حرفِ آغاز

حضرت مولانا اسعد مدنی ؒ کا سانحۂ ارتحال

حبیب الرحمن اعظمی

 

ملت کا لعل شب چراغ گم ہوگیا

حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہما اللہ کے بعدہماری بزم جہدوعزیمت ایک چراغ سے روشن تھی، افسوس کہ ۷/محرم الحرام ۱۴۲۷ھ مطابق ۶/فروری ۲۰۰۶/ کو باد حوادث نے اسے بھی گل کردیا۔

ایک روشن چراغ تھا نہ رہا

یعنی حضرت امیرالہند، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی جو بمشیت ایزدی مفلوج ہوکر تین ماہ پہلے سے خاموش ہوچکے تھے، آہ وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئے۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، اللہم اغفرلہ، وارحمہ، وعافہ واعف عنہ، واکرم نزلہ ووسع مدخلہ، وانزل علی روحہ وجسدہ وتربتہ شأبیب رحمتک، واجعلہ من المقربین آمین یا ارحم الراحمین

حضرت صاحب النعلین والوسادة عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابیٴ جلیل معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد فرمایا تھا ”انّ معاذًا کان امةً قانتا“ یعنی لوگوں کی نفع رسانی میں ان کی اکیلی ذات ایک امت و جماعت کی حیثیت رکھتی تھی۔

عصر حاضر میں حضرت فدائے ملت قدس سرہ کی جامع کمالات وہمہ جہت شخصیت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کی زندہ اور جیتی جاگتی تصویر تھی۔ وہ مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمعیة علمائے ہند کی مسند صدارت کے شہ نشین ہی نہیں تھے بلکہ دین حق کے مخلص داعی تھے، سلسلہٴ ارشاد و سلوک کے مرشد کامل تھے، اسلاف کی تاریخ ایثار و ہمدردیٴ خلق کے سچے امین تھے، اسلامی آثار و شعائر کے نگہبان تھے، ملک و ملت کی عظمتوں کے محافظ تھے، ظلم و ناانصافی کے ماحول میں حق و انصاف کے علم بردار تھے، نفرت و وحشت کے اندھیرے میں محبت و اخوت کے مینار تھے، ان کی ایمانی فراست کے آگے مخفی و پراسرار فتنے بے لباس ہوجاتے تھے، ان کی جرأت و استقامت کے سامنے حوادث کی تلاطم خیز موجیں سرنگوں ہوجاتی تھیں، ان کی حکمت و دانائی وقت کے چیلنج اور مسائل کو مواقع میں تبدیل کردیتی تھی، غرضیکہ ان کی ایک زندگی نہ جانے کتنی زندگیوں کا مجموعہ تھی، اس لئے ان کی وفات صرف خانوادئہ مدنی کا ماتم نہیں، صرف دیوبند و دلی کا ماتم نہیں بلکہ قوم و ملک کا ماتم ہے؛ جہد و عزیمت کا ماتم ہے، استقلال واستقامت کا ماتم ہے، فراست و حکمت کا ماتم ہے۔ ایثار و غم خواری خلق کا ماتم ہے ملت اسلامیہ ہند کے طالع و بخت کا ماتم ہے۔

مرثیہ ہے ایک کا اور نوحہ ساری قوم کا

آہ ہمارے لئے یہ کس قدر غمناک سانحہ ہے کہ آج ہمارا قلم اس ذات کا ماتم کررہا ہے جس نے کل تک قوم و ملت کے غم و ماتم سے ملک کے پورے طول و عرض کو کم و بیش نصف صدی تک پرشور رکھا۔

سوانحی خاکہ

پیدائش: ۴/ یا ۶/ذی قعدہ ۱۳۴۶ھ - ۲۷/اپریل ۱۹۲۸/ بروز جمعہ اسلامی علوم و ثقافت کے مرکز دیوبند میں آپ پیدا ہوئے والد بزرگوار حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی قدس سرہ نے اسی سال محرم الحرام میں ایشیا کی سب سے عظیم اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی مسند صدارت تدریس کو رونق بخشی تھی۔

تعمیر حیات: ابتدائی تربیت والدہ ماجدہ کی آغوش شفقت میں پائی، مگر ابھی عمر کی نو بہاریں ہی دیکھ پائے تھے کہ والدہ ماجدہ اس گلستان خزاں آباد کو چھوڑ کر خدائے رب العزت کی نوازشوں کی جنت خلد کو سدھار گئیں، اس کے بعد تعلیم و تربیت کے سارے مراحل والد بزرگوار کے خادم خاص و خلیفہ قاری اصغر علی سہیس پوری رحمہ اللہ کی زیر نگرانی طے ہوئے، جنھیں بچوں کی تربیت کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ آپ کی ابتداء سے انتہاء تک ساری تعلیم دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، والد ماجد حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کے علاوہ حضرت شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہوی، شیخ المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا سید اصغر حسین محدث دیوبندی، حضرت مولانا فخرالحسن مراد آبادی، حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہانپوری، حضرت مولانا جلیل احمد کیرانوی خادم خاص حضرت شیخ الہند وغیرہم جیسے نابغہ عصر سے درسیات کی تکمیل کرکے ۱۳۶۵ھ - ۱۹۴۵/ میں فارغ التحصیل ہوئے۔

تعلیم کتاب و سنت سے فراغت کے بعد پورے طور پر یکسو ہوکر سلوک و احسان کی تحصیل میں منہمک ہوگئے اور والد ماجد حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوکر ان کی زیر تربیت اس راہ کی منزلیں طے کیں، اس کے لئے حضرت شیخ الاسلام نے انھیں مدینہ منورہ بھیجا کیونکہ اس ارض مقدس میں ذکر واذکار اور عبادت الٰہی کی برکت و تاثیر میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے، چنانچہ مدینہ منورہ کے اس دو سالہ قیام کے دوران آپ نے حضرت شیخ الاسلام کی حسب ہدایت پابندی کے ساتھ مسجد نبوی بالخصوص مواجہہ شریفہ میں ذکر واذکار میں مصروف رہتے، پابندیٴ اوقات کے ساتھ یہ سلسلہ پورے دوسال تک جاری رہا، اس راہ کے اہل بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اس مدت میں انہیں بارگاہ ہدایت سے کیسی کیسی نعمتیں حاصل ہوئی ہوں گی۔ بارگاہ نبوت میں اس دوسالہ حاضری و قیام کے بعد کندن بن کر واپس وطن لوٹے، اور ہمہ تن حضرت شیخ الاسلام کی خدمت میں لگ گئے، سفر و حضر میں ساتھ رہتے اور اس طرح والہانہ ہر خدمت بجالاتے کہ دیکھنے والوں کو رشک ہوتا۔ حضرات علما و مشائخ کی اولاد میں یہ سعادت بطور خاص انھیں کو حاصل ہے ورنہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اولاد کے بجائے اس سعادت سے تلامذہ و مریدین ہی بہرہ ور ہوتے ہیں، اس طرح لائق بیٹے نے والد ماجد کے اکثر کمالات خصوصیات اپنے اندر جذب کرلیں حتی کہ رفتار و گفتار بلکہ زندگی کی عام روش میں ان کا نمونہ اور فیوض و برکات کا سچا وارث بن گیا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

میدان جہد و عمل میں: ظاہری و باطنی علوم ومعارف کی تحصیل و تکمیل کے بعد حضرت مولانا نے اپنے جہد و عمل کے سفر کا آغاز اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے کیا اور ۲۸/شوال ۱۳۷۰ھ کو اس کے شعبہ تعلیم سے منسلک ہوکر درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، جس کا سلسلہ بارہ سال تک جاری رہا، لیکن آپ کی تربیت جس ماحول میں اورجس نہج پر ہوئی تھی اور جن اوصاف و کمالات سے آپ کونوازا گیا تھا وہ صاف بتارہے تھے کہ آپ کو اس سے بھی وسیع تر خدمت کے لئے پیداکیاگیا ہے۔ چنانچہ مشیت ایزدی نے آپ کو مسند درس وتدریس سے اٹھاکر قوم و ملک کے اعلیٰ کاموں سے وابستہ کردیا۔ اس کے بعد دنیا نے یہی دیکھا کہ اللہ کے اس مرتاض بندہ نے اپنی زندگی کا یک ایک لمحہ قوم وملت کی زندگی کے لئے وقف کردیا، جب تک جسم و جان میں سکت باقی رہی قوم و ملت کی صلاح و فلاح اور توانائی و سربلندی کے لئے کارزار حیات میں سرگرداں رہا اور اس شان نزاہت کے ساتھ کہ اسے اس معذرت طلبی کی قطعاً حاجت پیش نہیں آئی۔

درمیان قعر دریا تختہ بندم کردیٴ

باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

حضرت فدائے ملت کے میدان عمل کا دائرہ بہت وسیع ہے جس کے چند جلی عنوان یہ ہیں:

تبلیغ دین، بیعت وارشاد، اسلامی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت، مکاتب و مدارس کے قیام وبقاء کی جدوجہد، اصلاح معاشرہ، معاشی و اقتصادی ترقی، ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی، ملک کے جمہوری و سیکولر کردار کی حفاظت، متحدہ قومیت کا فروغ، آزاد ہندوستان میں اقلیتوں کے آئینی حقوق کی حفاظت وغیرہ اور ان سب میدانوں میں انھوں نے اپنی حوصلہ مندیوں، بے پناہ جدوجہد، اور فراست و حکمت اور قربانی و جانسپاری کے ایسے روشن نقوش چھوڑے ہیں جن سے زمانہ ایک عرصہ تک روشنی حاصل کرتا رہے گا۔

ظاہر ہے ان عنوانات میں سے ہر عنوان بجائے خود ایک دفتر کا طلب گار ہے۔ اور خود حضرت مولانا سے اپنی طویل وابستگی کی بناء پر ان سے متعلق اپنی معلومات میں جو وسعت ہے آہ کہ وہ کاغذ کے صفحات میں نہیں ہے۔

کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستاں میری

عادات و خصائل: تواضع وانکساری ان کی سرشت میں داخل تھی حتی کہ اپنے مریدین و مستفیدین خصوصی مجلسوں میں بھی اپنی نشست گاہ میں کسی امتیاز کو پسند نہیں کرتے تھے، اسفار میں یہ صفت مزید نمایاں ہوجاتی تھی اور رفقائے سفر و خدام کے ساتھ ایسا حسن سلوک و بے نفسی کا معاملہ کرتے تھے خدام کو اس وقت اپنے آپ کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتاتھا۔ تحمل و قوت برداشت اس درجہ کی تھی کہ سنگین سے سنگین حالات میں بھی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا۔ پیش آمدہ مسائل میں مشورہ سے گریز نہیں کرتے تھے مگر مشورہ کے بعد جو رائے قائم کرلیتے تھے اس پر اس قدر مضبوطی سے قائم رہتے تھے کہ اسکے مقابل دوسری بات کا سننا بھی گوارا نہیں ہوتا تھا۔ تصنع و تکلف سے طبعی طور پر نفور تھا، سادگی و بے تکلفی گویا عادت ثانیہ تھی، مشاغل و مصروفیات کے بے پناہ ہجوم کے عالم میں بھی جب نماز میں رب کائنات کے حضور کھڑے ہوتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ کائنات سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ مجاہدہ و ریاضت اور محنت و مشقت ان کی طبیعت بن گئی تھی، نیند پر اس قدر قابویافتہ تھے جب چاہتے سوجاتے اورجب چاہتے بیدار ہوجاتے، اکیلے پلیٹ میں کھانا پسند نہیں تھا اس لئے عام مہمانوں کے ساتھ ایک ہی تھال میں عام طور پر کھانا تناول فرماتے تھے دوسروں کے دسترخوان پر بھی اپنے پلیٹ میں کسی کو شریک کرلیا کرتے تھے۔

آشنا ناآشنا اپنے اور پرائے سب سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے، اخبارات دیکھنے کی عادت نہیں تھی البتہ علمی و دینی رسائل وجرائد کا مطالعہ بوقت فرصت کرتے تھے۔ طبعاً کم سخن تھے لیکن بوقت ضرورت اپنی بات کو بڑی تفصیل سے پیش کرتے تھے۔ وعظ و تقریر میں عام طور پر آسان و سہل الفاظ استعمال کرتے تھے، سوگر کے موذی مرض نے اگرچہ بالکل نڈھال کردیا تھا تاہم ان میں ہمت ایسی تھی جو جوانوں کو شرماتی تھی۔

آہ کہ یہ پیکر خوبی اور ملت کا لعل شب چراغ گم ہوگیا کہ اب اس دنیا میں ہم اسے کبھی نہ پاسکیں گے۔

دل میں یاد غم جاوداں رہ گئی

جانے والا گیا داستاں رہ گئی

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 90 ‏،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء