فدائے ملت اسلامیہ، امیرالہند

حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوّراللہ مرقدہ کے سانحہٴ ارتحال پر

دارالعلوم دیوبند میں تعزیتی اجلاس

تقدیم: شوکت علی قاسمی بستوی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند

و ناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ

 

حضرت امیرالہند، فدائے ملت اسلامیہ مولاناسید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ صدر جمعیة علماء ہند و رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی وفات حسرت آیات پر یوں توپوری ملت اسلامیہ غم زدہ و سوگوار ہے، لیکن مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے ارباب اہتمام و ذمہ داران حضرات، اساتذئہ کرام، جملہ کارکنان، طلبہٴ عزیز اور باشندگان دیوبند پر حضرت رحمة اللہ علیہ کے انتقال پرملال کی روح فرسا خبر بجلی بن کر گری۔ پورا ماحول رنج وغم میں ڈوب گیا، دارالعلوم میں دارالحدیث تحتانی اور نودرے کی درس گاہوں میں حضرت کے لئے ختم اور ایصال ثواب کیاگیا، تمام خدام و وابستگان دارالعلوم ایصال ثواب کی مجلس میں شریک ہوئے اور حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے (جو اس جاں کاہ حادثے سے بیحد غم زدہ و نڈھال تھے) حضرت کی مغفرت و رفع درجات کے لئے دعا فرمائی۔

بعد ازاں ۹/محرم الحرام بروز بدھ جامع رشید دارالعلوم دیوبند میں حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی زیر صدارت تعزیتی اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت اقدس صدر اجلاس اور اکابر اساتذئہ دارالعلوم نے اپنے قلبی تاثرات اور رنج و غم کے جذبات کا اظہار فرمایا اور دارالعلوم دیوبند کے میر کارواں اور روح رواں، حضرت امیر الہند رحمہ اللہ کی ہمہ جہت وجامع کمالات شخصیت کو اجتماعی خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ اجلاس میں تمام اساتذہ دارالعلوم، کارکنان، طلبہ عزیز اور باشندگان دیوبند بڑی بھاری تعداد میں شریک ہوئے، پیش ہے جلسہٴ تعزیت کی مختصر رپورٹ۔

کشتیِ ملت اسلامیہ کے ناخدا

اجلاس تعزیت حضرت اقدس مہتمم صاحب دارالعلوم کی زیر صدارت بعد نماز ظہر متصلاً منعقد ہوا، آغاز جناب قاری شفیق الرحمن صاحب بلند شہری استاذ تجوید و قرأت دارالعلوم کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا، استاذ حدیث و ناظم تعلیمات دارالعلوم حضرت مولانا سید ارشد مدنی زید مجدہم نے سب سے پہلے اپنے تاثرات میں فرمایا:

حضرت امیر الہند، صدر جمعیة علماء ہند مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ کی وفات، دارالعلوم دیوبند، جمعیة علماء ہند، اور حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ کے خانوادے اور پوری ملت اسلامیہ کے لئے ایک حادثہ فاجعہ ہے۔ انتہائی نامساعد اور سخت ترین حالات میں ”امت مسلمہ کی کشتی کے ناخدا“ کی رحلت سے ہم سب غم زدہ ہیں، ان کی وفات سے ملت کا زبردست نقصان اور مسلک دارالعلوم کا ایک مخلص خادم دنیا سے اٹھ گیا، اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند، جمعیة علماء ہند اور مسلمانان ہند کی حفاظت فرمائے، آمین۔

تحریک شاہ ولی اللہ کی آخری کڑی اور ہمہ جہت شخصیت

حضرت مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی قاسمی، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند و مدیر ماہنامہ دارالعلوم زیدمجدہم نے حمد وصلاة کے بعد فرمایا:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

میرا دل و دماغ اس حادثہ جاں کاہ سے بیحد متاثر ہے، میں اپنی معلومات کی حد تک حضرت کی شخصیت پر اس وقت روشنی ڈالنے پر قادر نہیں ہوں۔ میں ۲۶/ سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت سے وابستہ رہا ہوں، سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہا ہوں میں اپنے تجربہ اور تراجم کے مطالعہ کی بنیاد پر میرا یہ یقین ہے کہ حضرت مولانا رحمة اللہ کی شخصیت بے حد ہمہ جہت اور ہمہ گیر تھی، ان کے معاصر علماء میں اس لحاظ سے ان کا کوئی ہم پایہ نہیں تھا، حضرت امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس ظلمت کدئہ ہند میں اسلام کی بقاء واستحکام کے لئے جو تحریک شروع کی تھی اور ان کے فرزند ارجمند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے جس کو عروج و کمال تک پہنچایا۔ حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ اس تحریک کی آخری کڑی تھے۔ آپ نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی ایک چھاپ چھوڑی، وہ ایک طرف پارلیمنٹ میں حق و صداقت کی آواز بلند کررہے تھے تو دوسری طرف ہزاروں مدارس کے سرپرست تھے۔ وہ مسلمانوں کے مسائل کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے ، دیوبندیت کے فروغ اور اسلامی عقائد کے تحفظ اور باطل کی سرکوبی کے سلسلہ میں ان کی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ دیوبندیت اورمسلک حق پر یلغار ہوتی تو ان کی ذات سدّ سکندری بن جاتی ہندوستان میں جب قادیانیوں نے سراٹھایا یا عیسائیت کی تبلیغ برپاہوئی یا غیرمقلدین نے جارحیت شروع کی تو حضرت مولانا نے ذمہ داران واساتذئہ دارالعلوم کو متوجہ کیا اور دارالعلوم میں اپنے اثر و رسوخ سے تحفظ ختم نبوت، محاضرات علمیہ اور ردّ عیسائیت کے شعبے قائم کرائے، اسی طرح جب مدارس کے خلاف فرقہ پرستوں نے آواز اٹھائی تو انھوں نے پوری پامردی سے فرقہ پرستوں کا کامیاب مقابلہ کیا، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

صفات محمودہ کی جامع ہستی

حضرت مولانا قمرالدین صاحب استاذ حدیث زیدمجدہم نے فرمایا:

حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عادت جاری ہے کہ جس ذات گرامی کے ذریعہ سے دین اور ملک و ملت کا کام لینا ہوتاہے اس میں خوبیاں اور صفات بھی ویسی پیدا کردی جاتی ہیں، حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی ذات گرامی رات میں شب زندہ دار اور دن میں مجاہد وشہ سوار کی مصداق تھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے جانشیں تھے اور صفات محمودہ کے حامل تھے، انھوں نے ملک و ملت کی خدمت میں اپنی حیات طیبہ کے روز وشب صرف کیے، اپنی راحت و آرام کا خیال نہ کیا، حضرت کے یہاں سب سے زیادہ اہتمام نماز کا تھا ان جیسی نماز پڑھنے والا میں نے کسی اور کو نہ دیکھا۔ حضرت بڑے سرپرست تھے جو ہر موقع پر دارالعلوم کے لئے اور قوم و ملت کی خدمت کے لئے کمربستہ رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

باطل کے خلاف سینہ سپر

حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم نے فرمایا: ہمارے حضرت اقدس امیرالہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی برّد اللہ مضجعہ کی وفات کے صدمے میں ہم یہاں اتنی تعداد میں جمع ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں نے یہاں نہیں دیکھی یہ بڑا مجمع شاہد عدل اور بہترین دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کو برگزیدہ بنایاتھا اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا درجہ عطا فرمایاتھا جو خال خال کسی کو ملتا ہے اور لاکھوں میں کسی کو ملتا ہے حضرت مولانا کے اندر بڑی خوبیاں تھیں۔ تھوڑے سے وقت میں ساری خوبیاں بیان نہیں کی جاسکتیں۔ دو تین باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں حضرت کی ایک اہم خوبی ان کی تواضع تھی وہ اپنے بڑوں کے سامنے بچھے رہتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا سعید احمد صاحب نے اپنے ساتھ پیش آمدہ ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک ریلوے اسٹیشن پر حضرت سے ملاقات ہوئی تو حضرت نے ہم چھوٹوں کا بڑا خیال رکھا اور ٹکٹ لینے کیلئے کھڑکی پر لائن میں خود لگ گئے ہم نے بہت اصرار کیا کہ ہم خود لے لیں گے لیکن حضرت نہ مانے ان کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ باطل کے خلاف ہمیشہ سینہ پر رہے وہ باطل سے کمپرومائز کرنا جانتے ہی نہ تھے۔ آپ کو ہندوستان میں ان کے علاوہ کوئی نہ ملے گاجس نے مودودیوں سے ایسی ٹکر لی ہو۔ اسی طرح پورے ملک کو قادیانیوں کے خلاف حضرت مولانا نے بیدار کیا اور دارالعلوم میں تحفظ ختم نبوت کا شعبہ بہت پہلے قائم کرایا وہ ملک اور دنیا کے حالات سے باخبر رہتے تھے انہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں قادیانی غیرمسلم اقلیت قرار دے دئیے جانے کے بعد ضرور ہندوستان کا رخ کریں گے اور ایسا ہی ہوا، انھوں نے غیرمقلدین کا کامیاب رد کیا اور تحفظ سنت کانفرنس کی جو بیحد کامیاب رہی، اُن کے اندر خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ان کی وفات سے ساری ملت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد                 ولکنہ بنیان قوم تہد ما

قوم وملت کے سرپرست اورجماعت کے ستون اعظم

حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دامت برکاتہم نے فرمایا:

حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ قوم و ملت کے سرپرست امیر الہند اور ہماری جماعت کے ستون اعظم تھے باطل نے کہیں بھی سراٹھایا، انھوں نے اس کامقابلہ کیا، ہمارے اطراف میں جماعت اسلامی نے سراٹھایا تو شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے سب سے پہلے اس کامقابلہ کیا، بیت العلوم سرائے میر کے جلسے میں حضرت نے فرمایا کہ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، جبریہ، قدریہ کی طرح مودودی جماعت بھی ضال اور مضل ہے۔ اسی طرح حضرت امیرالہند نے بھی تمام باطل فرقوں اور جماعتوں کا مقابلہ کیاہے۔

موت برحق ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔

آنے والی کس سے ٹالی جائے گی           جان ٹھہری جانے والی جائے گی

لیکن جانے والے مختلف ہوتے ہیں ایک وہ ذات ہوتی ہے جس کی وفات پرزمین وآسمان، شجر و حجر، حتی کہ سمندروں میں مچھلیاں، سب روتے ہیں اس لئے کہ وہ ذات باعث رحمت تھی، اس کی وجہ سے عالم میں رحمت آتی تھی، حضرت کی ذات بھی ملک و ملت اور دنیا کے لئے رحمت تھی۔ ان میں بڑوں کا احترام اور توقیر بہت تھی آج ہم سب قابل تعزیت ہیں اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

بے مثال فہم و فراست اور قوت عمل کی حامل جامع کمالات شخصیت

حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے فرمایا:

تاریخ بتاتی ہے کہ ارباب اقتدار کے ظلم و جبر کے خلاف علماء کوفہ نے سب سے زیادہ آواز اٹھائی ہے اور ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں۔ علماء کوفہ ہی کی طرح علماء احناف بھی ہیں، ہندوستان میں حکومت کے فیصلوں کے خلاف جہاد سب سے پہلے انہیں علماء احناف نے کیا ہے۔ ان سے متاثر ہوکر دوسروں نے بھی یہ کام کیا ہے، علمائے احناف میں حضرات علمائے دیوبند کا توطرّئہ امتیاز یہ وصف رہا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی بڑے کمالات اور اوصاف حمیدہ کی حامل تھی، اپنے معاصرین میں وہ تمام کمالات و خوبیوں کے جامع نظر آتے تھے، وہ سیاست کے میدان میں بھی نمایاں رہے تعلیم و تدریس کے میدان میں بھی فائق رہے، سلوک و تصوف میں بھی کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ ان کے معاصرین میں کوئی علمی میدان میں نمایاں ہے، کوئی خانقاہی میدان میں ممتاز ہے، کوئی اصلاحی کام میں بڑھا ہوا ہے۔ لیکن ان تمام کاموں میں جامع حضرت شیخ الاسلام کی ذات تھی۔ حضرت مولانا سید اسعد مدنی ان تمام کمالات میں ان کے جانشیں تھے جو جامعیت ان میں تھی وہ ان کے معاصرین میں نہ تھی وہ بڑے فہم وفراست اور تدبر کے حامل تھے، فتنوں اور حالات آیندہ کا بہت پہلے ادراک کرلیتے تھے۔ حضرت نے جو نقوش چھوڑے ہیں ہم کو انہیں باقی رکھنا ہے۔

حضرت مولانا نے زندگی کا حق ادا کردیا

کارگذار مہتمم دارالعلوم حضرت مولاناغلام رسول صاحب خاموش زید مجدہم نے فرمایا: حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کی وفات پر جتنا افسوس ہے ، آنسو بہایا جارہا ہے، ان کی زندگی پراتنی ہی خوشی بھی ہے۔ انھوں نے بڑی قابل رشک زندگی گزاری ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی کا حق اداکردیا اور بتادیا کہ دنیا میں اس طرح زندگی گذاری جاتی ہے۔ ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کو دیکھئے دین کیلئے اورامت کی فکر میں کتنے اسفار کئے، کتنی پریشانیاں جھیلیں، وہ سفر سے کبھی تھکتے نہ تھے، یہاں دارالعلوم کی شوریٰ ہوتی، تو ایک دن پہلے معلوم ہوتا کہ وہ فلاں صوبے یا فلاں ملک میں ہیں لیکن وہ دور دراز کاسفر کرکے تشریف لاتے اور شوریٰ میں شریک ہوتے، حضرت مولانا کتنے تقویٰ اور عبادت کی زندگی گذارتے تھے سب سے بڑی ان کی خوبی یہ تھی کہ انھیں جس مقصد کیلئے اللہ نے پیداکیاتھا انھوں نے اس مقصد میں اپنی زندگی گذار دی۔ مولانا نے اپنی پوری جوانی اس میں لگائی، مولانا نے اپنی دولت اس میں لگائی، مولانا نے اپنی تندرستی اس میں لگائی، مولانا نے جوانی لگائی تو اللہ نے کہا کہ بڑھاپا بھی لگادو، مولانا نے تندرستی لگائی تو اللہ نے فرمایا کہ بیماری بھی لگادو اور مولانا نے بیماری بھی لگادی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔

ہندوستان کا فرشتہ جو پوری دنیا کو راہ دکھاتا رہا

اسٹیج پر جناب نواب کوکب حمید صاحب وزیر حکومت اترپردیش، جناب سنجے گرگ صاحب وزیر ٹریڈ ٹیکس حکومت یوپی اور بعض سیاسی رہنما بھی موجود تھے۔ جناب سنجے گرگ صاحب نے اپنے تعزیتی تاثرات میں فرمایا:

علمائے کرام اور اسٹیج پر موجود سبھی حضرات! حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب کے اچانک ہمارے بیچ سے چلے جانے سے ہم پر بڑا گہرا اثر ہے ہم کو سخت صدمہ پہنچا ہے، حضرت پورے ملک کیلئے، انسانیت کے لئے، انسانی ایکتا کیلئے، دین اور دنیا کے لئے خدمت کا ایک اعلیٰ نمونہ بن گئے تھے، حضرت مدنی، کے والد ماجد شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی،اور حضرت کے بزرگوں اور دارالعلوم دیوبند نے ایسا جذبہ لوگوں کے اندر پیدا کیا، جس سے برطانوی سامراج کو اس ملک سے اکھاڑ پھینکا گیا، آزادی کے بعد لگاتار باطل کے خلاف لڑنے کافیصلہ اور ہم سب کو صحیح راہ دکھانااور کٹھن سے کٹھن وقت میں پورے ملک میں کھڑا ہوجانا اور بہکتے ہوئے لوگوں کو راستہ پر لانا یہ حضور کی ایک خاصیت تھی، دین کی سیوا کے ساتھ انھوں نے دنیا کی ذمہ داری کا احساس کیا انھوں نے پوری دنیا کو ایک نیا پیغام دیا۔ حضرت کی بیماری کے دوران میں افریقہ گیا تو لوگوں نے پوچھاکہ ہندوستان کے اس فرشتے کا کیاحال ہے جو ساری دنیا کو راہ دکھاتا رہا۔

آج ہمارے دل و دماغ پر بڑا اثر ہے ہمارا مَن بھاری ہے بہت صدمہ ہے ۱۸۵۷/ کے بعد اسی دیوبند کی سرزمین سے ملک کی آزادی کی آواز اٹھی تھی۔میں سلام کرتا ہوں ایسی شخصیت کو جن کے والد بزرگ وار مولانا حسین احمد مدنی نے تمام لوگوں کے دلوں میں آزادی کی لگن پیدا کی تھی۔ یہی سرزمین تھی جس کے سپوت مولانا محمودالحسن دیوبندی نے ریشمی رومال کی تحریک کے ذریعے پورے ملک میں آزادی کا جنوں اور دیوانہ پن پیدا کیا تھا۔ میں حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب کو حکومت اترپردیش کی طرف سے بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

سنجے گرگ صاحب کی تقریر کے بعد جناب مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم نے تجویز تعزیت پڑھ کر سنائی تجویز کا متن آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔

مشکل ترین وقت میں دارالعلوم کی بے لوث و بے مثال خدمت

حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم و صدر اجلاس زید مجدہم نے دعاء سے قبل اپنے جذبات رنج و غم اور دلی تاثرات میں فرمایا:

حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کی وفات ہم سب کے لئے بہت بڑا اندوہناک سانحہ ہے اور میرے لیے تو یہ ذاتی حادثہ ہے بحران کے وقت میں دارالعلوم کی ذمہ داری کابار میرے کاندھوں پر رکھ دیاگیا۔ مالی اعتبار سے بڑی پریشانی تھی۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں یہ موضوع زیر بحث آیا، انتشار کا وقت تھا چندہ نہیں ہورہا تھا، کبھی دس روپئے کا منی آرڈر آتا کبھی ۲۰/ روپئے کا حضرت مولانا نے اس بحرانی اورمشکل ترین وقت میں دارالعلوم کی بے لوث اور بے نظیر خدمت کی ۔ حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ مجلس شوریٰ میں تشریف لائے(۱) اور روپیوں سے بھرا ہوا ایک تھیلا مجلس شوریٰ میں پیش کیا جس میں دارالعلوم کے ۹/ ماہ کے خرچ کے برابر خطیر رقم تھی حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسے بحرانی دور میں اتنی بڑی رقم اتنی کم مدت میں فراہم کرکے پیش کرنا یہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی ہی کا کام ہے کسی اور کے لئے ممکن نہیں انھوں نے نظام بہتر کرنے پر پوری توجہ دی۔ طلبہ عزیز کے معاملات سے خصوصی دلچسپی لی۔ ان کے وظائف بڑھوائے ان کے قیام و طعام کا نظم بہتر کرنے پر زور دیا۔ دارالعلوم میں حضرت کی رحلت سے بڑا زبردست خلا پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی خدمات قبول فرمائے۔ اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ۔ اور دارالعلوم دیوبند کی اور جمعیة علمائے ہند اور تمام دینی اداروں اور مسلمانان ہند کی حفاظت فرمائے۔

حضرت مہتمم صاحب کی پرسوز دعا پر جلسہ تعزیت پونے پانچ بجے اختتام پذیر ہوا، نظامت کے فرائض حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب نائب مہتمم دارالعلوم نے انجام دئیے۔

تجویز تعزیت

بروفات امیرالہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ

بموقع تعزیتی اجلاس منعقدہ ۹/محرم ۱۴۲۷ھ مطابق ۸/فروری ۲۰۰۶ء

بروز بدھ بعد نماز ظہر، بمقام مسجد رشید، دارالعلوم دیوبند

----------------------------------

حضرت امیرالہند، فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صدر جمعیة علماء ہند و رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی وفات حسرت آیات پر، دارالعلوم دیوبند کی جانب سے منعقدہ یہ تعزیتی اجلاس انتہائی رنج و غم کااظہار کرتا ہے، حضرت مرحوم کا سانحہٴ ارتحال، موت العالم موت العالم کا حقیقی مصداق ہے، اس سے جو زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا پرہونا بیحد مشکل ہے۔ ان کا انتقال پُرملال دارالعلوم دیوبند، جمعیة علماء ہند اور مسلمانان ہند ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا زبردست نقصان ہے۔

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تہدما

حضرت مولانا مرحوم خلوص و للہیت، روحانیت و عزیمت اور حق و صداقت کا پیکر جمیل تھے، کاروان شیخ الہند کے سالار اور ملت اسلامیہ کے اس عظیم معمار نے ملک و ملت کی تعمیر، اسلامیان ہند کی دینی و ملی قیادت، ان کی جان و مال کے تحفظ، ان کے بنیادی دستوری حقوق کی بازیابی، اسلامی اوقاف کی نگہبانی، مدارس اسلامیہ کی پاسبانی، مسلم معاشرے کی اصلاح، فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام، یکساں سول کوڈ کی مخالفت اور فرق باطلہ کی بیخ کنی کے لئے جو زریں خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ میںآ ب زر سے لکھی جائیں گی۔

حضرت مرحوم کی شخصیت، اس وقت ملت اسلامیہ کیلئے ایک شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی تھی جس کا ہمہ جہت فیض مسلمانان عالم اوراسلامیانِ ہند کیلئے نصف صدی سے زائد عرصہ سے جاری تھا۔ ان کی ہمہ جہتی قیادت سے ملت کو ہر میدان میں فائدہ پہنچا، ملت کے سیاسی مسائل ہوں یا مذہبی، اقتصادی مشکلات ہوں یا تعلیمی ہر شعبے میں وہ ایک دیدہ ور اور دور اندیش رہنما کا کردار ادا کرتے تھے، اور اپنی پر عزیمت اورمخلصانہ جدوجہد سے معاملات کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے تھے، قوم ہر نازک موقع پر رہنمائی کے لئے ان کی طرف دیکھتی تھی اور وہ دستگیری فرماکر مردہ قلوب میں نئی روح پھونک دیتے تھے۔

ملت اسلامیہ کے اس میر کارواں کو خالق کائنات نے ذہانت، تدبر، دور اندیشی، اصابت رائے، بروقت صحیح فیصلہ کی صلاحیت اور پہاڑوں جیسا عزم و حوصلہ عطا فرمایا تھا، اپنے ان اوصاف حمیدہ کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے سب سے عظیم رہنما اور ”ہند میں سرمایہٴ ملت کے نگہبان“ کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔

جمعیة علماء ہند جیسی عظیم اور تابناک تاریخ کی حامل جماعت کوانھوں نے اکابر کے نہج پر رہتے ہوئے حالات زمانہ کے تحت نئی سمت عطا کی، اس کو مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت کے مقام پر باقی رکھا اور اس کے پلیٹ فارم سے ملت کی ہمہ جہت خدمات انجام دیں۔

ملت اسلامیہ کے اس بے باک قائد نے سیاسی حلقوں اور ایوان حکومت میں بھی ملت کی جرأت مندانہ اور بے باک نمائندگی سے ایک تاریخ رقم کی اور ملت کے لئے، فتنوں کے مقابلے میں ڈھال کا کام کیا۔

اسی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند اورمسلک دیوبند کے لئے ان کی خدمات نہایت وقیع ہیں۔ دارالعلوم نے گذشتہ سالوں میں تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے جو حیرت انگیز ترقی کی ہے اور مختلف میدانوں میں دارالعلوم کی خدمات میں جو وسعت آئی ہے اس میں حضرت مرحوم کی مساعی جمیلہ کا بڑا دخل ہے، انھوں نے ہرمشکل اور نازک گھڑی میں خدام دارالعلوم کی راہنمائی فرمائی اور ہر موقع پر دارالعلوم کے لئے سینہ سپر رہے، ان کی ذات مبارک سے خدام دارالعلوم کو بڑی تقویت حاصل ہوتی تھی، آج دارالعلوم کا یہ عظیم معمار ہم سے جدا ہوچکا ہے، اس موقع پر صبر و رضاء کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ان للّٰہ ما أخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شيء عندہ باجل مسمی ․

اس اندوہ ناک موقع پر یہ تعزیتی اجلاس، حضرت مرحوم کی والدہ محترمہ دام ظلہا اور صاحبزادگان و برادران محترم، تمام اہل خاندان اور پوری ملت اسلامیہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے، اور دعاء گو ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو امت کے عظیم قائدین، خاص طور پر ان کے والد گرامی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے جلو میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء فرمائے، ملت اسلامیہ اور دارالعلوم کی دستگیری فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 90 ‏،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء