آئین ہند: حقوق انسانی کا سچا علمبردار

از: ڈاکٹر رضاء الرحمن عاکف

 

وطن عزیز ہندوستان کو دنیا کے دیگر ممالک پر یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں کے رہنے والے متعدد مذاہب کے پیرو اور مختلف تہذیبوں کے امین ہیں۔ یہاں پر کبھی بودھ مذہب کے ماننے والوں نے محبت انسانی کے گیت گائے ہیں تو کبھی جین، ہندو اور سکھ مذہب کے پیروؤں نے روحانیت کی شمعیں روشن کی ہیں۔ اسی سرزمین پر اہل اسلام نے انسان دوستی کی داستانیں رقم کی ہیں تو مسیحیت کے نام لیواؤں نے بھی اخوت انسانی کادرس دیا ہے۔ ارض ہند دراصل وہ مقدس سرزمین ہے جہاں ہر دور میں ہی انسان دوستی کے علمبردار اور محبت و اخوت کے داعی جنم لیتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے بجا طور پر وطن عزیز کو اس چمن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو گلہائے رنگا رنگ سے آراستہ ہو یا پھر اس کو اس خوشنما آسمان کی مانند قرار دیا جاسکتا ہے جو مختلف قسم کے ستاروں سے جگمگارہا ہو۔ ایسے ملک کے لئے جو مذکورہ بالا صفات کا حامل ہو یقینا ایک ایسے آئین کی ضرورت تھی جو بلا امتیاز مذہب و ملت انسانی حقوق کا سچا علمبردار ہو اور اس میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز و تعصب نہ برتا گیا ہو۔

ہمارے آئین مذکورہ کچھ اہم و ممتاز انسانی حقوق اس طرح ہیں:

حق مساوات: ملک میں رہنے والے تمام ہی افراد باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں اورآئینی اعتبار سے ان کے اندر کسی قسم کی اونچ نیچ، ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ حقوق و اختیارات میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین واضح طور پر مساویانہ حقوق کا پاسدار ہے جیسا کہ آئین کی دفعہ 15,14 میں کہا گیا ہے۔ ”مملکت کسی شخص کو ملک کے اندر قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔“ اور ”مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بناء پر کسی طرح کا امتیاز نہیں برتے گی۔“ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تمام باشندگان کو ملے ہوئے حقوق کا ذکر آئین کی دفعہ 16میں کیاگیا ہے۔ ”تمام شہریوں کو مملکت کے کسی عہدے پر ملازمت یا تقرر سے متعلق مساوی موقع حاصل ہوگا۔“

حق آزادی: حق مساوات کے ساتھ ہی ایک جمہوری آئین کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہاں کے رہنے والے مختلف قسم کی آزادی کے حامل ہوں۔ ان میں اظہار رائے کی آزادی بھی ہوسکتی ہے اورمختلف جلسے، انجمنیں اور جلوس وغیرہ منعقد کرنے، تنظیمیں اور تحریکیں بنانے اور چلانے، آزادانہ طور پر پورے ملک کا سفر کرنے، سرمایہ کاری کی آزادی اور جان و مال کی آزادی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے باوقار آئین میں کہا گیا ہے۔ دفعہ 19 تا 22 میں لکھا ہے ”مملکت کے تمام شہریوں کو حق حاصل ہوگا۔“

(الف) مملکت کے ہرایک حصہ میں تقریر اور اظہار کی آزادی کا۔

(ب) امن پسند طریقے سے اور بغیر ہتھیار کے جمع ہونے کا۔

(ج) انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا۔

(د) بھارت کے سارے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کا۔

(ھ) بھارت کے کسی بھی حصے میں بود و باش کرنے اور بس جانے کا۔

(ی) کسی پیشے کے اختیار کرنے یا کسی کام دھندے، تجارت یا کاروبار چلانے کا۔

مذہب کی آزادی: انسانی فطرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے حساس مذہبی جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہی مختلف افراد میں جنگ و جدل کاوجود نظر آتا ہے۔ یہ بات ان ملکوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار رہتے ہوں۔ ہمارے ملک کا اس سلسلہ میں بہت نمایاں مقام ہے کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔اس سلسلے میں ہمارے سیاسی قائدین نے بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا کہ انھوں نے یہاں کسی مذہب کو خاص اہمیت نہ دے کر سب کو برابر اوریکساں حقوق دئیے۔ اس لئے آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے، اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے اوراس کے اصولوں پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 25 میں کہا گیا ہے۔ ”تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے۔ اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔“

ثقافتی اور تعلیمی حقوق: ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا امین اور مختلف تعلیمی نظریات کا گہوارہ ہے اسی وجہ سے یہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام ہی لوگوں کو اپنی تہذیب وثقافت اور علم و ادب کی حفاظت کو فروغ کے حقوق حاصل ہوں۔ یہاں کے ہرایک شہری کو ہی حصول تعلیم کی آزادی اور اپنے شعائر و ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کااختیار دیا جائے۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 29میں کہا گیا ہے۔ ”بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقے کو جس کی اپنی جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہوگا۔“ آئین کی دفعہ 30 میں یہ بھی کہا گیا ہے۔ ”تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کے نام پر ہوں یا زبان کے، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کے انتظام کاحق حاصل ہوگا۔“

جائداد کا حق: مملکت میں رہنے والوں کو آئینی اعتبار سے یہ حق بھی دیاگیاہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیاجاسکتا ہے اور اسے اپنی جائیداد فروخت کرنے یاکسی دوسرے کی جائیداد خریدنے خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہو کا اختیار حاصل ہوگا۔ ملک کے ہر شہری کویہ بھی حق دیاگیاہے کہ وہ متعلقہ قوانین کی رعایت رکھتے ہوئے اپنی املاک و جائیداد اور ان سے حاصل شدہ آمدنی کو کسی بھی طرح اپنے اوپر خرچ کرسکتا ہے۔ یا کسی تنظیم، تحریک یا کسی اور کو ملک کی فلاحی و رفاہی کاموں پر خرچ کرسکتا ہے۔

دستوری چارہ جوئی کاحق: ہمارے آئین کے تیسرے حصے میں ضبط کئے گئے حقوق کو بحال کرانے اوران کی حفاظت کے لئے سپریم کورٹ و دیگر عدالتوں سے چارہ جوئی کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ متعلقہ عدالتوں کو ان حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لئے ہدایات یا احکام یا مختلف خصوصی فرمان جاری کرنے کااختیار دیاگیا ہے۔ آئینی اعتبار سے عدالتی چارہ جوئی کے حق کو محض دستور میں بیان کی گئی متعلقہ دفعات کے تحت ہی معطل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سے بنیادی حقوق کس حد تک کسے دئیے جائیں۔ غرض کہ آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو ہی کسی بھی معاملے میں دستوری چارہ جوئی کا پورا پورا حق دیاگیا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے باوقار آئین میں جس طرح سے عوام الناس کو بالادستی حاصل ہے اور یہاں کے رہنے والوں کے بنیادی حقوق کا جس طرح لحاظ رکھا گیا ہے اس بنا پر بلا خوف تردید یہ بات پایہٴ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاسدار اوراس کا سچا علمبردار ہے۔

نوٹ: یہ بھی ایک افسوسناک سچائی ہے کہ یہ دستور جن ہاتھوں میں ہے وہ اپنے ذہنی تحفظات کی بناء پر اس دستور کو مکمل طورپر نافذ کرنے سے گریزکرتے ہیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 90 ‏،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء