حق گوئی راہ نجات ہے

از: عبدالخالق،اے․ ایم․ یو، علی گڑھ

 

مذاہب عالم کے علماء کی حق گوئی اہل زمین کی فلاح دارین کی ضامن ہے:

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْن (زُمر:۹)

انما العلماء ورثة الانبیاء (سنن ابوداؤد،ج:۲، کتاب العلم)

علماء انبیاء کے وارث ہیں وہ علم و عمل کے سرچشمے مانے جاتے ہیں ، علماء سے مراد ہی علم و عمل کی جامع ہستیاں ہیں یہی وہ حضرات ہیں جن پر وثوق کے ساتھ اعتماد کیا جاتا ہے اور ہر مصیبت بطور خاص ان مصائب کے ازالے کے لئے رجوع کیا جاتا ہے جہاں پر دنیاوی اسباب بے بس نظر آتے ہیں دینی و دنیاوی فلاح و بہبود میں ان کا اعلیٰ مقام ہے، ان کا ایک صحیح جملہ ہزاروں لوگوں کی جان بچاسکتا ہے اور ان کا ایک غلط جملہ ہزاروں لوگوں کو مصائب و آلام میں گرفتار کرسکتا ہے، علماء کی حق گوئی اگرچہ وقتی طور پر کسی فرد یا جماعت کو بری لگ سکتی ہے لیکن اس کا انجام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے کیونکہ وہ حق بات کہتے ہیں اورحق کا ساتھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ، علماء کی اہمیت کی وجہ سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء کا وارث بتایا ہے ۔ تاریخ کے اوراق علماء کی خدمات سے بھرے پڑے ہیں؛ لیکن بعض مواقع ایسے بھی تاریخ میں آئے ہیں کہ علماء کی حق گوئی سے صرفِ نظر نے پوری قوم کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے، ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتروادیا ہے اور ہزاروں عورتوں کو بیوہ کرادیا ہے اور لا تعداد بچوں کو یتیم بنادیا ہے۔ قرآن و حدیث میں اہلِ کتاب اور بطورِ خاص بنی اسرائیل کے واقعات متعدد مواقع میں بیان کئے گئے ہیں جن سے ظاہرہوتا ہے کہ علماء کی حق گوئی عوام و خواص کے لئے نجات کا سبب ہے جبکہ ان کا حق سے صرف نظر کرنا عوام و خواص کے لئے ہلاکت کا سبب ہے۔

کتب تفاسیر و سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدالانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے بعد قریش کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لئے یہودِ مدینہ کے دو عالم کعب بن اشرف اور حییّ بن اخطب مکة المکرمہ قریش کے پاس آئے،اور ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا اور یہود کے ذریعہ سے قریش کا تعاون کرنے کا وعدہ کیا، اہل مکہ نے کعب بن اشرف سے کہا کہ تم ایک دھوکہ دینے والی قوم ہو اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو ہمارے ان دوبتوں جبت اور طاغوت کے سامنے سجدہ کرو چنانچہ اس نے قریش کو مطمئن کرنے کے لئے ایسا ہی کیا اس کے بعد کعب نے قریش سے کہا کہ تیس آدمی تم میں سے اور تیس ہم میں سے سامنے آئیں تاکہ رب کعبہ کے ساتھ اس چیز کا عہد کریں کہ ہم سب مل کر محمد کے خلاف جنگ کریں گے کعب کی اس تجویز کو قریش نے پسند کیا اوراس طرح سے انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ قائم کردیا اس کے بعد ابوسفیان سردارِ قریش نے کعب سے کہا کہ تم اہل علم ہو تمہارے پاس اللہ کی کتاب توراة ہے لیکن ہم بالکل جاہل ہیں اس لئے تم ہمارے متعلق بتاؤ کہ ہم حق پر چلنے والے ہیں یا محمد ؟کعب نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے؟ ابوسفیان نے کہا ہم حجاج کے لئے اپنے اونٹوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کا دودھ پلاتے ہیں مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اپنے خویش و اقرباء کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کرتے ہیں اس کے برخلاف محمد نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے وہ اپنوں سے علیحدہ ہوچکا ہے اوراس نے ہمارے قدیم دین کے خلاف اپنا ایک نیا دین پیش کیا ہے ان باتوں کو سن کر کعب بن اشرف نے کہا کہ تم لوگ حق پر ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ) گمراہ ہوچکا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے سورئہ نساء کی آیت: ۵۱-۵۲ نازل فرمائی۔ قرآنی آیات مندرجہ ذیل ہیں:

اَلَمْ تَرَ اِلی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِنَ الکِتَابِ یُوٴْمِنُونَ بِالجِبْتِ والطَّاغُوْتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہٰوٴُلاَءِ اَہْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا سَبِیْلاً o اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ط وَمَنْ یَلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہ نَصِیْرًا

کعب بن اشرف اور حییّ بن اخطب آپ کو نبی برحق کی حیثیت سے اس طرح سے پہچانتے تھے جس طرح آدمی اپنے بچوں کو پہچانتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۴۶ میں مذکور ہے قرآنی آیت اس طرح سے ہے:

اَلَّذِیْنَ آتَیْنٰہُمْ الکتٰبَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَ ہُم ط وَاِنَّ فَرِیْقًا مِنْہُمْ لَیَکْتَمُوْنَ الحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ

کعب بن اشرف اوراس کے ساتھی حییّ بن اخطب نے حق گوئی سے صرف نظر کرتے ہوئے کذب و افتراء سے کام لیا حق کا ساتھ چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے عرب کی پوری یہود قوم اور عرب عوام بھی بطورِ خاص قریش، باطل کو حق سمجھنے لگے اور دین حق کی مخالفت کرنے لگے، جان و مال، وقت، تن، من دھن، دامے درمے سخنے ہرطرح سے حق کی مخالفت کے لئے تیارہوگئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کفر و شرک اور باطل سے مقابلہ کرنے کے لئے ہی وقف ہوگئی۔ کعب بن اشرف کے اس موقف یعنی حق گوئی سے صرفِ نظر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو کم سے کم کفر و باطل کو مٹانے کے لئے اسّی سے زائد غزوات و سرایا کرنے پڑے، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوئیں، قومِ یہود کا ایک بڑا طبقہ آج بھی حق کو یعنی اسلام اور اہل اسلام کو حق پر سمجھتے ہوئے بھی ان کی مخالفت پر آمادہ ہے اور یہ مخالفت آج تک جاری ہے حتیٰ کہ امریکی یہود قرآنِ کریم جیسی مقدس کتاب جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے اس تک میں تحریف کرنے میں مستعد ہیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی وقوع پذیر ہوا۔ واقعہ اس طرح سے ہے کہ بلعم بن باعورا ایک جلیل القدر عالم اور صاحب تصرف درویش تھا، لیکن جب اس نے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے حضرت موسیٰ کو حق پر جانتے ہوئے بھی حق گوئی سے صرف نظر کرتے ہوئے کذب وافتراء سے کام لیا اور حضرت موسیٰ کے خلاف اپنی ناپاک تدبیریں کرنا شروع کردیں تو حضرت موسیٰ کا تو کچھ نہ بگاڑ سکا، لیکن خود وہ اور اس کی قوم گمراہ ہوکر فلاح دارین سے محروم ہوگئی۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم میں سورہ اعراف کی آیت: ۱۷۵ اور ۱۷۶ میں کیا گیا ہے آیت کریمہ اس طرح سے ہے:

وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبأ الَّذِیٓ آتَیْنٰہُ آیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہا فَاتْبَعَہُ الشَّیطنُ فَکاَن مِنَ الغٰوِیْنo وَلَو شِئْتَ لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہ اَخْلَدَ اِلی الارضِ واتَّبَعَ ہوٰہُ ج فَمَعَلَہ کَمَثَلِ الکلبِ ج ان تَحْمِل عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکہُ یَلْہَثْ ط ذَلِکَ مَثلُ القومِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوا بِآیٰتِنَا ج فَاقْصُصِ القَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنo

اس واقعہ کی تفصیل مشہور و معروف تفاسیر کے مطابق اس طرح سے ہے کہ غرق فرعون اور فتح مصر کے بعد حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا جب جبارین نے دیکھا کہ موسیٰ تمام بنی اسرائیل کا لشکر لے کر پہنچ گئے تو ان کو فکر ہوئی کیونکہ قوم فرعون کا غرق و غارت ہونا ان کو پہلے سے معلوم ہوچکا تھا، جبارین جمع ہوکر بلعم بن باعورا کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ سخت آدمی ہیں اور ان کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے وہ اس لئے آئے ہیں کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دیں آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ان کو ہمارے مقابلے سے واپس کردیں وجہ یہ تھی کہ بلعم بن باعوراء کو اسم اعظم معلوم تھا وہ اس کے ذریعہ جو دعا کرتا تھا قبول ہوتی تھی۔ بلعم نے کہا کہ افسوس ہے کہ تم کیسی بات کہتے ہو وہ اللہ کے نبی ہیں ان کے ساتھ اللہ کے فرشتے ہیں ان کے خلاف بددعا کیسے کرسکتا ہوں حالانکہ ان کامقام جو اللہ کے نزدیک ہے وہ بھی جانتا ہوں اگر میں ایساکروں گا تو میرے دین و دنیا دونوں تباہ ہوجائیں گے ۔ ان لوگوں نے بے حد اصرار کیا تواس پر بلعم نے کہا کہ اچھا میں اپنے رب سے اس معاملے میں معلوم کرلوں کہ ایسی دعا کرنے کی اجازت ہے یا نہیں اس نے اپنے معمول کے مطابق معلوم کرنے کے لئے استخارہ یاکوئی عمل کیا، خواب میں اسکو بتلایا گیا کہ ہرگز ایسا نہ کرے، اس نے قومکو بتلادیا کہ مجھے بددعا کرنے سے منع کردیاگیا ہے، اس وقت قوم جبارین نے بلعم کو کوئی بڑا ہدیہ پیش کیا جو درحقیقت رشوت تھی، اس نے ہدیہ قبول کرلیا تو پھر اس قوم کے لوگ اس کے پیچھے پڑگئے کہ آپ ضرور یہ کام کردو اور الحاح و اصرار کی حد نہ رہی، بعض روایات میں ہے کہ اس کی بیوی نے مشورہ دیا کہ یہ رشوت قبول کرلیں اور ان کا کام کردیں اس وقت بیوی کی رضا جوئی اور مال کی محبت نے اس کو اندھا کردیا تھا، اس نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے خلاف بددعا کرنا شروع کی۔

اس وقت قدرتِ الٰہیہ کا عجیب کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ جو کلمات بددعا کے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کے لئے کہنا چاہتا تھااس کی زبان سے وہ الفاظ بددعا خود اپنی قوم جبارین کے لئے نکلے وہ چلاّ اٹھے کہ تم تو ہمارے لئے بددعا کررہے ہو، بلعم نے جواب دیا کہ یہ میرے اختیار سے باہر ہے میری زبان اس کے خلاف پر قادر نہیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم پر بھی تباہی نازل ہوئی اور بلعم کو یہ سزا ملی کہ اس کی زبان اس کے سینہ پر لٹک گئی، اوراب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ میری تو دنیا و آخرت تباہ ہوگئی اب دعا تو میری چلتی نہیں لیکن میں تمہیں ایک چال بتاتا ہوں جس کے ذریعے تم موسیٰ کی قوم پر غالب آسکتے ہو۔

وہ یہ کہ تم اپنی حسین لڑکیوں کو مزین کرکے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان کو یہ تاکید کردو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ان کے ساتھ جو کچھ کریں کرنے دیں، رکاوٹ نہ بنیں، یہ لوگ مسافر ہیں، اپنے گھروں سے مدت کے نکلے ہوئے ہیں، اس تدبیر سے ممکن ہے کہ یہ لوگ حرام کاری میں مبتلا ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام کاری انتہائی مبغوض چیز ہے جس قوم میں یہ ہو، اس پر ضرور قہر و عذاب نازل ہوتا ہے، وہ فاتح و کامران نہیں ہوسکتی۔

بلعم کی یہ شیطانی چال انکی سمجھ میں آگئی اس پر عمل کیاگیا، بنی اسرائیل کا ایک بڑا آدمی اس چال کا شکارہوگیا، حضرت موسیٰ نے اس کو اس وبال سے روکا مگر وہ باز نہ آیا، اور شیطانی چال میں مبتلاہوگیا۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل میں سخت قسم کا طاعون پھیلا جس سے ایک روز میں ستر ہزار اسرائیلی مرگئے، یہاں تک کہ جس شخص نے برا کام کیا تھا اس جوڑے کو بنی اسرائیل نے قتل کرکے منظر عام پر ٹانگ دیا کہ سب لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور توبہ کی، اس وقت یہ طاعون رفع ہوا۔

اب آپ حضرات یہ خود غور فرمائیں کہ بلعم بن باعوراء کی حق گوئی سے انحراف کے نتیجے میں قوم جبارین بھی تباہ و برباد ہوگئی اور بنی اسرائیل کو بھی سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ ان دونوں واقعات کے برخلاف تاریخ میں ایسے واقعات بھی محفوظ ہیں کہ جب ایک عالم دین کی حق گوئی سے ہزاروں لوگوں کی جانیں بچ گئیں لاکھوں کروڑوں کا مال برباد ہونے سے بچ گیا، حق قائم ہوگیا اور باطل رسوا ہوگیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد نجران کے نصاریٰ کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں۔

(۱)    اسلام قبول کرو۔

(۲)   یا جزیہ ادا کرو۔

(۳)   یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔

نصاریٰ نے آپس میں مشورہ کرکے اپنے کچھ آدمیوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ان لوگوں میں شرحبیل، عبداللہ بن شرحبیل اور حبار بن قنص بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا اسی دوران آیت مباہلہ نازل ہوگئی آیت مباہلہ یہ ہے:

فَمَنْ حَاجَّکَ فَیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ العِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْ نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ واَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعنَتَ اللّٰہِ عَلَی الکٰذِبِیْنَ (آل عمران:۶۱)

اس آیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضرت حسن و حسین کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے تیار ہوکر تشریف لائے۔ شرحبیل نے یہ دیکھ کر اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت و بربادی یقینی ہے اس لئے نجات کا کوئی دوسراراستہ تلاش کرو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے؟ اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے اس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اتفاق کے بعد ان پر جزیہ مقرر کرکے صلح کرلی جس کو انھوں نے بھی منظور کرلیا۔ (معارف القرآن، ج:۲، ص: ۸۵)

شرحبیل کی اس حق گوئی سے یہ فائدہ ہوا کہ مسلمان اور نصاریٰ دونوں جنگ و جدل سے بچ گئے جانی و مالی نقصان سے حفاظت ہوگئی اورکچھ ہی وقت کے بعد اہل نجران سب کے سب حق کو پہچان کر اسلام میں داخل ہوگئے، نتیجتاً اپنی دنیا بھی بنالی اور آخرت بھی۔

حق کی قبولیت اورحق گوئی کاایک اور قصہ ملاحظہ فرمائیے۔ شاہ حبشہ نجاشی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ کے سلسلے میں حق گوئی سے کام لیا جس کے نتیجے میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے سیکڑوں مسلمان مرد ، عورتوں کی بھی حفاظت ہوگئی اور حبشہ کے نصاریٰ بھی الٰہی مواخذہ سے بچ گئے۔ واقعہ کی تفصیل اس طرح سے ہے ۔ مکہ مکرمہ میں جب مسلمانوں کو اپنے دین پر چلنا مشکل ہوگیا اور ان پر عرصہٴ حیات تنگ سے تنگ تر ہوتا چلاگیا، کفار کی طرف سے ظلم و ستم بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیکڑوں مسلمان مرد و عورت حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ جب کفار مکہ نے مسلمانوں کو چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہوئے سنا یا دیکھا تو ان کو غصہ آیا اور تحفے تحائف دیکر نجاشی شاہ حبشہ کے پاس ایک وفد بھیجا اس وفد نے جاکر اول حکام و پادریوں سے ملاقات کی اور ہدیے دے کر ان سے بادشاہ کے نام اپنی سفارش کا وعدہ لیا اور پھر بادشاہ کی خدمت میں یہ وفد حاضر ہوا، اول بادشاہ کو سجدہ کیا اور پھر تحفے پیش کرکے اپنی درخواست پیش کی اور رشوت خور حکام نے تائید کی انھوں نے کہا اے بادشاہ! ہماری قوم کے چند بے وقوف لڑکے اپنے قدیم دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین میں داخل ہوگئے جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ جانتے ہیں اور آپ کے ملک میں آکر رہنے لگے، ہم کو شرفاء مکہ نے اور ان کے باپ و ماں نے بھیجا ہے کہ ان کو واپس لائیں، آپ ان کو ہمارے سپرد کردیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جن لوگوں نے میری پناہ پکڑی ہے بغیر تحقیق ان کو حوالے نہیں کرسکتا۔ اول ان سے بلاکر تحقیق کرلوں اگریہ صحیح ہوا تو حوالے کردوں گا اس لئے اس نے مسلمانوں کو بلایا، مسلمان بادشاہ کے پاس حاضر ہوئے، وہاں پر بادشاہ کے سامنے مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام پیش کرنے کے قبل کے حالات اور اسلام کے ظاہر ہونے کے اثرات کا ذکر کیا بادشاہ کے طلب پر حضرت جعفر نے بادشاہ کے دربار میں سورئہ مریم کی اول کی آیتیں پڑھیں جن کو سن کر بادشاہ بھی اوراس کے پادری بھی بہت روئے یہاں تک کہ داڑھیاں تر ہوگئیں، اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ خدا کی قسم یہ کلام اورجو کلام حضرت موسیٰ لے کر آئے تھے ایک ہی نور سے نکلے ہیں اور ان لوگوں سے صاف انکار کردیا کہ میں ان کو تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا وہ لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ بڑی ذلت اٹھانا پڑی، باہمی مشورہ میں ایک شخص نے کہا کہ کل میں ایسی تدبیر کروں گا کہ بادشاہ ان کی جڑہی کاٹ دے ساتھیوں نے کہا بھی کہ ایسا نہیں چاہئے یہ لوگ اگرچہ مسلمان ہوگئے مگر پھر بھی رشتہ دار ہیں، مگر اس نے نہ مانا دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گئے اورجاکر کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، ان کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلایا، صحابہ فرماتے ہیں کہ دوسرے دن کے بلانے سے ہمیں اور بھی زیادہ پریشانی ہوئی۔ بہرحال گئے بادشاہ نے پوچھا کہ تم حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ مسلمانوں کی جانب سے جواب دیاگیا کہ ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے نبی پر ان کی شان میں نازل ہوا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اس کے رسول ہیں اس کی روح ہیں اور اس کے کلمہ ہیں جس کو خدانے کنواری اورپاک مریم کی طرف ڈالا۔ نجاشی نے کہا حضرت عیسیٰ بھی اس کے سوا کچھ نہیں فرماتے پادری لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ نجاشی نے کہا کہ تم جو چاہو کہو اس کے بعد نجاشی نے ان کے تحفے واپس کردئیے اور مسلمانوں سے کہا تم امن سے رہو جو تمہیں ستائے اس کا تاوان دینا پڑے گا اوراس کا اعلان بھی کرادیا کہ جو شخص ان کو ستائے گا اس کو تاوان دینا ہوگا۔

شاہ نجاشی کی اس حق گوئی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں کو بھی چین نصیب ہوگیا اور اہل حبشہ کی ایک بڑی تعداد حق کی حمایت پر بھی مستعد ہوگئی اور خود بھی ایمان میں داخل ہوگئی۔ روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین حبشہ نے مدینہ طیبہ جانے کا ارادہ کیا تو نجاشی شاہ حبشہ نے ان کے ساتھ اپنے ہم مذہب نصاریٰ کے بڑے بڑے علماء و مشایخ کا ایک وفد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا جو ستر آدمیوں پر مشتمل تھا جن میں باسٹھ حبشہ کے اورآٹھ حضرات شام کے تھے۔ یہ وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک درویشانہ اور راہبانہ لباس میں ملبوس ہوکر حاضرہوا، آپ نے ان کو سورئہ یٰسین پڑھ کر سنائی جسے سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، سب نے کہا کہ یہ کلام اس کلام کے کتنا مشابہ ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل ہوتا تھا اور یہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ ان کی واپسی کے بعد شاہ حبشہ نجاشی نے بھی اسلام کا اعلان کردیا اور اپنا ایک خط دے کر اپنے ایک صاحبزادے کو وفد کا قائد بناکر بھیجا مگر سوء اتفاق سے یہ کشتی دریا میں غرق ہوگئی۔ الغرض حبشہ کا بادشاہ ، حکام و عوام دونوں نے حق کا اعتراف کیا مسلمانوں کے ساتھ حق پرستی سے کام لیتے ہوئے شریفانہ اور عادلانہ سلوک کیا اور خود بھی مسلمان ہوگئے یہ ہے نتیجہ حق گوئی اور حق پرستی کا۔

اس کے برعکس عہد وسطیٰ میں یورپ کے مسیحی پادریوں نے اسلام کی حق پرستی کا اعتراف کرنے کے بجائے نہ کہ صرف حق گوئی سے صرف نظر کیا بلکہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کذب و افتراء اور بہتان تراشی سے کام لیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں تقریباً ۳۰۰ سال تک صلیبی جنگیں چلتی رہیں۔ یہود و نصاریٰ دونوں کے علماء نے کذب و افتراء میں اتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ اس کے اثرات آج کی تاریخ تک فلسطین میں روز مرہ کی قتل و غارت گری کی شکل میں دیکھے جارہے ہیں اور اس بربادی کا سیلاب رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ بربادی کب رکے گی کاش یورپ کے اہل علم حضرات حق پرستی سے کام لے لیتے تو دنیا کی دو بڑی قومیں مسلمان اور عیسائی سینکڑوں سالوں تک ایک دوسرے کے جانی دشمن نہ بنے رہتے اور عربوں کھربوں کا جانی مالی نقصان نہ ہوتا۔

اگر آج بھی مذاہب عالم کے علماء دین چاہے اہل ہند ہوں یا اہل یورپ یا اہل امریکہ یعنی علماء ہنود، علماء نصاریٰ، علماء یہود اپنی اپنی مذہبی کتب میں جو حق وارد ہے اس پر دیانت داری اور ایمانداری سے عمل کریں تو موجودہ زمانے کی جو شرو فساد، خلفشار کی فضا ہے وہ انشاء اللہ ضرور ختم ہوجائے گی لوگوں کے جان و مال اور ان کی عزت وآبرو محفوظ ہوجائے گی اور دنیاقعرِ جہنم بننے کے بجائے جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے گی۔

$$$

کتابیات

(۱)         معارف القرآن۔ حضرت مولانا محمد شفیع صاحب، مکتبہ مصطفائیہ دیوبند۔

(۲)        فضائل اعمال۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا، مکتبہ ملت کتب خانہ دودھ پور علی گڑھ

(۳)        حیات الصحابہ۔ مولانا محمد یوسف کاندھلوی۔

(۴)        تاریخ اسلام۔ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی۔

(۵)        تفسیر ابن کثیر۔ ابن کثیر۔          

(۶)        صحاح ستہ

(۷)        بیان القرآن۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی

(۸)        تفسیر مظہری۔ مولانا ثناء اللہ صاحب پانی پتی۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 90 ‏،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء