف کو بھی ابن القطان نے مجہول کہاہے۔ (تہذیب التہذیب لابن حجر، ج:۵، ص:۱۵۴)

اسی طرح عبداللہ السعدی کی روایت میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، امام نسائی نے ان کو ضعیف کہا، ابن حبان نے کہا کہ حدیث میں بہت غلطیاں کرتے ہیں، اس طرح بقول محدث ابن خزیمہ روایت قابل استدلال نہیں رہی۔ (میزان الاعتدال للذہبی ج۱ ص ۲۴۱-۲۴۴)

اوراگر روایات صحیح اورلائق استدلال بھی ہوں تو بھی ان کا محمل وہ ممالک بن سکتے ہیں، جہاں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے، جہاں دین وایمان، جان ومال اور عزت و آبرو کو شدید خطرات لاحق ہوں، مسلمان وہاں سے ہجرت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اورکسی اسلامی ملک نے ان کے لیے اپنے دروازے کھول دئیے ہوں، ان احادیث کو علی الاطلاق تمام غیراسلامی ملکوں پرمنطبق نہیں کیا جاسکتا ہے،اس لیے کہ غیراسلامی ملکوں میں قیام کی اجازت کی روایات بھی موجود ہیں۔ (سبیل السلام للصنعانی ج۴ ص۸۶، تحفة الاحوذی للمبارکفوری ج۵ ص ۲۱۵)

دوسرا استدلال:

دوسرا استدلال ان روایات سے کیاگیا ہے، جن میں مشرکین کی آبادیوں کے درمیان مسلمانوں کو اقامت کرنے سے منع کیاگیا ہے، اور ان سے دور رہنے کا حکم دیاگیاہے، حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

انا بریٴ من کل مسلم یقیم بین اظہر المشرکین قالوا یارسول اللّٰہ ولم؟ قال لاتراء ی نارا ہما

(ترمذی کتاب السیر، باب ماجاء فی کرہیة المقام بین اظہر المشرکین، حدیث ۱۶۵۴، ابوداوٴد، کتاب الجہاد، باب النہی عن القتل من اعتصم بالسجود حدیث ۲۶۲۸، نسائی، کتاب القسامة، باب القود بغیر حدید مرسل، حدیث ۴۷۹۴)

ترجمہ: میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں جومشرکین کے درمیان رہتا ہو، لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دونوں اتنی دور رہیں کہ ان میں سے کوئی دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکے۔

حضرت سمرہ بن جندب کی روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لاتساکنوا المشرکین ولاتجامعوہم فمن ساکنہم اوجامعہم فہو مثلہم

(السنن الکبری للبیہقی، کتاب السیر، باب الرخصة فی الاقامة بدارالشرک لمن لایخاف الفتنة ج۹ ص ۱۸، جامع الترمذی مع شرح تحفة الاحوذی ج۵ ص ۲۳۰)

وفی روایة: من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ (ابوداوٴد، کتاب الجہاد، باب فی الاقامة بارض الشرک، حدیث ۲۷۷۰)

ترجمہ: مشرکوں کے ساتھ نہ رہو اور نہ ان کے ساتھ اکٹھے ہو، جو ان کے ساتھ رہے گا یا اکٹھے ہوگا وہ انہی کی طرح سمجھاجائے گا۔

ان روایات سے صراحتاً غیرمسلموں کے درمیان سکونت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ یہ روایات بھی کلام سے خالی نہیں ہیں، مثلاً حضرت جریر بن عبداللہ کی حدیث مرسل ہے یا متصل؟ اس میں محدثین کے درمیان اختلاف ہوا ہے، اورامام بخاری، امام ترمذی اور امام ابوداؤد وغیرہ نے اس کے ارسال والی بات کو ترجیح دی ہے۔ (تحفة الاحوذی شرح الترمذی ج۵ ص ۲۳۰)

دوسرے اس کی سند میں ایک راوی ابومعاویہ الضریر ہیں، ان کانام محمد بن خازم التمیمی ہے، ابن خراش اور عبداللہ بن احمد کی رائے ان کے بارے میں یہ ہے کہ وہ صرف اعمش کی روایات کی حد تک قابل اعتبار ہیں، باقی روایات میں ان کے حافظہ پر اعتماد نہیں ہے۔

(میزان الاعتدال للذہبی ج۴ ص ۵۷۵، تہذیب التہذیب لابن حجر ج۷ ص ۱۲۷)

رہی حضرت سمرة بن جندب والی روایت تو اس کے دونوں طرق ضعیف ہیں، پہلے طریق کی سند میں ایک راوی اسحاق بن ادریس ہیں جن کو متعدد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، بلکہ یحییٰ بن معین نے ان کو کذاب اور حدیث گھڑنے والا کہا ہے، دارقطنی نے ان کو منکرالحدیث،اور نسائی نے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال للذہبی ج۱ ص ۱۸۴، المجموع فی الضعفاء والمتروکین لعبدالعزیز السیروان ص ۲۸۳)

دوسرے طریق کی سند کے بارے میں ذہبی کا خیال ہے کہ لائق استدلال نہیں ہے۔ (نیل الاوطار للشوکانی ج۸ ص ۲۵)

اس لیے کہ سند میں ایک راوی سلیمان بن موسیٰ ابوداؤد متکلم فیہ راوی ہیں، ان کے بارے میں نسائی کہتے ہیں کہ حدیث میں مضبوط نہیں ہیں، ابن حجر کہتے ہیں کہ ”فیہ لین“ ان میں کچھ نرمی ہے، بخاری کہتے ہیں ”لہ مناکیر“ کہ یہ منکر روایات بھی نقل کرتے ہیں۔(عون المعبود شمس الحق عظیم آبادی ج۷ ص ۴۷۷، المجموع فی الضعفاء والمتروکین ص ۱۱۶-۴۴۲)

اور اگر یہ روایات درست بھی ہوں تو بھی ان کا اطلاق عموم کے ساتھ غیراسلامی ملکوں پر نہیں ہوسکتا، بلکہ ان کا مصداق صرف وہ ممالک قرار دئیے جائیں گے جہاں مسلمانوں کے لیے دین پر آزادانہ عمل کی راہ میں مشکلات ہوں،اورہجرت کے سوا اسلامی زندگی گذارنے کی کوئی صورت موجود نہ ہو، ․․․․․․․ اوراگر اس روایت کو اس کے پس منظر کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو بات بہت زیادہ صاف ہوجاتی ہے، یہ حدیث جس پس منظر میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ یہ تھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ قبیلہ بنو خثعم کی طرف بھیجا تو کچھ لوگوں نے سجدوں کی ڈھال اختیار کرلی یعنی سجدے میں چلے گئے تاکہ مجاہدین ان کو مسلمان جان کر قتل نہ کریں، مگر مجاہدین کی تلوار سے وہ حضرات محفوظ نہ رہ سکے، جب کہ فی الواقع وہ مسلمان تھے، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبر ملی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے نصف دیت کا حکم جاری فرمایا، اور یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ میں ہرایسے مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہائش پذیر ہو۔ (جامع الترمذی مع تحفة الاحوذی ج۵ ص ۲۲۹)

عقلی استدلال:

ایک عقلی دلیل یہ دی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کے غیراسلامی ملک میں جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خود اپنے آپ کو اسلامی قوانین کے سایہ سے نکال کر غیراسلامی قوانین کے لیے پیش کررہا ہے، ظاہر ہے کہ کسی صاحب ایمان کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ (مقدمات ابن رشد مع المدونة الکبری ج۹ ص ۳۱۵۹، المدونة الکبری للامام مالک ج۵ ص ۱۵۶۵)

مگر اس دلیل کی معنویت آج کے دور میں باقی نہیں رہی، اس لیے کہ تمام اقوام و ممالک نے اپنے اپنے دستور میں مذہبی آزادی کا اصول تسلیم کرلیا ہے، اور ہر ملک میں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے، اس لیے آج کے حالات میں کسی غیراسلامی ملک کے زیر اثر زیادہ سے زیادہ جن مسائل میں کسی مسلمان کے متأثر ہونے کا امکان ہے وہ اقتصادی مسائل ہیں مگر ان کا بڑا حصہ قانون اسلامی سے متصادم نہیں ہے، بلکہ بڑی حدتک اسلامی قوانین سے ہم آہنگ ہے۔

بلکہ آج کا تجربہ تو یہ ہے کہ غیراسلامی ملکوں کے مسلمان جس صلابت اور شدت کے ساتھ دین پر قائم ہیں، اسلامی ملکوں کے بیشتر مسلمان اس معیار پر نہیں اترتے، وہ دین کو پوری محبت کے ساتھ سینہ سے لگائے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ ہم سے چھوٹ نہ جائے، جب کہ اسلامی ملکوں کے اکثر مسلمان محض روایتی طور پر دین پر قائم ہیں۔

قائلین جواز کے دلائل

جمہور فقہاء جوازکی رائے رکھتے ہیں، اوراس کیلئے ان کے پیش نظر بعض اہم بنیادیں ہیں:

(۱) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز ارشاد فرمایا:

لاہجرة ولکن جہاد ونیة واذا استُنفرتم فانفروا (بخاری، کتاب الجہاد، باب لاہجرة بعد الفتح ج۱ ص ۴۳۳، حدیث ۳۰۷۷ المسلم، کتاب الامارة باب المبایعة بعد فتح مکة علی الاسلام والجہاد، حدیث ۴۸۰۳)

ترجمہ: اب ہجرت کا حکم باقی نہیں البتہ جہاد اور نیت باقی ہے، جب تم کو جہاد کے لیے بلایا جائے تو جہاد کے لیے نکلو۔

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب پورے علاقہٴ عرب میں امن قائم ہوگیا، اورمسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی تو ہجرت مدینہ کا حکم منسوخ کردیاگیا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ حکم صرف مکہ مکرمہ ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کو ان کے اسلامی امور کی بجا آوری میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اس میں داخل ہے۔ (فتح الباری، شرح بخاری ج۶ ص ۲۳۳-۲۳۴)

علامہ خطابی اور شوکانی کابیان ہے کہ ابتداء اسلام میں چونکہ مسلمان تعداد میں کم اور منتشر تھے،اس لیے ضرورت تھی کہ ان کو کسی ایک مقام پرجمع کیا جائے،اس وقتی مصلحت کے پیش نظر ہجرت مدینہ کا حکم عبوری طور پر دیا گیا، لیکن جب مسلمان تعداد میں بڑھ گئے اور ان کی قوت بھی کافی حدتک مستحکم ہوگئی،جس کا علامتی مظاہرہ فتح مکہ کی صورت میں ہوا، تو ہجرت مدینہ کا یہ حکم اٹھالیاگیا۔ (معالم السنن للخطابی ج۲ ص ۲۰۳، نیل الاوطار للشوکانی ج۸ ص ۲۶)

(۲) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے قبل بعض صحابہ کو مکہ میں رہنے کی اجازت دی جب کہ مکہ ، فتح مکہ سے قبل دارالکفر تھا، مثلاً اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کو حضور نے مکہ میں رہنے کی اجازت دی، اسلئے کہ ان کے بارے میں دینی فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہیں تھا۔ اور ذاتی وجاہت اور خاندانی اثر و رسوخ کی بنا پر کفار ان کو جانی و مالی نقصانات بھی نہیں پہنچا سکتے تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالکفر میں اگر دین و ایمان اورجان و مال کے تحفظ کا یقین ہو تو قیام کرنے کی اجازت ہے۔ (الأم للشافعی ج۲ ص ۱۶۹،المغنی لابن قدامہ ج۱۰ ص ۵۵، السنن الکبری للبیہقی ج۹ ص ۱۵)

البتہ حضرت عباس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہجرت کی قدرت نہیں رکھتے تھے،اس بناپر حکم ہجرت سے ان کو مستثنیٰ کردیاگیا تھا،جو عام مستضعفین کا حکم ہے۔

(۳) بعض صحابہ نے مکہ میں کفار کی اذیتوں سے مجبورہوکر حبشہ کی عیسائی سلطنت کا رخ کیا اور وہیں مقیم ہوگئے، اورجب تک اللہ نے ہجرت مدینہ کی سبیل نہیں پیدا کی وہیں مقیم رہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرماجانے کے بعد بھی حبشہ ہی میں مقیم رہے،اور یہ سب کچھ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوا۔

خود نجاشی مسلمان ہونے کے بعداپنی غیراسلامی سلطنت میں مقیم رہا، جب کہ وہ اپنے وسائل کی بدولت مدینہ ہجرت کرنے کی قدرت رکھتا تھا، لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے وہ حبشہ میں مقیم رہا،اور جب اس کاانتقال ہوا تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور فرمایا:

مات الیوم رجل صالح (فتح الباری شرح صحیح البخاری ج۷ ص ۲۴۲، کتاب مناقب الانصار، باب موت النجاشی، حدیث ۳۸۷۷)

ترجمہ: آج ایک صالح شخص کا انتقال ہوگیاہے۔

(۴) مشہو تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں نے عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عائشہ سے ملاقات کی، اوران سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا، تو حضرت عائشہ نے فرمایا:

”اب ہجرت کاحکم نہیں ہے، اللہ اوراس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کا حکم اس وقت تھا جب مسلمانوں کے لیے دینی اعتبار سے فتنہ کا اندیشہ تھا، اس لیے مسلمان مختلف علاقوں سے سمٹ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ مجتمع ہوگئے، لیکن اب اللہ نے اسلام کو فروغ دے دیا ہے اس لیے اب جو شخص جہاں چاہے رہ کر اپنے پروردگار کی عبادت کرے، البتہ جہاد اور نیت کاحکم اب بھی باقی ہے۔“

(فتح الباری شرح صحیح بخاری ج۷ ص ۲۸۶،السنن الکبری للبیہقی، کتاب السیر، باب الرخصة فی الاقامة بدارالشرک لمن لایخاف الفتنة ج۹ ص ۱۷)

حافظ ابن حجر اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا اشارہ اس جانب ہے کہ ہجرت کاحکم مطلق نہیں ہے، بلکہ فتنہ کی علت کے ساتھ مربوط ہے، علت موجود ہوگی تو حکم پایا جائے گا، علت نہیں رہے گی توحکم بھی باقی نہ رہے گا، اس طرح وہ ممالک جہاں دینی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے فتنہ نہ ہو وہاں اقامت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور وہاں مقیم مسلمانوں کے لیے ہجرت واجب نہیں۔ (فتح الباری لابن حجر ج۷ ص ۲۹۰)

علامہ ماوردی فرماتے ہیں: اگر کسی غیراسلامی ملک میں آزادانہ طور پر دین پر عمل کرنے کی قدرت ہو تو وہ دارالاسلام کے حکم میں ہے، اور دارالاسلام کے مقابلے میں مسلمانوں کا وہاں قیام کرنا زیادہ باعث فضیلت ہے، اس لیے کہ اس میں اسلام کی دعوت واشاعت کے امکانات زیادہ ہیں۔ (الحاوی للماوردی ج۱۸ ص ۱۱۱)

قول راجح: غور کرنے سے جمہور کا موقف ہی زیادہ مضبوط معلوم پڑتا ہے،اوراس کے کئی اسباب ہیں:

(۱) عدم جواز کے لیے جو روایات پیش کی گئی ہیں، وہ عموماً طعن سے خالی نہیں ہیں، اوراگر ان کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کا محل وہ ممالک قرار پاسکتے ہیں جہاں مسلمانوں کے لیے دینی لحاظ سے خطرہ درپیش ہو، اور فقہ کا ضابطہ ہے کہ جب کسی دلیل میں دوسرا احتمال پیدا ہوجائے تو وہ کسی ایک معنی کے لیے متعین نہیں رہ جاتے، اوراس سے استدلال باطل ہوجاتا ہے۔

(۲) نیز غیر اسلامی ممالک کی صورت اب قطعاً مختلف ہوگئی ہے، آج ان ممالک میں فکر وعقیدہ اور اظہار خیال کی جو آزادی ہے، اللہ مجھے معاف کرے، وہ بہت سے اسلامی ملکوں میں بھی میسر نہیں ہے، آج وہاں اسلامی ادارے، مساجد، مدارس اور دینی تحریکات و تنظیمات کی خاصی تعداد خدمت دین میں مصروف ہیں، اور ان کے لیے کوئی سیاسی یاقانونی رکاوٹ نہیں ہے، بڑے بڑے اہل علم، اور اہل تحقیق موجود ہیں جو مختلف ممالک سے مختلف اسباب کے تحت وہاں پہنچ گئے ہیں، اس لیے آج ان ممالک میں نہ اسلام کے لیے خطرہ ہے اور نہ مسلمانوں کے لیے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان ممالک میں مقیم مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا جائے، یا مسلمانوں کے وہاں داخلہ یا اقامت کو ممنوع قرار دیا جائے۔

(۳) اوراگراس نظریہ کو تسلیم کرلیاجائے تواس سے لازم آئے گا کہ تمام غیراسلامی ممالک کو اسلام اورمسلمانوں کے وجود سے خالی کردیاجائے، اس طرح کی بات کم از کم آج کے دور میں کوئی دانشمند شخص نہیں کرسکتا، علاوہ ازیں تمام مقیم مسلمانوں کی ہجرت اور نقل مکانی میں آج کے دور میں جو مشکلات اور دشواریاں ہیں وہ اپنی جگہ ہیں، یہ اسلام کے مزاج کے خلاف ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے:

ما جعل علیکم فی الدین من حرج (سورہٴ حج: ۷۸)

ترجمہ: اللہ نے تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔

یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتے ہیں، مشکل نہیں چاہتے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1، جلد: 90 ‏،ذی الحجہ1426 ہجری مطابق جنوری2006ء